انسان حیوانِ ناطق ہے۔ لیکن انسان جنم لیتے ہی نہیں بولتا۔ وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انسان تجربے اور مشاہدے سے آگے بڑھتا ہے۔ لڑکپن اور جوانی کے تجربات اسے سکھاتے ہیں۔ جو انسان سبق سیکھنا جان جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ "لفظ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے" ؛ ایسے انسان شعور کی اعلی منزلیں طے کرلیتے ہیں اور فاتح عالم بھی بن جاتے ہیں۔ یہ تحریر الفاظ کی گورکھ دھندے کو سمجھانے کی ایک کوشش ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
باتوں سے خوشبو آئے
لفظوں کے زہر کا تریاق
ابنِ آدم کو حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے؛ کیوںکہ وہ بول سکتا ہے۔ انسان جنم لیتا ہے تو ماں کی گود میں رہتا ہے؛ اور پھرماں ہی کی بولی بولنا شروع کرتا ہے اور ماں کا نام ہی لیتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی لغت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کا قابل ہوجاتا ہے۔ لیکن ہر انسان خواہ وہ تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہو یہ نہیں جان پاتا ہے لفظ قیمتی ہوتے ہیں؛ لفظوں کی کمیت ہوتی ہے اور ہر لفظ کا اپنا لہجہ اور بر محل معنی و مطالب ہوتے ہیں اور ان کا غیر مناسب استعمال مسائل کو بھی جنم دے سکتے ہیں۔
انداز کلام سے متعلق ایک پیاری بات کہی جاتی ہے کہ ” انسان کا طرز کلام وہ چیز ہے جس کی وجہ سے وہ لوگوں کے دل میں اترجاتا ہے یا پھر لوگوں کے دل سے اترجاتا ہے"۔ اور یہ بات شاید اس لیے کہی جاتی ہے کہ " لفظوں کے دانت نہیں ہوتے لیکن یہ کاٹ لیتے ہیں"۔ اور الفاظ کے کاٹ کا زخم بہت مشکل سے مندمل ہوتے ہیں۔ اور کبھی کھبار تو بھرتے ہی نہیں ہیں۔
انسان بولنا تو سیکھ جاتا ہے مگر یہ نہیں جان پاتا کہ کس وقت کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا؛ کیونکہ وہ الفاظ کی ادائیگی کے محرکات اور محرمات کا علم نہیں رکھتا۔ یاد رکھیے کہ الفاظ محض بولے ہی نہیں جاتے بلکہ سنے اور محسوس بھی کئے جاتے ہیں۔ انسان کی گفتگو میں ادا ہونے والے الفاظ ہنسا بھی سکتے ہیں اور رولا بھی دیتے ہیں۔ یہی الفاظ ہوتے ہیں جو مرحم بن جاتے ہیں تو سکون دیتے ہیں؛ خوش کردیتے ہیں اور یہی الفاظ ہوتے ہیں جو زہر بھی بن جاتے ہیں اور تکلیف دہ بن جاتے ہیں تو دکھ دیتے ہیں۔ لفظ نشتر بن کردل چیر دیتے ہیں؛ اور انکا کوئی مرحم بھی نہیں ہوتا ہے۔
ہر زہر کو تریاق سمجھ کر پی لو
تلخی کوئی ابھرے تو لبوں کو سی لو
صوفی غلام مصطفےٰ تبسم
جناب صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے کیا خوب صائب مشورہ دیا ہے کہ تلخ ماحول میں ادا کئے الفاظ زہر بن سکتے ہیں سو بہتر ہے کہ ادا ہی نہیں کئے جائیں۔ لیکن اگر ضروری ہو اور گفتگو لازم ہو تو بہتر ہوگا کہ انسان یاد رکھے کہ یہ الفاظ کا ہی جادو ہے جو انسانوں کے دلوں سے نفرت کو مٹا کر محبت کے بیج بو سکتا ہے۔ اچھی گفتگو، نرم خوئی اور نر م گوئی ہر اعتبار سے ایک وصفِ خاص ہے، جو ہر کسی کو ودیعت نہیں ہوتا۔ گفتگو انسان کا تعارف بھی بنتی ہے، شناخت بھی اور بولنے والے کی ذہنی و جذباتی کیفیات کی عکّاسی بھی کرتی ہے۔ یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ الفاظ کی ادائیگی میں لہجہ کی بھی بڑی اہمیت ہے؛ آواز کے زیر و بم سے معنی و مطالب بدل بھی سکتے ہیں؛ کبھی لفظ بلند آہنگ سے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے؛ یہ موقع اور محل کی مناسبت سے منسلک ہے اور دانشمندی یہ ہے کہ میدانِ جنگ کے الفاظ محبت کی محفل میں ادا نہیں کے جاسکتے۔
انسان پیدائش سے لیکر آخری منازل تک اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھتا ہے۔ اور جو لوگ سبق سیکھنا جان جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ " لفظ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے" ؛ ایسے انسان شعور کی اعلی منزلیں طے کرلیتے ہیں اور فاتح عالم بھی بن جاتے ہیں۔ ایسے انسان وہ ہوتے ہیں جو گفتگو کرتے ہیں تو پھول جھڑتے ہیں۔ وہ گفتگو اس یقین سے پھوٹتا ہے کہ ان کے قول وفعل میں تضاد نہیں ہوتا۔ ایسے انساںوں کی دوستی اور محفل سے بڑا اعلٰی رشتہ ہونا چاہیے کہ وہ قربِ الہی کا باعث ہوتے ہیں۔
پروردگارِ عالم اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ارشاد کیا ہے کہ ’’(بری بات کا) جواب ایسا دو جو بہت اچھا ہو تو تم دیکھوگے کہ جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی اب گویا وہ جگری دوست ہے۔‘‘ ( فصلت: ۳۴)
یہ قرآنی نسخہ ہر زہر کا تریاق ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ نسخئہ کیمیاء نرم کلامی کا نہایت آسان اور سہل راستہ دلوں کو مسخر کرلیتا ہے؛ اور نفرت و دشمنی کے زہر کو ختم کردیتا ہے۔ نرم کلامی انسانی شخصیت کا زیور ہے۔ دینِ اسلام بقول اقبالؔ ”نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو “ یعنی نرم خوئی اور نر م گوئی کی تعلیم دیتاہے۔ یہی نرم نرم خوئی اور نرم گوئی ہماری آپسی رنجشوں، ہمارے اختلافات اور دشمنی کی آگ کو بجھا سکتی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے حضرت محمدﷺ کے اردگرد صحابہ کرامؓ کے جمع ہونے اور آپﷺ سے ان کی بے انتہا محبت کا راز بیان کرتےہوئے ارشاد فرمایا: ’’یہ اللہ کی ہی رحمت تھی جس کی بنا پر آپؐ نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا۔ اگرآپؐ سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ آپؐ کے پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہوجاتے۔‘‘ (آل عمران: ۱۵۹) معلوم ہوا کہ آپﷺ کی نرم مزاجی نے صحابہ کرامؓ کے دلوں میں محبت کا ، تعلق کا، الفت کا وہ طوفان برپا کیا کہ تاریخ اس کی مثال دینے سے قاصر رہے گی۔
میں لفظوں کے اثر کا معجزہ ہوں
مجھے دیکھو مجسم اک دعا ہوں
محسنؔ بھوپالی
آئیے ایک ایسے معاشرے کی تخلیق کریں جہاں ہم انسان باہم اپنے رشتے داروں، عزیز و اقارب، مصاحبین، چھوٹوں بڑوں کے ساتھ اچھے الفاظ سے مخاطب ہوں اور ہمارے الفاظ کا چناو اور رکھاو اچھے لہجے میں ہو اور ایسے ہو کہ باتوں سے خوشبو آئے۔ آئیے اپنے خالق و مالک کُل، اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی کے حصول کی کوشش اور جستجو کریں۔ اللہ سبحان تعالی ہمارا حامی و ناصر ہو؛ آمین ثم آمین۔
سخن کے ترازو میں تولے گئے ہیں
گرہ در گرہ لفظ بولے گئے ہیں
مجھے علمِ تریاق پر دسترس ہے
مگر زہر کانوں میں گھولے گئے ہیں
وہاں مول کیا ہوں گے لفظوں کے رومی
جہاں بے بہا جسم مولے گئے ہیں
رمان شکیل
These custom fast food boxes are made to deal with an assortment of food things like burge...
Explore Comme Des Garcons' Cargo pants, Knits, and Bags. Discover how this fashion icon bl...