انسانی تاریخ اور تہذیب نے ڈیجیٹل مصنوعی ذہانت اور انفارمیشن ٹیکنولوجی کی دنیا کے اس دور تک آنے کے لیے طویل سفر کیا ہے۔ جہاں تعلیم کے بغیر کوئی بھی انسان اپنی مٹھی میں معلومات کا خزانہ حاصل کر سکتا ہے۔ دنیا کو ایک دوسرے کے ساتھ امن میں رہنا چاہیے تھا، تاہم ایسا نہیں ہوا ہے۔ قومیں اب بھی ناکام ہو رہی ہیں حالانکہ آج انسانوں کے پاس پچھلی اقوام کی ساری کہانیاں اور اسباق پوری طرح موجود ہیں۔ یہاں خلیل جبران، لارنس فرلنگیٹی اور وانگ پنگ کی نظموں کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے جو ان تینوں نے ایک ہی مضمون باندھا ہے. "Pity the Nation"
﷽
ہائے افسوس: اس قابل رحم قوم پر؛ مگر کیونکر؟
ہم زندگی میں کسی بھی محفل میں ہوں تو اکثر ہماری گفتگو رنج و غم کی داستان بن جاتی ہے۔ کچھ افراد افسوس کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ اس نے فلاں کام فلاں وقت پر کیا ہوتا تو زندگی سنور جاتی اور ایسے پچھتاوے پھر عمر تک ختم نہی ہوتے۔ مگر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس سرزمین پر ایسے لوگ اور ایسی محفل کم ہی ملتی ہے جہاں ہم وطن اپنی قوم کی زبوں حالی پر گفتگو کرتے ملیں ہوں؛ حالانکہ سیاست بہت زیادہ موضوع بحث رہتی ہے۔ آخر کیوں ہم پاکستانیوں کو اپنی قومی زبوں حالی کا افسوس یا رنج نہیں ہوتا؟ آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مشاہیر اس سودِ زیاں کے ضمن میں کیا کہتے ہیں؟
ذیل میں خلیل جبران کی ایک نظم " افسوس اس قوم پر" کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جو انہوں نے 1934ء میں لکھی تھی۔ جبران لبنان میں پیدا ہوا تھا اور امریکہ جا بسا تھا؛ یہ نظم اس کے اپنے وطن اور دیگر اسلامی ممالک کے حالات پر گہری نظر کی عکاسی کرتا ہے۔ کمال یہ ہےکہ تقریبا" 90 نوے سال گذرنے کے باوجود بھی اس کی نظم متعدد اسلامی ممالک کے حالات پر یوں منطبق ہوتی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔
بینگ باکس اپنے قارئین کے لیے اسے پیش کرتا ہے؛ نظم ملاحظہ فرمائیے:
میرے دوستو اور ہم سفرو
افسوس اس قوم پر جو یقین سے بھری لیکن مذہب سے خالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ایسا کپڑا پہنے جسے اس نے خود بنا نہ ہو
جو ایسی روٹی کھائے جسے اس نے اگایا نہ ہو
ایسی شراب پیےجو اس کے اپنے انگوروں سے کشید نہ کی گئی ہو
افسوس اس قوم پر جو دادا گیر کو ہیرو سمجھے
اور جو چمکیلے فاتح کو سخی گردانے
افسوس اس قوم پر جو خواب میں کسی جذبے سے نفرت کرے
لیکن جاگتے میں اسی کی پرستش کرے
افسوس اس قوم پر جو اپنی آواز بلند کرے
صرف اس وقت جب وہ جنازے کے ہم قدم ہو
ڈینگ صرف اپنے کھنڈروں میں مارے
اور اس وقت تک بغاوت نہ کرے
جب تک اس کی گردن مقتل کے تختے پر نہ ہو
افسوس اس قوم پر جس کی رہبر لومڑی ہو
جس کا فلسفی مداری ہو
جس کا فن پیوندکاری اور نقالی ہو
افسوس اس قوم پر جو ہر نئے حکمران کا استقبال ڈھول تاشے سے کرے
اور رخصت گالم گلوچ سے
اور وہی ڈھول تاشے ایک نئے حاکم کے لیے بجانا شروع کر دے
افسوس اس قوم پر جس کے مدبر برسوں کے بوجھ تک دب گئے ہوں
اور جس کے سورما ابھی تک پنگھوڑے میں ہوں
افسوس اس قوم پر جو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہو
اور ہر ٹکڑا اپنے آپ کو قوم کہتا ہو
خلیل جبران نے کتنی تکلیف دہ تصویر کشی کی ہے؛ اور ستم یہ ہے کہ آج کے پاکستان کی عکاسی بھی ہے؛ آگے چلتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دنیا کے کچھ اور دانشوروں نے جدید دور میں اس میں اضافہ کیا ہے۔ خلیل جبران کی اسی نظم سے متاثر ہو کر مشہور امریکی شاعر لارنس فرلنگیٹی نے 2007ء میں ایک نظم لکھی، جو یہاں آپ قارئین کی خدمت میں حاضر ہے:
افسوس اس قوم پر جس کے عوام بھیڑیں ہوں
اور جنھیں اپنے ہی چرواہے گم راہ کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جس کے رہنما جھوٹے ہوں
اور دانا خاموش
جہاں منافق ہوا کے دوش پر راج کرتے ہوں
افسوس اس قوم پر جو آواز بلند نہیں کرتی
مگر صرف اپنے فاتحوں کی تعریف میں
اور جو داداگیروں کو ہیرو سمجھتی ہے
اور دنیا پر حکومت کرنا چاہتی ہے
طاقت اور تشدد کے بل پر
افسوس اس قوم پر
جو صرف اپنی زبان سمجھتی ہے
اور صرف اپنی ثقافت جانتی ہے
افسوس اس قوم پر جو اپنی دولت میں سانس لیتی ہے
اور ان لوگوں کی نیند سوتی ہے جن کے پیٹ بھرے ہوئے ہوں
افسوس، صد افسوس ان لوگوں کی قوم پر
جو اپنے حقوق کو غصب ہونے دیتی ہے
میرے ملک
میری سرزمینِ آزادی
تیرے آنسو!
لارنس فرلنگیٹی کی نظم کے چھپنے کے بعد امریکہ ہی میں مقیم کوریائی نزاد محترمہ وانگ پنگ نے اس ہی موضوع پر اسی عنوان کے ساتھ ایک نظم لکھی۔ ( وانگ پنگ نے شاعری اور نثر کی تیرہ کتابیں شائع کی ہیں)۔ اس نظم میں بیشتر حصہ آج کے امریکہ کے مسائل کا ذکر ہے۔ یہ قابلِ ذکر بات ہے کہ آج امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے؛ جس کے پاس سب سے زیادہ تعلیمی درسگاہیں ہیں، سب سے زیادہ فوجی طاقت ہے اور جو سب سے زیادہ امیر ملک بھی ہے۔
آئیے پہلے انکی نظم پڑھتے ہیں:-
افسوس ہے اس قوم پر۔۔۔۔۔۔
افسوس ہے اس قوم پر جس کی آزادی آرکٹک برف سے زیادہ تیزی سے پگھلتی ہے۔
جس کا انصاف جنسی شکاریوں کا دفاع کرتا ہے اور بچوں کو جیل میں رکھتا ہے۔
افسوس اس قوم پر جو تعلیمی اداروں کو کارپوریٹ جاگیریں بنا کر بیچتی ہے۔
جن کے صدور چیختے ہیں کہ ان کے لیے؛
ملین ڈالر کا پیکج "کافی نہیں" ہے۔
جو طالب علموں کو قرضوں میں جکڑنے کے لیے ٹیوشن میں اضافہ کرتے ہیں۔
جو پروفیسروں کو اضافی غلام دانشور بنا دیتے ہیں۔
افسوس اس قوم پر جو نوجوانوں کو تقسیم کرو اور فتح کرو کے لوگو میں بانٹ دیتی ہے؛
جن کو سکھایا جاتا ہے کہ کیسے انعامات کے حصول کا طریقہ سیکھیں اور؛
پروفیسرز " کو " ڈبلیو او سی" کے ذریعے نصاب کو ختم کرائیں!"؛ اور؛
انہیں کھلے عام "نسل پرست اور تخصیص کرنے والے" کی شرمناک کہیں۔
افسوس اُس قوم پر جس کی تعلیم " صرف کاروبار" بن جائے۔
اس کی بڑی مہارت چینی اور دیگر ایشیائی اقوام سے بھاری بھرکم ٹیوشنز کو نچوڑنا بن جاےئے۔
جو اپنے بچوں کو امریکی ڈگری کے لیے خون اور گردے بیچ کر بھیجتے ہیں۔
افسوس اس قوم پر جس کا صدر ایسے جھوٹ بولتا ہے جیسے
پاپکارن پکتے ہیں۔
جن کے طالب علموں کو " ریز" پر دادا کو چسپاں کرنے پر صدارتی ایوارڈ ملتے ہوں۔
اپنے پروفیسر پرچیخنے کے لئے "آپ کو خوش قسمت محسوس کرنا چاہئے؛ سرقہ کے واسطے آپ کے الفاظ استعمال کیے"؛
جو تعلیمی سالمیت سکھانے کی کوشش کرے۔
اس قوم پر ترس کھائیں جن کی مائیں بین کریں؛
ان بچوں کے لیے جنہیں سرحد کے ساتھ پنجروں میں بھرا جاتا ہے۔
جن کی ٹارچ چرائی جاتی ہیں کہ تلووں، ہتھیلیوں اور
منحرف طلباء کی زبانیں جلائی جائیں
افسوس ہے اس قوم پر جو پروفیسرز کے کیمپس میں داخلے پر پابندی لگاتی ہے؛ اور
دھوکے بازوں اور اعتدال پسندی کو انعام دیتا ہے۔
جو کہ "جذبات کو جوڑ توڑ" کے لیے شاعری کی مذمت کرتا ہے۔
جو سچائی کو خاموش کر دیتا ہے۔
یہ سائنس کو روکتا ہے، ڈیٹا کو حذف کرتا ہے، حقائق کو صحرا بدر کر دیتا ہے۔
جو روحوں کو تار تار کرنے کے لیے؛ کلاس رومز کو جاسوسی کے آنکھ اور کان عطا کرتا ہے۔
ہائے افسوس اس قوم پر جو اپنا اونچا مینار بناتی ہے؛ جس کی بنیاد میں
مقامی لوگوں، غلاموں، کولیوں، ایشیائی امریکیوں، اسکالرز، فنکار، تارکین وطن شاعر کی ہڈیاں ہوں۔
ہائے افسوس!
آئیے قوم پر ترس کھاتے ہوئے کچھ عمل کرکے دکھا ئیں ۔۔۔
آئیے سچ کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہوں
آزادی کبھی مفت میں نہی ملتی
آزادی ہم سے ہمت، ہمارا جسم اور روح مانگتی ہے
لیکن یہ ایک قیمتی اثاثہ ہے
یہ ہماری جینے کی وجہ ہے — خوشی کے آنسو ہیں، وہ خوشی جو فخر سے پھوٹتی ہے
آزاد اور بہادروں کی اس سرزمین میں
احمد فراز نے ایک نظم میں کچھ فرمایا تھا اور اس میں چند بطور پیغام نصیحت پیش کیا جاتا ہے:-
اے میرے پیارے لوگو؛ اے میرے سارے لوگو
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارود کی بو پھیلی ہے
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر وہی عام ہوئیں اہل ریا کی باتیں
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دو نیم
نوک دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو