ملتِ اسلامیہ پچھلے دو سو سال سے قعر ذلت میں گری ہوئی ہے۔ الطاف حسین حالی نے تقریبا" سوا سو سال قبل اپنی مشہور مسدس "مدو جزر اسلام" میں اسلام کا نوحہ لکھا تھا۔ کمال یہ ہے کہ انہوں نے صیہونی یہودی ریاست اسرائیل کا قیام اور ریاست متحدہ امریکہ کا عروج نہی دیکھا اور نا ہی اقوامِ متحدہ کا ادارا اس وقت تھا۔ اگر انہوں نے آج کے حالات دیکھے ہوتے تو نجانے کیا کہتے؛ کہ پستی شاید پاتال سے بھی زیادہ گہری ہے۔ تو کیا اس دگرگوں صورتحال سے مسلمان باہر آسکیں گے اور کیا اسلام کا نشاۃ ثانیہ ہو سکے گا؟
﷽
کیا اس صورت خراب سےکچھ اچھا ابھرے ہوگا؟
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے؛ اسلام کا گِر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد؛ دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اس دور میں جب ہر طرف مسلمان پسے ہوئے ہیں؛ اور کوئی بھی اسلامی ملک اقوام عالم مین ذرا بھی احترام کا درجہ نہی رکھتا تو کیوں اور کیسے یہ ممکن ہوگا کہ مسلمان نمایاں مقام پاسکیں گے اور زمین پر خلافت ارضی کا حق پا سکیں گے۔ اس ضمن میں پیش کی جاتی ہے پروفیسر عبدالرحمن الخطیب کی یہ تحریر:-۔:
ہجری616 اور 658 ہجری کے درمیانی عرصے میں لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمان مٹ جائیں گے اور اسلام ختم ہو جائے گا۔ اور کچح تو یہ سوچ رہے تھے کہ قیامت برپا ہو جانے والی ہے۔
منگولوں، صلیبیوں، صفویوں اور مجوسیوں[ جو مسلمان علاقے ہی تھے] نے باقی مسلمانوں کے خلاف اکٹھ بنا لیا تھا، تمام اسلامی سرزمین پر خوف، ذلت اور مکمل تباہی پھیل چکی تھی۔
اندلس؛ یعنی اسپین میں، انہدام کا آغاز صلیبیوں کے ہاتھوں بڑے شہروں کے زوال سے ہوا، جس کے بعد مسلمانوں کے خلاف ہولناک قتل عام شروع ہوا، اس کے ساتھ الموحد ریاست کا بھیانک خاتمہ ہوا۔
جہاں تک لیونٹ [ یعنی شام و فلسطین ] اور مصر کا تعلق ہے توان علاقوں میں صلیبی موجود تھے اور اس دور میں تین بڑی صلیبی جنگیں ہوئیں۔غدار آرمینیائیوں کو تقویت ملی یہاں تک کہ انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔
سب سے زیادہ شدید اور ظالمانہ منگول حملہ تھا جس نے بہت تباہی مچائی تھی؛ خاص طور پر خوارزم شاہ کی بادشاہت کے علاقوں میں۔
منگول وحشی یکے بعد دیگرے اسلامی شہروں میں داخل ہو رہے تھے اور انکے سب سے بڑے جنگلی چنگیز خان اور پھر اس کے بعد اس کی اولاد کی قیادت میں انتہائی ہولناک کام کر رہے تھے اور مسلمانوں کے خلاف بے انتہا وحشت ناک اقدام کر رہے تھے۔ چنانچہ لاکھوں انسان مارے گئے تھے۔
بغداد میں جو کچھ ہوا وہ بیان کرنے کے لیے الفاظ سے باہر ہے، انسانی تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام میں سے ایک؛ جس زیادہ ہولناک شاید ہی کوئی دوسرا واقعہ ہوا ہو۔
بلاد شام کا حشر بھی عراق جیسا ہی ہوا؛ اس کا حشر بھی وہی تھا جو اسلامی مشرق کے شہروں کا تھا۔
جس چیز نے معاملات کو مزید خراب کیا وہ منگولوں کے ساتھ بزدل آرمینیائیوں کا اتحاد تھا۔ ہیثم اول کا بد ترین جرم یہ تھا کہاس نے حلب کی مسجد اپنے غلیظ ہاتھوں سے جلائی۔ نیز انطاکیہ کے صلیبی حکمران نے منگولوں کے ساتھ اتحاد کر لیا اور پھر اس کے بعد بلاد شام کے شہر یکے بعد دیگرے مفتوح ہوتے گئے اور شام اور عراق کے علاقوں میں جو مسلمان زندہ رہ گئے وہ منگولوں اور عیسائیوں کی سامنے تنہا ہوگئے سو ان کی بہت حد تک شدید توہین کی گئی۔
ان علاقوں میں فاتح؛ مسلمانوں کے چہروں پر شراب چھڑک رہے تھے، اور رمضان میں کھلے عام کھاتے پیتے تھے؛ اور مساجد؛ جن میں سے اکثر تباہ ہو چکی تھیں؛ کے قریب نجاست پھینکتے تھے۔
وہ ایک مشکل دور تھا؛ جس کے سانحات کا ہم نے صرف 1% سے بھی کم ذکر کیا ہے؛ مسلمان قوم کے لیے آزمائش اور امتحان کا دور تھا، لیکن ان آفات و سانحات کے درمیان سے ہی راحت ملی تھی۔ ایسا ہوا تھا کہ وحشی منگولوں کے غول میں سے جس کا خود انکو بھی ادراک نہیں تھا؛ اللہ تعالیٰ نے اس تباہی کے ڈھیر سے دو عظیم اسلامی طاقتوں کے ظہور کی وجہ قائم کی تھی۔
پہلی قوت: مملوک، وہ بہادر مسلمان جنہیں منگولوں نے پکڑ کر ایوبیوں کو بیچ دیا تھا، انہوں نے مجرم منگولوں کے خلاف تلوار کا شاندار استعمال کیا، انہیں پکڑا، قتل کیا، اور مسلمانوں کے دلوں کو شفا بخشی۔ اس وقت قطز و بيبرس اور قلاوون نے منگولوں اور صلیبیوں کے ساتھ کیسے ٹکر لی؛ بیان نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا آج ہم مسلمانوں کے لیے؛ عین جالوت، حمص، ایبلسٹین اور اسلام کی دیگر ان دنوں کی لافانی لڑائیوں پر فخر کرنا اور ان مجاہدوں کی عزت کو بحال کرنے کے لیے یہ بہت ضرور ہے کہ ہم اج کی باطل قوتوں کو بلاد شام سے نکال باہر کریں۔
جہاں تک دوسری عظیم طاقت کا تعلق ہے: یہ سلطنت عثمانیہ تھی جس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور منگول حملے کی وجہ سے وسطی ایشیا سے ترک کائی قبیلے کی ہجرت کا نتیجہ تھا۔ اسلام کے دفاع کا جھنڈا 4 صدیوں سے زیادہ عرصے تک اس قوم کے ہاتھ میں رہا۔ ترک قوم نے تین براعظموں پر حکومت کی اور پوری دنیا پر غلبہ حاصل کیا۔
ان واقعات سے ہم جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ مسلمان قوم جتنی زیادہ آفتیں جھیلتی ہے اور اس کے دشمن جتنے زیادہ ہوتے جاتے ہیں، تو ان آفات کے بعد آنے والی روشنی اتنی ہی زیادہ چمکدار اور روشن ہوتی ہے، اس لیے امید رکھیں اور خوشخبری دیں۔ رحمتِ الٰہی سے مایوس نہ ہو، رحمتِ الٰہی سے کافروں کے سوا کوئی مایوس نہیں ہوتا۔
اچھی خبر بس آنے ہی والی ہے:۔
خالد بن الولید جیسا کوئی شخص شام میں تمہارے پاس آئے گا۔
عراق میں الققع بن عمر التمیمی جیسا کون ہے؟
یمن میں ہشام بن عتبہ بن ابی وقاص کون ہے؟
عرب مغرب میں عقبہ بن نافع کی طرح کون ہے؟
خوش رہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے، انشاء اللہ
اے ملت اسلامیہ
كتب الأستاذ عبد الرحمن الخطيب:
في فترة ما بين عامي 616هـ و 658هـ ظن الناس ان المسلمين سوف يستأصلون وان الاسلام انتهى حتى ظن البعض أن القيامة ستقوم .
اجتمع على المسلمين المغول والصليبين والصفويين والمجوس انتشر الخوف والهوان والانهيار التام في بلاد الاسلام .
في اﻷندلس بدأ الانهيار بسقوط الحواضر الكبيرة بيد الصليبيين وتبع ذلك مجازر مروعة بحق المسلمين مصاحبا انهيار دولة الموحدين بشكل مريع.
أما الشام ومصر فكان الصليبيون متواجدين وتشكلت خلال هذه الفترة ثلاث حملات صليبية كبيرة وقد قويت شوكة اﻷرمن الخونة حتى باتوا يعتدون على المسلمين
اﻷشد و الانكى كان الغزو المغولي الذي اكتسح
مملكة خوارزم وكان هؤﻻء الهمج يدخلون المدن اﻹسلامية واحدة تلو اﻷخرى ويرتكبون أبشع مايمكن تخيله بقيادة مجرمهم اﻷكبر جنكيزخان ثم أحفاده من بعده وفعل اﻷفاعيل بالمسلمين وتم قتل الملايين .
وماحدث في بغداد تعجز الكلمات عن وصفه من أكبر مجازر التاريخ البشري .
لم يكن مصير الشام أفضل من العراق فكان مصيرها كمصير مدن المشرق اﻹسلامي ومما زاد اﻷمر سوءا تحالف اﻷرمن الجبناء مع المغول فكانت جريمة هيثوم اﻷول عندما أحرق جامع حلب بيديه القذرتين وكذلك تحالفه مع المغول حاكم أنطاكية الصليبي فسقطت مدن الشام الواحده بعد الاخرى وتعرض من بقي حيا من مسلمي الشام والعراق ﻹهانات بالغة من قبل المغول والنصارى لدرجة أنهم كانوا يرشون الخمر في وجوهم المسلمين و كانوا أيضا
يجاهرون باﻷكل والشرب نهار رمضان ويرمون النجاسات قرب المساجد التي خرب الكثير منها
هذه الفتره الصعبة التي لم نذكر الا أقل من 1% من فواجعها كانت عبارة عن فترة ابتلاء و امتحان للامة لكن من وسط هذه المصائب والخطوب ياتي الفرج ، اذ كان المغول الهمج وهم لا يشعرون سببا بعد الله سبحانه في ظهور قوتين عظيمتين اسلاميتين .
القوة اﻷولى : هي المماليك اﻷبطال المسلمين الذين أسرهم المغول وباعوهم للايوبيين فكانوا السيف على المغول المجرمين ياسرون منهم ويقتلون ويشفون صدور المسلمين ، فما فعله قطز وبيبرس وقلاوون بالمغول والصليبيين ﻻيمكن وصفه فتكفيهم فخرا وشرفا عين جالوت وحمص وإبلستين وغيرها من معارك اﻹسلام الخالدة حتى اخرجوهم من الشام .
أما القوة العظيمة اﻷخرى: هي الدولة العثمانية التي أكتسحت العالم وكانت نتيجة هجرة قبيلة قايي التركية من أواسط آسيا بسبب الغزو المغولي ، الدولة العثمانية كان تأثيرها على العالم كبيرا وحملت لواء الدفاع عن اﻹسلام ﻷكثر من 4 قرون حتى حكمت في ثلاث قارات وتسيدت على العالم كله
مانستنتجه من هذه الاحداث أن هذه اﻷمة كلما زادت عليها المصائب وكثر أعداءها فإن النور الذي يأتي بعد هذه المصائب عظيم وكبير ، فاملوا و ابشروا. لا تيأسوا من روح الله إنه لا ييئس من روح الله إلا القوم الكافرون.
أبشروا
سيأتيكم من هو كخالد بن الوليد في بلاد الشام
ومن هو كالقعقاع بن عمر التميمي في بلاد العراق
ومن هو كهشام بن عتبه بن ابي وقاص في اليمن
ومن هو كعقبه بن نافع في بلاد المغرب العرربي.
أبشروا ﻻ تحزنوا أنتم اﻷعلون بأذن الله
يا أمة الإسلام