اسرائیل فلسطین تنازعہ تقریبا سو سال پرانا ہے اور حالیہ پیش رفت صرف اس کا پیش خیمہ ہے جس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی۔ شیخ عمران این حسین نے تقریباً دو عشرے قبل کتاب " یروشلم فی القرآن" لکھی تھی اور انہوں نے کہا کہ یہ کتاب آج سے قبل نہیں لکھی جا سکتی تھی، کیونکہ صرف پچھلے چند سالوں میں یہودیوں کے پوشیدہ منصوبوں نے ان حالات کو واضع کیا ہے۔ آج تو حالات اس قدر واضح طور پر سامنے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات پر شک کر سکتے ہیں کہ دنیا پر تسلط کے لیے یہودیوں نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔ صیہونی یہودیوں کے غلبہ میں ڈوبے میڈیا کی طرف سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے پر متبادل رائے کے لیے ہم یہاں اس کتاب کے اردو ترجمہ کا دوسرا حصہ باب اول "مقدس سرزمین اور اسرائیل کی ریاست کا سیاسی شرک"؛ پیش کر رہے ہیں۔
﷽
یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ
دوسرا حصہ
باب اول
مقدس سرزمین اور اسرائیل کی ریاست کا سیاسی شرک
اور ہم نے موسٰی (علیہ السلام) کو کتاب (تورات) عطا کی اور ہم نے اسے بنی اسرائیل کے لئے ہدایت بنایا (اور انہیں حکم دیا) کہ تم میرے سوا کسی کو کار ساز نہ ٹھہراؤ۔
(قرآن، بنو اسرائیل، 17:2)
شرک ابراہیم علیہ السلام کے خدا کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا ہے؛ اس میں کوئی بھی لغزش اس ایک خدا کی عبادت میں شرک ہے۔ کفر حق کا انکار ہے۔
اسرائیل مقدس سرزمین پر واقع ایک جدید سیکولر ریاست ہے۔ اس کا سیاسی نظام سیکولرازم کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس جدید سیکولر ریاست کا مذہبی جواز کیا ہے؛ جب اسے ابراہیم علیہ السلام کے مذہب کے قوانین کے مطابق دیکھا جائے؟ اور کیا ایسی سیکولر ریاست، جو مقدس سرزمین پر قائم ہے، دینِ ابراہیم کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، یا اس مقدس سرزمین کی وراثت کے لیے خدائی شرائط کی خلاف ورزی کرتی ہے؟ ؟ اس باب میں ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
آج کا ورلڈ آرڈر
یہ عجیب بات ہے کہ ایسی دنیا جو آج بھی بہت سی عظیم غیر یورپیوں تہذبوں پر مشتمل ہے۔ مگر اس کا کسی بھی علاقے پر کنٹرول نہیں ہے۔ آج دنیا میں ہر جگہ بنی نوع انسان یورپی تہذیب کی حکمرانی کے تابع ہے اور اس کے سیکولر ریاست کے یورپی ماڈل کو قبول کیا گیا ہے۔ اس سیکولر ریاستوں کے یورپی نظام نے بالآخر ایک نیا بین الاقوامی سیاسی ادارہ تیار کیا جس کا نام (ابتدائی طور پر) لیگ آف نیشنز بعد میں اقوام متحدہ کے نام کے طور پر قائم ہوئی۔
اقوام 'متحدہ کے نام ہی سے ظاہر ہوا کہ یورپ کی جانب سے نیو ورلڈ آرڈر کا ہدف رکھا گیا تھا کہ دنیا کو یورپی سیاسی اثر و رسوخ اور کنٹرول کے ما تحت رکھا جائے؛ تاکہ یورپ آخری وقت میں دنیا پر حکمرانی قائم رکھ سکے۔ جس وقت یہ کتاب لکھی جا رہی ہے اس وقت یورپ اس سیاسی حکمت عملی کی حتمی اور مکمل کامیابی کے بالکل قریب کھڑا ہے۔ دنیا کی تمام غیریورپی تہذیبیں خود کو اس سیکولر یورپی غلبہ سے آزاد کرانے میں بے بس نظر آتی ہیں۔
تاہم، اس یورپی کوشش کا حتمی نتیجہ ممکن یہ بنانا تھا کہ یہودیوں کو مقدس سرزمین پر واپس لایا جائے اور یہودیوں کو اقتدار دلایا جائے تاکہ وہ یروشلم سے دنیا پر حکومت کر سکیں۔
قرآن (الانبیاء، 21:96) نے بہت واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ جب یاجوج اور ماجوج کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آزاد کیا گیا تھا کہ وہ " ہر اونچائی سے نازل ہوں گے" اس کے نتیجے میں، وہ لوگ جو ایک شہر سے نکالے گئے تھے؛ جسے اللہ تعالیٰ نے تباہ کر دیا اور جس میں ان لوگوں کی واپسی ممنوع تھی کہ وہ لوگ اس شہر کو دوبارہ حاصل کرلیں۔ اس کتاب نے دلیل دی ہے کہ وہ 'قصبہ' یروشلم ہے۔ جب یاجوج ماجوج ہر بلندی سے اتریں گے تو خدائی اعلان کے مطابق بقیہ بنی نوع انسان کے لیے ان کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگا ۔
’’میں نے اپنے بندوں میں سے ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جن سے کوئی لڑائی میں مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ تم ان لوگوں کو بحفاظت "طُور" پر لے جانا، پھر اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو بھیجے گا؛ جو ہر بلندی سے نیچے اتریں گے"۔"
(صحیح مسلم)
مندرجہ بالا حدیث سے یہ واضح ہے کہ آج کی یورپی تہذیب (نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد) یاجوج ماجوج کی تہذیب ہے۔
جدید سیکولر ریاست کی پیدائش
جدید سیکولر ریاست یورو عیسائی تہذیب کے بعد ابھری۔ پراسرار طور پر اس پر اندر سے حملہ کیا گیا اور اسے بدحواس اور انقلابی تبدیلی کا نشانہ بنایا گیا۔ جس سے ایک ایسی تہذیب وجود پذیر ہوئی جو ظاہری طور پر عیسائیت اور یہودیت میں ایمان پر مبنی تھی۔ مگر در حقیقت وہ ایک ناقابل تلافی طاقتور، بنیادی طور پر بے خدا، حیرت انگیز گمراہ کن اور خوفناک حد تک زوال پذیر تہذیب کی پیدائش ہوئی۔ یہ سب سے منفرد واقعات میں سے ایک تھا جو یورپی تاریخ میں اب تک رونما ہوئے ہیں۔
جدید یورپی تہذیب کی بے دینی اس میں صاف ظاہر تھی۔ جو 'مادیت پرستی' کو اپنانے کا منطقی نتیجہ تھا اور یہ اس 'ایک آنکھ والا' علم کی اساس کی بنیاد پر ہوا جو اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ علم صرف ایک ماخذ سے حاصل کیا سکتا ہے؛ یعنی بیرونی مشاہدہ اور تجربہ۔ دوسری 'آنکھ'، یعنی اندرونی بدیہی روحانی بصیرت کو دوسرے ایسے ذریعہ کے طور پر مسترد کر دیا گیا جس کے ذریعے علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جدید سیکولر ریاست اس نئے سیاسی فلسفہ اور سیاسی نظریہ کے لیے یورپی بے دینی کے اطلاق کے نتیجے میں وجود میں آئی ۔ لیکن جبکہ سیکولر ریاست اس سے پہلے تاریخ میں نمودار ہوئی تھی، مگر یہ صرف جدید دور میں ہوا ہےکہ یہ ایک نئی سیکولر ورلڈ آرڈر کی دنیا وجود میں آئی جو تمام بنی نوع انسان کو اپنے لپیٹ میں لینے والا ایک عالمگیر واقعہ بن گیا۔ اور دور جدید کا ظہور اس یورپی انقلاب کے نتیجےہوا جس میں تمام بنی نوع انسان کو بے خدا سیکولر نظام کو سینے سے لگانا پڑا؛ اور جو سب بنی نوع انسان کو ایک واحد، عالمی، بے خدا، سیکولر اور زوال پذیر دنیا میں بدلنے کے لیے آگے بڑھا۔ یہاں کچھ ایسا کیا ہے جو اس کی وضاحت کرے؟ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صرف قرآن اس کی وضاحت کرتا ہے!
بے خدا یورپی انقلاب اس کے بعد سے ایک اور بھی پراسرار واقعہ تھا۔ جو ایک سائنسی اور تکنیکی انقلاب کے ساتھ تھا جس نے بے دین لوگوں کو بااختیار بنایا اور یورپ ایک ایسی 'طاقت' کے ساتھ ابھرا جو ناقابل تسخیر نظر آتا ہے؛ اور اسے ایسا 'گلیمر' دیا جس نے اسے ناقابل مزاحمت بنایا۔ بھاپ کے انجن، ٹرینیں، موٹر کاریں، ٹرک، جنگ کے لیے مشینی ٹینک، بھاپ اور تیل سے چلنے والے بحری جہاز، ہوائی جہاز، وغیرہ نے دنیا کو مکمل طور پر بدل دیا۔ جس میں شامل ہے اس کا سفر کرنا اور جنگ لڑنا؛ اورجس نے لوگوں کے رہنے کے طریقے کو بدل دیا۔ بجلی نے لوگوں کی زندگی کا حال بدل دیا۔ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف نے طویل فاصلے میں رابطے ممکن بنایا اور اس کے نتیجے میں، لوگوں کے رہنے کا طریقہ بدل گیا۔
ایک نسائی انقلاب نے عورت کو مردوں کی طرح معاشرے میں فعال کردار کو قبول کرنے کی آزادی دی۔ جو اللہ تعالی کے قائم کردہ اور مقرر کردہ عملی فرق کی خلاف ورزی ہے (قرآن، اللیل، 92:4)۔ اسے خواتین کی آزادی کے طور پر پیش کیا گیا!
جس کے نتیجے میں لوگوں کے رہنے کے انداز میں سب سے زیادہ اہم اور بدصورت تبدیلی آئی۔ نئے یورپ نے بنی نوع انسان پر لالچ اور ہوس کی بنیادی جبلتیں پر مسلسل حملے کی ہدایت کی۔ ایک جنسی انقلاب نے جنسی علم کو خواہ وہ قدرتی اور غیر فطری ہو کو ایک چمکتی دھوپ کی طرح عام کرنے کا وعدہ کیا کہ وہ آسانی سے اور آزادانہ طور پر دستیاب ہو۔
شادیوں کو بے کار سمجھا جانے کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور لوگ بغیر شادی شدہ ہوئے ایک ساتھ رہنے کا انتخاب کررہے ہیں۔ اور پھر بھی باعزت زندگی گزارنے والے سمجھے جاتے ہیں۔
ہم جنس پرستی؛ مردانہ اور زنانہ کو متبادل جنسیت کے طور پر دفاع کیا جا رہا ہے؛ اور ایسا کرنا مقبول ہو گا ہے؛ اب انسانی شعور میں ایسا ہونا قابل قبول ہے کہ ایک ہم جنس پرست پادری یا ربی عزت کا دعوی کرتے ہوئے منطرِ عام پر آجائےاور اس کے بعد بھی بطور دری ا ربی اپنا کام بھی جاری رکھے۔
درحقیقت، یہاں تک کہ لفظ 'ہم جنس پرستی' کو سیکولرائز کر دیا گیا ہے جس سے غیر فطری جنسی تعلقات سے منسلک سماجی نفرت کو دور کرنے کو کوشش کی گئی ہے۔ ایک غیر مشکوک عوام نے اس لفظ 'ہم جنس پرست'. نام کی بظاہر معصوم تبدیلی کو قبول کر لیا ہے۔ ایک صارفی انقلاب نے بنی نوع انسان کو نئی اشیائے خورد و نوش کی لاجواب بھوک میں مزید کے حاصل کرنے میں لگا دیا ہے۔ اور جو آنکھوں کو چمکا دیتی ہیں۔
نیا بے دین یورپ باقی دنیا کو فتح کرنے کے لیے 'طاقت' کا استعمال کرنے کے لیے آگے بڑھا اور اسے نوآبادیاتی بنایا، اور اس نے پھر تمام بنی نوع انسان کو بے خدا زوال پذیر یورپی طرز زندگی اور نئی صارفی ثقافت کی تقلید کی طرف مائل کرنے کے لیے 'گلیمر' کا استعمال کیا۔ بے دین یورپی انقلاب نے اپنے سیاسی موڑ کا مشاہدہ امریکی، فرانسیسی اور بالشویک انقلابات 1776، 1787-1800 اور 1917 کیا۔
مگر اس کا معاشی فیصلہ کن موڑ سود پر مبنی معاشی نظام کا ظہور ہوا، اور یہ مکمل طور پر پروٹسٹنٹ انقلاب کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا۔ اور ثقافتی موڑ تھا؛ خواتین کی آزادی کی جدوجہد کے ساتھ حقوق نسواں کے انقلاب کا ظہور۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی انقلاب سائنسی اور تکنیکی انقلابات کے بغیر ممکن نہ تھا۔
جدید سیکولر ریاست کا شرک اور کفر
ان انقلابات کے اختتام پر یورو مسیحی تہذیب نے؛ جس کی بنیاد خدا پر ایمان اور اس کی حاکمیت اور بالادستی پر ہوتی تھی ؛ مگر پھر اس نے ابراہیم علیہ السلام کے خدا کی حکمیت کو تسلیم نہیں کیا۔ اور نہ ہی خدا کا اختیار اور اس کے قانون اعلیٰ کے طور پر۔ ’جدید سیکولر ریاست‘ کو اب ’خودمختار‘ تسلیم کیا گیا، اور وہ شرک تھا!
’’!جدید سیکولر ریاست‘‘ کی اعلی اتھارٹی اور قانون کو اب تسلیم کیا گیا تھا۔ اور وہ شرک تھا
ریاست کو حلال قرار دینے کا اختیار مل گیا؛ یعنی جو ابراہیم علیہ السلام کے خدا کے پاس حرام تھا (غیر قانونی اور ممنوع) اسے جائز قرار دیا گا- اور وہ شرک تھا!
شرک بہت بڑا گناہ ہے۔ بے شک یہ تمام گناہوں سے بڑا گناہ ہے۔ یہ ایک ہی گناہ ہے کہ ابراہیم کے خدا نے اعلان کیا کہ وہ معاف نہیں کرے گا: "بے شک اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا (یا نہیں کرے گا)۔ لیکن وہ باقی سب کچھ معاف کر سکتا ہے۔ جس کو چاہے۔ اور جس نے شرک کا گناہ کیا اس نے بہت بڑا جرم کیا۔"
(قرآن، النساء، 4:48)
جس نے شرک کیا اور اسی حالت میں مر گیا وہ کبھی جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ "…. اللہ نے شرک کرنے والے کے لیے جنت میں داخل ہونا حرام قرار دیا ہے۔
ایسے لوگ جہنم میں رہیں گے۔ "
(قرآن، المائدہ، 5:72)
بتوں کی پوجا شرک کی سب سے واضح شکل ہے۔ شرک کی یہ شکل بڑی حد تک آج دنیا سے غائب ہے؛ لیکن شرک کی دوسری صورتیں بھی ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر فرعون نے موسیٰ علیہ السلام سے بات کرتے ہوئےاعلان کیا: "میں تمہارا رب العالمین ہوں" اور اس نے اپنی قوم کے سرداروں سے اعلان کیا: "اے سردارو! کیا میں تمھارے لیے کسی اور خدا کو نہیں جانتا بجز میں خود…" وہ شرک تھا!
فرعون کی عبادت مصری عوام کی طرف سے مطلوب تھا۔ اسے مصر کی سرزمین میں سپریم اتھارٹی کے طور پر اس کے اختیار کے تابع کرنے کے لئے، اور
اس کے قانون کو مصر کی سرزمین میں سپریم قانون کے طور پر تسلیم کرنا تھا۔ یہ بھی شرک تھا!
قرآن نے انکو جو حکم یعنی نظام قائم کرنے والوں ہوں کو بارہا تنبیہ کی ہے کہ قانون اور انصاف کی بنیاد اللہ کے قانون سے'علاوہ' یا 'خلاف' کرتے ہوں۔ تاہم، جب خدائی ہدایت کسی قوم تک پہنچتی ہے (جیسے یہودی، عیسائی، مسلمان) اور وہ اس ہدایت کو قبول کرتے ہیں، تب صورتحال بالکل مختلف ہوگی۔ اگر ایسے لوگوں کو علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنے کا موقع ملے اور پھر وہ نازل شدہ الہی کی بنیاد پر قانون اور اختیار قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ تو پھر قرآن واضح طور پر ان کی مذمت کرتا ہے اور ان پر کفر کا الزام لگاتا ہے۔ (کفر)، ظلم (ناانصافی) اور فسق (شرارت اور خوفناک گناہ):
"…. اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اس نے کفر کا ارتکاب کیا۔" "…. اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ظلم (ناانصافی اور ظلم) کا ارتکاب کیا۔ "…. اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ احکام کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ فسق (برائی اور بہت بڑا گناہ) کا ارتکاب کیا۔
(قرآن، المائدہ، 5:44-47)
فرعون کی طرف سے اعلان اور مصر کی سرزمین میں اس کا ٹھوس اطلاق شرک تھے، اسی طرح جدید سیکولر ریاست نے بھی یہی اعلان کیا۔ سو یہ بھی شرک ہے!
چونکہ ابراہیم علیہ السلام کی خدا نے اعلان کیا کہ: "جو شخص اللہ کے نازل کردہ کی قانون کی بنیاد پر فیصلہ کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ کفر (کفر)، ظلم (ناانصافی اور جبر) اور فسق اور بہت بڑا گناہ)"، اور جدید سیکولر ریاست نے بالکل ٹھیک یہی کیا ہے، یعنی اس کی پیروی کی۔
اس کے بعد سیکولر ریاست قائم کرنے والے یہودی، عیسائی، مسلمان وغیرہ تورات، زبور، انجیل اور قرآن کے ذریعے خدائی قانون حاصل کرنے کے بعد کفر، غلم اور فسق کے مرتکب ہیں!
اگر کوئی یہودی، عیسائی، یا مسلمان، جدید دور میں سیکولر ریاست کے قومی انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ اس ووٹ کا مطلب یہ ہوگا کہ اس نے جس پارٹی کو ووٹ دیا ہے وہ اسے حکومت کرنے کے لیے فٹ سمجھتا ہے۔ اور اگر وہ جماعت بحیثیت حکومت شرک کرے یا مرتکب ہو، کفر، غلم اور فسق کی، تو معنی یہ ہوگا کہ یہودی، عیسائی، یا مسلمان، اپنی جماعت اور اپنی حکومت کے شرک، کفر، ظلم اور فسق کی پیروی کرتا ہے!
قرآن نے اللہ کے حرام کو حلال قرار دینے کے عمل کو بھی شرک قرار دیا ہے؛ (اور اس کے برعکس بھی یعنی حلال کو حرام)۔ اس طرح ابراہیم علیہ السلام کے خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ جس میں اس نے یہود و نصاریٰ کو اس طرح کے بھیانک گناہ سےمنع کیا اور اس کی مذمت کی۔
" انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں / پادریوں اور زاہدوں/ ربیوں کو رب بنا لیا تھا اور مریم کے بیٹے مسیح (علیہ السلام) کو (بھی) حالانکہ انہیں بجز اس کے (کوئی) حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اکیلے ایک (ہی) معبود کی عبادت کریں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ان سے پاک ہے جنہیں یہ شریک ٹھہراتے ہیں"۔
(قرآن، التوبہ، 9:31)
جب یہودیوں نے اس طرح کام کیا تو حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان پر لعنت بھیجی: بنی اسرائیل میں سے ان لوگوں پر داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ ابن مریم کی زبان سے لعنت بھیجی گئی جنہوں نے ایمان کا انکار کیا۔ کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی اور ضرورت سے زیادہ اڑے رہے۔ انہوں نے اس چیز کی ممانعت کو نافذ نہیں کیا جو گناہ اور برائی تھی۔ جس کا انہوں نے ارتکاب کیا، یقیناً وہ برے اعمال تھے جو انہوں نے کیے تھے۔
(قرآن، المائدہ، 5:78-9)
جو شخص کسی نبی کی بددعا کے ساتھ فوت ہو جائے اس کا کوئی امکان نہیں کہ کبھی جہنم کی آگ کے شعلوں سے بچ جائے! اصل میں یہ ہے ایک قوم کے لیے منافقت کی اونچائی کا اعلان کہ وہ ابراہیم علیہ السلام کے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس کے بعد جس چیز کو اس نے غیر قانونی قرار دیا تھا اسے قانونی بنانے کے لیے آگے بڑھیں، اور جو اس کے پاس جائز تھا اسے حرام کرنے کے لیے آگے بڑھیں۔
" منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس؛ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں) سے ہیں۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بیشک منافقین ہی نافرمان/ سرکش اور فاسق ہیں ہیں"۔
(قرآن، التوبہ، 9:67)
اگر یہ شرک ہے کہ جب پادریوں اور ربیوں نے اللہ کے حرام کو حلال قرار دیا۔ تو یہ بھی شرک ہو گا جب کوئی حکومت اب وہی بات کرے اور اگر اس نے اس وقت انبیاء کی بددعا کمائی تو اب بھی وہ یہی کرے گا۔
اب اس موضوع کے مطالعہ کے لیے نقطہ نظر کا معمول کا طریقہ یہ ہے کہ جدید سیکولر افراد کی انتخابی سیاست میں ماننے والوں کی شرکت کے 'فائدہ اور نقصان' کو وزن کیا جائے۔ سیکولر ریاست کے محافظ اس کی خوبیوں پر فصاحت و بلاغت سے کچھ دلیل دیتے ہیں۔ اگر ہم انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیں گے تو ہماری کوئی سیاسی نمائینگی نہیں رہے گی۔ ہمارے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والا کوئی نہیں ہوگا"۔ سوچ کی زیادہ سنجیدہ سطح پر ایک اور دلیل اٹھائی جاتی ہے:
"انتخابی سیاست میں حصہ لینا بے خدا سیاسی نظام کو تبدیل کرنے کے لیے کسی بھی کامیاب جدوجہد کی شرط کو ضروری ہے"۔
شرک کے معاملے کو ایک خفیہ تخریب کاری کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ ":
"ہم اس انتخابات میں شرکت کریں گے۔ لیکن عوامی موقف کی بنیاد پر ایسا کریں گے کہ ہم سیکولر ریاست اور اس کے آئین کو نہیں مانتے؛ جس کا وہ تحفظ کرتا ہے۔ فرار کی یہ شق ہماری شرک سے حفاظت کرے گی"۔
ہمارا جواب یہ بتانا ہے کہ سیکولر ریاست میں انتخابی سیاست میں حصہ لینا بذاتِ خود سیکولر ریاست کے سیکولر کردار کو قبول کرنے کی علامت ہے۔ سیکولر ریاست وہی اعلان کرتا ہے جو فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا۔ وہ اعلان ہے: ریاست خودمختار ہے۔ اس کا اختیار اعلیٰ ہے۔ اس کا قانون اعلیٰ ہے۔ اور یہ شرک ہے!
جب لوگ سیکولر ریاست میں انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ اس دعوے کو قبول کرتے ہیں کہ ریاست کا خود مختار ہے۔ وہ اس کے سپریم اتھارٹی کے دعوے کو قبول کرتے ہیں، اور وہ اس کے قانون کو سپریم قانون تسلیم کرتے ہیں۔ جب مومنین ایسے انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں تو وہ شرک سے بچ نہیں سکتے۔
دوسری بات یہ کہ جب مومنین ایک سیکولر ریاست میں انتخابات میں ووٹ دیتے ہیں تو انہیں سیاسی جماعت کو ووٹ دینا پڑتا ہے۔ اگر وہ جماعت حکومت کے طور پر اس شے کو حلال ہونے کا اعلان کرے جسے ابراہیم علیہ السلام کے خدائے اعلیٰ نے حرام بنایاہو؛ یا اس طرح کے قوانین نافذ کرے تو پھر وہ حکومت شرک کرنے والی ہیں۔
دنیا بھر میں آج حکومتیں اور پارلیمنٹ سیکولر ہیں۔ ریاستیں پہلے ہی تقریباً ہر اس چیز کو حلال قرار دے چکی ہیں جنہیں اللہ نے حرام قرار دیا تھا۔
جب مومنین اپنا ووٹ ایسی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کے لیے ڈالتے ہیں؛ تو پہلے ہی شرک پر شرک کر چکے ہوتے ہیں۔ ایسے ووٹوں سے مراد ان کی قبولیت ہے؛ اس بات کی کہ سیاسی افراد ان پر حکومت کرنے کے لیے موزوں ہیں۔ اس طرح اہل ایمان ان کی شرک، کفر، ظلم اور فسق میں پیروی کرتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ یہ طریقہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی خلاف ورزی اور ترک کرنا ہے۔
آج دنیا بھر کی سیاسی جماعتیں اور حکومتیں انہی لوگوں پر مشتمل ہیں؛ جو حقارت کے ساتھ اس چیز کو حلال قرار دینے پر اڑے رہتے ہیں جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ جب کچھ افراد سختی سے حرام پر قائم رہتے ہیں تو انہیں اس کی خوفناک قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ روز روشن کی طرح سادہ سی بات ہے کہ جدید سیکولر دنیا پہلے ہی اس کی قیمت ادا کر رہی ہے۔ تو پھر وہ کیا ہے؟
"….اور پھر، جب وہ حقارت کے ساتھ ان کاموں پر اڑے رہے جس سے انہیں منع کیا گیا تھا۔ کرنے کے لیے، ہم نے ان سے کہا تھا (یعنی ہم نے ان کے لیے حکم دیا تھا) بندروں کی طرح حقیر بنو!
(قرآن، الاعراف، 7:166)
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اب بندروں کی طرح زندگی گزاریں گے، اس لیے آج ان افراد کی مجموعی بھوک اور جذبات پر کوئی روک تھام کی کوشش ناکام ہے جو کہ 'آخری وقت' میں دکھ رہا ہے کہ وہ گدھے کی طرح سرعام جنسی تعلقات کا ارتکاب کررہے ہیں۔
جدید سیکولر ریاست نے سود پر قرض دینے کو قانونی حیثیت دی۔ ایک مسلسل بڑھتی ہوئی جدید سیکولر ریاستوں کی تعداد پہلے ہی جوئے اور دیگر کو قانونی حیثیت دے چکی ہے؛ جیسے (اور لاٹری)، نشہ آور اشیاء (مثلاً الکحل) اور خنزیر کے گوشت کا استعمال اور فروخت، کاغذی رقم جو مسلسل قیمت کھو دیتی ہے۔ اسقاط حمل، ہم جنس پرستی، اور زنا۔
دنیا بھر میں آج زیادہ تر جدید سیکولر ریاستیں اللہ کو تسلیم نہیں کرتیں۔ قانون کے مطابق بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دوگنا وراثت میں ملنا چاہیے۔ وہ ایسے قانون کو خواتین کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیتے ہیں۔ اور وہ اپنے قوانین قائم کرتے ہیں، جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ کے قوانین سے زیادہ موثر ہیں۔ درحقیقت ان کا قانون کوئی قانون نہیں۔
کوئی شخص اپنا سب کچھ کسی بھی گدھے کے لیے چھوڑ سکتا ہے۔ مگر اپنی جائیداد اپنی بیوی اور بچوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑ سکتا۔ جدید سیکولر ریاست نے ایک مرد کو ایک وقت میں ایک سے زیادہ خواتین سے شادی کرنے سے منع کیا ہے۔ اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ خواتین کے خلاف امتیازی سلوک ہوگا۔ بلکہ وہ بنا چکے ہیں قانون کہ مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیویاں نہ رکھے، اور ان کا دعویٰ ہےکہ یہ عورتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو دور کرتا ہے جو اللہ کے قانون میں موجود ہے۔ اس متبادل کے نتیجے میں ایک جنسی انقلاب آیا ہے جو خود شادی کا مذاق اڑا رہا ہے!
اس کے بعد سے اب کسی بیوی کے لیے کوئی قانونی یا اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی فرمانبرداری کرے۔ اس کی مخالفت مرد اور عورت کی مساوات کا امتیازی سلوک کہلائے گا۔ سورج نے کبھی نہیں اس جدید اجنبی دنیا کے مقابلے میں کوئی دنیا دیکھی ہو؛ جو بے لگام، بے خدا، اور زبردست مسحور کن جدید یورو ورلڈ ہے۔ اور یہ یقیناً ایک ناگوار علامت ہے!
ابراہیم علیہ السلام کے دین کی وضاحتی خصوصیت یہ ہے کہ وہاں کفر (اللہ کا انکار) اور شرک ( ایک سچے خدا کی عبادت نا کرنا) کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مگر پھر بھی نئے سیکولر سیاسی نظام نے بے خدا یورو-مسیحی تہذیب کو جنم دیا ہے– جسے اب جدید مغربی تہذیب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دراصل کفر و شرک پر مبنی ہے۔
اقوام متحدہ کا ادارہ شرک پر قائم ہوا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر نے اعلان کیا کہ اللہ تعالی معبود اعلی نہیں ہے! اس کے چارٹر کا آرٹیکل ۲۴ اور ۲۵ اعلان کرتا ہے کہ سلامتی کونسل کو پوری دنیا میں اعلیٰ اختیار حاصل ہے۔
بین الاقوامی امن اور سلامتی سے متعلق معاملات، سیکورٹی کونسل کا اختیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات سے بالاتر ہے۔ یہ شرک ہے۔
پھر ہم بنو اسرائیل کی مقدس زمین پر ایک جدید سیکولر ریاست کو قبول کرنے کی وضاحت کیسے کریں؟ اور ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرف سے جدید سیکولر ریاست کو خلافت کے متبادل کے طور پر قبولیت کی وضاحت کیسے کرسکتے ہیں؟ ؟ شاید ہمارے لیے یہ لمحہ مناسب ہوگا کہ ہم یہ بتائیں کہ خلافت کیا تھی اور پھر اس کا موازنہ جدید سیکولر ریاست سے کریں۔ آج دنیا کی جہالت ایسی ہے کہ مسلمان بھی اس موضوع سے بے خبر ہیں۔
خلافت اور جدید سیکولر ریاست
اسلامی خلافت بعینہ ریاست اور سیاسی نظام کا ایسا تصور تھا۔ جس نے اللہ کی حاکمیت، اعلیٰ اتھارٹی اور قانون کو تسلیم کیا۔ حرام کو حرام اور حلال کو حلال نافذ کیا۔ اس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی خلافت معرض وجود میں آئی جو اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اللہ کی اطاعت گذاروں کی فرمانبرداری کا تقاضا کرتا ہے۔
’’اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو آپ میں سے ہیں۔ اور جو (فیصلوں کے مقاموں) پر ہیں…. "
(قرآن، النساء، 4:59)
اسلام نے منقسم وفاداریوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا – کہ کوئی اعلیٰ وفاداری پیش کر سکے۔ ریاست کے لیے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے اعلیٰ ترین وفاداری بھی پیش کریں۔ دو الگ دنیائیں (مذہب اور سیاست کی دنیا) کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جانا تھا۔ قرآن نے اعلان کیا کہ اللہ اوّل اور آخر، ظاہر اور پوشیدہ ہے۔
(قرآن، الحدید، 57:3)۔ اعلیٰ وفاداری اللہ کے ساتھ ہونی چاہیے ریاست کے ساتھ نہیں۔
چونکہ قرآن نے مومنین سے کہا ہے کہ:
"کہہ دو: بے شک میری نماز، اور میری عبادت، اور میری زندگی اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
(قرآن، الانعام، 6:162)
یورپ نے ریاست اور سیاسی نظام کے اس اسلامی ماڈل کو تب تباہ کر دیا۔ جب خلافت عثمانیہ کو نشانہ بنا کر تباہ کیا گیا۔ یورپ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھا کہ اسلامی خلافت کبھی بحال نہیں ہو سکے۔ اس نے ایسا کرنے کے لیے حجاز میں سعودی عرب کی سیکولر ریاست کی تخلیق میں مدد کی۔ اور پھر اس کی بقا کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھا اس ریاست کی حفاظت کی ضمانت کے ذریعے اس کو یقینی بنایا کہ مندرجہ ذیل دو وجوہات کے لیے خلافت کبھی بحال نہ ہوسکے۔
سب سے پہلے، سعودی وہابی حکومت جس کو حجاز میں حرمین اور حج پر کنٹرول حاصل ہے؛ کبھی خلافت کا دعویٰ نہیں کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ جب تک حرمین، حجاز اور حج ان کے قابو میں رہیں گے؛ کوئی اور خلافت کا دعویٰ نہیں کر سکتا! بہت ساری وجوہات ہیں جو اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ یورپ نے اسلامی خلافت کو کیوں نشانہ بنایا اور تباہ کیا۔
پہلا مقصد یہودیوں کو آزادی دلانا اور مقدس زمین پر ان کی واپسی کے مقاصد کے حصول کو آسان بنانا تھا۔ اور دوسرا ممکن بنانا تھا کہ شرک کو اور سیکولر ریاست کے نئے یورپی ماڈل کو عالمگیر قبولیت دلانا۔ جب خلافت تباہ ہو گئی تو ترکی کی جدید سیکولر ریاست نے اس کی جگہ لے لی۔ اور سعودی عرب کی سیکولر ریاست سنی اسلام کی عرب کے مرکز میں قائم ہوا۔ اس کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کو سیکولر جمہوریہ پاکستان کو گلے لگانے کے دھوکے میں ڈالا گیا۔
اسلامی خلافت کو تباہ کرنا پڑا کیونکہ وہ نئے بے خدا یورپی ایجنڈے میں حتمی مقصد کے حصول میں رکاوٹ تھی۔ وہ یورپین مقصد یہودی اسرائیل کو دنیا کی 'حکمران ریاست' کے طور پر قائم کرنا تھا - جو دنیا پر یروشلم سے حکومت کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی تھی کہ خلافت غائب ہوجائے گی؛ انہوں نے درج ذیل حدیث میں ایسا ہی کیا:
اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب ابن مریم تمہارے اور تمہارے امام کے درمیان نازل ہوں گے۔ (یعنی امیر المومنین یا خلیفہ) آپ کے درمیان سے ہوں گے (یعنی وہ ایک مسلمان ہونگے)"؟ (صحیح، بخاری)
اس حدیث سے تین چیزیں معلوم ہوتی ہیں: سب سے پہلے اس نے ہمیں اطلاع دی کہ خلافت دنیا میں آخری وقت میں موجود ہوگی۔ یہ ایک پیشین گوئی کے مترادف تھا کہ دنیا سے خلافت ختم ہو جائے گی۔ لیکن وہ ایک دن بحال ہو جائے گی۔
دوم، خلافت کی بحالی سے پہلے، مسلمان ایک مدت تک حاکمیت، کنٹرول اور ان لوگوں کی حکومت میں ماتحت ہونگے جو مسلمان نہیں ہوں گے۔آج یہ وہی دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں۔
تیسرے یہ کہ خلافت کی واپسی ایک ایسا واقعہ ہو گا جو مریم کے بیٹے کی واپسی کے ساتھ ہم عصر ہوگا۔ اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب یسوع علیہ السلام واپس آئیں گے تو وہ یروشلم سے ایک عادل حکمران کے طور پر دنیا پر حکومت کریں گے۔ اللہ کے قانون کو نافذ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ارض مقدس پر اسرائیل کی جدید سیکولر ریاست کو میں مستند اسلامی ریاست کی طرف سے تبدیل کیا جائے گا جو سیکولر اسرائیل کے شرک سے آزاد ہوگا۔
جو لوگ سیکولر اسلامی ریاستوں کے جمود کا ڈٹ کر دفاع کرتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی پر ذراغور کرنے کے لیے ٹہریں جو خلافت کی بحالی سے متعلق ہے۔
To be continued in Part-2 of this chapter