یہ بدن نہیں؛ آتما رقص میں ہے

Dance is an art form that involves moving the body in a rhythmic way, often to music, to express ideas, emotions, or simply to enjoy the movement. Dance is a performing art and is practiced in all civilizations, society and tribes of the world. This write up "یہ بدن نہیں؛ آتما رقص میں ہے" is an Urdu Poetic translation of the work from Khalil Gibran "The Dancer".

2024-11-24 11:01:53 - Muhammad Asif Raza


یہ بدن نہیں؛ آتما رقص میں ہے


شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے " رقص و موسیقی" کے ضمن میں ایک قطعہ فرمایا ہے؛ پیشِ خدمت ہے کہ


شعر سے روشن ہے جانِ جبرئیل و اہرمن

رقص و موسیقی سے ہے سوز و سُرورِ انجمن

فاش یوں کرتا ہے اک چینی حکیم اسرارِ فن

شعر گویا رُوحِ موسیقی ہے، رقص اس کا بدن!


خلیل جبران کی تحریر " رقاصہ" کا منظوم ترجمہ


ایک دفعہ کا ذکر ہے؛

ایک رقاصہ اور اس کے ہم رکاب موسیقار؛ 

بِرکاشا کے شہزادے کے دربار تک پہنچے۔

 

وہ شہزادے کی محفل میں داخل ہوئی؛ 

اس نے وہاں؛ موسیقی پر رقص کیا۔

اس موسیقی میں بانسری، ستار، ہارمونیم، اور سنتور کی دھنیں شامل تھیں۔


اس نے جو رقص کیا؛ وہ

شعلوں اور آگ کا رقص تھا؛

وہ تلواروں کا اور نیزے کا رقص تھا۔ 


اس نے رقص کیا؛ 

ستاروں کا رقص اور خلا میں معلق رقص؛ 

اور پھر اس نے وہ رقص کیا، جو 

رقص تھا، ہوا کے تھپیڑوں میں پھولوں کا رقص۔ 


اپنے رقص کو ختم کرتے ہوئے؛ 

وہ شہزادے کے قریب آئی؛ 

اور جھک کر فرشی سلام کیا۔


تب شہزادے نے اسے اشارہ سے قریب بلایا؛

 اور اس کے کانوں میں بولا؛ 

 

 اے خوبصورت رقاصہ"؛ 

تمکنت اور حسن کا امتزاج ہوتم؛ 

اے بنتِ خوش بختی؛ 

 کہاں سے سیکھا ہے تم نے یہ فن؟

 

اور یہ کیسا ربط ہے؟ کہ

عالم کے سارے عناصر؛  

تمھاری سر تال اور شاعری میں، تمھاری گرفت میں ہیں۔ 


رقاصہ ذرا اور قریب آئی؛ 

پھر دوبارہ شہزادے کو فرشی سلام کیا؛ 

اور عرض کی: 


"مہربانِ ذیشان عالم پناہ؛  

اے کاش میں جانتی؛ آپکے سوالوں کا جواب۔ 

مگر اتنا جانتی ہوں کہ

 

فلسفی کی روح کا مسکن ہے اس کا دماغ؛ اور

دل میں بستی ہے؛ شاعر کی روح؛

اور گلے میں رچ بس گئی ہے، گلوکار کی روح؛

لیکن رقاص کی روح؛ 

اس کے سارے جسمانی پیکر کا حصہ ہے۔

اسکا بدن نہیں بلکہ آتما رقص کرتی ہے۔ 

Khalil Gibran's Writes "The Dancer"

Once there came to the court of the Prince of Birkasha a dancer with her musicians. And she was admitted to the court, and she danced before the prince to the music the lute and the flute and the zither.


She danced the dance of flames, and the dance of swords and spears; she danced the dance of stars and the dance of space. And then she danced the dance of flowers in the wind.


After this she stood before the throne of the prince and bowed her body before him. And the prince bade her to come nearer, and he said unto her, “Beautiful woman, daughter of grace and delight, whence comes your art? And how is it that you command all the elements in your rhythms and your rhymes?”


And the dancer bowed again before the prince, and she answered, “Mighty and gracious Majesty, I know not the answer to your questionings. Only this I know: The philosopher’s soul dwells in his head, the poet’s soul is in the heart; the singer’s soul lingers about his throat, but the soul of the dancer abides in all her body.”


More Posts