مغربی تاریخ وہ نہیں؛ جو نصاب میں پڑھائی گئی
انسانی کہانی تہذیب و تمدن کی کہانی ہے؛ مگر یہ تہذیب و تمدن کیا ہوتا ہے؟ اور اس کا قیام یا تخلیق کیسے ہوتے ہی؟ ہم انسان اس کے بارے میں کیا علم رکھتے ہیں اور اس ضمن میں کیا سوچتے ہیں؟ جوزفین کوئن نے اپنی نئی کتاب میں اس بات کا ازسرِ نو جائزہ لیا ہے کہ لوگ تہذیبوں کے بارے میں کیا علم رکھتے ہیں اور کیسا سوچتے ہیں؟ یہ تحریر ترجمہ ہے اس مضمون کا جو " دی اکانومسٹ" کے پرنٹ ایڈیشن کے کلچر سیکشن میں "اور آپ اپنے آپ کو مہذب کہتے ہیں؟" کے عنوان سے شائع ہوا۔ " How the World Made the West " By Josephine Quin (592 pages) Published by Random House
2024-04-25 09:31:31 - Muhammad Asif Raza
مغربی تاریخ وہ نہیں؛ جو نصاب میں پڑھائی گئی
یہ پوچھے جانے پر کہ وہ مغربی تہذیب کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ مہاتما گاندھی نے طنزا" کہا تھا کہ "ایک اچھا خیال ہوگا"۔ (مغرب، انہوں نے تجویز کیا، اتنا روشن خیال نہیں تھا۔) لیکن جیسا کہ جوزفین کوئن نے اپنی نئی کتاب میں واضح کیا ہے، مغربی تہذیب ہمیشہ سے ہی ایک برا خیال رہا ہے، یا کسی بھی قیمت پر غلط سوچ کا حامل رہا ہے۔ تاریخ کو الگ الگ اور بنیادی طور پر خود ساختہ تہذیبوں کے مجموعے میں تقسیم کرنا ایک گمراہ کن جستجو ہے جس نے دنیا کے بارے میں ہماری سمجھ کو خطرناک طور پر بگاڑ دیا ہے، محترمہ کوئن نے زور دے کر کہا: " ایسا نہیں ہے کہ تاریخ لوگوں کو بناتی ہے؛ بلکہ یہ لوگ ہوتے ہیں جو تاریخ بناتے ہیں؛ اپنے ان رابطوں سے جو وہ ایک دوسرے کے ساتھ تخلیق کرتے ہیں"۔
محترمہ کوئن، ایک مورخ اور ماہر آثار قدیمہ ہیں اور آکسفورڈ میں پڑھاتی ہیں، انہوں نے یقینا" پانچ سو صفحات کی محنت ، ردی کی ٹوکری میں ضائع ہونے کے لیے نہیں ک ہے۔ خاص طور پر اس تاریخ پر جو اسکول کے بچوں کی نسلوں سے یورپی کامیابیوں کے طور پر فخر کرنا سکھایا گیا ہے۔ اس کے بجائے، وہ اس کے بنیادی تصور کو منہدم کر دیتی ہیں جسے وہ "تہذیباتی سوچ" کہتی ہیں۔ ان کی دلیل سادہ، قائل کرنے والی اور توجہ کے لائق ہے۔
تہذیب کا خیال، محترمہ کوئین بتاتی ہیں، نسبتاً حالیہ ہے۔ یہ لفظ پہلی بار صرف اٹھارویں صدی کے وسط میں استعمال ہوا تھا اور انیسویں صدی کے آخر تک اس نے مغربی تخیلات کی گرفت نہیں کی تھی۔ اس شاہی سامراجی دور میں، مورخین نے پایا کہ یونانی، رومن اور عیسائی تہذیبوں نے عمدہ عمارت کے بلاکس بنائے جنہیں ایک عظیم الشان نظر آنے والی تعمیر میں سجایا جا سکتا تھا، جسے انہوں نے "مغربی" یا "یورپی" تہذیب کا نام دیا۔ اس کے لیے انہوں نے وراثت میں ملنے والی "کلاسیکی" خوبیوں کی ایک بڑی تعداد[ جوش، عقلیت، انصاف، جمہوریت اور تجربہ کرنے اور دریافت کرنے کی ہمت ] کو منسوب کیا۔ اور اس کے برعکس دوسری تہذیبوں کو کمتر سمجھا گیا اور پڑھایا گیا۔
اس نقطہ نظر کی حماقت یا سطحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے محترمہ جوزفین کوئن کو بہت زیادہ پرتیں کھولنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ذرا غور کریں کہ مثال کے طور پر، جان سٹورٹ مل، جو انیسویں صدی کے ایک فلسفی ہیں، جس نے دعویٰ کیا تھا کہ انگریزی تاریخ کے لیے؛ میراتھن کی جنگ کی فتح؛ جو فارس کا یونان پر 490 قبل مسیح میں پہلا حملہ تھا؛ زیادہ اہم تھا بمقابلہ 1066 میں ہیسٹنگز میں ولیم دی فاتح کی کامیابی سے۔[ منطق یا دلیل یہ ہے کہ یونانی تہذیب کا جادوئی بیج شاید کبھی مغربی تہذیب میں پروان چڑھا نہ ہوتا اگر ایتھنز کی جیت نہیں ہوتی) ۔ یا ایک امریکی مورخ سیموئیل ہنٹنگٹن کے "تہذیبوں کا تصادم" (1996) پر غور کریں، جس نے درجہ بندی کیے بغیر تاریخ کو سمجھنا ناممکن قرار دیا۔ اور درجہ بندی کے لیے انسانیت کو باہمی طور پر مخالف تہذیبوں میں تبدیل کیا گیا؛ حالانکہ ان کے درمیان، "زیادہ تر انسانی وجود کے درمیان "، رابطہ "متوقع یا غیر متوقع " موجود رہا ہے۔
جو چیز اس تاریخ کے تصور میں غیر موجود ہے وہ سچ ہے۔ محترمہ کوئین کی تیز رفتارتحقیق نے جس نے علمی طور پر یورپی تاریخ کے دائرے میں پھیلنا کو ایسا ظاہر کیا ہے کہ، نایاب ہونے کے تصورات کے باوجود، ثقافتوں کے مابین اور ان کے درمیان رابطہ، اکثر حیرت انگیز طور پر طویل فاصلے تک، ہر دور میں انسانی ترقی کا بنیادی محرک رہا ہے۔ تصادم خیز یا خود پسند ہونے کے بجائے، زیادہ تر معاشروں نے اپنے پڑوسیوں کے خیالات، فیشن اور ٹیکنالوجیز کے اثرات کو قبول کیا ہے۔
مثال کے طور پر، قدیم یونان؛ مصری، سمیری، آشوری اور فونیشین ثقافتوں کے مقابلے میں اپنے اثرات کی منتقلی میں کمتر رہی ہے؛ جو باہم مخلوط رہی تھیں اور خیالات کا تبادلہ کرتی تھیں۔ غور کیجیے کہ ایتھنز جمہوریت کا سرچشمہ ہونے کے بجائے، ایک ایسی طرز حکمرانی کے لیے " ذرا بعد والا دور" تھا ؛ کیونکہ اب معلوم پڑا ہے کہ ایسا پہلی بار لیبیا اور ساموس و چیوس کے جزائر پر آزمایا گیا تھا۔ فارسیوں نے، جن کو ہمیشہ ہی یونانیوں کے قطبی مخالف کے طور پر بتایا جاتا ہے، ایسا کیا جو دراصل ان یونانی شہروں پر جمہوریت مسلط کرنے والے تھے؛ جن پر وہ حکومت کرتے تھے، اور محترمہ جوزفین کوئن نے یہ رائے دی ہے کہ " فارسی اپنی تسلط کے برقرار رکھنے کے لیے عوامی حمایت پر عقیدہ رکھتے تھے"۔
مغرب کی تاریخی قصہ گوئی صرف ایک پرجوش تکرار ہے جو تاریخ کے بڑے اور ٹھوس ٹکڑوں پر مرکوز ہونے کے بجائے غیر متوقع دائروں اور غیر حقیقی دوروں کے درمیان کے وقفوں پر مرکوز ہے۔ لیکن انکی تحقیق بھی ایک قابل تعریف کام ہے۔ محترمہ کوئن کے سو سے زیادہ صفحات کے فوٹ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ نہ صرف بنیادی ذرائع کی ایک وسیع رینج پر انحصار کررہی تھیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں پر سائنسی مطالعات اور حالیہ آثار قدیمہ کی تحقیق پر بھی انحصار کیا ہے۔
اس کتاب میں تجربہ کار تاریخ دان اور دیگر تاریخ کے شائقین کو بھی بہت کچھ ملے گا جو نیا بھی ہے اور دلچسپ بھی ہے۔ " ہو دا ورلڈ میڈ دا ویسٹ " تاریخ نویسی کے ان کاموں کے ایک بڑھتے ہوئے رحجان میں شامل ہوتا ہے جو نئے فکری ڈھانچوں کا استعمال کرتے ہوئے تاریخ کے وسیع پیمانے پر کھوج لگاتا ہے، جیسے یوول نوح ہراری کی "سیپینز" (2011)، پیٹر فرینکوپن کی " دی سلک روڈز " (2015) اور " فال آف سویلائزیشنز "، ایک برطانوی صحافی پال کوپر کی آنے والی کتاب، جو اس کے مقبول پوڈ کاسٹ پر مبنی ہے۔ جو بھی سوچتا ہے کہ تاریخ گزر چکی ہے؛ اس سے زیادہ غلط اور کیا ہو سکتا؟
یہ مضمون مندرجہ بالا لنک پر موجود ہے اور مندیجہ ذیل لنک پر آپ یوٹیوب پر مصنفہ سے اس کتاب پر گفتگو سے محظوظ ہوسکتے ہیں
https://www.youtube.com/watch?v=F3WAJPQmxxQ