راول پنڈی اسلام آباد جڑواں شہر کے نام سے موسوم ہے ؛ جس میں اسلام آباد کا قیام تو 1960 عیسوی کے بعد ہوا ہے مگر راولپنڈی کافی پرانا شہر ہے؛ گرچہ قیام پاکستان کے وقت یہ ایک گیریزن ٹاون تھا؛ مگر کشمیر اور شمالی علاقہ جات کے مرکز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس کا پہلا شہری آبادی کا منصوبہ سیٹلائٹ ٹاون تھا۔ یہ تحریر " کرنل کی ڈائری سے: پرانے محلے داروں کے نام " لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) سے قلم زد ہے اور سیٹلائٹ ٹاون کے متعلق ہے۔
﷽
کرنل کی ڈائری سے : پرانے محلے داروں کے نام
جو لوگ پرانے محلے داری نظام میں کبھی زندگی گزار چکے ہیں وہ شاید یہ تحریر پڑھ کر پھر سے اس سنہری دور کو یاد کریں۔ راقم کا تعلق راولپنڈی، سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایسے ہی ایک محلے "شریف آباد" سے ہے جو شہر کی مشہور و معروف کمرشل مارکیٹ سے متصل ہے اور اس کا شمار اس وقت کے پوش علاقوں میں ہوا کرتا تھا۔ ہمیں تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ محلہ شروع کہاں سے ہوتا اور ختم کہاں ہوتا کہ ہم دور دور تک ایک ایک گھر والے کو جانتے پہچانتے تھے۔۔۔
کم عمری میں ہر بڑے کا نام تو یاد نہ ہوتا مگر ہر گھر کی کوئی نہ کوئی نشانی رکھی ہوتی تھی جس سے اس گھر والوں کی پہچان ہوتی جن کا تفصیلی ذکر آگے بیان ہو گا۔ دراصل ہمارا گھر محلے کی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا جس کی وجہ کوئی اور نہیں ہماری والدہ محترمہ کی سحر انگیز شخصیت تھی۔ ہمارے گھر یکم سے بارہ ربیع الاوّل تک ہر روز صبح قرآن خوانی اور شام کو محفلِ میلاد کا اہتمام ہوا کرتا تھا، 22 رجب کو کُونڈوں کی نیاز کی تیاری کے لیے نزدیکی گھروں کی خواتین اور باجیاں رات گئے تک کھیر، میٹھی ٹکیاں، حلوہ، پوری، کھٹے آلو اور چنے بنایا کرتیں۔ اور اگلے دن صبح سے رات تک خواتین و حضرات کا تانتا بندھا رہتا۔ یومِ عاشور پہ دلیم کی نیاز ہوا کرتی اس دلیم کو مرد حضرات خوب گھوٹا لگا کر تیار کیا کرتے تھے۔ شبِ برات پہ حلوہ جات بنائے جاتے اور عیدالفطر کی چاند رات پہ خواتین ایک دوسرے کو مہندی لگانے ہمارے گھر کے صحن میں اکٹھی ہوا کرتیں۔
اس وقت ٹیلی فون بھی کسی کسی گھر میں ہوا کرتا تھا اور ہمارے محلے میں وہ ایک گھر ہمارا تھا سو پردیس میں رہنے والے محلے دار اپنوں سے آدھی ملاقات کے لیے ہمارے گھر فون کیا کرتے ہم گھروں میں جا کے فون کا بتاتے اور دس منٹ کے بعد ان کی فون کال دوبارہ موصول ہوتی۔ مرد حضرات تو فون سن کر فوراً ہی رخصت لیتے مگر خواتین کی بیٹھک فون بند ہونے کے بعد بھی لگا کرتی۔
عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی نماز کے لیے محلے والے قافلے کی صورت میں جامع مسجد جایا کرتے۔ نماز سے واپسی پہ گھروں کی ڈائننگ ٹیبل ناشتے، شِیر خورما اور دیگر لوازمات سے سج چکی ہوتیں اور محلے والے باری باری ایک دوسرے کے گھروں میں جاکر کچھ نہ کچھ ضرور کھا کے آتے۔ عیدالاضحیٰ پہ قربانی بھی محلے والے جوان حضرات مل کر باری باری ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر کیا کرتے تھے۔
شادی بیاہ کے مواقع پر گھروں میں چراغاں نہ ہوتا تو یہ پتہ کرنا مشکل ہوتا کہ شادی والا گھر کون سا ہے۔ پورے محلے میں رونق کا سماں ہوتا۔ محلے کے کسی گھر میں ڈھولک کی آواز کانوں میں پڑتے ہی خواتین بلاوے کا انتظار کیے بغیر ہی وہاں پہنچ جاتیں۔ شادی میں شرکت کے لیے دور دراز سے آئے مہمان ایک دوسرے کے گھروں میں بڑے اطمینان سے ٹھہرا کرتے حتیٰ کہ ناشتہ بھی وہیں کیا کرتے۔ غم بھی سب کے سانجھے ہوا کرتے تھے۔ کوئی محلے دار اسپتال میں داخل ہوتا تو اس کی تیمارداری کے لیے دوست آپس میں ذمہ داریاں بانٹ لیا کرتے تھے۔
ربیع الاوّل کے علاوہ بھی جب کبھی ہمارے گھر میں قرآن خوانی کا اہتمام ہوا کرتا تو میں چھوٹا بھائی شہریار خان گھر گھر جاکر خواتین کو مدعو کیا کرتے اور کاپی پہ اندراج کچھ اس طرح ہوا کرتا۔۔۔
وکیل صاحب - ہاں
لوکاٹ والے - ہاں
فالسے والے - ہاں
ستارے والے - نہیں
مری منزل - ہاں
ایک گھر میں لوکاٹ کے تین چار درخت تھے تو وہ لوکاٹ والے ہو گئے، جن کے گھر میں فالسے کے پودے تھے تو وہ فالسے والے ہوئے، تلوں کا کاروبار کرنے والے تلوں والے، ایک انکل ریڈیو پاکستان میں ملازمت کیا کرتے تھے تو ان کا گھر ریڈیو پاکستان کے نام یاد رکھا جاتا۔ پولٹری کے کاروبار سے منسلک انکل مرغی انڈوں والے ٹھہرے، ظفر انکل پائیلٹ تھے مگر وہ پی آئی اے والے کہلائے۔ راولپنڈی میں بنی کے علاقے میں مٹھائی کی دوکان والے اسی نسبت سے حلوائی ٹھہرے، کالج کے ایک پروفیسر کو ہم بھی پروفیسر صاحب ہی کہہ کر یاد رکھتے، ایک انکل سنار تھے مگر ہم اس گھر کو سنارن خالہ سے پہچانا کرتے۔ ہمیں قرآن پاک پڑھانے والی خاتون کے گھر کو ہم استانی جی کے نام سے یاد رکھا کرتے، آرمی ایجوکیشن کور کے سابق میجر ہاشمی کا گھر میجر صاحب کے نام سے منسوب تھا۔ اسی طرح ڈی ایس پی صاحب، صوفی صاحب، سیٹھ صاحب، ٹھیکے دار صاحب، حاجی صاحب، سریے والے، آلوچے والے، جنرل اسٹور والے، فوٹوگرافر بھائی، منی پلانٹ والے، پیلی کوٹھی والے، حبیب بینک والے، ساتھ والے، سامنے والے اور اس طرح کے بے شمار نام ہوا کرتے تھے۔ ہمارے اپنے والد چونکہ ایک صحافی، شاعر اور ادیب تھے تو محلے میں ہمارا گھر "نوائے وقت والے" کے نام سے یاد رکھا جاتا تھا۔
اسی محلے کی ایک گلی ایسی بھی تھی جہاں کے مکینوں نے سیٹلائٹ ٹاؤن کی آباد کاری کے لیے اپنی زمینیں سرکار کے حوالے نہیں کیں۔ یوں ان کے گھر درجہ بندی میں دیہی علاقے میں ہی شمار کیے جاتے۔ وہاں زیادہ تر محنت کش طبقہ رہائش پذیر تھا تو ان کے نام کچھ اس طرح سے یاد رکھے جاتے، قلفی والے، باڑے والے، مٹی کے تیل والے، ٹیکسی والے، سبزی والے اور سموسے والے وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اسی کی دہائی کے بالکل اواخر میں پاک فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی غرض سے گھر سے کیا نکلے کہ وہ محلے داری پھر کبھی نصیب نہ ہوئی۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول میں تربیت کے دوران چھوٹے بھائی کے خط موصول ہوتے تو وہ لکھا کرتا کہ اکیلے گھروں میں قرآن خوانی کا بلاوا دینے جاتا ہوں تو بہت یاد آتے ہو۔ اس کے خط اس وقت جذباتی کر دیا کرتے۔ سوچا تھا کہ کبھی تو پھر سے اکھٹے رہیں گئے مگر وقت کتنا بے رحم ہے۔ آج ہم سرکاری ملازمت سے تو آزاد ہو چکے ہیں مگر فکرِ معاش سے نہیں۔۔۔ یوں روزگار کی تلاش ہمیں راولپنڈی سے کھینچ کر کراچی لے آئی تو وہ محلے دار تو کیا ہم تو والدین کی قبروں اور بہن بھائیوں کی قربت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔۔۔
پچھلے سال اپنے آبائی شہر جانا ہوا تو دل میں اپنا پرانا محلہ دیکھنے کی خواہش جاگی۔ چھوٹے بھائی کے ہمراہ وہاں پہنچ کر دل کی کیفیت ہی کچھ اور تھی۔
~ ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا۔۔۔
ہم دونوں جیسے پھر سے بچے بن گئے۔۔۔ ان بچوں کو اپنے سینے سے لگانے والی پیاری امی جی اب بھی اسی محلہ میں ہیں مگر شریف آباد کے قبرستان میں۔۔۔ ہماری ہر خواہش پوری کرنے کے لیے اپنی خواہشات کا گلا گھونٹنے والے ابو جی بھی ایچ ایٹ کے قبرستان میں جا سوئے۔۔۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
پرانے محلے میں نئے اور ناآشنا چہروں پہ ایک سرد مہری سی نظر آئی۔ محلےداروں کے گھروں کے نام ذہن میں گھومتے رہے لیکن اب وہاں استانی جی تھیں نہ ہی میجر ہاشمی صاحب، نہ ہمیں لوکاٹ کے درخت نظر آئے اور نہ ہی تین منزلہ مری منزل کے کوئی آثار کہ تقریباً تمام پرانے گھر گرا کر ان کی جگہ جدید گھر تعمیر کیے جا چکے ہیں۔۔۔ پرانی چیزوں میں بس وہاں کی حسین یادیں ہی ہیں جو پلکوں کو بھگو جاتی ہیں۔۔۔ کبھی بچپن کی شرارتیں یاد آئیں تو بہتی آنکھیں بھی مسکرا اٹھتی ہیں۔۔۔ ان شاءاللہ اپنی اور چھوٹے بھائی کی بچپن کی شراتوں کا ذکر کسی اور تحریر میں ضرور کروں گا۔
خیر چھٹیاں گزار کر کراچی ڈیفنس میں کرائے کے چھ سو گز کے بنگلے میں پہنچے تو اپنا محلہ پھر سے بہت یاد آیا کہ یہاں ہمارے ساتھ والے بنگلے میں کون رہتا ہے اس ہم اس سے اب بھی ناآشنا ہیں۔ دفتر سے واپسی پہ کسی گھر کے لان میں ٹینٹ لگے دیکھ کر چوکیدار سے پتا چلتا ہے کہ فلاں شخص کا انتقال ہو گیا ہے۔ کہنے کو یہ چار دہائیوں کا فرق ہے مگر اس فرق نے ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے!!!
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
اگر آپ بھی اپنے پرانے محلے کی یادوں کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو رابطہ کریں۔ آپ کی رائے میرے لیے اہم ہے۔
🪀: 0340 4303030
📧: khanabrar30c@gmail.com