In the four seasons of nature, after the rainy season comes autumn and winter. All the seasons are beautiful and life-giving, but people know and like some seasons better than others according to their nature. The Urdu poetry is rich in expressions about the human feelings about the Autumn and Winter seasons. Here in this write up, some selection from Urdu Poetry is being shared.
سردی کا موسم اور شاعری
قدرت کی چار موسموں میں برسات کے بعد خزاں اور سردی کا موسم آتا ہے۔ موسم تو سب ہی خوبصورت اور حیات آفرین ہوتے ہیں مگر انسان اپنی اپنی طبیعت کے حساب سے کچھ موسموں کو ایک سے دوسرے کو بہتر جانتے ہیں اور پسند کرتے ہیں۔
انسانوں میں بہت سے افراد سردی کے موسم کو بہت رومان پرور سمجھتے ہیں۔ اس میں سورج کی شدت اور آگ کی گرمی بھی مزا دینے لگتی ہے۔ ایک ایسا موسم جس میں یہ دونوں شدتیں اپنا اثر زائل کردیں اور لطف دینے لگیں؛ تو حسن پرور عاشق مزاجوں کیلئے ایک اور طرح کی بے چینی پیدا کر دیتا ہے۔ جہاں یہ موسم قربتوں میں آگ بھڑکاتا ہے وہاں رفاقتوں سے بجھڑے ہوئے ہجر کے ماروں کے جزبات کی شدتیں کم ہونے کے بجائے اور بڑھ جاتی ہیں ۔
سردی کے موسم کی اپنی ہی ایک شان وشوکت ہوتی ہے۔ قدرت میں ہر طرف پھیلا ہوا نظارا محسوسات کو مہمیز کرتا ہے۔ سرد ہوائیں جسم کو چیرتی ہوئی گزرتی ہیں۔ گرم ملبوسات زیبِ تن کرنے کے باوجود یوں محسوس ہوتا تھا جیسے رگوں میں خون جم گیا ہو۔
دوپہر کی دھوپ میں بیٹھ کر سنگترے، مالٹے کھانے کا اپنا سواد ہوتا ہے ؛ اسی طرح رات کا کھانا کھانے کے بعد انگیٹھی کے گرد بیٹھ کر جسم گرمانا اور مونگ پھلی کے ساتھ گفتگو کرنا اک اور ہی سواد ہے۔
سردی کے موسم کو اور بھی کئی زاویوں سے شاعری میں برتا گیا ہے ۔ بینگ باکس کے قارئین، ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز
رات بے چین سی سردی میں ٹھٹھرتی ہے بہت
دن بھی ہر روز سلگتا ہے تری یادوں سے
امت شرما میت
کتراتے ہیں بل کھاتے ہیں گھبراتے ہیں کیوں لوگ
سردی ہے تو پانی میں اتر کیوں نہیں جاتے
محبوب خزاں
تم نے لہجہ بھی سرد کر ڈالا
سردیوں کے عذاب کم تھے کیا
سرد لہجہ تھا پورے سال تِرا
ہم دسمبر کو کس لیے روتے
سرد موسم سے کچھ نہیں ہوتا
سرد لہجے عذاب دیتے ہیں
The Autumn and winter season starts right after the Rainy Season in South Asia. The month of October signals the end of rainy days and November cools down to evoke wintery feelings.
ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﺁﺧﺮ؟
ﻭﮦ ﺩﺭﺟﻦ ﺑﮭﺮ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ
ﺳﺪﺎ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﺲ ﻟﺌﮯ ﺁﺧﺮ
ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺧﺎﺹ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﺳﮩﻤﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺻﺒﺤﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺳﯽ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺷﺎﻣﯿﮟ
ﺩﻭﭘﮩﺮﯾﮟ ﺭﻭﺋﯽ ﺭﻭﺋﯽ ﺳﯽ
ﻭﮦ ﺭﺍﺗﯿﮟ ﮐﮭﻮﺋﯽ ﮐﮭﻮﺋﯽ ﺳﯽ
ﮔﺮﻡ ﺩﺑﯿﺰ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﮐﺎ
ﻭﮦ ﮐﻢ ﺭﻭﺷﻦ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺰﺭﮮ ﺣﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﻮﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ
ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ
ﻣﻠﻦ ﮐﯽ ﺁﺱ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ
” نومبر “اس لیے شاید
ہمیشہ خاص لگتا ہے
نظیر اکبرآبادی کی نظم " جاڑے کی بہاریں"۔
جب ماہ اگھن کا ڈھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور ہنس ہنس پوس سنبھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
دن جلدی جلدی چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
اور پالا برف پگھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
چلا غم ٹھونک اچھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
تن ٹھوکر مار پچھاڑا ہو اور دل سے ہوتی ہو کشتی سی
تھر تھر کا زور اکھاڑا ہو بجتی ہو سب کی بتیسی
ہو شور پھپو ہو ہو کا اور دھوم ہو سی سی سی سی کی
کلے پہ کلا لگ لگ کر چلتی ہو منہ میں چکی سی
ہر دانت چنے سے دلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں میں سردی نے آ باندھ دیا ہو یہ چکر
جو ہر دم کپ کپ ہوتی ہو ہر آن کڑاکڑ اور تھر تھر
پیٹھی ہو سردی رگ رگ میں اور برف پگھلتا ہو پتھر
جھڑ باندھ مہاوٹ پڑتی ہو اور تس پر لہریں لے لے کر
سناٹا باؤ کا چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر چار طرف سے سردی ہو اور صحن کھلا ہو کوٹھے کا
اور تن میں نیمہ شبنم کا ہو جس میں خس کا عطر لگا
چھڑکاؤ ہوا ہو پانی کا اور خوب پلنگ بھی ہو بھیگا
ہاتھوں میں پیالہ شربت کا ہو آگے اک فراش کھڑا
فراش بھی پنکھا جھلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
جب ایسی سردی ہو اے دل تب روز مزے کی گھاتیں ہوں
کچھ نرم بچھونے مخمل کے کچھ عیش کی لمبی راتیں ہوں
محبوب گلے سے لپٹا ہو اور کہنی، چٹکی، لاتیں ہوں
کچھ بوسے ملتے جاتے ہوں کچھ میٹھی میٹھی باتیں ہوں
دل عیش وطرب میں پلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہو فرش بچھا غالیچوں کا اور پردے چھوٹے ہوں آ کر
اک گرم انگیٹھی جلتی ہو اور شمع ہو روشن اور تس پر
وہ دلبر، شوخ، پری، چنچل، ہے دھوم مچی جس کی گھر گھر
ریشم کی نرم نہالی پر سو ناز و ادا سے ہنس ہنس کر
پہلو کے بیچ مچلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ترکیب بنی ہو مجلس کی اور کافر ناچنے والے ہوں
منہ ان کے چاند کے ٹکڑے ہوں تن ان کے روئی کے گالے ہوں
پوشاکیں نازک رنگوں کی اور اوڑھے شال دو شالے ہوں
کچھ ناچ اور رنگ کی دھومیں ہوں عیش میں ہم متوالے ہوں
پیالے پر پیالہ چلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
ہر ایک مکاں ہو خلوت کا اور عیش کی سب تیاری ہو
وہ جان کہ جس سے جی غش ہو سو ناز سے آ جھنکاری ہو
دل دیکھ نظیرؔ اس کی چھب کو ہر آن ادا پر واری ہو
سب عیش مہیا ہو آ کر جس جس ارمان کی باری ہو
جب سب ارمان نکلتا ہو تب دیکھ بہاریں جاڑے کی
بلال احمد کی نظم "دھند "۔
جب دسمبر میں دھند اترتی ہے
اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی، تہہ بہ تہہ ہم پہ فاش ہوتی ہوئی
یہ کسی یاد کے دسمبر سے دل کی سڑکوں پہ آ نکلتی ہے
راہ تو راہ دل نہیں ملتا دھند جب ہم میں آ ٹھہرتی ہے
کیف کی صبح خوش مقدر میں، یہ در راز ہم پہ کھلتا ہے
جیسے دل سے کسی پیمبر کے، رب کی پہلی وحی گزرتی ہے
راہ چلتے ہوئے مسافر پر یوں دسمبر میں دھند اترتی ہے
باغ بھی، راہ بھی، مسافر بھی راز کے اک مقام میں چپ ہیں
دھند ان سب سے بات کرتی ہے اور یہ احترام میں چپ ہیں
دھند میں اک نمی کا بوسہ ہے
میری آسودگی کے ہاتھوں پر ایک بسری کمی کا بوسہ ہے
ایک بھولی ہوئی کمی جیسے، دھند میں یاد کی نمی جیسے
میرے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے میری آنکھوں سے بات کرتی ہے
اپنے اسرار میں لپٹتی ہوئی جب دسمبر میں دھند اترتی ہے
In all the seasons that we have across the globe, one thing that matter the most is the companion ship that we must have. It all boils down to human relation ship and togetherness. The same has been so beautifully expressed by the Turkish poet and the same is being translated and shred here.
~ زمیں پر ایسے نہ جیو
_(ترکی شاعر "ناظم حکمت" کی ایک نظم)
زمیں پر ایسے نہ جیو
جیسے تم اجرت کی رہائش گاہ میں رہتے ہو
یا جیسے تم سرسبز وادیاں دیکھنے آئے ہو
بلکہ زمیں پر ایسے جیو
جیسے یہ دنیا تمہارے باپ کا گھر ہو!!
محبت پر بھروسہ کرو !!
اس زمین اور سمندر پر بھروسہ کرو !!
مگر ہر چیز سے پہلے
اپنا بھروسہ انسان کو عطا کرو
اپنی محبت بادلوں ، موسیقی اور کتابوں پر
بھی نچھاور کرو
لیکن ہر چیز سے پہلے انسان کو اپنی محبت بخشو!!
ایک تنہا خشک ٹہنی کا دکھ بھی محسوس کرو
اور ڈوبتے ستارے اور خاموش بیٹھے جانور کا بھی!!
لیکن ان سب سے پہلے
ایک انسان کی تنہائی محسوس کرو
زمین کی ساری رونقیں تمہیں مسرور کریں!!
چھاؤں اور دھوپ تمہیں خوشی دیں
اور چاروں موسم تمہارے چہرے پر ہنسی لائیں
مگر تمہاری سب سے پہلی خوشی
تمہیں انسان سے ہی ملے!!
~ Don't live like this on earth
_(A poem by Turkish poet "Nazem Hikmat")
Don't live like that on earth
As you live in a rented accommodation
Or as you have come to see the green valleys
Rather, live like this on earth
As if this world is your father's house!!
Trust in love!!
Trust this land and sea!!
But before everything else
Give your trust to man
On your love clouds, music and books
Take a shower too
But first of all, give your love to the person!!
Feel the sorrow of a lonely dry twig
And the sinking star and the animal sitting still!!
But before all these
Feel the loneliness of a human being
May all the splendor of the earth please you!!
Shades and sunshine may you be happy
And let the four seasons bring a smile to your face
But your first happiness
You got it from a human!!