جب سے انسان نے شہر بسائے ہیں تو یہ بحث جاری ہے کہ شہر اچھے ہیں یا گاؤں؟ شہری زندگی سے مراد شہری علاقوں میں رہنے کا طریقہ ہے۔ شہر تیز رفتار اور جدید طرز زندگی کی خصوصیت رکھتے ہیں، جس میں رہائشیوں کے لیے وسیع پیمانے پر جدید سہولیات دستیاب ہیں۔ دیہی یا گاؤں کی زندگی غیر شہری جغرافیائی علاقے میں رہاش ہے؛ جو عام طور پر چھوٹی بستیاں ہیں؛ جن میں اکثر زرعی یا جنگلات کی سرگرمیوں کی خصوصیت ہوتی ہ اور جن کی ترقی بہت کم ہے۔ یہ تحریر قارئین کی تفریح طبع کے لیے قلم زد کی گئی ہے۔
شہر اچھے ہیں یا گاؤں؟
شہراں نال پنڈ چنگے! تسی دسو کیہڑا؟
یہ کچھ چالیس سال سے زائد کا قصہ ہے؛ جب راقم کالج میں زیرِ تعلیم تھا اور جھنگ شہر کے ممتاز تدرسی مرکز گورنمنٹ ڈگری کالج میں ایک بین الکالجیٹ تقریری مقابلے میں شامل ہوا۔ یہ کچھ ایک ہفتہ کی تقریبات تھیں اور متعدد نوع اور موضوعات اور زبانوں میں منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت وہاں کے پرنسپل جناب ڈاکٹر شعیب تھے اور سچی بات کہوں تو اپنے گورڈن کالج راولپنڈی کے پرنسپل ڈاکٹر عزیز محمود زیدی کے بعد راقم اور دیگر ٹیم ممبران انکی شخصیت سے بے انتہا متاثر ہوئے؛ انہوں نے اُس سال ایک شادار میلہ سجایا تھا جس میں تقریبا" ملک کے بیشتر نامور کالج اور یونیورسٹی کے طالب علم اکھٹے ہوئے تھے اور ایک ہی موضوع پر صبح سے شام تک نوّے سے زیادہ تقاریر ہوتی تھیں اور مجال ہے جو کوئی اپنی جگہ سے ہلا ہو۔ یقین کیجیے کہ اچھی تقریر کا مزا کیا ہوتا ہے وہاں سیکھا۔
نفسِ مضمون پر آتے ہیں کہ ایک دن کا میدان پنجابی مباحثہ تھا اور موضوع تھا " شہراں نال پنڈ چنگے"۔ پنجاب بھر سے کئی درجن مقرر بحثیے میدان میں آئے اور" اپنیاں اپنیاں چہلاں گلاں کیتیاں"۔ اب ہم کیا توقع کرسکتے تھے؛ سوائے اس کے کہ گاوں میں فضا صاف ہوتی ہے؛ غذا خالص ہوتی ہے؛ لوگ صحت مند اور سادہ طبعیت کے ہوتے ہیں الغرض زندگی اچھی ہوتی ہے۔ دوسری جانب شہری گفتگو میں ترقی، بجلی، تعلیم کے ذرائع وغیرہ وغیرہ کا ذکر تھا۔
جس نے سارے ماحول کو گرمایا وہ جامعہ بہاؤ الدین زکریا ، ملتان کے ماسٹرز کے طالبعلم ایک بحثیے کی جگتیں تھیں [ بعد میں کالج آکر پروفیسر نواب نقوی نے تفصیل سے پنجابی مباحثہ اور جگت کا تعلق سمجھایا اور اس دن سمجھ آئی کے پنجابی اسٹیج ڈرامے ایک بری مثال کیوں ہیں؟] وہ محترم ایک طویل قامت کے صحت مند شخص تھے اور خوب مونچھیں سجا رکھی تھیں۔ ان سے قبل ایک نوجوان جو پتلے دبلے تھے انہوں نے اپنے نہ دکھنے والے ڈولے دکھا کر کہا تھا کہ وہ گاوں والے ڈنڈ بیٹھکیں نکالتے ہیں اور جان بناتے ہیں۔ تو بہاؤ الدین زکریا والے محترم بحثیے نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے شہر کی جانب سے جوابا" کہا کہ " او بھرا؛ تیرے ڈولے توں، میری موچھ موٹی آ "۔ بس مت پوچھیے کی کیا عالم تھا؛ مجمع ہنس کو لوٹ پوٹ ہوگیا اور بحث سمیٹ دی گئی کہ اس کے بعد محفل میں جان ہی نہیں رہی۔ موصوف کو اول انعام ملا تھا اور بتایا گیا کہ انہوں نے پچھلے سال بھی ٹرافی سمیٹی تھی۔
آج اتنی پرانی بات اس لیے یاد آئی کہ فیس بک پر جناب محمد عمران تنہا کا مندرجہ ذیل ایک کلام نظر سے گزرا ہے سو آپ کے نذر ہے۔
آیا ہوں اپنے گاؤں میں چھوٹے سے کام سے
ہر شخص مل رہا ہے بڑے احترام سے
حالانکہ سالوں بعد میں آیا ہوں اس طرف
ہر شخص آشنا ہے یہاں میرے نام سے
شہروں کی بھیڑ لے گئی القاب چھین کر
مجھ کو گرا دیا گیا میرے مقام سے
میں کیا بتاؤں شہر ہے مصنوعی زندگی
روٹھے ہوئے سے لوگ ہیں رشتے ہیں خام سے
شہروں کی زندگی کی چمک ٹھیک ہے مگر
کیسا موازنہ بھلا گاؤں کی شام سے
یقین کیجیے کہ بحث شہر اچھے ہیں یا گاؤں بے معنی ہے؛ یہ علاقے اور زمین نہیں جو انسانوں کے مزاج اور برتاؤ بناتے ہیں؛ وہاں کے رہنے والے انسان اسے اچھا اور بُرا بناتے ہِں۔ جہاں انسان اچھے ہونگے وہی جگ اچھی ہو گی۔ اور جس علاقے کے لوگ مناسب رویوں کے حامل نہیں ہوتے؛ وہ خوش نام نہِں ہوتے۔ ہاں، اپنی محفلوں میں جگت بازی کو یہ موضوع زندہ رہے گا۔ تو آئیے ذیل میں عندلیب بیگ وکی کی ایک نظم پیش کی جاتی ہے جو ہے بھی پنجابی زبان میں:۔
پِنڈ چوں بڈهے مُکّی جا رے نے
چهپڑ دواڑے سُکی جا رے نے
بڑیاں رونقاں سی جِناں نال گلیاں محلے
او ہن لوکی تے مُکی جا رے نے
مان سی پِنڈ نوں جیناں جواناں اُتے
او تے پردیساں نوں اُڈهی جا رے نے
پِنڈ جان دی آس تے او ہین زندہ
اِنج اندر و اندری مُکی جا رے نے
جو ہے نے پِنڈ وچ مکا کے محبتاں
سب اک دوجے توں اَکی جا رے نے
اِتهے اپنے ای اَپنیاں نوں دین سزاواں
او دُکهاں تکلیفاں وچ سُٹی جا رے نے
چل چهوڑ، وکی، فکر توں پینڈ دی
پِنڈ والے اتوں اتوں ہسی جا رے نے
اے ریت دنیا دی توں پریت نال نِبھا جا
ہر ساہ نال ساہ وی تے مکی جا رے نے
پِنڈ چوں بڈهے مکی جا رے نے
چهپڑ دواڈے سکی جا رے نے
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی
کیفی اعظمی
جو میرے گاؤں کے کھیتوں میں بھوک اگنے لگی
مرے کسانوں نے شہروں میں نوکری کر لی
عارف شفیق
شہر کی اس بھیڑ میں چل تو رہا ہوں
ذہن میں پر گاؤں کا نقشہ رکھا ہے
طاہر عظیم
خول چہروں پہ چڑھانے نہیں آتے ہم کو
گاؤں کے لوگ ہیں ہم شہر میں کم آتے ہیں
بیدل حیدری
اک اور کھیت پکی سڑک نے نگل لیا
اک اور گاؤں شہر کی وسعت میں کھو گیا
خالد صدیقی
خروٹ کھائیں تاپیں انگیٹھی پہ آگ آ
رستے تمام گاؤں کے کہرے سے اٹ گئے
ناصر شہزاد
نظر نہ آئی کبھی پھر وہ گاؤں کی گوری
اگرچہ مل گئے دیہات آ کے شہروں سے
حزیں لدھیانوی
آپ ایک بار میرے گاؤں میں گر آجائیں
جتنے ہیں بانجھ شجر سب پہ ثمر آجائیں
حیدر علی بخاری
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا
اسعد بدایونی