پاکستان کے نعت گو شعراء
Naat is a Poetic expression of love and respect in the honour of Hazrat Muhammad (PBUH). The art of saying Naat was established well before the creation of Pakistan. This article takes a cursory look into the Poetic Naat Expressions and 02 x famous poets who articulated those verses and are known for their mastery.
2023-09-23 13:27:27 - Muhammad Asif Raza
"پاکستان کے نعت گو شعراء
ایسی شاعرانہ تخلیق جو اشعار کے قالب میں ڈھلی ہو اور ختمی مرتبتﷺ کی مدحت سے وابستہ ہو، نعت کہلاتی ہے۔ نعت کی کوئی خاص ہیئت تجویز نہیں کی گئی ہے۔ شعراء نے صنف شاعری کے جتنے وصف ہیں؛ ان میں نعتیہ اشعار کہے ہیں۔ اردو زبان میں نعت عربی اور فارسی سے مروج ہو کر پہنچی ہے۔ کئی شعراء نے باقاعدہ نعت لکھی ہے اورکچھ نے صرف نعت گوئی ہی میں وقت صرف کیا؛ تاہم ایسے بھی شعراء ہیں جنہوں نےغزل میں نعت کے ایک دو شعر نظم کہے۔ چونک اردو زبان، عربی اور فارسی سے مستعار ہے سو ابتداء میں اکثر
شعراء کا قصیدہ اور مثنوی کی شکل میں حمد و نعت قلم بند کرنے کا وتیرہ رہا۔
زِ کردہ خویش حیرانم، سیہ شُد روزِ عصیانم پشیمانم، پشیمانم، پشیماں، یا رسول اللہ
چوں بازوے شفاعت را، کُشائی بر گنہ گاراں مکُن محروم جامی را، درا آں، یا رسول اللہ
میں اپنے کیے پر حیران ہوں اور گناہوں سے سیاہ ہو چکا ہوں۔ پشیمانی اور شرمند گی سے پانی پانی ہو رہا ہوں،یا رسول اللہ۔ اے اللہ کےرسول! روز محشر جب آپ شفاعت کا بازو گناہ گاروں پر کشادہ فرمائیں تو اس وقت جامی )شاعر(کو محروم نہ رکھیے گا۔
سرزمینِ پاکستان میں نعت گوئی اور نعت خوانی ایک مستند روایت کے طور پر آزادی سے قبل سے موجود ہے۔ اور شعراء نے عربی، فارسی، اردو اور علاقائی زبانوں میں نعتیہ اشعار کہے ہیں۔ نعت گوئی اور نعت خوانی کےاس پاکیزہ سلسلے کو عاشقانِ رسول ﷺ نے خوب آگے بڑھایا اور ایک خاصی تعداد میں اس نیک کام میں جُت گئے۔ا
مدحت اس کی کیوں نہ کریں، وہ مدحت کا حقدار بھی ہے
بعدِ خدا جواپنی حدوں میں، مالک بھی مختار بھی ہے
ابوالا ثر حفیظ جالندھری کو پاکستان کے قومی ترانے کا خالق ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ابوالا ثر حفیظ جالندھری کو بچپن ہی سے شعروسخن سے دلچسپی تھی؛ اور انہوں نے شعروادب کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا۔
شاہنامۂ اسلام ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ حفیظ جالندھری منفرد اور یکتا انداز میں شاعر کی ہےجو بے مثل ہے۔ انہیں اسلامی تاریخ کا بہت گہرا مطالعہ تھا اور انھوں نے اس کے مغز کو ہضم کرکے شعروں میں پرویا ہے۔ حفیظ جالندھری کو اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور ہندی پر عبور تھا اور انہوں نے اسکا مناسب استعمال کیا۔ی
ذیل میں انکی نعت گوئی کا نمونے حاضر ہے
غلاموں کو سریرِ سلطنت پر جس نے بٹھلایا
یتیموں کے سروں پر کر دیا اقبال کا سایا
گداؤں کو شہنشاہی کے قابل کر دیا جس نے
غرورِ نسل کا افسون باطل کر دیا جس نے
وہ جس نے تخت اوندھے کر دیے شاہانِ جابر کے
بڑھائے مرتبے دنیا میں ہر انسانِ صابر کے
وہ جس کا ذکر ہوتا ہے، زمینوں آسمانوں میںس
فرشتوں کی دعاؤں میں، مؤذِن کی اذانوں میںی
وہ جس کے معجزے نے نظْمِ ہستی کو سنوارا ہے
جو بے یاروں کا یارا، بے سہاروں کا سہارا ہے
وہ نورِ لَم یزل جو باعثِ تخلیقِ عالم ہے
خدا کے بعد جس کا اِسْمِ اعظم؛ اِسْمِ اعظم ہے
ثنا خواں جس کا قرآں ہے، ثنا ہے جس کی قرآں میں
اُسی پر میرا ایماں ہے، وہی ہے میرے ایماں میں
سلام اے آمنہ کے لال، اے محبوبِ سبحانی
سلام اے فخرِ موجودات، فخرِ نوع انسانی
سلام اے ظلِ رحمانی، سلام اے نورِ یزدانی
ترا نقشِ قدم ہے زندگی کی لوحِ پیشانی
سلام اے سرِّ وحدت، اے سراجِ بزمِ ایمانی
زہے یہ عزت افزائی، زہے تشریف ارزانی
ترے آنے سے رونق آگئی گلزارِ ہستی میں
شریکِ حالِ قسمت ہو گیا پھر فضلِ ربانی
سلام اے صاحبِ خلقِ عظیم، انساں کو سکھلا دے
یہی اعمالِ پاکیزہ، یہی اشغالِ روحانی
تری صورت، تری سیرت، ترا نقشہ، ترا جلوہ
تبسم، گفتگو، بندہ نوازی، خندہ پیشانی
اگرچہ فقرُ فخری رتبہ ہے تیری قناعت کا
مگر قدموں تلے ہے فرِ کسرائی و خاقانی
زمانہ منتظر ہے اب نئی شیرازہ بندی کا
بہت کچھ ہو چکی اجزائے ہستی کی پریشانی
زمیں کا گوشہ گوشہ نور سے معمور ہو جائے
ترے پرتو سے مل جائے ہر اک ذرے کو تابانی
حفیظِؔ بے نوا کیا ہے، گداےکوچۂ الفتش
عقیدت کی جبیں تیری مروت سے ہے نورانی
ترا در ہو مرا سر ہو، مرا دل ہو ترا گھر ہو
تمنا مختصر سی ہے مگر تمہید طولانی
سلام، اے آتشیں زنجیرِ باطل توڑنے والے
سلام، اے خاک کے ٹوٹے ہوئے دل جوڑنے والے
حفیظ تائب ایک عہد ساز نعت گو تھے ۔آپ کا اصل نام عبدالحفیظ ہے اور تائؔب تخلص فرمایا کرتے تھے۔ اپنے ذوق کے مطابق اردو اور پنجابی زبان کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ایف اے اور بی اے کیا ۔ بعد ازاں مختلف اطوار سے پنجب یونیورسٹی شعبہ ِ پنجابی میں تدریسی فرائض سرانجام دئیے۔ آپ کی شاعری نے نعتیہ شعرگوئی پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ حفیظ تائب نے اپنے نعتیہ سفر کو ایک تحریک کی شکل دی اور بہت سے شعراء کو نعت گوئی کی طرف راغب کیا ۔
کہا جاتا ہے کہ انہیں کینسر تشخیص ہوا اور فوری آپریشن تجویز ہوا۔ وہ جمع پونجی اکٹھا کرکے امریکہ گئے اور وہاں ڈاکٹروں نے آپریشن کی کامیابی اور ناکامی دونوں کے چانسز بیان کئے۔ انہوں نے یہ سوچا کہ جتنی زندگی ہے وہ تو انشاءاللہ ضرور پوری ہوگی تو پھر ایک ”بے مقصد آپریشن“ پر کیوں پیسہ ضائع کریں۔ وہ امریکہ سے سیدھے عمرے کے لیے سعودی عرب چلے گئے جہاں نمازوں کی پنجگانہ ادائیگی کے ساتھ ساتھ روضہء رسول کے پاس بیٹھ کر روتے رہے۔ دو تین دن کے عمل کے بعد ایک شخص نے آپ کو رونے کے بجائے اپنا مدعا بیان کرنے کا مشورہ دیا۔ حفیظ تائب نے اپنے پیارے رسولﷺ سے ”باتیں“ کرتے ہوئے اپنا مدعا ایسے انداز میں بیان کیا کہ ایک اجنبی کیفیت میں کھو گئے اور جب انہیں ہوش آیا تو ان کے جسم اور کپڑے پسینے سے شرابور تھے اور وہ خود کو انتہائی تروتازہ محسوس کررہے تھے۔ وہ اٹھے اور اگلے دن وطن واپس پہنچ گئے۔ پھر ڈاکٹروں سے دوبارہ چیک اپ کروایا جنہوں نے تشخیص کی کہ مرض میں نا صرف کمی واقع ہوئی بلکہ اب صرف ایک نشان سا دکھائی دیتا ہے۔ اللہ تعالی کے فضل سے حفیظ تائب اس موذی مرض کے ساتھ بھی زندہ رہے اور
خوشبوئے رسول ﷺ نے ان کے دامن کو معطر کیے رکھا۔
ذیل میں انکی نعت گوئی کا نمونہ حاضر ہے
دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی
ایک شیریں جھلک ایک نوری ڈھلک ، تلخ و تاریک ہے زندگی یا نبی
اے نوید مسیحا تری قوم کا حال عیسی کی بھیڑوں سے ابتر ہوا
اس کے کمزور اور بے ہنر ہاتھ سے چھین لی چرخ نے برتری یا نبی
کام ہم نے رکھا صرف اذکار سے ، تیری تعلیم اپنائی اغیار نے
حشر میں منہ دکھائیں گے کیسے تمہیں ہم سے ناکردہ کار امتی یا نبی
دشمن جاں ہوا میرا اپنا لہو میرے اندر عدو میرے باہر عدو
ماجرائے تحیر ہے پرسیدنی ، صورتحال ہے دیدنی یا نبی
سچ میرے دور میں جرم ہے عیب ہے ، جھوٹ فن عظیم آج لاریب ہے
گلشنوں ، شہروں ، قریوں پہ ہے پر فشاں ایک گھبیر افسردگی یا نبی
راز داں اس جہاں میں بناوں کسے ، روح کے زخم جاکر دکھاوں کسے
غیر کے سامنے کیوں تماشا بنوں ، کیوں کروں دوستوں کو دکھی یا نبی
زیست کے تپتے صحرا پہ شاہ عرب ، تیرا اکرام کا ابر برسے گا کب
کب ہری ہوگی شاخ تمنا مری ، کب مٹے گی مری تشنگی یا نبی
یا نبی اب تو آشوب حالات نے تیری یادوں کے چہرے بھی دھندلا دئیے
دیکھ لے تیرے تائب کی نغمہ گری ، بنتی جاتی ہے نوحہ گری یا نبی
ذیل میں انکی نعت گوئی کا نمونہ حاضر ہے
رہی عمر بھر جو انیسِ جاں، وہ بس آرزوئے نبیؐ رہی
کبھی اشک بن کے رواں ہوئی، کبھی درد بن کے دبی رہی
شہِؐ دیں کے فکر و نگاہ سے مٹے نسل و رنگ کے تفرقے
نہ رہا تفاخرِ منصبی، نہ رعونتِ نسبی رہی
سرِ دشتِ زیست برس گیا، جو سحابِ رحمتِ مصطفےٰؐ
نہ خرد کی بےثمری رہی، نہ جنوں کی تشنہ لبی رہی
تھی ہزار تیرگئ فتن، نہ بھٹک سکا مرا فکر و فن
مری کائناتِ خیال پر نظرِ شہِؐ عربی رہی
وہ صفا کا مہرِ منیر ہے، طلب اُس کی نورِ ضمیر ہے
یہی روزگارِ فقیر ہے، یہی التجائے شبی رہی
وہی ساعتیں تھیں سُرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی
بحضورِ شافعِؐ امّتاں مری جن دنوں طلبی رہی
آئیے اپنی زندگی کو نعتِ رسول ﷺ سے مزین کریں کہ اس سے بہتر کوئی ورد نہی؛ کوئی ذکر نہی۔ اوپر کی حدیث کے مطابق کیا خبر آقا کریم محمدﷺ ہماری ضمن میں ایسے ہی جذبات کا اعادہ کردیں۔ ہم تو غلام ابنِ غلام ہیں اور ہر عاشقِ رسول ﷺ کا اعجاز یہی ہے کہ آقا کریم ﷺ ہمیں اپنا کہہ دیں
اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹
اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹