Muhammad Asif Raza 1 day ago
Muhammad Asif Raza #informative

شہرِ خوباں پر آسیب کا سایہ

سنہ 1947 میں ایک آزاد ملک کے طور پر قائم ہوا تو کراچی پاکستان کا دارالحکومت بنا تھا، جو 1960 تک جاری رہا اور بھٹو کے نئے پاکستان میں پھر کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت بنا۔ کراچی کو 1957 کے ماسٹر پلان کے مطابق ترقی دی گئی اور یہ پچھلی صدی کے آخری نصف میں دنیا کے سب سے تیز ترقی کرتے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا۔ کاسموپولیٹن شہر کراچی اب ایک جونھپڑ بستی ہے۔ یہ تحریر اس سال کے شروع میں ایک دورے کے دوران مصنف کے مشاہدات پر مبنی ایک رائے ہے۔

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

شہرِ خوباں پر آسیب کا سایہ

 

 سنہ 1947 میں ایک آزاد ملک کے طور پر قائم ہوا تو کراچی پاکستان کا دارالحکومت بنا تھا، جو 1960 تک جاری رہا اور بھٹو کے نئے پاکستان میں پھر کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت بنا۔ شہر کو کے ڈی اے (کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی) نامی تنظیم کے تحت پھیلایا اور تیار کیا گیا تھا، جس کا قیام 1957 میں عمل میں آیا تھا۔ کے ڈی اے کراچی کے واٹر سپلائی سسٹم اور بلڈنگ کنٹرول مینجمنٹ کا ذمہ دار تھا لیکن کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قیام کے بعد اب کے ڈی اے کی ذمہ داری میں شامل ہے کہ پلاننگ، کوآرڈینیشن اور رینڈرنگ پلاننگ ایڈوائس، لینڈ ڈویلپمنٹ، ہاؤسنگ، سڑکیں اور پل وغیرہ کے کاموں کے لیے ذمہ دار ہے۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو 14 فروری 2011 کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام دیا گیا اور اس کا دائرہ اختیار پورے صوبے میں پھیلا دیا گیا۔

 

کراچی کو 1957 کے ماسٹر پلان کے مطابق ترقی دی گئی اور یہ پچھلی صدی کے آخری نصف میں دنیا کے سب سے تیز ترقی کرتے بڑے شہروں میں سے ایک بن گیا۔ اسلام آباد کے علاوہ ملک کے کسی بھی دوسرے حصے سے جو شخص بھی کراچی آیا ہو گا اس نے ضرور دیکھا ہوگا کہ کراچی کو ایک ماسٹر پلان کے تحت تیار کیا جا رہا تھا؛ اور واضح وجوہات کی بنا پر شہر ایک " میگا پولس " یعنی کثیر جہتی شہر تھا۔ یہ ملک کا واحد بندرگاہ کا حامل شہر تھا اور درحقیقت ہمسایہ لینڈ لاک ملک افغانستان کے لیے بھی یہی کردار ادا کرتا تھا۔ اس طرح یہ شہر پاکستان کا سب سے بڑا ریونیو پیدا کرنے والا اور سب سے زیادہ آبادی والا شہر بن گیا۔ یہ سب سے بڑا صنعتی شہر بھی ہے۔

 

شہر، کراچی نے لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا اور ملک کے تمام محنتی شہریوں کو دیانتدارانہ اور مخلصانہ ذریعہ معاش کی امید فراہم کی۔ لاکھوں بے روزگار لوگوں نے میگا پولس کی طرف بورا بسترا باندھا اور اچھے دونوں کی تلاش میں کراچی میں مجتمع ہوئےجسے اس شہر نے اپنے اندر سمویا اور اچھی رہائش اور روزگار بھی فراہم کیا۔ اور شاید اس ہی وجہ سے " میگا پولس/ شہرِ خوباں " کراچی نے گزشتہ اور موجودہ صدی کی آخری اور پہلی دہائیوں کے دوران سیاسی دعویداروں کے درمیان گھمسان ​​کی جنگ دیکھی اور امن و امان شہر کا ایک بڑا مسئلہ بنا رہا۔ پُرامن انتظامیہ اور گورننس کی ناکامی کے باوجود سٹی ماسٹر پلان کو دھندلایا اور تباہ نہیں کیا گیا۔ ان دنوں میں وہ واحد جگہ جو منصوبہ بندی سے باہر دکھائی دیتی تھی وہ لیاری کا علاقہ تھا جو بدقماش غنڈا عناصر کا گڑھ بھی تھا۔

 

راقم کراچی شہر میں 1980 کی دہائی کے وسط سے 2008 تک دو دہائیوں سے زیادہ عرصےتک مقیم رہا ہے۔ جو بے نظیر بھٹو کی موت کے صرف چند دنوں تک رہا تھا۔ اور ماہِ جنوری کا ابتدائی ایک ہفتہ کا وقت روشنیوں کے سابق شہر اور اب ایک آسیب زدہ " میگا پولیس / شہرِ خوباں " میں شادی میں شرکت کے لیے گزارا۔ شہر کے تمام حصوں کے بارے میں قطعیت سے اس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ راقم نے محض کراچی ایئرپورٹ سے شارع فیصل سے کیماڑی ایریا تک سفر کیا تھا۔ ہاں کچھ وقت شاہ فیصل کالونی، ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کے پوش علاقے اب ایک میگا شانٹی ٹاؤنز یعنی جھوپڑ بستی بن چکے ہیں۔ . ایک ملک جس کی ملکیت میں صرف ایک بندرگاہ ہو؛ وہ بھلا اپنے بندرگاہ کے علاقوں کا انتظام اس طرح کیسے کر سکتا ہے جیسا کہ نیٹیو جیٹی سے کیماڑی جیٹی تک دیکھا جاسکتا ہے؟ ایک بے ہنگم ٹریفک اور کسی قانون کی رکھوالی کے بغیر؟

 

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بندرگاہی علاقوں کا انتظام احمقوں یا ڈارون کے بندر سے منتقل ہومو سیپینز کے ذریعے کیا جا رہا تھا جو حال ہی میں شاید انسانی جون میں آئے ہوں ( راقم نے اس علاقے میں متعدد سال گزرے ہیں)۔ کلفٹن کے علاقے جن میں 70 کلفٹن اور بلاول ہاؤس شامل ہیں ایک خوشگوار پوش رہائشی علاقے تھے۔ مگر یہ سب رہائش گاہیں اب ماضی کے لیاری کا مظہر ہیں۔ زلفی بھٹو اور بےنظیر بھٹو کے پوسٹرز، بینرز اور وال چاکنگ کسی صورت میں مناسب سیاسی سودا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے شائد یہی کچھ شہریوں کو یاد دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ "شیطانی روحوں" کی قریب کی نظر انہیں دیکھ رہی ہے۔ ایسے ہتھکنڈے کبھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی پہچان تھے اور وہ موصوف اب وہاں نظر نہیں آتے۔ شیطان کی حکمرانی ہمیشہ کے لیے نہیں ہوتی اور اسی طرح بھائی کے بھی نہیں رہے۔ ان علاقوں میں اب نظر بد وہ آسیب ہے جن کی تصویریں نظر آتی ہیں۔

 

ملک مجموعی طور پر آسیبی ترقی کے سودے سے دوچار ہے کیونکہ تمام جگہوں پر کنکریٹ کے پلازوں اور نشانِ ترقی کا جنگل کھڑا کیا جا رہا ہے۔ تاہم، " میگا پولس / شہرِ خوباں " کراچی درحقیقت وہیلنگ اور ڈیلنگ (مالیاتی سودوں ) کے بدترین ہاتھوں میں جکڑا ہوا ہے۔ " نسلہ ٹاور" جو شاہراہ فیصل پر واقع ایک سترہ منزلہ عمارت تھی نے 2021 میں خبروں کے سلاب سے بھر دیا تھا، اور جسے غیر قانوںی تعمیر کی وجہ سے گرادیا گیا تھا؛ لیکن راقم نے مختلف علاقوں میں ایسی بہت سی عمارتیں دیکھی ہیں جن کو کراچی کے ماسٹر پلان کی دھجیاں اڑائے یا تبدیل کیے بغیر نہیں بنایا جا سکتا تھا۔ ایک بار پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ آرکیٹیکچرل افلاطونوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور ان سے بھی زیادہ احمق مگر مچھندر مالکان / معماروں نے پیسا کمانے کی لگن میں یہ تعمیرات کی ہونگی۔ ہمارے باصلاحیت بقراط لوگ شاید یہ تعمیرات ایسے اولاد آدم کے لیے ڈیزائن پیش کرتے ہیں اور ایسے "عظیم الشان" ڈھانچے بناتے ہیں جنہیں شاید سڑکوں پر سفر کرنے اور عام انسانی طرزِ زندگی گزارنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہو۔

 

کراچی شہر جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا اور قومی اور عالمی سطح پر روشن ستارے پیدا کرنے والے انسانوں کی آماجگاہ تھا اور اب ایک جھونپڑ بستی کے شہر میں تبدیل ہو چکا ہے؛ جہاں لاکھوں لوگ روزانہ گلیوں؛ سڑکوں اور شاہراوں پر مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ شہری امور پر قابض اعلیٰ انسان کسی آندھی یا طوفان کے بغیر تباہی کے انوکھے طریقے کے لیے انتظامیہ اور حکمرانی کے اعلی ترین معیارات مرتب کر رہے ہیں۔ شہرِ خوباں کراچی، اور صوبہ سندھ بے نظیر کے شوہر آصف زرداری جو مشہور "پاکستان کھپے" کا نعرہ لگانے والے ہیں کی اعلی ترین طرزِ حکمرانی کے تحت ہے؛ جس میں جمہوریت بہترین انتقام ہے اور جو مسلسل 2008 سے اقتدار میں ہے اور جہاں بلاول بھٹو زرداری ہمیشہ زندہ بھٹو کے ایک پوسٹر بوائے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایک آسیب جو منحوسیت کا سایہ بنا کر جگہ جگہ لٹکایا گیا ہے۔

 

زلفی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی پی پی پی مارچ 2008 سے بلاتاخیر اقتدار میں ہے اور یہ لٹیروں اور ڈاکوں کے گروہوں کی دائمی حکمرانی کے سوا کچھ نہیں۔ شہر کی زندگی  شیطانی بد روحوں کی زد میں ہے جو ہر جگہ چمٹی ہوئی ہے اور پیغام بہت واضح ہے " خود کو بچاؤ"۔ آسیب کی آنکھ ہر بے بس انسان کو دیکھ رہی ہے اور بد روحیں شہر میں چلنے یا سفر کرنے والے ہر شخص کا پیچھا کر رہی ہیں۔ میگا پولس / شہرِ خوباں ؛ کراچی اب ایک جھونپڑ بستی ہے جہاں ہر فرد ایک خوف کے تحت زندگی گزار رہا ہے۔ وہ مہنگے گھروں میں رہتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بکھری اجڑی انسانی آباد علاقوں میں رہ رہے ہیں جن کو بہتر طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کی نو آبادکار مضافاتی علاقوں طور پر بیان کیا گیا ہے جو کسی شہری سہولتوں کے احساس کے بغیر تعمیر کئے گئے ہوں' اور جہاں بسنے والوں کو کسی شہری سہولت کی ضرورت نہیں ہو۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کے ڈی اے اور اسی طرح کی دیگر تنظیمیں صرف طاقتور بھوتوں کی مرضی اور خواہشات پر مہر لگانے کے لیے ہیں۔ میگا پولس میگا پولیٹن کراچی اب شہرِ خوباں نہی رہا بلکہ آسیب زدہ شہر ہے؛ جس پر ایک ہمیشہ زندہ بھٹو اور شہید رانی بے نظیر کے نام پر ایک کٹھ پتلی بلاول بھٹو کے دھوکے میں زرداری کا سایہ ہے؛ اور یہ بات زبان زدِ عام ہے۔

پاکستان کے مشہور شاعر جناب منیر نیازی نے کہا ہے کہ

 

منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

نظم محترمہ کومل راجہ “شہرِ ویراں کے آسیب کا سایہ”

محترمہ کومل راجہ پاکستان کی شاعرہ ہیں اور انہوں نے “شہرِ ویراں کے آسیب کا سایہ” کے عنوان سے ایک نظم قلم زد کی ہے؛ کیا میگا پولس / شہرِ خوباں کراچی سے متعلق بھی ایسا کہا جاسکتا ہے؟

 

مگر

شہرِ ویراں

تمہارے گھروں مقبروں کی منڈیروں چھتوں پر

جو بوڑھے پرندوں کی سرگوشیاں ہیں

بھٹکتی ہیں دن رات میرے سرہانے

 

کوئی اجنبی

غیر مانوس آوازکہتی ہے

خدا جب زمینوں پہ اترا تھا

بوڑھے پرندوں کو موت آگئی تھی

جبھی شہرِ ویراں کی بے حد پرانی

فصیلوں میں گونگی دراڑیں پڑی تھیں

 

دراڑیں جو کھینچیں نسوں سے حرارت

اور ایسے میں شہرِ حزیں کے سبھی

باسیوں نے پناہ مانگ لی تھی

دراڑوں کے شر سے

پرانے شہر سے

نئے موسموں کی

حرارت نسوں میں پلٹ آئی

کرنوں نے سورج کو پیدا کیا

 

اور سورج نے رنگوں کو تقسیم کر کے

جو نقشے جنے

ان سے چہرے بنے

چہروں نے گونگی دراڑوں کو آواز دی

اور سجائے بڑے ہی جتن سے

گلی اور محلے

 

کھرچ کر نشاں سارے ماضی کے تیرے بدن سے

نمک پاش چہروں نے ٹسوے بہائے

مساجد، مدارس میں تاریخ ناموں کے پہرے بٹھائے

مگر شہرِ ویراں

میں وہ شور بخت ہوں

جو بوڑھے پرندوں کی سرگوشیوں میں

تمہارے بطن کی خامشی سن رہی ہوں

رنگا رنگ پردوں کے پیچھے کی ویرانیاں

چن رہی ہوں


Shikhar Dhawan: A Legend Says Goodbye to International Cricket

Shikhar Dhawan: A Legend Says Goodbye to International Cricket

defaultuser.png
Laiba Rafiq
5 months ago
Imran Series -- (bhayanak aadmi) By Ibn e Safi Ep 5 -- Bangbox Online

Imran Series -- (bhayanak aadmi) By Ibn e Safi Ep 5 -- Bangbox Online

defaultuser.png
Bang Box Online
1 year ago
MyEssayWriter.ai AI Essay Outliner: What’s It For?

MyEssayWriter.ai AI Essay Outliner: What’s It For?

defaultuser.png
Harry Wilson
4 months ago
Unveiling the Power of Hitone Bar: Your Path to Radiant Skin and Even-Toned Complexion

Unveiling the Power of Hitone Bar: Your Path to Radiant Skin and Even-...

defaultuser.png
Ghulam Hussain
1 year ago
chrome heart dress

chrome heart dress

defaultuser.png
Chrome Heart Dress
5 months ago