انسان کی زندگی کا سفر ماں کی کوکھ سے شروع ہوتا ہے اور قبر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ کوئی دنیا کا خوبصورت ترین؛ امیر ترین، اور طاقتور ترین فرد ہی کیوں نہ ہوآخر کار مر ہی جاتا ہے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتا ہے۔ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ ایک بامقصد زندگی اور اس کی آخری منزل کا تعین صرف دین یا مذہب کرتا ہے۔ اس تحریر میں زندگی کے سفر کی اہمیت اور آخری منزل تک کی کامیابی پر گفتگو کی گئی ہے۔
سفر کیا ہے؟ منزل کہاں ہے؟
زندگی ایک عجب و غریب سفر ہے؛ ہم میں سے اکثر یہ تک نہیں جانتے کہ ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں اور ہمیں اس زندگی کو کیسے برتنا ہے؟ جب مقصد ہی پتا نہیں تو بھلا اچھا اور برا کی تفریق کیسے کی جائے؟ انسانوں کا جنگل ہو اور کوئی اپنے سفر سے آگاہ نہ ہو اور نہ ہی انکو اپنی منزل کا نشان معلوم ہوتو سوچیں؛ ایسا عالم کیسا ہو؟
بے نشان راستے ہیں؛ گمراہ قافلے ہیں؛ ایک شور ہے جو برپا ہے؛ اور ابن آدم بھاگا جارہا ہے؛ سرپٹ بھاگ رہا ہے؛ مگر منزل کہاں ہے؟ کیا یہ دوڑ ختم ہوگی؟
چلے تھے جس کی طرف وہ نشان ختم ہوا
سفر ادھورا رہا آسمان ختم ہوا
غلام مرتضی راہی
ہم نے نفرتوں کو اس قدر ترویج دی ہے کہ اس کی گونج ہر سو ہے؛
لالچ نے ہر بشر کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے؛
جھوٹ اتنا بولا گیا ہے کہ سچ کہیں دب کے رہ گیا ہے؛
اس پر ستم یہ ہے کہ محبت اور الفت سرگوشیوں میں بھی نہیں ہو رہی ۔
ہے کوئی جو بتائے شب کے مسافروں کو
کتنا سفر ہوا ہے کتنا سفر رہا ہے
شہریار
سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے
فارغ بخاری
مولانا روم نے فرمایا تھا کہ اچھے دن خود بخود ہماری جانب نہیں آتے بلکہ ہمیں انکی طرف جانا ہوتا ہے؛ خوشیاں کشید کی جاتی ہیں۔ لمحہ لمحہ؛ قطرہ قطرہ؛ فردا" فردا"۔
ہماری زندگیوں میں آنے والے انسان تین طرح کے ہوتے ہیں۔
1. پتے جیسے لوگ
2. ٹہنیوں جیسے لوگ
3. جڑ جیسے لوگ
پتے جیسے لوگ
یہ وہ لوگ ہیں جو آپ کی زندگی میں صرف ایک موسم کے لیے آتے ہیں۔ آپ ان پر انحصار نہیں کر سکتے کیونکہ وہ کمزور ہیں۔ وہ صرف جو چاہتے ہیں لینے آتے ہیں، لیکن جب مخالف ہوا چلی تو اُڑ جائیں گے۔
آپ کو ان لوگوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب چیزیں ٹھیک ہوں گی تو وہ آپ سے محبت کرتے ہیں، لیکن جب مخالف ہوا آئے گی، وہ آپ کو چھوڑ دیں گے۔
ٹہنیوں جیسے لوگ
وہ مضبوط ہیں، لیکن آپ کو ان کے ساتھ بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جب زندگی مشکل ہوجاتی ہے تو وہ الگ ہوجاتے ہیں، اور وہ بہت زیادہ وزن نہیں سنبھال سکتے۔ وہ کچھ موسموں میں آپ کے ساتھ رہ سکتے ہیں، لیکن جب بڑی مشکل کھڑی ہو جائے ؛ تو وہ چلے جائیں گے۔
جڑ جیسے لوگ
یہ لوگ بہت اہم ہیں کیونکہ وہ دیکھنے کے لیے کام نہیں کرتے۔ وہ آپ کا ساتھ دیتے ہیں یہاں تک کہ اگر آپ کسی مشکل وقت سے گزرتے ہیں تو وہ آپ کو پانی دیں گے اور وہ آپ کی پوزیشن سے متاثر نہیں ہوتے ہیں وہ آپ سے اس طرح پیار کرتے ہیں…
یہ وہ تمام لوگ نہیں ہیں جن سے آپ ملتے ہیں یا آپ کے دوست ہیں، جو آپ کے ساتھ رہیں گے۔ آپ کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ صرف جڑ قسم کے لوگ ہی رہیں گے چاہےکیسا موسم ہی کیوں نہ ہو۔
آئیے دعاگو ہوں کہ خدا ہم سب کی زندگی میں ایسے لوگوں کو ملائے جو بالکل جڑوں کی طرح ہوں اور جو اس فانی زندگی کے تمام موسموں میں ساتھ ساتھ رہیں۔
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی
ونسنٹ وان گوگ نے کہا تھا کہ " میں اکثر سوچتا ہوں کہ رات، دن سے زیادہ زندہ اور زیادہ رنگین ہوتی ہے"۔ یہ دیکھنے کا زاویہ ہے؛ اگر خوشیاں دن ہیں تو رات شاید دکھ درد ہیں؛ اور شاید نرگسیت یہ کہلاوادے کہ دکھ زیادہ روا ہوتے ہیں۔ مگر جیسا کہ اوپر بھی کہا ہے کہ خوشیاں کشید کی جاتی ہیں؛ ایک محنت، مشقت، اور محبت سے بھرپور دن کسی بھی رات سے زیادہ مسحور کن ہوتا ہے۔ رات تو صرف ایک تھکن سے چور نیند کے لیے ہوتی ہے۔ محنت سے محبت کشید کرنے والے حسین سہانے سپنوں والی خوشگوار نیند پاتے ہیں۔ انکے خواب رنگین ہوتے ہیں اور وہ ان خوابوں کی اچھی تعبیر بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے
احمد فراز
ہمیں آہستہ آہستہ ترقی کرنے یا آگے بڑھنے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیشہ اس کی پرواہ کرنی چاہیے کہ کہیں ہم غلط پہاڑ پر نہ چڑھ جائیں ۔ ہمیں غلط راستوں پر سفر کرنے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے سفر کبھی ختم نہیں ہوتے ؛ انکا انجام کبھی درست نہیں ہوتا۔
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
آشفتہ چنگیزی
ایک مغربی شاعر ہیں "کلیریسا پنکولا ایسٹس؛" انکی نظم " ہم غم بھلانے والے کیوں نہیں بنتے؟" میں کیا خوب پیغام دیا گیا ہے۔
ہم شفا دینے والے نہیں بنتے؛
ہم علاج کرنے والوں کے طور پر آئے تھے؛ کیا ہم ہیں؟
ہم میں سے کچھ اب بھی اس کو تلاش رہے ہیں جو ہم کو ہونا ہے۔
ہم کہانی کار، قصہ گو نہیں بنتے۔
ہم کہانیوں کے قاصد کے طور پر آئے تھے؛
ہم اور ہمارے باپ دادا نے اصل زندگی جی ہے؛ کیا ہم نے؟
ہم میں سے کچھ اب بھی اس کو تلاش رہے ہیں جو ہم کو ہونا ہے۔
ہم فنکار نہیں بنے؛ حالانکہ ہم فنکاروں کے طور پر آئے۔ کا ہم ہیں؟
ہم میں سے کچھ اب بھی اس کو تلاش رہے ہیں جو ہم کو ہونا ہے۔
ہم ادیب، رقاص، موسیقار، مددگار، امن ساز نہیں بنتے؛ کہ جس کے لیے ہم آئے ہیں؛ کیا ہم ہیں؟
ہم میں سے کچھ اب بھی اس کو تلاش رہے ہیں جو ہم کو ہونا ہے۔
ہم اس طرح سے محبت کرنا نہیں سیکھتے؛ حالانکہ ہم محبت کے لیے آئے تھے۔
کیا ہم محبت ہیں؟
ہم میں سے کچھ اب بھی اس تلاش میں ہیں کہ ہمیں کیا ہونا ہے؟ ہم واقعی کون ہیں؟
انسان کی زندگی کا سفر ماں کی کوکھ سے شروع ہوتا ہے اور قبر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ اگر زندگی محض دن رات کا سفر ہے اور یہ سفر " صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے " کے مصداق ہے تو " یہ عمر بھر کا سفر رائگاں ہی تو ہے"۔ پھر ہم چاہے دنیا کے خوبصورت ترین؛ امیر ترین، اور طاقتور ترین فرد ہی کیوں نہ ہوں ؛ ہم نے مر ہی جانا ہے اور مٹی میں مل کر مٹی ہوجانا ہے۔ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی ہونا ہے تو یہ زندگی کا سفر بیکار ہے اور اس کی کوئی منزل نہی ہوسکتی۔ ایک بے مقصد زندگی کا سفر پھر کسی طور طریقے، اصول اور قانون کی بھی کیوں محتاج ہوں؟ جب کوئی منزل ہی نہیں تو سفر کسی تہذیب اور تمدن کو کیوں پکڑے؟
لیکن ایسا نہیں ہے؛ آج انسان کا سارا ماضی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ زندگی کا سفر کسی نا کسی قانون کا پابند ہے اور انسانوں نے تہذیب اور تمدن کے معیارات پر فخر کیا ہے اور آج بھی جب انسانی آبادی آٹھ ارب پر مشتمل ہے تو مختلف علاقوں میں بسنے والے انسانوں نے اپنی اپنی قوموں پر تہذیب کی برتری کا دعوی کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زندگی کا سفر با مقصد ہونا چاہیے اور قبر کوئی منزل نہیں ہے بلکہ کوئی درمیانی مستقر ہے اور منزل کہیں اور ہے۔
ہزاروں سال کی انسانی تاریخ اس بات پر مدلل ہے کہ ایک بامقصد زندگی اور اس کی آخری منزل کا تعین صرف دین یا مذہب کرتا ہے۔ آج کے انسانی معاشرے میں حضرت ابراہیم علیہ السلام تین بڑے ادیان یا مذاہب کے مستند امام ہیں اور یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی بنیاد انکی تعلیمات ہیں۔ تینوں ادیان ہی زندگی کے سفر اور آخری منزل کی نشاندہی کرتے ہیں۔ دینِ اسلام ابراہیمی ادیان کا جوان ترین مظہر ہے اور اس کی بنیاد الہامی کتاب قرآن الحکیم اور آخری نبیﷺ محمد کی تعیمات ہیں۔
آئیے دیکھیں کہ دنیا کی فانی زندگی کا سفر کیا ہے اور آخری منزل کہاں ہے؟
’’ اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ‘‘(سورۃ المومنون:۱۱۵) ترجمۂ : تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
و
َ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ( سورۃ الذالذاریات: ۵۶) ترجمہ: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں ۔
’’ تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ٘- وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ( ) الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ-وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ‘‘( سورۃ الملک:۱،۲)
ترجمۂ: بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
اپنے وجود کو نرمی، شفقت اور رحمدلی کا مظہر کرلیں؛ تو انسانیت کے حسن کی مثال بن جئیں گے۔ دنیا میں ظلم اور نا انصافی کا مقابلہ کرنے کا بہترین طریقہ اعلی کردار اور عملی جدوجہد ہے۔ ہم میں سے ہر ایک بہترین معاشرہ کے تخلیق میں واضع فرق بن سکتا ہے۔