انسان کی جبلی خصلتوں میں کئی خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ متعدد خوبیاں ہوتی ہیں اور اگر وہ نہ ہوں تو کمزوریاں بن جاتی ہیں۔ نفرت بھی ایک انسانی جزبہ ہے اور نفرت کے الاؤ میں جلنے والے فخرِ انسانیت نہی ہوتے۔ نفرت کا عفریت انسان کو" اسفل سافلین " یعنی بدترین کردیتا ہے۔ نفرت انسانی جزبہ تو ہے مگر اس کا حامل انسان اشرف المخلوقات کے درجے سے گرجاتا ہے۔ یہ تحریر اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے قلم زد کی گئی ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
نفرت کا عفریت
کائنات کے خالق نے اشرف المخلوقات بنایا ہے آدم کو اور اولادِ آدم کو بتادیا کہ اس کا ایک دشمن بھی ہے۔ کھلا اور واضع اعلان کیا اور سمجھا دیا۔ مگر خالقِ کل خود رحمت اور کرم ہے اور اپنے بندوں سے کہتا ہے کہ اپنے رب العالمین سے جڑے رہو اور سکھی رہو۔ مگر انسان دنیا کی چمک اور نفس کی لذتوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر دنیا میں پھیلے آسیب اسے خوفزدہ کردیتے ہیں۔ ابن آدم کی شرست اسے خوف زدگی میں بھی من چاہے کی تلاش میں سرکرداں کر دیتی ہے۔ اور اس کی تلاش اسے ان قوتوں تک پہنچا دیتی ہے جو اس کی راہ میں رکاوٹ ہوتے ہیں؛ پھر جنم لیتی ہے نفرت۔ اور جتنی زیادہ لگن سے خواہش انگڑائی لیتی ہے اتنا ہی زیادہ نفرت بھی پیداہوجاتی ہے۔ یہاں تک کہ عفریت کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
نفرت انسانی رویوں میں دیگر جزبوں کی طرح ایک جذبہ ہے۔ ڈاکٹر جون اسکلیر کے مطابق ’’نفرت ایک ایسا جذبہ ہے، جو ہر انسانی ذہن میں موجود ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات اس کی شدّت اس قدر کم ہوتی ہے کہ ہماری دیگر اچھی عادات اس پر قابو پا لیتی ہیں، لیکن کسی شخص میں اس کی شدّت اس قدر بڑھ بھی جاتی ہے کہ وہ اس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اور دوسروں کی زندگیاں تک تباہ کر ڈالتا ہے"۔‘‘
نفرت وہ عفریت ہے؛ جس کی وجہ سے غصے کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ غصہ بڑھتا بڑھتا باغیانہ روش کو جنم دیتا ہے۔ باغیانہ روش خوف کا باعث محرک کے خلاف ہوتا ہے جو کسی انفرادی شخص یا اشخاص کے خلاف ہوتا ہے۔ نفرت کی بنیاد نظریہ بھی ہوتا ہے جو ملک، مذہب اور عقیدے کے خلاف بھی ہوتا ہے۔ نفرت کا عفریت اتنا خوفناک ہوتا ہے کہ اس انسان ہی کو تباہ کردیتی ہے جس کے دل میں یہ پلتا ہے۔ انسان جب محبت میں مبتلا ہوتا ہے تو محب کا غلط بھی صحیح لگتا ہے اور جب انسان نفرت میں گرفتار ہوجاتا ہے تو دوسرے کا صحیح بھی خراب اور سچ بھی جھوٹ لگتا ہے۔
اللہ سبحان تعالی نے قرآن میں انسان کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور شیطان انسان کو فقر اور تنگ دستی کا خوف دلاتا ہے ۔ وہ انسانی نفوس کے اندر حرص اوربخل کا بیج بوتا ہے۔ شیطان اولادِ آدم کو فحاشی کا حکم دیتا ہے۔ شیطان مستقبل کا خوف دلاتا ہے۔ وہ انسان کے دل میں وسوسوں کے ذریعے اچھائی کے ارادے کمزور کرتا ہے۔ وہ ایک انسان کو دوسروں سے بدگمان کرتا ہے۔ اور اللہ کے بندے کو اللہ کے سچے دین سے شک میں ڈالتا ہے اور کبھی دین پر عمل سے مشکلات اور تنہائی کا خوف دلاتا ہے۔ شیطان ابنِ آدم کو جب نفرت کی عفریت میں تبدیل کردیتا ہے تو وہ انسان ایک گرداب میں پھنس جاتا ہے اور پھر بھری دنیا میں وہ خود کو اندھیروں میں گھرا دیکھتا ہے؛ جیسے کوئی کشتی سمندری طوفان میں ڈولتی ہے۔
تکبر، غرور اور انانیت ناحق سے حاصل دولت اور طاقت کے چھن جانے اور بے وقعتی کے مستقبل کے خوف کے بطن سے ابھرتا ہے اور یہ رگوں میں دوڑتا خون اتنا گدلا دیتا ہے کہ انسان عام لوگوں کو حقیر اور کمتر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ یہ احساس پھر نفرت کی دیواروں کو کھینچ دیتا ہے اور انسان خود محبوس ہوجاتا ہے۔ اپنے ہی خوف اور اپنی ہی نفرت کا قیدی بن جاتا ہے۔
انسان اپنی شرست میں آزاد پیدا ہوتا ہے۔ اورخالقِ کل کی پہچان بھی اس کو ودیعت کیجاتی ہے۔ شیطان وسوسوں سے اس آزادی کی شرست پر ضرب لگاتا ہے۔ اور خوف کو پروان چڑھاتا ہے۔ وہ خوف نفرت میں بدلتا ہے اور نفرت میں انسان اپنی جون، اپنی حقیقت کھو بیٹھتا ہے۔ جو انسان اللہ کا عبد " بندہ " نہیں ہے وہ بھلا کیا انسان ہے؟ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے کہ " یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے؛ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا "۔ اللہ کا بندہ ایک صالح انسان ہوتا ہے اور انسان دوست ہوتا ہے؛ محبت کرتا ہے؛ ایثار کرتا اور قربانی دیتا ہے؛ اخوت اور مساوات پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ الغرض اللہ کا عبد خوف نہی پالتا اور پھر نفرت کا جذبہ بھی اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا۔
کیا یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نفرت کا جذبہ شیطان کی راہ پر چلنا ہوتا ہے؟ شیطان انسان کو نفرت میں مبتلا کرکے؛ جوش دلا کر قتل وغارت کرواتا ہے۔ یا جذبات میں بہا کر بدکاری میں مبتلا کراتا ہے۔ اشتعال دلا کر متعدد بد افعالیاں کرواتا ہے۔ خواہشات کی ناکامی کا خوف انسان کو حقیر بنا دیتا ہے اور ابنِ آدم ذلیل ہوجاتا ہے۔ ابنِ آدم کو حقیر کرنا خالقِ کائنات کی منشاء نہیں ہے بلکہ شیطان کی خواہش ہے۔ خوف کا بت پوچنے والے اور نفرت کے الاؤ میں جلنے والے فخرِ انسانیت نہی ہوتے۔ نفرت کا عفریت انسان کو" اسفل سافلین " یعنی بدترین کردیتا ہے۔ نفرت انسانی جزبہ تو ہے مگر اس کا حامل انسان اشرف المخلوقات کے درجے سے گرجاتا ہے۔
آئیے ذیل میں نفرت سے متعلق کچھ شاعرانہ اظہار جان لیتے ہیں۔
خوف کا عفریت سانسیں لے رہا تھا دشت میں
رات کے چہرے پہ سناٹے کی دہشت چھائی تھی
نامعلوم
ہونے کو یوں تو شہر میں اپنا مکان تھا
نفرت کا ریگزار مگر درمیان تھا
عادل منصوری
ہے شاداب نفرت کا جنگل بہت ہی
محبت کا ہر پیڑ سوکھا پڑا ہے
منصور عمر
وہ گھولا زہر نفرت کا سیاست نے فضاؤں میں
گلوں کی آنکھ سے شبنم لہو بن کر ٹپکتی ہے
علی خان جوہر
جھگڑوں کا قتل و خون کا ہیبت کا سلسلہ
اب ختم ہونا چاہئے نفرت کا سلسلہ
عظیم الدین ساحل کلم نوری
میں نے اگنے نہ دیا ذہن میں نفرت کا شجر
تم پہ ڈالی ہے سدا میں نے محبت کی نظر
نشتر امروہوی
پھیلتا جاتا ہے نفرت کا دھواں، عشق کرو
بجھ نہ جائے کہیں یہ شعلۂ جاں، عشق کرو
والی آسی
یہ نفرت کا بغیچہ خاک کر دیں
چلو ہم اپنا غصہ خاک کر دیں
شاد صدیقی
پار بھی ہو سکتا ہے نفرت کا دریا
الفت کو پتوار کیا جا سکتا ہے
پرشانت شرما دراز
دل میں لاتے نہیں دشمن سے بھی نفرت کا خیال
اس سے کم کوئی عبادت نہیں ہم کر سکتے
جلیل عالیؔ
جہاں نہ پڑ سکے سایہ بھی کوئی نفرت کا
محبتوں کا اک ایسا نگر بنایا جائے
جہانگیر نایاب
خدا کرے کہ سلامت رہیں یہ ہاتھ اپنے
عطا ہوئے ہیں جو زلفیں سنوارنے کے لیے
زمیں سے نقش مٹانے کو ظلم و نفرت کا
فلک سے چاند ستارے اتارنے کے لیے
علی سردار جعفری
عاصم واسطی کی نظم " نفرت"؛
مجھے نفرت سے نفرت ہے
یہ وہ عفریت ہے
جو گلشن لب پہ سجاتا ہے
ردائے خار دشنامی
یہ دست بے ضرر میں
خنجر قاتل اگاتا ہے
یہ ان آنکھوں کو جو
معصوم تر ہیں
ضیائے قہر نازیبا دکھا کر
سرخ کرتا ہے
یہ ہنستے کھیلتے آباد گھر کو
بلکتی سسکیوں سے
اور اشکوں سے سماتا ہے
غرض یہ کج ادا عفریت
خوشحالی کے رشتوں کی رکاوٹ ہے
مجھے نفرت سے نفرت ہے
پیٹریسیا گرانتھم کی انگریزی نظم کا ترجمہ
میں ایک گھر میں گیا اور گیٹ کو کھٹکھٹایا؛
ایک ہیولا باہر آیا اور اس نے اپنا نام نفرت بتایا۔
اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ اندر آنا پسند کریں گے؟
میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ نفرت کوئی رشتہ دار تو نہیں ہے۔
اس نے پھر جاننا چاہا کہ میں اس کے بارے میں کیا سمجھتا ہوں؟
میں نے جواب میں کہا کہ مجھے ابھی آپ کی کوئی ضرورت نہیں۔
نفرت ایک لمحے کے لیے کھڑی رہی اور سر ہلانے لگی کہ
شاید میں اس کی بجائے اس کی روح مانگنے کی کوشش کروں۔
پھر اس نے ادھر ادھر دیکھا اور کسی ٹرول کی طرح آنکھ ماری؛
آپ اپنی جان کے بدلے کیا قبول کریں گے؟
میں نے پلک جھپکتے ہوئے نفرت کی طرف دیکھا اور کہا
تم اس گھر میں اس دن تک رہو گے جب تک تم مر نہیں جاتے۔
نفرت نے کہا کہ میرا گھر بہت بڑا ہے جس میں بہت سے کمرے ہیں؛
میں نے اسے بتایا کہ وہ جہاں رہتا ہے وہ عذاب سے بھرا ہوا ہے۔
اس کے بعد اس نے اپنی جدوجہد ترک کرنے کا فیصلہ کیا؛
اور کہا میں دوسرے مہمان کو منانے کی کوشش کروں گا۔
پرسی بیشی شیلی کی انگریزی نظم " ہائے! یہ وہ زندگی نہیں ہے جیسا میں نے سوچا تھا " کا ترجمہ
ہائے! یہ وہ زندگی نہیں ہے جیسا میں نے سوچا تھا؛
میں نے دیکھا کہ وہاں جرائم اور برے لوگ تھے؛
اور دکھ اور نفرت؛
اور مجھے امید نہیں تھی کہ مجھے تکلیف دہ اچھوت زدہ میدان سے گزرنا ہوگا۔
میں نے اپنے دل میں جھانکا، جیسے شیشے میں دیکھا جاتا ہے؛
دوسروں کے دل میں... اور پھر
میں اپنی ہی طرح کے لوگوں میں تھا؛
پیتل کی تین تہوں میں چھپائے؛
پرسکون مگر کمزور سینے کو مسلح کیا ہوا؛
طعن، خوف اور نفرت کو برداشت کرنے کے لیے؛
آہ ایک غم زدہ لوتھڑا !
عظیم انگلش شاعر ولیم شیکسپیئر کی نظم" محبت میرا گناہ ہے اور نفرت تیری پیاری خوبی " کا ترجمہ
محبت میرا گناہ ہے اور نفرت تیری پیاری خوبی؛
میرے گناہ سے نفرت کرو، گناہ گار محبت کی زمین پر؛
حضور! لیکن میری حالت کاخود سے موازنہ توکرو؛
اور تُو اسے ملامت کے لائق نہیں پائے گا؛
مگر اگر ایسا ہوتا ہے تو تیرے ان لبوں سے نہیں۔
جس نے ان کے سرخ رنگ کے زیورات کو ناپاک کر دیا ہے۔
اور میری محبت کے جھوٹے بندھنوں پر مہر لگا دی؛
دوسروں کے بستروں کے کرائے کی آمدنی لوٹ لی۔
یہ جائز ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں جیسا کہ تم ان سے محبت کرتے ہو۔
جس کو تیری نگاہیں میری طرف متوجہ کرتی ہیں۔
تیرے دل میں ترحم کی جڑیں، کہ جب یہ بڑھتا ہے۔
آپ کا رحم قابل ذکر ہوسکتا ہے۔
اگر آپ وہ چیز حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آپ چھپاتے ہیں؛
خود آپکی مثال کے تحت؛ آپ کو انکار کیا جا سکتا ہے!
For More Follow us on
Platform: https://www.bangboxonline.com/
Facebook: https://www.facebook.com/bangboxonline/
Instagram: https://www.instagram.com/bangboxonline/?hl=en
Twitter: https://x.com/BangBox7?t=rkbQiJCSW6a-fk-P8Nid2Q&s=09