کرہ ارض پر زیادہ تر خطوں پر سال میں چار مرتبہ موسم تبدیل ہوتا ہے۔ موسم گرما ، موسم سرما ،موسم بہار اور خزاں۔ اور بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ ماہِ اکتوبر دسواں مہینہ ہے اور خزاں کے موسم میں آتا ہے۔ رومان پرور لوگ حسن فطرت کا لطف اٹھاتے ہیں اور قدرت کی دی ہوئی فیاضیوں سے بہرامند ہوتے ہیں۔ ماہِ اکتوبر خزاں رت کا گلاب موسم ہے کہ اس مہینے میں درخت اور پتے متعدد خوبصورت رنگ اختیار کرتے ہیں۔ یہ تحریر ماہِ اکتوبر کی بابت لکھی گئی ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
اکتوبر؛ خزاں رت کا گلاب
اللہ سبحان تعالی کی بنائی ہوئی ہماری یہ زمین ایک شاندار تخلیق ہے کیونکہ خالقِ کُل نے اسے اپنی اشرف المخلوقات کا ایک عارضی مستقر بنانا تھا۔ یہ خود اپنے محور میں رقص کرتی ہوئی ایک دن میں چکر مکمل کرتی ہے اور اپنے سورج دیوتا کے اردگرد بھی ایک سال میں پھیرا مکمل کرتی ہے۔ یہ رقص بہت جاندار اور تیز رفتار ہے؛ مگر یہ زمین خود تو رقص میں ہے مگر اس کے مکین ایسا بلکل محسوس نہیں کرتے اور دن بھر محنت کرتے ہیں اور رات کو پر سکون نیند بھی سوتے ہیں۔
یہ دان رات کا سفر بذاتِ خود ایک نیرنگی ہے کہ زمین کا ایک حصہ روشن ہوتا ہے تو دوسرا تاریک۔ اور کہیں کے دن بڑے ہوتے ہیں تو کہیں کی راتیں۔ اور کچھ علاقوں میں زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ زمین کا رقص کے ساتھ ساتھ ایک طرف جھکاو ہونا اس پر موسموں کے تغیر کا باعث بنتا ہے۔ کیونکہ زمین ایک سال میں ایک دفعہ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی جانب سفر جاری رکھتی ہے۔ اور درمیان میں دو دفعہ سیدھا ہوجاتی ہے؛ جسے ایکوینوکس کہا جاتا ہے۔ بہاریہ اور خزانیہ ایکوینوکس۔ زمین کے سالانہ سفر میں ایک چاند بھی ساتھ ساتھ ہوتا ہے جو اپنا چہرا مسلسل زمین کی جانب رکھے ایک ماہ میں اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔ اس سارے معاملے سے زمین پر بارہ مہینے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اور چار موسم بن جاتےہیں۔
ماہِ اکتوبر خزاں ایکوینوکس کے فورا" بعد آتا ہے۔ تو شروع میں دن اور رات برابر ہوتے ہیں مگر تیزی سے دن چھوٹے اور راتیں بڑی ہونے لگتی ہیں اور موسم سردی کی جانب دوڑنے لگتا ہے۔ اس ماہ کے آغاز میں ابھی پچھلی رت برسات کا پانی زمین اور ہوا میں موجود ہوتا ہے مگر حبس موقوف ہوجاتا ہے۔ برسات کی مہربانی سے ہر طرف ہرا ہرا ہوجاتا ہ؛ ایسا ہرا کہ کہاوت ہے کہ " ساون کے اندھے کو ہر سو ہرا ہی دکھتا ہے"؛ سو قدرت کے فضل سے فطرت دلہن کی طرح سج جاتی ہے۔ اور تمام مخلوق نہال ہوجاتی ہے جو انکے انگ انگ سے جھلکتا ہے۔
ماہِ اکتوبر میں سورج کی توانا کرنیں دن کے وقت خوب گرمائش دکھاتی ہیں۔ مگر شام پڑتے ہی ٹھنڈک محسوس ہونے لگتی ہے۔ اور اگر بارش برس پڑے تو گرم کپڑے نکالنے پڑجاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی اثر عالمِ نباتات پر بھی ہوتا ہے۔ پھولوں، پودوں اور درختوں میں ساون میں مہیا پانی خوب دوڑ رہا ہوتا ہے مگر اکتوبر میں کمی ہونے لگتی ہے؛ تو فطرت کی نیرنگی نئی کروٹ لینے لگتی ہے۔ صرف پتوں کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کیسے ہرا پتے رنگ بدلنے لگتے ہیں؟ فطرت خزاں رت کی طرف بڑھنے سے پہلے گلابوں کو دو آتشہ کردیتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماہِ اکتوبر، خزاں رت میں گلاب رنگوں کا موسم ہوتا ہے۔ ان دنوں فطرت کے رنگ سرخ ہوتے ہیں، نیلے بھی، پیلے بھی؛ کالے بھی اور اودے بھی مگر مرجھاتے ہوئے پیلے بھی پڑ جاتے ہیں۔ سرخ، نارنجی، زرد، بھورے اور سبز رنگوں کا دلفریب امتزاج نظروں کو خیرہ کر دیتا ہے؛ اگر آپ کو بصیرت ملی ہوئی ہو اور دیکھنے والی آنکھ بھی ہو تو۔
فطرت کا سب سے بڑا شاہکار انسان ہے تو بھلا کیسے گلابوں کے بدلتے رنگوں سے متاثر نہیں ہو؟ ہر ماہ کی طرح اکتوبر بھی ہر سال آتا ہے تو ہر فرد کے لیے کُچھ نئی یادیں، کُچھ نئی خوشیاں اور کچھ نئی اُداسیاں ساتھ لاتا ہے۔ یہی زِندگی ہے۔ انسانی ذہن جو سوچوں کا مرکز ہے اس میں بڑھتی عمر کے ساتھ ایک سیلابی ریلا جو بہتا ہی چلا آتا ہے اور تنہائی میں انسان کو یا خوش کر دیتی ہیں یا پھر اداس اور غمگین۔ اکتوبر آتا ہے تو اپنے ساتھ خزاں کی آمد کا سندیسہ بھی لاتا ہے۔ کچھ لوگ موسم کو ہرجائی مانے ہیں؛ بدلتا جو رہتا ہے۔ ابھی کل ہی ساون کی بارش تھی اور اب سُنہری دھوپ اور اس کے سائے ہیں۔ ابھی کچھ اور دن گذریں گے تو درختوں کے پتے پاؤں کے نیچے آکر چرمرانے لگیں گے اور درخت اُجڑی سُہاگن کا سوگ بن جائیں گے۔ فرانس کے نوبیل انعام یافتہ فلاسفر البرٹ کیمو نے کہا تھا کہ خزاں بہار کا دوسرا روپ ہے۔ بہار میں تو پھول کھلتے ہیں جب کہ خزاں میں ہر پتا خود پھول بن جاتا ہے۔
گذرے ساون بھادوں میں اگر آپ نے زندگی نہیں جیا ہے یعنی نہ نہائے ہیں نہ پانی سے اٹکھییلیاں کی ہیں تو آپ نے وقت ہی ضائع کیا ہوگا۔ آخر ایسی کیا مجبوری؛ ایسی کیا مصروفیت رہی ہوگی؟ ہم نے تو بس یہ جانا ہے کہ جب بارش شروع ہوتی ہے تو زمین پرجب پہلی پہلی بوندیں مٹی کو تر کرتی ہیں تو سوندھی سوندھی خوشبو من کو جوت لگاتی ہے کہ چلو مدہوشی کو اپنائیں۔ بارش کی مدہم اور تیز بُوندیں ایسا جل ترنگ گاتی ہیں کہ ہوا دیوانی ہوجاتی ہے اور ہر بشر کو چھو کر کہتی ہے؛ کیا ارادہ ہے؟ رومان پرور کہیں بھی ہوں؛ ہوا انہیں کھینچ کر آسمان سے برستی میہنہ میں لے آتی ہے۔ اب اکتوبر آگیا ہے؛ بارش میں مت نہانا؛ آغاز سردی کی بارش ہے، ذکام ہوجائے گا۔ یاد رکھیے کہ اکتوبر خزاں کی آمد کا مژدا ہے۔ اکتوبر گلاب رنگوں کا موسم ہے اور اس کا دورانیہ زیادہ نہیں ہوتا؛ جویقیناً صرف چار ہفتوں پر محیط ہوتا ہے؛ اور پھر خوش رنگ پتے سوکھ کر زرد پڑ جاتے ہیں۔
ماہِ اکتوبر خزاں کی آمد آمد ہے؛ اور زمین کے کچھ خطے میں خزاں، بہار سے بھی زیادہ رنگین ہوتی ہے۔ درخت اشجار پت جھڑ سے پہلے ست رنگا لباس زیب تن کر لیتے ہیں۔ ہر درخت کے پتے اودے، لال، تیز پیلے، ہلکے، گہرے سبز اور بنفشی رنگوں میں رنگے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے درخت نہ ہوں گویا شعلے ہوں، جو بجھنے سے ذرا پہلے پوری قوت سے بھڑک اٹھے ہوں۔ مگر یاد رکھیے کہ خزاں کا موسم عام طور پر ایک ناگوار موسم سمجھا جاتا ہے کیونکہ خزاں کی آمد جہاں درخت اور پتوں کی رونق بدلتی ہے؛ وہیں انسانوں کی جلد اور بالوں کیلئے بھی بہت سی تبدیلیوں کا باعث بن جاتی ہے۔ اس لیے ماہِ اکتوبر آپ کو یاد کراتا ہے کہ آنے والی سردیوں کی تیاری کریں۔
ماہِ اکتوبر خزاں کی آمد ہے؛ اور یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ گرم کپڑوں کی ضرورت پڑنے والی ہے۔ تیاری کیجیے؛ گرم ملبوسات؛ پارچہ جات؛ بسترے، کمبل اور رضائیاں نکال لیجیے اور دھوپ لگا لیجیے کہ محض چند دنوں میں یہ دُھوپ کم پڑنے والی ہے۔ اور ہاں اگر آج بھی آپ کی رضائیوں میں روئی ڈلی ہوئی ہے تو پنجائی کروالیں اور ترپائی بھی کروالیں کہ ذرا سی سستی اور ایک اچانک بارش آپ کی ساری رات کی نیند خراب کردی گی۔ اور طبیب کی ناگوار دوائی بھی کھانی پڑ سکتی ہے۔ احتیاط لازم ہے اور بچت بھی ہے۔
دونوں ہی موسم جچتے ہیں تجھ پہ سحرؔ
تیرا راضی رہنا ہے بہار اور ناراضگی تیری خزاں
مرتضیٰ سحرؔ
آج پھر ان کی آمد آمد ہے
ہم خزاں کو بہار کر بیٹھے
نظم طبا طبائی
آمد آمد ہے خزاں کی کیوں نہ روئے عندلیب
گل ابھی نو کار ہیں سبزہ ابھی نوخیز ہے
رشید لکھنوی
غبار شہر میں اسے نہ ڈھونڈ جو خزاں کی شب
ہوا کی راہ سے ملا، ہوا کی راہ پر گیا
علی اکبر ناطق
شازی کنول کا کلام " اداس اکتوبر"؛ پیش کیا جاتا ہے
یہ اداس سا اکتوبر
ہر لمحہ بوجھل ہے
ہر پل تھکا ہوا
چائے کا کپ
جس میں ٹھنڈی چائے کا خاموش گِلہ
بے ذائقہ،
جیسے زندگی کی بے مزہ کہانی
کوئی انتظار نہیں
بس ایک خالی پن
سب اداس ہے
بہت اداس
اکتوبر کے مہینے میں
خاموش موسم
زرد پتوں کے ساتھ دل بھی ٹوٹتا ہے
ہوا میں کچھ کھویا ہوا
بے رنگی سی چھائی ہے
یہ اکتوبر بھی
یوں ہی گزر جائے گا
پر دل کی اداسی
شاید کہیں پیچھے رہ جائے گی
ایک ان کہی داستان بن کر
نامعلوم شاعر کا کلام " ماہِ اکتوبر؛ میں اور تم" پیش ہے۔
دھیرے دھیرے موسم بدل رھا ھے
راتیں لمبی اور دن چھوٹا ھو رھا ھے
یہ بارش کا موسم
یہ ٹھنڈی ہوائیں
یہ اکتوبر کا مہینہ
یہ سردی کی آمد ،
یہ سنہری یادیں
یہ ہواؤں کی سنسناہٹ
کھڑکی پر دستک دیتی بارش کی بوندیں
یہ بکھری ادھوری شاعری
اور چائے کا گرماگرم کپ۔۔۔۔!!
ُزندگی کتنی حسین ہے☕🖤
نامعلوم شاعر کا کلام " تم بن؛ اداس اکتوبر" پیش ہے۔
اکتوبر بہت اُداس ہے
سرد شام خزاں پتے لئے🍁
بے رُخی کا موسم ہے
ہوا کے سرد جھونکوں سے
زخم دل کا گہرا ہے💘
اجنبی سی راہوں پر
لبوں پہ خاموشی کا پہرا ہے🥀
خزاں رت میں گلاب کہاں ملے گا؟ ایک نامعلوم شاعر کا کلام پیش ہے
اداس لمحو ..!
اجاڑ راتو ..!
میرے تخیل سے دور بھاگو ..!
یہ لوگ جو میرے رہبر ہیں ..!
یہ میری سوچوں سے بےخبر ہیں ..!
یہ مجھ سے کہتے ہیں
تتلیوں پر
جگنوؤں پر
کتاب لکھوں!
کہ چاہتوں کا نصاب لکھوں ..!🖤
انھیں میں کیسے بتاؤں کہ اب ..!
بہار موسم گزر چکا ہے ..!
اداس بے کل خزاں کا موسم
ہمارے دل میں اتر چکا ہے💔
ہمارے قہقوں کا
خوشبوؤں کا
وہ دورکب کا گزر چکا ہے ..!
اب تو جینا وبال اپنا
نہ روپ و رنگ و جمال اپنا
تھا جس کو تھوڑا خیال اپنا
وہ شخص کب کا بچھڑ چکا ہے
ستیہ پال آنند کی نظم " باد خزاں کو کیا پروا ہے" پیش کی جاتی ہے
اکتوبر ہے
کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے
اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں
باہر سارے پیڑ
دریدہ پیلے یرقانی پتوں کے
مٹ میلے ملبوس میں لپٹے نصف برہنہ
باد خزاں سے الجھ رہے ہیں
حرف حرف پتوں کا ابجد
پت جھڑ کی بے رحم ہوا کو سونپ رہے ہیں
میں بھی الف سے چلتا چلتا
اب یائے معروف پہ پاؤں ٹکا کر بیٹھا
ایک قدم آگے مجہول کو دیکھ رہا ہوں
ننگے بچے دیمک چاٹے
عمر رسیدہ پیڑ بھی اپنا ابجد کھو کر
برف کا بوجھ نہیں سہہ پاتے گر جاتے ہیں
اکتوبر سے چل کر میں بھی
اپنے ابجد کی قطبینی یہ کی یخ بستہ چوکھٹ پر
جوں ہی شکستہ پاؤں رکھوں گا گر جاؤں گا
باد خزاں کو کیا پروا ہے
اس کو تو پیڑوں کو گرانا ہی آتا ہے
عمین الزہراء سید کی نظم " زرد اور سبز کا ملاپ" پیش کی جاتی ہے
بہار ہو یا خزاں موسم دونوں ہی
نغمگی سے بھرپور ہیں
وصل سے جدائی تک
ایک ساز بجتا ہے
جس کی دھن پہ دھڑکنیں
ماہ و سال کا قصیدہ پڑھتی ہیں
شاخ نے چاہا
پتوں کو جوڑے رکھے مگر
رنگ کی تبدیلی نے
ملاقات کے ذائقوں کا لطف ختم کر دیا
ہوا نے ایک سبز درخت کو بکھیرا
مٹی کی خوشبو نے بانہیں پھیلا کر
زرد رنگ کا استقبال کیا
اکتوبر کے ڈھلتے شب و روز
تھکن کا احساس پیدا کرتے ہوئے اپنا پیغام
ثبت کر رہے ہیں
روح اداسی کے گھیرے میں
سبز رنگ کی متلاشی ہے
خواب کو تعبیر پہناتے ہوئے
میں نے ہوا کا ذائقہ چکھا
اور یہ بھید پا لیا
کہ زرد اور سبز کا ملاپ