ملتِ اسلامیہ پچھلے دو سو سال سے مسلسل غلامی کے دور سے گذر رہی ہے؛ پہلے یہ براہِ راست نوآبدیاتی نظام کے تحت چند مغرب ممالک کے زیرِ اثر تھے۔ مگر آج تمام دنیا کے مسلمان ایک ان دیکھی غلامی کا شکار ہیں۔ کشمیر اور فلسطین سمیت چند دوسرے علاقے کے مسلمان غاصب قوتوں سے نبرد آزماء ہیں؛ جہاں باطل طاغوتی قوموں نے ان علاقوں کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی ہے۔ اس صدی کے آغاز سے مسلمان زیادہ منظم ہوکر باطل طاقتوں سے لڑ رہے ہیں۔ سات اکتوبر ۲۰۲۳ عیسوی سے غزہ کے مجاہدین نے غاصب اسرائیل پر طوفان الاقصی مہم کا آغاز کیا ہے۔ یہ تحریر اسی سلسلے مین لکھی گئی ہے
﷽
اللہ کی نصرت آنے والی ہے؛ غالب تمھی رہو گے اگر تم مومن ہو؟
"جن پر ظلم کیا گیا اور ان کو گھروں سے ناحق نکالا گیا؛ ان کے لیے فتح میں تاخیر ہو سکتی ہے؛ جب تک کہ وہ یہ نہ کہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور یہ تاخیر اس حکمت کی وجہ سے ہے جو اللہ چاہتا ہے۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ اس لیے کہ مومن قوم کا ڈھانچہ ابھی پختہ نہیں ہوا ہے، نہ اس قوم نے اپنی توانائیاں اکٹھی کی ہیں اور نہ ہی ہر طبقہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ طاقت ذخیرہ کر سکا ہے؛ اور نہ ہی اپنی صفوں کو متحرک اور مجتمع کرنے کے قابل ہے۔ اگر یہ قوم اس وقت فتح حاصل کر لیتی ہے، تو پھر یہ اسے جلد ہی کھو بھی دے گی؛ کیونکہ یہ اس کی زیادہ دیر تک حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہے۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ یہاں تک کہ مومن قوم اپنی آخری قوت اور طاقت کے تمام اثاثوں کا اتم استعمال نہ کر لے؛ اور وہ اپنی عزیز یا قیمتی چیز کو چھوڑ نہ دے؛ سوائے اس کے کہ وہ اسے آسان اور سستے طریقے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ یہاں تک کہ مومن قوم اپنے زورِ بازو کے آخری حربے کو نہ آزمالے؛ اور یہ جان لے کہ اس کی قوتیں، اللہ تعالی کی مدد کے بغیر، فتح کی ضمانت نہیں دیتیں۔ فتح صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے؛ اور جب وہ اپنی آخری کوشش کر گذرتی ہے، اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتی ہے۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ یہاں تک کہ مومن قوم اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کر لیگی؛ اور وہ مصائب کو جھیلنا سیکھ جائے گی؛ مصیبتیں برداشت کرے اور قربانیاں دے۔ اور یہ جان لے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی سہارا نہیں؛ اور ایسا تعلق فتح کے بعد دین کے راستے پر راستبازی کی پہلی ضمانت ہے۔ اور جب اللہ تعالی کے اذن سے فتح ملے تو مومن حق سے تجاوز یا انحراف نہیں کرے جس پر اللہ تعالی اسے فتح عطا فرمائی۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ حالانکہ مومن قوم ابھی بھی اللہ تعالی کے دین کی دعوت پر اپنی جدوجہد، کوششوں اور قربانیوں سے محروم نہیں ہوئی ہے۔ اور نا ہی وہ لوٹ مار اور ذاتی تحفظ کے لیے لڑ رہا ہے۔ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جہاد صرف اس کے لیے اور اس کی خاطر کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسے آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو بے خوف لڑتا ہے، ایک آدمی جو ہمت سے لڑتا ہے اور ایک آدمی جو دیکھ کر لڑتا ہے، کون سا خدا کی خاطر ہے؟ . آپ نے فرمایا: ’’جو شخص اس لیے لڑتا ہے کہ خدا کا کلام غالب ہو وہ خدا کی راہ میں ہے"۔
فتح کی گھڑی ذرا اس لیے بھی دیر سے آئے گی؛ کہ مومن قوم جس باطل سے لڑ رہی ہے شاید اس میں کچھ خیر باقی ہے؛ اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ معمولی سے اچھائی کو بھی اس سے دور کر دے تاکہ وہ مکمل باطل بن جائے۔ تاکہ وہ اکیلا ہو جائے اور فنا ہو جائے۔ یہ جان لو کہ اس میں خیر کا کوئی ذرہ بھی نہیں ہوتا جو پاتال میں جاتا ہے۔۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ کیونکہ مومن قوم جس باطل سے لڑ رہی ہے وہ پوری طرح لوگوں پر آشکار نہیں ہوا ہے۔ اگر اس صورت میں اہل ایمان اسے شکست دے دیں تو اسے ان لوگوں میں سے حمایتی مل سکتے ہیں جو اس کے فریب میں مبتلا تھے، جو ابھی تک اس کی خرابی اور اس کے مٹ جانے کی ضرورت کے قائل نہیں ہیں، اس لیے اللہ تعالی چاہے گا کہ باطل اس وقت تک قائم رہے جب تک وہ لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے۔ اور یہ کہ وہ بغیر کسی پچھتاوے کے تباہ ہوجائے۔
فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ کیونکہ سچائی، نیکی اور انصاف کی اقدار کو حاصل کرنے کے لیے ماحول ابھی موزوں نہیں ہے؛ جن اقدار کی مومن قوم نمائندگی کرتی ہے۔ اگر وہ اس وقت فتح یاب ہوجائے تو اسے بین الاقوامی ماحول کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا؛ جس کے وجہ سے فیصلہ کن معاملہ طے نہیں ہوپائے گا۔ لہٰذا یہ کشمکش اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ اس فساد سے نبرد آزماء روحیں فیصلہ کن سچائی کو حاصل کرلیں اور اسے مستقل محفوظ رکھنے کے لیے تیار نہ ہو جائیں۔
ان سب اسباب کی خاطر، اور دیگر دوسری چیزوں کی وجہ سے جو اللہ سبحان تعالی جانتا ہے؛ فتح کی گھڑی ذرا دیر سے آئے گی؛ اس لیے قربانیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی، اور تکلیفیں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ اللہ تعالی ان لوگوں کی حفاظت کرے گا جو ایمان لائے اور آخر کار ان ہی کو فتح عطا کی جائے گی۔
اللہ سبحان تعالی مومنو اور مجاہدین اسلام کو حضورِ اکرم محمد ﷺ کی غلامی عطا فرمائے اور دشمنانِ اسلام اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور نصرت اور سکینت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمیین
“والنصر قد يبطئ على الذين ظُلموا وأُخرجوا من ديارهم بغير حقٍّ إلا أن يقولوا: ربنا الله، فيكون هذا الإبطاءُ لحكمةٍ يريدها الله.
قد يبطئ النصر لأنّ بُنية الأمّة المؤمنة لم تنضجْ بعدُ نضجَها، ولم تحشدْ بعدُ طاقاتِها، ولم تتحفّزْ كلُّ خليّةٍ وتتجمّعْ لتعرفَ أقصى المذخور فيها من قُوىً واستعدادات. فلو نالت النصرَ حينئذٍ لفقدته وشيكاً، لعدم قدرتها على حمايته طويلاً.
وقد يبطئ النصر حتى تبذل الأمّةُ المؤمنةُ آخر ما في طوقها من قوّة، وآخر ما تملكه من رصيد، فلا تستبقي عزيزاً ولا غالياً إلا بذلته هيّناً رخيصاً في سبيل الله.
وقد يبطئ النصر حتى تجرّبَ الأمّةُ المؤمنة آخر قواها، فتدرك أن هذه القوى وحدها بدون سند من الله لا تَكفَل النصر. إنما يتنزّل النصر من عند الله عند ما تبذل آخر ما في طوقها، ثم تَكِلُ الأمرَ بعدها إلى الله.
وقد يبطئ النصر لتزيدَ الأمّةُ المؤمنةُ صلتها بالله، وهي تعاني وتتألم وتبذل، ولا تجد لها سنداً إلا الله، وهذه الصلة هي الضمانة الأولى لاستقامتها على النهج بعد النصر عندما يتأذّن به الله، فلا تطغى ولا تنحرف عن الحق الذي نصرها به الله.
وقد يبطئ النصر لأن الأمّة المؤمنة لم تتجرّد بعد في كفاحها وبذلها وتضحياتها لله ولدعوته، فهي تقاتل لمغنمٍ أو حميّة أو شجاعة. والله يريد أن يكون الجهاد له وحده وفي سبيله، وقد سئل رسول الله ﷺ عن الرجل يقاتل حميّة، والرجل يقاتل شجاعة، والرجل يقاتل ليُرى، أيّها في سبيل الله. فقال: “من قاتل لتكون كلمةُ الله هي العليا فهو في سبيل الله”.
كما قد يبطئ النصر لأن في الشرِّ الذي تكافحه الأمّة المؤمنة بقيّةً من خير، يريد الله أن يجرّدَ الشرَّ منها ليتمحّضَ خالصاً، ويذهبَ وحده هالكاً، لا تتلبّسُ به ذرّةٌ من خير تذهب في الغِمار!
وقد يبطئ النصر لأنّ الباطل الذي تحاربه الأمّة المؤمنة لم ينكشف زيفُه للناس تماماً. فلو غلبه المؤمنون حينئذٍ فقد يجد له أنصاراً من المخدوعين به، لم يقتنعوا بعدُ بفساده وضرورة زواله، فيشاء الله أن يبقى الباطل حتى يتكشّف عارياً للناس، ويذهبَ غيرَ مأسوفٍ عليه من ذي بقيّة!
وقد يبطئ النصر لأنّ البيئة لا تصلُحُ بعدُ لاستقبال قيم الحقّ والخير والعدل التي تمثّلها الأمّة المؤمنة. فلو انتصرت حينئذٍ للقيَتْ معارضةً من البيئة لا يستقرّ لها معها قرار، فيظلّ الصراعُ قائماً حتى تتهيأ النفوس من حوله لاستقبال الحقّ الظافر واستبقائه!
من أجل هذا كله، ومن أجل غيره ممّا يعلمه الله، قد يبطئ النصر، فتتضاعفُ التضحيات، وتتضاعفُ الآلام، مع دفاع الله عن الذين آمنوا وتحقيق النصر لهم في النهاية”.
نسأل الله سبحان الله أن يمن على المؤمنين والمجاهدين في الإسلام بعبودية النبي محمد ﷺ ويمنحهم القدرة على الصمود في وجه أعداء الإسلام وقوى الطغيان ويمنحهم السكينة والطمأنينة. آمين ثم آمين
DG Digital, is a leading meme marketing agency in india, dedicated to helping small busine...