International Women's Day is celebrated on 8 March each year, commemorating women's fight for equality and liberation along with the women's rights movement. We humans; men and women are the pillars that hold families together, and our women are the driving force behind every home, and the heartbeat that keeps our communities alive. This write up primarily in Urdu "International Women's Day حوا کی بیٹی کا دکھ" is to share the sentiments and messages of this day.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے
International Women's Day حوا کی بیٹی کا دکھ
International Women's Day is celebrated on 8 March each year, commemorating women's fight for equality and liberation along with the women's rights movement. International Women's Day is observed across the globe where people celebrate with a variety of tones. Some festivities commemorate the achievements of women, others protest in an effort to end gender inequalities and gender-based violence. International Women’s Day i.e. 08 March is a day for us to join voices with people around the world and shout our message for equal rights loud and clear: “Women’s rights are human rights!”
International Women's Day: “This day highlights the need to take care of women's health to build strong families, safe homes, and a healthy society at large. It provides a moment to reflect on the progress made in terms of women's rights while also recognising the areas where more work is needed.” We celebrate all women, in all their diversities. We embrace their facets and intersections of faith, race, ethnicity, gender or sexual identity, or disability. We celebrate those who came before us, those who stand beside us now, and those who will come after. It’s a time to celebrate the achievements of women, whether social, political, economic or cultural.
#InternationalWomensDay is an opportunity to celebrate the next generation of female leaders in Science, Technology, Engineering and Maths (STEM). Famous Colombian writer and journalist Gabriel García Márquez said that "A woman is like good literature, accessible to all but incomprehensible for stupids." A woman is not just a being; she is a mother, a sister, a daughter, a friend and colleagues. She mustn't just be a being; but be an inspiration. Watching a girl or woman grow into a strong, fearless and successful being shall awake pride and happiness in male members around them.
Empowering women should start very early i.e. childhood. It starts with belief, opportunity, and support. The role as a father or other elders of the family shouldn’t be just to protect her but to uplift her and help her show her talents. She must be assured of her capability for setting goals in her mind beyond horizon. As we stand at the threshold of a new era, let us recognize the immense power that lies within women.
We humans; men and women are the pillars that hold families together, and our women are the driving force behind every home, and the heartbeat that keeps our communities alive. Women are the colors that paint the canvas of life, transforming the mundane into the magnificent. Imagine a world without women – a world devoid of love, care, and compassion. It's a bleak and barren landscape, devoid of beauty and vibrancy. Women are the embodiment of life itself, for every life is born through them. Women are the guardians of hope, the nurturers of dreams, and the architects of a brighter future.
In the following, the main purpose of this write up for the readers in Urdu is being shared:-
خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے، جو خواتین کے حقوق کی تحریک کے ساتھ ساتھ مساوات اور آزادی کے لیے خواتین کی جدوجہد کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ خواتین کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے جہاں لوگ مختلف لہجوں کے ساتھ مناتے ہیں۔ کچھ تہوار خواتین کی کامیابیوں کی یاد مناتے ہیں، دوسرے صنفی عدم مساوات اور صنفی بنیاد پر تشدد کو ختم کرنے کی کوشش میں احتجاج کرتے ہیں۔ خواتین کا عالمی دن یعنی 08 مارچ ہمارے لیے ایک دن ہے کہ ہم دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ آواز اٹھائیں اور مساوی حقوق کے لیے اپنا پیغام بلند اور واضح کریں: "خواتین کے حقوق انسانی حقوق ہیں"۔
خواتین کا عالمی دن: "یہ دن مضبوط خاندانوں، محفوظ گھروں اور بڑے پیمانے پر ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لیے خواتین کی صحت کا خیال رکھنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر غور کرنے کے لیے ایک لمحہ فراہم کرتا ہے اور ان شعبوں کو بھی پہچانتا ہے جہاں مزید کام کی ضرورت ہے۔ ہم تمام خواتین کو ان کے تمام تنوع میں پسند کرتے ہیں۔ ہم ان کے عقیدے، نسل، نسل، جنس یا جنسی شناخت، یا معذوری کے پہلوؤں اور چوراہوں کو قبول کرتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو مناتے ہیں جو ہم سے پہلے آئے، جو اب ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور جو بعد میں آئیں گے۔ یہ خواتین کی کامیابیوں کو منانے کا وقت ہے، چاہے وہ سماجی، سیاسی، معاشی یا ثقافتی ہوں۔
خواتین کا عالمی دن سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی (ایس ٹی ای ایم) میں خواتین رہنماؤں کی اگلی نسل کو منانے کا ایک موقع ہے۔ کولمبیا کے مشہور مصنف اور صحافی گیبریل گارسیا مارکیز نے کہا کہ "عورت اچھے ادب کی طرح ہے، جو سب کے لیے قابل رسائی ہے لیکن احمقوں کے لیے ناقابل فہم ہے۔" عورت صرف ایک وجود نہیں ہے۔ وہ ایک ماں، ایک بہن، ایک بیٹی، ایک دوست اور ساتھی ہے۔ وہ صرف ایک وجود نہیں ہونا چاہیے؛ لیکن ایک پریرتا بنیں. کسی لڑکی یا عورت کو ایک مضبوط، نڈر اور کامیاب وجود بنتے دیکھنا اپنے اردگرد کے مرد اراکین میں فخر اور خوشی کو جگانا چاہیے۔
خواتین کو بااختیار بنانا بہت جلد یعنی بچپن سے شروع ہونا چاہیے۔ یہ یقین، موقع، اور حمایت کے ساتھ شروع ہوتا ہے. باپ یا خاندان کے دیگر بزرگوں کی حیثیت سے کردار صرف اس کی حفاظت کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کی ترقی اور اس کی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے میں اس کی مدد کرنا چاہیے۔ اسے اپنے ذہن میں افق سے پرے بلند اہداف طے کرنے کی اپنی صلاحیت کا یقین دلایا جانا چاہیے۔ ہم ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں، آئیے خواتین کے اندر موجود بے پناہ طاقت کو پہچانیں۔
ہم انسان؛ مرد اور عورتیں وہ ستون ہیں جو خاندانوں کو ایک ساتھ رکھتے ہیں، اور ہماری خواتین ہر گھر کے پیچھے چلنے والی قوت ہیں، اور دل کی دھڑکن ہیں جو ہماری کمیونٹیز کو زندہ رکھتی ہیں۔ خواتین وہ وجود رنگ ہیں جو زندگی کے کینوس کو رنگین کرتے ہیں، دنیا کو شاندار بناتی ہیں۔ خواتین کے بغیر دنیا کا تصور کریں؛ توایک ایسی دنیا ہوگی؛ جو محبت، دیکھ بھال اور شفقت سے خالی ہو۔ یہ ایک تاریک اور بنجر زمین کی تزئین کی طرح ہوگی؛ جو خوبصورتی سے خالی اور متحرک نہیں ہوگی۔ عورتیں خود زندگی کا مجسمہ ہیں، کیونکہ ہر زندگی ان کے ذریعے جنم لیتی ہے۔ خواتین امید کی محافظ، خوابوں کی پرورش کرنے والی اور روشن مستقبل کی معمار ہیں۔
سیمون دی بوفوار ایک خاتون فرانسیسی دانشور مصنف تھیں؛ جنھوں نے بے شمار کتب شائع کیں۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ "عورت کو باورچی خانے اور بیٹھک کی دیواروں کے بیچ قید کر دیتے ہیں، پھر حیران ہوتے ہیں کہ اس کی سوچ محدود کیوں ہے۔ اس کے پر کاٹ دیتے ہیں، پھر شکایت کرتے ہیں کہ وہ اُڑ نہیں سکتی"۔"
نزار قبانی سرزمین شام سے تعلق رکھنے والے سیاست دان، شاعر اور ناشر تھے؛ انہوں نے کہا ہے کہ "عورت ایک ایسا آدمی چاہتی ہے، جو اس کے غمگین ہونے پر اس کی آنکھوں کو دیکھ کے سمجھ جائے اور اپنے سینے کی طرف اشارہ کر کے کہے: یہ تمہارا وطن ہے"۔ پروفیسر "سڈنی انگلبیرگ" ساوتھ افریقی انتظامی اور تنظیمی مشیر ہیں اور علم دوستی کے لیے مشہور ہیں ؛ انکا کہنا ہے کہ "کسی ماں کو ماں بننے اور تعلیم کے درمیان انتخاب پر مجبور نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں ہی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے، کیونکہ وہ ایک پوری نسل کی تربیت کرتی ہے"۔
اس زمین پر انسان زندگی کھیل تماشہ ہرگز نہی ہے اور اس کو ایسا سمجھنا انتہائی خطرناک اور انسان دشمن خیال ہے۔ زندگی کے اس ناٹک میں مرد اور عورت دو ستون ہیں اور انکا آپس میں ملاپ انسانیت کی بقا کے لیے اہم اور ضروری ہے۔ اور یہ ملاپ جو شادی کے بندھن میں بندھنا ہوتا ہے؛ ایک عبادت ہے؛ اگر سمجھیں تو۔ ہر مرد کونکاح کرتے وقت تمہیں یہ سوال خود سے ضرور پوچھنا چاہیے کہ " کیا اسے لگتا ہے کہ وہ اس عورت؛ جس سے نکاح کرنے لگا ہے، سے بڑھاپے تک بات چیت جاری رکھ سکو گے اور وہ بھی لطف کے ساتھ؟ کیونکہ شادی میں باقی سب کچھ عارضی ہے"۔
شاعر کرسٹوفر مارلو کی نظم کا ترجمہ جناب اعجازالحق صاحب نے کیا ہے اور عنوان دیا ہے "چرواہے کا گیت" ؛ آپکے نظر ہے ؛ جو نفس مضمون کو سمجھانے کے لیے شامل کی گئی ہے۔
"چرواہے کا گیت"
اے میری روحِ جاں!
آ میرے ہمراہ کہ یہ خاکِ دلکش
یہ وادیاں، یہ مرغزار، یہ کوہسار
یہ سیماب رواں دریا۔۔۔۔۔
یہ کہساروں کے دامن میں پنہاں جنگل
تجھے وہ راحت بخشیں گے
جو عالمِ خواب میں بھی میسر نہیں
ہم ان پتھریلی چٹانوں پر جا بیٹھیں گے
جہاں چَرواہے اپنے ریوڑ ہانکتے ہیں
جہاں جھرنوں کی راہ گزر میں
عندلیب نغمہ سرا ہوں گے
اور ان کی مدھر راگ سے
تیری چشمِ ناز میں خوابوں کے دریچے وا ہوں گے
میں تیرے واسطے گل ہائے تر کا فرش بچھاؤں گا
خوشبوؤں میں بسے ہوئے ہار
سبز رُخسار پتوں کی زرکار قبا
خالص پشم کی دبیز چادر
جو نوخیز میمنوں کی لطافت میں لپٹی ہوگی
میں تیرے نازک قدموں کے لیے
وہ نعلین لاؤں گا
جو مخملی ہوں، جن پر زرنگار بندھن جڑے ہوں
اور جن میں کندن کی تمازت سمٹی ہو
سبز لعل و مرجان کے دانوں
عنبر کی خوشبو میں بسا
عشق پیچاں کی پتیوں سے
بنا ہوا کمر بند
یہ سب تیرے لیے
اگر تیرے دل کی گواہی ہم آہنگ ہو
دیکھ!
یہ چرواہے، یہ شبابِ رعنا
ہر مئی کی سحر تیرے لیے راگ الاپیں گے
مستِ وجد، تیرے نام کی مالا جپیں گے
خوابوں کی وادی میں تیری ہنسی کی گونج ہوگی
اگر تُو چاہے
تو آ! میرے ہمراہ، اور میری ماہ رخ بن!
فریحہ نقوی ایک معروف ابھرتی شاعرہ ہیں؛ ذیل میں انکا خیال "تمہارے لیے خط" پیش کیا جاتا ہے کہ اس مضمون کو مزید واضع کردے۔
تمہارے لیے خط
یہ جو دامن عمر میں چند سانسیں بچی ہیں مجھے ٹوٹتی
سی نظر آرہی ہیں۔۔۔۔
تمہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں
پھر بھی اس خط میں اپنے سبھی پاس ورڈ اور گھر کا پتہ لکھ رہی ہوں۔۔۔۔
اگر تم مرے بعد آؤ تو اس گھر کی رونق سے ہو کر ذرا میرے ویران کمرے میں جانا
وہاں رکھی الماری کے ایک خانے میں کچھ فلسفے کی کتابوں کے پیچھے ہرے رنگ کا فولڈر دیکھ لینا،
اسے کھولنا ، اس میں برسوں پرانے تمہارے سبھی خط پڑے ہیں
خطوں میں وہ محسن کی نظمیں،
"تری جھیل سی آنکھوں میں رتجگوں کے بھنور ۔۔۔۔۔۔۔"
اور ۔۔۔ "مری سوچ کے گہرے پانی میں ۔۔۔۔۔"
اور فیض کی وہ غزل ۔۔۔ کیسے تھی؟
ہاں ... " نصیب آزمانے کے دن آرہے ہیں"
وغیرہ ۔۔۔۔۔
وہ سب خط پڑے ہیں
اُدھر فولڈر سے پرے دائیں جانب رجسٹر پڑا ہے
وہی جس میں "عبدل" کے بارے میں تم نے کہانی لکھی تھی...
کہانی کے صفحوں میں گجرے (جو اب سرمئی ہوگئے ہیں) پڑے ہیں
کہیں پھول کی پتیاں بھی پڑی ہیں۔۔۔۔۔۔
اسی میں کہیں ٹوٹی مالا کے موتی ہیں (مالا کبھی میں نے پہنی نہیں تھی تو پھر کیسے ٹوٹی؟ اگر یاد آیا تو یہ بھی لکھوں گی) ۔۔۔۔۔۔
وہیں پیچھے اک ٹی سی ایس کا بڑا سا جو ڈبہ پڑا ہے
(وہاں سترہ رنگوں کی وہ چوڑیاں ہیں کہ جب میں نے تم سے کہا تھا "مجھے بوجھ لگتی ہیں"
اور تم نے اگلے ہی دن بھیج دی تھیں)
اسے کھولنا مت کہ وہ تم سے شرمندہ ہوں گی، کبھی میں نے پہنیں نہیں ، کیونکہ وعدہ یہی تھا کہ تم اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں!! وہیں ایک خاکی لفا فہ پڑا ہے
مری ابتدائی دنوں کی سبھی شاعری، اس میں بکھری پڑی ہے
وہ نظمیں جنہیں فون پر سن کے ہنستے تھے تم،
اور وہ غزلیں کہ جن میں غلط قافیے تھے (ابھی تک غلط ہیں)
یہ سب میں نے دل سے لگا کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
مرے ہاتھ پر ہاتھ رکھو ذرا !
اور یہ وعدہ کرو تم یہ سب اپنے دل سے لگا کر رکھو گے
تمہیں آخری بار جی بھر کے دیکھوں یہ جی چاہتا ہے مگر میری جاں ! اب یہ ممکن نہیں ہے
تمہیں یاد ہے نا کہ دو سال پہلے دسمبر کی وہ آٹھویں شام تھی ۔۔۔۔۔۔
میکسم گورکی نے اپنے "ناول ماں" میں لکھا ہے کہ "لوگوں کی زندگی لالچ اور حسد میں گزرتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں ۔ ایک بار تم انہیں ان کی اصلی شکل دکھا دو، ان پر الزام لگا دو، پھر دیکھو وہ تم سے کتنی نفرت کرنے لگیں گے اور تمہیں ختم کرنے پر تل جائیں گے"۔
نوشی گیلانی اردو زبان و ادب کی مشہور شاعرہ ہیں؛ انکا کلام بعنوان " ورثہ" پیش کیا جاتا ہے۔ جو اس معاشرتی چلن کو واضع کررہا ہے جسے ہم نے بلاوجہ اپنی جون کا حصہ بنا رکھا ہے۔
ورثہ
بیٹیاں بھی ماؤں جیسی ہوتی ہیں
ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے
سارے درد چُھپالیتی ہیں
روتے روتے ہنس پڑتی ہیں
ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رولیتی ہیں
خوشی کی خواہش کرتے کرتے
خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں
سوحصّوں میں بٹ جاتی ہیں
گھر کے دروازے پر بیٹھی
اُمیدوں کے ریشم بنتے .ساری عُمر گنوا دیتی ہیں
ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی
اب خود بھی
عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے
فصل خوشی کی بوتی ہوں
اور خوش فہمی کاٹ رہی ہوں
جانے کیسی رسم ہے یہ بھی
ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں
اپنا مقدّر دے دیتی ہے
خواتین کا عالمی دن ہر سال 8 مارچ کو منایا جاتا ہے مگر اس کی گونج چاہے کتنی زیادہ اونچی کیوں ہی محسوس کی جاتی ہو مگر پھر بھی زمین پر بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں اس کی پہنچ نہیں ہے۔ ایسی ہی زمین پر بسنے والی ایک عورت ایک لڑکی کا بپتا "مارچ 8 سے بے خبر اک کڑی دا گیت" پیش کی جاتی ہے۔ یہ گیت فیس بک پیچ” سوہنڑاں پنجاب“ سے لیا گیا ہے جہاں یہ بےنام ہی ہے۔
”سُن میرے مالکا“
اَنگلا مَنگلا
پیو میرا کنگلا
ماں میری بڈھری
ویر میرا چَرسی
گھر وچ بُھکھ اے
مینوں ڈاھڈا دُکھ اے
گھر وی کرائے دا
اُتوں ھمسائے دا
گھڑی مُڑی تَکے مینوں
راہ وچ ڈَکے مینوں
سوچاں مینوں تُنبیا
لُوں لُوں کَنبیا
چِٹے ھوئے وال سارے
لَنگھ گئے سال سارے
ھَسنے تے کھیڈنے دے
گُت نوں لویٹنے دے
گِدھا وی تے پایا نئیں
مَن پرچایا نئیں
گُڈیاں پٹولے سارے
رھن اَکھوں اوھلے سارے
پِیلے میرے ھَتھ وی نئیں
نَک میرے نَتھ وی نئیں
مَتھے میرے ٹِکا وی نئیں
باپُو کول سِکہ وی نئیں
کِتھوں او بناوے داج ؟؟
کِنوں کِنوں دیوے واج؟؟
سُن میرے مالکا
کُل دیا خالقا !!
کوجی آں یا چنگی آں
تیرے رنگ رنگی آں
دُکھاں دی ستائی آں
تیرے در آئی آں
دُکھڑے سُنان میں
کِہدی آں ننان میں ؟؟
کِہدی بَھرجائی آں ؟؟
میں وی حَوا جائی آں
میں وی حوا جائی آں🖤😔
جنگل سوانا کی ایک تصویر میں شیر اور شیرنی خوشگوار مقابلے میں دکھائے گئے ہیں۔ شیرنی پراعتماد طریقے سے سر اونچا کئے آگے بڑھتی ہے۔ جب کہ شیر اسکی دم کو آہستہ سے اپنے جبڑوں میں پکڑے پیچھے چلتا ہے۔ یہ شاید شیر کا پیار دکھانے کے لطیف طریقہ ہے - گویا وہ نہیں چاہتا کہ شیرنی بہت دور بھٹک جائے۔ یہ حیرت انگیز ہے کہ سوانا کا یہ بادشاہ، جو طاقت اور عظمت کی علامت ہے، نرم خوئی سے رہنمائی کے لیے تیار دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ سب سے طاقتور مخلوق بھی دوسروں کے ساتھ ان کے بندھن سے رہنمائی حاصل کر سکتی ہے۔ ہم انسان، اپنی تکنیکی ترقی اور انسانی عظمت کے دعووں کے باوجود، جانوروں کی دنیا سے کیوں نہیں سیکھ سکتے کہ کس طرح ایک معتبر تعلق قائم کرنا ہے اور "خاندان" بنانے کے لیے تعلقات کیسے استوار کیے جائیں۔ ایک مرد روٹی کمانے والا ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی بہتر باہمی تعلق اور خاندانی تعلقات کے لیے دنیاوی و خاندانی معاملات میں خاتون ساتھی بطور بیوی کی رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
اور آخر میں مضمون کے اختتام میں پیغامِ محبت سمجھانے کے لیے محمد آصف رضا کی لکھی نظم " زندگی محبت کا افسانہ ہے" پیش کیا جاتا ہے۔
زندگی ایک دوڑ تھی، رو میں رخشِ عمر تھی؛
ایک گردشِ دوراں کا حالت کا سفر تھی؛
صبح ہوتی تھی، شام پڑتی تھی؛
دن گزرتا تھا؛ رات سوتی تھی؛
پر کہیں اک بے چینی تھی؛ سپنوں میں کہیں کوئی رانی تھی۔
دھوپ چھاؤں کا کھیل ہے سفرِ دوراں؛
سو آدمی کب سب کچھ پاتا ہے؟
فلک پہ انگنت تارے چمکتے ہیں جیسے؛
زمین پر لاکھوں حسین بھی بستے ہیں؛ لیکن!۔
دل کے آنگن میں چھپا اک چندا؛ ہلکا ہلکا سا درد دیتا تھا۔
ہوا پتوں سے کھیلتی تھی، سرسراتی تھی جب بھی؛
پانی آبشاروں، ندیا میں گنگناتی تھی جب بھی؛
گگن پہ چندا، جادو بکھیرتا تھا جب بھی؛
دل کی دھڑکن میں ایک ہی رم تھا اُس دم؛
سارے جذبوں کی اک تمنا تھی؛ میرے سپنوں میں ایک تم ہی تھی۔
فلک سے اتر کے آنے والے تارے کا؛
دل کی دھڑکن میں بجتے سازوں کا؛ اک ترنگ میں گنگنانے کا؛
گلوں میں بکھرے حسین رنگوں کا؛ تم ہی مقصد ہو میں نے مانا تھا؛
رب کے حسین تحفے کا؛ تم ہی مطلب ہو میں نے جانا تھا؛
تم میرا تصور تھی جاناں؛ تم نے آنا تھا یہ مقدر تھا۔
میری حیات میں اے جاناں؛ تمہاری آمد نے رنگ جمایا ہے؛
تم جو آئے ہو میری دنیا میں؛ زندگی نے نئی پوشاک پہنی ہے؛
میرا گھر؛ میرے دوست اور رشتہ دار؛ اب ایک ڈور میں بندھے لگتے ہیں؛
اب گزرنے والے تمام ہی لمحے؛ بحر و وزن میں نظم لگتے ہیں؛
تم اک مکمل غزل کی مانند؛ مصرع مصرع مجھے سنبھال رکھتی ہو۔
چاندنی راتوں کو سنوارتی ہو تم؛ سانسوں کی گتھیاں سنوارتی ہو تم؛
میری صبحوں کو شام کرتی ہو؛ اپنی راتوں کو میرے نام کرتی ہو؛
حسنِ دنیا کے کیا مطالب ہیں؟ میری حسرت کو جان لیتی ہو؛
میری حیات کی مشقتوں کو تم؛ ایک مسکراہٹ سے تھام لیتی ہو؛
کارزارِ زندگی کے سارے مراحل میں؛ حسنِ انتظام سے کام لیتی ہو۔
زندگی ایک حسین رستہ ہے، دارِ امکاں کا سب ہی پہ سایہ ہے؛
دارِ فانی کا یہ سفر ہم نے، حسنِ فطرت سے خوب نبھایا ہے؛
آزمائش کی اگلی منزل بڑھاپا؛ ہم نے خیریت کے ساتھ پایا ہے؛
اب یہاں سے سفر ہے گردوں کا؛ اور فردوس بریں تک جانا ہے؛
جسم اور روح کے اس تعلق کو؛ ہم نے امر کرکے جانا ہے۔
یہ ہمارے خالق کا پروانہ ہے؛ زندگی محبت کا افسانہ ہے۔