پاکستان بحریہ پاکستان کی بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی محافظ ہے۔ یہ مسلح افواج کا حصہ ہے اور افواج کے بحری جنگ وجدل کی شاخ ہے۔ پاکستان بحریہ ایک چار جہتی قوت ہے جو دفاعِ وطن پر مامور اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ یہ تحریر نفس مضمون " قومی اور تنظیمی اقدار؛ عزت، وقار اور غیرت" پر گفتگو کے لیے لکھی گئی ہے۔ قارئین اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں تو نوازش ہوگی۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
قومی اور تنظیمی اقدار؛ عزت، وقار اور غیرت
سرزمینِ ہندوستان پر تاجِ برطانیہ نے 1857 عیسوی میں مکمل قبضہ کرلیا تھا اور جس کے لیے اسے ساری فوجی قوت اپنے ملک سے نہیں لانی پڑی تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نوکری کا لالچ دے کر ہندوستانی مقامی مارشل ریس کو اپنا وفادار سپاہی بنالیا تھا۔ اور ان کی مدد سے بادشاہِ دلی کو شکست دی گئی۔ اور سارا ہندوستان غلام بنالیا گیا۔ تاجِ برطانیہ کوئی معمولی قوت نہیں تھا؛ اس نے کئی صدیوں کی بھاگ دوڑ کے بعد یہ مقام حاصل کیا تھا۔ اس نے ہندوستان پر اپنی گرفت قائم کرنے کے لیےمتعدد اصلاحات نافذ کیں۔ تاجِ برطانیہ نے جنگِ عظیم اول اور دوم میں اپنے دشمن کے خلاف ہندوستانی افراد پر مبنی مسلح افواج قائم کی؛ جس میں برّی، فضائی اور بحری فوج شامل تھی۔ برّی فوج کی تربیت کے لیے مراکز ہندوستان ہی میں بنائے گئے اور اس کے معیار ایک غلام قوم کے مطابق طے کئے گئے۔ بحری فوج کی تربیت برطانیہ میں کی جاتی تھی اور اس کے نتیجے میں بحری افواج کا افسران روشن خیال اور آزاد منش تھے۔
حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان 1947 عیسوی میں قائم ہوا؛ اور اس کے نتیجے میں ایک حکومت قائم ہوئی؛ جس کے سرخیل وہی سول اور فوجی انتظامیہ بنی جو ایک دن قبل تاجِ برطانیہ کے وفادار تھی۔ ان افراد کی تربیت میں ہندوستان کی تہذیب ، تمدن، اخلاق اور اقدار جیسے عزت، وقار اور غیرت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ یہ سب افراد تاجِ برطانیہ سے وفاداری اولیت کی بنیاد پر سدھائے گئے تھے۔ اس لیے جب ملک آزاد ہوا تو ان کے دل رات رات میں بدل تو نہیں گئے ہونگے۔ کمال تو یہ ہے کہ آزادی کے 77 سال کے بعد بھی ان قوانین اور عملیات میں زیادہ تبدیلی نہیں لائی گئی ہے۔
یہ تحریر پاکستان بحریہ کی روایات کو ملحوظ رکھ کر لکھی جارہی ہے؛ اس لیے مزید گفتگو بحریہ ہی کے ضمن میں کی جائے گی؛ پاکستان کے دوسرے اداروں پر گفتگو کسی اور موقع پر کی جائے گی۔ پاکستان بحریہ آزادی کے ساتھ ہی اثاثے اور وسائل کی تقسیم کے فارمولے کے تحت قائم ہوگئی؛ جس میں عمارات، جہاز اور افرادی قوت شامل تھی۔ افسران، سیلرز اور قوانین سب برطانوی بحریہ ہی کے تحت عمل پذیر تھے اور لفظ پاکستان کی اضافت کی گئی تھی۔ کچھ وقت کے بعد پاکستان بحریہ نے اپنے تربیتی مراکز قائم کرلیے اور آج بہت کچھ پاکستانی بن چکا ہے۔ مگر کیا برطانوی اثر ختم ہوگیا ہے؟
برطانیہ بحر اوقیانوس میں ایک جزیرہ ہے اور چند سو سال پہلے تک دنیا کی تاریخ میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ برطانوی بحریہ کے قیام سے قبل برطانوی قوم کے بحری قزاق دنیا میں مشہور ہوئے۔ دنیا کی تاریخ میں واکنگز کی طرح برطانوی قوم بھی اول اول قزاق ہی تھے اور ایک قومی بحریہ بننے سے قبل انہوں نے بہت کچھ ایسا سیکھا تھا جس میں سمدروں پر ایک مضبوط حکمرانی کا راز بھی تھا۔ برطانوی بحریہ وہ واحد طاقت ہے جس کی وجہ سے تاجِ برطانیہ کا سورج ایک وقت میں ڈوبتا نہیں تھا۔ دنیا آج بھی برطانوی بحریہ سے مستعار روایات اور رسم و رواج پر چل رہی ہے؛ مثلا" ذاتی نشانات، جہازوں کے بیجز اور نشانات، روزمرہ کے لباس اور مخصوص مواقع کے رسوم، جھنڈا لگانے اور اتارنے کا طریقہ، پائپ دی سائیڈ، فلیٹ کے جائزے، بحری سلامی، عشائیہ ٹوسٹ، موسیقی گانے اور پریڈ مارچ وغیرہ۔
پاکستان بحریہ نے خود کو برطانوی وراثت سے کچھ حد تک آزاد کرلیا ہے مگر بہت کچھ ایسا ہے جو ویسا ہی ہے جیسا برطانوی بحریہ میں ہوتا ہے مگر ان کے ہونے سے اس کی شناخت اور تشخص پر زیادہ اثر نہی ہوتا کیونکہ ایسا تقریبا" ساری دنیا کی بحریہ کرتی ہے؛ انکا اوپر ذکر بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر عشائیہ ٹوسٹ میں اب شراب کی جگہ کوکا کولا پیش کی جاتی ہے۔ کچھ پریڈ دھنیں اب مقامی ہیں اور لباس میں بھی کچھ تبدیلی کی گئی ہے۔ مگر کیا عزت وقار اور غیرت کے اقدار بھی رائل برطانوی انڈین بحریہ جیسا ہی ہے؟
دنیا کی تمام بحریہ کی آن شان اور بان اس کے جہاز ہوتے ہیں۔ اور ہمیں اپنے نفسِ مضمون کا کھرا شاید یہیں سے ملے۔ بحریہ میں جہاز ایک مرکزی محور ہے اور اس کی طرز زندگی شاید تمام بحریہ کے نظام کو متاثر کرتی ہے۔ جہاز کا کپتان ایک افسانوی کردار کی مانند ہوتا ہے جیسے کہ قزاقی کے زمانے کا بھی ہوتا تھا۔ " جہاز کا کپتان بادشاہ ہے، جج ہے، جیوری ہے، اور جلاد بھی ہے"۔ آج بھی سمدروں میں قانون بحری کپتان کو وسیع اختیارات فراہم کرتا ہے۔ بحری قانون میں، جہاز کے کپتان کی اپنے جہاز کے لیے ذمہ داری سب سے اہم ہے، چاہے اس کی حالت کچھ بھی ہو، اس کے لیے جہاز کو چھوڑنے کے قانونی نتائج ہوتے ہیں۔ کچھ بحریہ میں مصیبت میں جہاز کو چھوڑنا ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔
اختیار اور ذمہ داری ساتھ ساتھ ملتے ہیں۔ بحریہ کی سروس میں بھی جیسے جیسے اختیارات بڑھتے ہیں ویسے ہی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ کیپٹن کو جہاز، کارگو اور عملے پر مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وہ سب کی حفاظت کو یقینی بنانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ باکل اسی طرح جہاز کے دوسرے افسرانِ بالا بھی اپنی ذمہ داریوں کے لیے بااختیار ہوتے ہیں۔ آج بحریہ کے تمام افسران اور خاص طور پر کسی بھی جہاز پر متعین افسران اس بات کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ جن لوگوں کے لیے وہ ذمہ دار ہے وہ صحت مند ہیں؛ اپنا کام جانتے ہیں اور اپنے فرائض ٹھیک ادا کرہے ہیں۔ اسی طرح سارے افسران جہاز کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور سمندر میں غیرموافق حالات کے باوجود جہاز کو جتنی دیرتک ہو سکے فعال رکھنے کے لیے جدوجہد کرنا سکھا ئے جاتے ہیں۔
برطانوی بحریہ میں ایک روایت ہے کہ جہاز کا کیپٹن ڈوبتے جہاز کو نہیں چھوڑتا بلکہ خود بھی ڈوب جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ " ایک سمندری روایت ہے کہ ایک سمندری کپتان جہاز اور اس پر سوار ہونے والے تمام افراد کی حتمی ذمہ داری رکھتا ہے، اور یا تو انہیں بچائے گا یا کوشش کرتے ہوئے مر جائے گا "۔ مشہور برطانوی مسافر بحری جہاز " ٹائٹینک " کے کپتان نے ایسا ہی کیا تھا۔ بھارتی بحریہ اور پاکستان بحریہ دونوں اپنے قیام سے قبل برطانوہ بحریہ کا حصہ تھے اور دونوں نے تہذیب تمدن، اخلاق اور اقدار ایک جیسے ہی سیکھے اور اپنائےتھے۔ سنہ 1971 کی باہمی جنگ میں پاکستان کی آبدوز ہنگور نے بھارتی جہاز ککری کو ڈبویا تھا۔ جہاز کے کیپٹن مہندر ناتھ ملا، مہاویر چکر (بعد از مرگ)، جہاز کے اس وقت کے کمانڈنگ آفیسر نے جنگی جہاز کے ساتھ ڈوب جانے کا انتخاب کیا تھا۔ اسی جنگ کے دوران پاکستانی جہاز خیبر بھارتی میزائل اٹیک میں ڈوبا تو اس کے کپتان نے جان بچانا ضروری سمجھا تھا۔
اسی 1971 کی جنگ کا اختتام مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے سے ہوا تھا اور کمال جب ہوا کہ ایک جنگی قیدی رہائی کے بعد پاکستان بحریہ کے سربراہ بھی مقرر ہوئے۔ ایڈمرل محمد شريف نے رائل انڈین نیوی میں کمیشن حاصل کیا تھا۔ 1947 میں پاک بحریہ میں بطور سینئر اسٹاف آفیسر شامل ہونے سے قبل برطانیہ کی جانب سے دوسری جنگ عظیم میں حصہ بھی لیا۔ 1969 میں مشرقی پاکستان میں مشرقی بحریہ کمان کے فلیگ آفیسر کمانڈنگ مقرر ہوئے، جس کے بعد 1971 میں بھارت سے جنگ کے بعد جنگی قیدی بنا لیا گیا۔ یاد رہے کہ ایک پاکستانی جہاز "راجشاہی" لیفٹیننٹ کمانڈر سکندر حیات کی کمان میں کچھ دوسرے افسران سمیت ہندوستانی ناکہ بندی سے بچتے ہوئے ملائیشیا پہنچنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔
قومی اقدار اور تنظیمی اقدار کچھ حوالوں سے مختلف ہوسکتے ہیں؛ لیکن وہ ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثر انداز بھی ہو تے ہیں۔ قومی اقدار افراد اور گروہوں کی اقدار اور توقعات پر مبنی ہوتے ہیں؛ جبکہ تنظیمی اقدار کسی تنظیم سے منسلک افراد کے عمومی اعمال اور رویوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ قومی ثقافت کا فرق اکثر اقدار میں ہوتا ہے؛ جبکہ تنظیمی ثقافت کا فرق اکثر طریقوں میں ہوتا ہے۔ 1971 کی جنگ میں بھارتی بحریہ میں جن اقدار کا مظاہرہ ہوا وہ پاکستان بحریہ سے مختلف تھا۔
پاکستانی بحریہ میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور اسلام میں خودکشی حرام ہے تو شاید اسی لیے پاکستان بحریہ میں جہاز کے ساتھ ڈوبنے کی روایت نہیں ہے۔ لیکن اسلام میں کرپشن اور غیراخلاقی اعمال پر جہنم کی وعید ہے اور ایمانتداری اور قولِ صادق کو ایک مسلمان مرد اور مجاہد کی پہچان بتایا گیا ہے۔ پاکستان بحریہ میں ایک امیر البحرکو کرپشن اور کک بیکس کے الزامات پر جبری طور پر ریٹائر کر دیا گیا تھا۔ آج کی دنیا میں جاپانی قوم نے قومی اقدار میں عزت، وقار اور غیرت کا جو معیار قائم کیا ہے اس کی نظیر مشکل ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جاپانی افواج نے اور جنگ کے بعد عام اور ہنگامی حالات میں اس قوم نے اقدار کی اعلی مثالیں رقم کی ہیں۔
اس تحریر کے راقم نے پاک بحریہ میں بتیس سال گذارے ہیں؛ اور پاک بحریہ کے جہازوں پر آٹھ سال مستعد رہا ہے۔ اس وقت بحریہ کی جہاز پرانے امریکی اور برطانوی تھے اور ہم رکاب ساتھی افسران اور سیلرز پوری تندہی سے اپنی قومی ذمہ داری پوری ایمانداری اور خلوص سےادا کررہے تھے۔ بحری جہاز سمندر میں کسی قوم کی آن بان اور شان کی نشان ہوتا ہے۔ جہاز سمندر کی سطح پر اللہ کی حکم سے چلتا ہے مگر پہاڑ کی طرح قوم کے افتخار اور عزت کا استعارا بن کے لہروں کو چیرتا ہوا اپنا مشن پورا کرتا ہے۔ بحریہ کے افسران اور سلیرز کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ سمندروں سے پرے زمین پر بھی قومی غیرت کے محافظ بن کر عزت اور وقار کا اولین مشن اپنانا چاہیے۔ ایسا کرنے سے نا صرف قوم بلکہ سارا جہان بحریہ کے بلند کردار کا گواہ بن جائے گا اور دوسرے قومی اداروں کو بھی مشعل راہ دکھائی دےگا۔
کیا پاکستان بحریہ اور سارے دوسرے قومی اور پرایویٹ اداروں میں آج تنظیمی اقدار قومی اقدار کے مطابق ہیں اور کیا وہ اقدار اسلام کے ذریں اصولوں پر مبنی ہیں ؟ کیونکہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس کے سارے قومی اور تنظیمی اقدار اسلام کے مزین اقدار پر ہی موقوف ہوسکتے ہیں۔ پاکستانی قوم کو اور اس کے سارے اداروں ، بشمول پاکستان بحریہ کو دنیا کی صفِ اول میں شامل ہونے کے لیے اسلام کے دیے ہوئے معیارِ عزت، وقار اور غیرت اپنانے ہونگے۔