زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا اہم حصہ اقوام کی افواج ہوتی ہیں۔ یہ تحریر پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے کیڈٹ سے بعد از کمیشن یونٹ کے شب و روز کا ایک روزن ہے جسے لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے۔
کرنل کی ڈائری سے: " رجمنٹیشن"۔
یہ کہانی یا تحریر محض راقم کی رجمنٹ کی نہیں بلکہ افواجِ پاکستان کی ہر رجمنٹ اور یونٹ کے افراد اس کہانی کے کردار اور اس کا حصہ ہیں۔
پاکستان ملٹری اکیڈمی، کاکول (پی ایم اے، کاکول) میں دورانِ تربیت جنٹلمین کیڈٹ کو دوستوں کی صورت میں بہت سے کورس میٹ ملتے ہیں جو ایک دوسرے کی بقیہ زندگی کا لازمی جزو بن جاتے ہیں، دوستی کے اس انمول رشتے کو ہم "کورس میٹ شپ" کہتے ہیں۔ مگر یہی جنٹلمین کیڈٹ جب افسر بن کر کسی یونٹ میں وارد ہوتا ہے تو وہ ایک اور لازوال و انمول رشتے سے روشناس ہوتا ہے۔ یہ نیا رشتہ افسران، سردار صاحبان، بہادر جوانوں بشمول کلریکل اسٹاف اور سول ملازمین پہ مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس رشتے کو ہم آسان الفاظ میں "رجمنٹیشن" کہتے ہیں۔ اس رجمنٹیشن پہ مزید کچھ جاننے سے قبل جنٹلمین کیڈٹ سے رجمنٹل افسر تک کے سفر پہ تھوڑی سی روشنی ڈالنا ضروری ہے۔
پی ایم اے، کاکول میں دو سالہ تربیت کے دوران فوجی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے جنٹلمین کیڈٹس، ملٹری کالجوں سے آنے والے جنٹلمین کیڈٹس کے علاوہ باقی ماندہ جنٹلمین کیڈٹس کو جو تازہ تازہ انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کر کے جنٹلمین کیڈٹ بنتے ہیں، کچھ عرصہ تو 'سی ایچ ایم' (کمپنی حوالدار میجر) اور 'سی ایس ایم' (کمپنی سارجنٹ میجر) کا فرق سمجھنے میں لگ جاتے ہیں کہ 'سی ایچ ایم' اور 'سی ایس ایم' دونوں ہی لال رنگ کی ایک کراس سیش (کمربند) زیب تن کیے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ پی ایم اے، کاکول کے کٹھن اور مصروف ترین تربیتی مراحل طویل عرصے تک جنٹلمین کیڈٹس کے ذہن میں کوئی دوسرا خیال آنے ہی نہیں دیتے۔ فائنل ٹرم کے شروع میں کہیں جا کر بے چارے جنٹلمین کیڈٹس کو افسر بننے کا ہلکا پھلکا سا خیال آتا ہے۔ اور اسی ٹرم میں جا کر کہیں یہ بات بھی سوچی جانے لگتی ہے کہ آخر افسر بن کر کون سی آرم میں کمیشن حاصل کرنا ہے۔ کورس کے پہلے دس نمایاں جنٹلمین کیڈٹس اپنی مرضی کی یونٹ کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فوجی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے جنٹلمین کیڈٹس اپنے والد یا دادا کی یونٹ جوائن کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔ جبکہ باقی ماندہ جنٹلمین کیڈٹس اپنی اپنی پسند کی تین آرمز کا انتخاب کرتے ہیں اور پلاٹون کمانڈر ان کی کارکردگی اور شخصیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی سفارشات پیشک کرتے ہیں۔ اور جس دن یونٹوں کے اعلان کے لیے ملٹری سیکرٹری برانچ، جنرل ہیڈکوارٹرز، راولپنڈی کی ٹیم پی ایم اے، کاکول آتی ہے تو فائنل ٹرم کے سارے جنٹلمین کیڈٹس دھڑکتے دل کے ساتھ اپنی اپنی پسند کی آرمز ملنے کی دعاؤں کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوتے ہیں۔ اب جن کو من پسند آرم یا یونٹ مل جائے ان کی خوشی اور جن کی پسند تو ہو کچھ اور مگر ان کو مل جائے کوئی اور آرم یا یونٹ ان کی اداسی کی سب اچھی مثال محبت کی شادی اور والدین کی پسند کی شادی سے دی جا سکتی ہے۔ یعنی کسی کو شادی سے پہلے محبت ہو جاتی ہے اور کوئی شادی کے بعد محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔۔۔
راقم نے جونئیر کیڈٹس اکیڈمی، منگلا کینٹ میں اپنے کمپنی کمانڈر میجر طاہر سلیم (بریگیڈیئر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے) کو آئیڈیل جان کر کے آرمرڈ کور کو اپنی پہلی پسند لکھا۔ اور خوش قسمتی سے مجھے آرمرڈ کور کی ایک مایہ ناز رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ کمیشن لینے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اسی زمانے میں ہماری رجمنٹ کے ایک افسر میجر تنویر عباسی پی ایم اے، کاکول میں پلاٹون کمانڈر تعینات تھے۔ وہ بعد ازاں دورانِ سروس بطور لیفٹیننٹ کرنل ہی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ میری ان سے پہلی ملاقات پی ایم اے، کاکول میں یونٹوں کے اعلان کے فوراً بعد ہوئی۔ انھوں نے مجھے اس مایہ ناز رجمنٹ میں شمولیت اختیار کرنے پہ مبارک باد دی اور بڑی شفقت سے مجھے اچھا رجمنٹل افسر بننے کے گر بتائے۔ یہ رجمنٹیشن ہی تو تھی کہ ایک جنٹلمین کیڈٹ جس کے افسر بننے میں ابھی تقریباً ایک ہفتہ باقی تھا کو ایک پلاٹون کمانڈر جو سروس کے لحاظ سے ہم سے تقریباً گیارہ بارہ سال سینیئر تھے نے تقریباً پانچ سو جنٹلمین کیڈٹس میں سے ڈھونڈ نکالا اور گلے لگا کر احساس دلایا کہ رجمنٹیشن ہوتی کیا ہے!
پاسنگ آؤٹ پریڈ سے تقریباً دو تین دن قبل ہر آرم والوں کی اپنی اپنی ایک نشست منعقد ہوتی ہے۔ فرنٹیئر فورس اور بلوچ رجمنٹ کی نشستیں ایبٹ آباد میں ان کے رجمنٹل سینٹرز میں منعقد ہوتی ہیں جبکہ باقی آرمز کی نشستیں کیڈٹ میس میں منعقد کی جاتی ہیں۔ اس نشست میں رات کے کھانے کے بعد ایک سادہ مگر پُروقار تقریب میں تمام جنٹلمین کیڈٹس کو ان کی یونٹس کی جانب سے بھیجے گئے تحائف جن میں ٹوپی اور کندھوں پر لگائے جانے والے بیج، رجمنٹل ٹائی اور اپنی اپنی یونٹس کے مختلف سوینئرز پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ روایت بھی رجمنٹیش کی ہی ایک کڑی ہے۔
کٹھن تربیتی مراحل کے بعد پاس آؤٹ ہونے والا نیا نیا لیفٹین آنکھوں میں افسری کے خواب سجائے جب یونٹ میں پہنچتا ہے تو اس بے چارے کے ساتھ وہی کچھ ہوتا ہے جو آپ سب شعیب منصور کے مشہور ڈرامے "الفا براوو چارلی" میں دیکھ چکے ہیں۔ ڈرامے میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے ساتھ یونٹ میں پہلے ہفتے پیش آنے والے سارے واقعات راقم سمیت ہر افسر کے ساتھ پیش آچکے ہیں۔۔۔
ویسے تو ہم فوجیوں کی زندگی کا ہر ایک دن ہی یادگار ہوتا ہے مگر انٹر سروسز سلیکشن بورڈ (آئی ایس ایس بی) کے چار دن، پی ایم اے، کاکول کے پہلے چند دن اور یونٹ میں گزرے ابتدائی چند روز ساری زندگی ہی یاد رہتے ہیں۔ بے چارے لیفٹین سے تو پاسنگ آؤٹ کے فوراً بعد بہن بھائی، کزنز اور دوست احباب باری باری دعوت اڑاتے ہی ہیں لیکن جب وہ یونٹ پہنچتا ہے تو ایک اور دعوت اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہے، گویا۔۔۔۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
اس دعوت کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ لیفٹین کو بل کی ادائیگی کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ اس پُرتکلف دعوت کا میزبان کوئی اور نہیں بلکہ وہ بے چارہ خود ہی ہے۔ اس دعوت کا ایک راز جو بعد ازاں ہی افشاں ہوتا ہے وہ یہ کہ کھانے کا ذائقہ بھلے سے تگڑا ہو نہ ہو بل ضرور تگڑا ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ لوبسٹرز، جھینگے اور شرمپس آرڈر کرنے والے افسران آخر میں اپنی بھوک چکن اور مٹن کڑاہی سے ہی مٹاتے ہیں۔ خیر سے ایسی دعوت کے لیے مرغا ہم بھی بنے۔ ہوا یوں کہ رجمنٹ میں رپورٹ کی تو ٹینک چلانے کا لائسنس بنوانے کے عوض ہم سے اچھی بھلی رقم بٹور لی گئی اور بعد ازاں ٹینک چلانے کا لائسنس حاصل کرنے والی ہماری درخواست کو رجمنٹ کی سکریپ بک کی زینت بھی بنا دیا گیا۔ اور دعوت کے اگلے دن ہی سکریپ بک کا وہ صفحہ بھی دکھایا گیا تو ہم اپنی بیوقوفی پہ چھینپ سے گئے مگر جب سکریپ بک کے صفحات پلٹنا شروع کیے تو پتا چلا کہ یہ بیوقوفی کرنے والے ہم واحد لیفٹین ہرگز نہیں بلکہ ہم سے پہلے آنے والے ہر افسر سے نہ صرف جعلی لائسنس کے نام پر درخواست لکھوائی گئی بلکہ ان سے کھانا کھانے کے لیے رقم بھی بٹوری گئی۔ اس رقم کے یوں نکلنے کا غم چھ مہینے بعد ہی دور ہوتا ہے کہ نئے مرغے (لیفٹین) کی آمد آمد جو ہوتی ہے۔۔۔
یونٹ پہنچنے پہ سب سے پہلے سیکنڈ لیفٹیننٹ کو رجمنٹل ہسٹری کے بارے میں بتایا جاتا ہے، تمام حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کے نام اور کورس یاد کرائے جاتے ہیں۔ پھر یونٹ کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے یونٹ کے تمام حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران کے نام یونٹ میں اپنی آمد کا نامہ لکھوایا جاتا ہے جسے فوجی زبان میں ڈمی آفیشل (ڈی او) لیٹر کہا جاتا ہے۔ ہفتے دس دن میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کو بھی تمام افسران کی جانب سے نیک خواہشات کے جوابی خط موصول ہو جاتے ہیں۔ یعنی یونٹ کے تمام حاضر سروس و ریٹائرڈ افسران سے تعارف ہو جاتا ہے۔۔۔
نئے لیفٹین میاں اور دیگر غیر شادی شدہ یعنی بیچلر افسران، آفیسرز میس یا ٹی بار سے کھانا کھا کر صبر شکر کرتے ہیں۔ لیکن جب گھر کے کھانے کی یاد ستانے لگتی ہے تو کبھی کمانڈنگ افسر، کبھی سیکنڈ اِن کمانڈ اور کبھی دیگر شادی شدہ افسران کی جانب سے کھانے کی دعوتیں موصول ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر کبھی شادی شدہ افسران سے دعوت دینے میں کچھ تاخیر ہو جائے تو بیچلر لیفٹین اور کپتان از خود اپنی دعوت کی تاریخ شادی شدہ افسران کو بتا دیتے ہیں جسے بھابھی صاحبہ بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرتی ہیں۔ ان افسران اور ہماری بہنوں کی شفقت رجمنٹیشن کی ایک شاندار مثال ہے۔ لیکن ان دعوتوں کے صلے میں یونٹ کی تقریبات میں لیفٹینن بادشاہ اکثر بے بی سٹینگ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔۔۔
ہماری لیفٹینی کے زمانے میں رجمنٹ کو ملتان سے لاہور چھاؤنی پہنچنے کا حکم نامہ موصول ہوا۔ لاہور پہنچنے کی دیر تھی، سرِ شام ہی لیفٹینوں اور کپتانوں کی فوج سینئیر بیچلر کی قیادت میں مٹر گشت کرنے فورٹریس اسٹیڈیم یا لبرٹی مارکیٹ پہنچ جایا کرتی۔ یہ سلسلہ زیادہ عرصے نہ چل سکا کہ رجمنٹ میں برج کھیلنے والے سینیئر افسران نے ہم ایسے لیفٹینوں اور کپتانوں کو شائقین کے طور پہ ٹی بار میں بٹھانا شروع کر دیا۔ ویسے ہمارے شادی شدہ افسران نے "غیر سرکاری" طور پہ برج کو "سرکاری" درجہ دے کر رات دیر تک گھر واپس جانے سے استثنیٰ حاصل کی ہوئی تھی۔ یوں شام کی چائے اور رات کا کھانا بھی ٹی بار میں ہی کھایا جاتا۔ لیفٹینوں کی رجمنٹیشن کا یہ عالم ہوتا کہ وہ ان سینیئر افسران کے گھر سے آئی فون کالز کے جواب میں فوراً بتا دیتے کہ ابھی تو "کانفرنس" جاری ہے۔ البتہ برج کے نام پر ہونے والی "سرکاری کانفرنس" نے طوالت پکڑی تو ایک دن مشترکہ طور پر"ھائیر ہیڈکوارٹرز" نے "سرکاری کانفرنس" پہ دھاوا بولنے کی ٹھان لی۔۔۔اس کامیاب ریڈ کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔البتہ لیفٹینوں کے لبرٹی مارکیٹ کے پھیرے پھر سے شروع ہو گئے۔۔۔
کسی بھی یونٹ افسر کی شادی پر تمام ہم عصر افسران کا والہانہ ڈانس اور لڈی بھی رجمنٹیشن کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ نئے شادی شدہ جوڑے کو باقاعدہ یونٹ میں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور ان کے اعزاز میں عشائیہ دیا جاتا ہے یوں وہ بھی یونٹ فیملی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ یونٹ افسر یا ان کے بچوں کی شادی یا رجمنٹل تقریبات میں تمام افسران رجمنٹل ٹائی پہن کر رجمنٹیشن کی مثال قائم کرتے ہیں۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہمارے گھروں اور دفتروں میں یونٹ سے جڑی یادوں کا ایک کونہ مخصوص ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے موبائل فون نمبر حتیٰ کہ گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبر بھی یونٹ سے ہماری محبت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یونٹ سے محبت کے اظہار کے لیے ہماری گاڑیوں کے بمپر پہ یونٹ کا بیج یا ونڈ اسکرین پہ یونٹ کا اسٹکر ضرور دکھائی دے گا۔۔۔
یونٹ کے کلرک، سول ملازمین بشمول آفیسرز میس/ ٹی بار اسٹاف، حجام کنٹریکٹر، کینٹین کنٹریکٹر، دھوبی کنٹریکٹر اور سینٹری ورکرز کے تذکرے کے بغیر رجمنٹیشن کی کہانی ادھوری اور بے معنی ہو گی۔
یونٹ کے کلرک بھی دیگر جوانوں اور سردار صاحبان کی طرح یونٹ کا ایک اہم جزو ہوتے ہیں۔ ہیڈ کلرک کی قیادت میں تمام دفتری معاملات اور ڈاک کی ساری ذمہ داری ان کے کاندھوں پہ ہوتی ہے۔ اور رجمنٹیشن کا حسن یہ ہے کہ یونٹ سے پوسٹنگ کے بعد بھی یہ کلرک یونٹ سے رابطے میں رہتے ہیں۔
آفیسرز میس/ ٹی بار کے اسٹاف ممبران صبح سویرے ڈیوٹی پہ ہشاش بشاش موجود ہوتے ہیں اور رات گئے تک افسران کی خدمت کے لیے ماتھے پہ بل لائے بغیر انتہائی خندہ پیشانی سے متحرک رہتے ہیں۔ یہ تمام اسٹاف ممبران اپنے اپنے کام کے ماہر ہوتے ہیں۔ جنگل میں منگل والا محاورہ ان پہ خوب بیٹھتا ہے۔ یہ چولستان کے تپتے صحرا میں بھی افسران کو فائیو اسٹار ہوٹلوں سے بہتر کھانا کھلاتے ہیں۔ چاچا حنیف مرحوم جیسا ویٹر کسی کسی رجمنٹ کے حصے میں ہی آتا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ ذوالفقار عرف ذولو اور مشتاق عرف مُش بھی ایسے نام ہیں جنھوں نے ہمیشہ اپنے افسران کی خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ سچ تو یہ ہے کہ ٹی بار کے باورچیوں بشیر، شبیر اور ولی کے ہاتھوں سے بنے کھانوں سے افسران کے پیٹ تو شاید بھر جاتے تھے مگر نیت کبھی نہیں بھرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لیفٹین اور کپتان طعام کے بعد بھی کچن میں جاکر کھانے کی دوسری شفٹ ضرور لگایا کرتے۔۔۔
جب افسران کے بال تراشنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو یونٹ کے ہیڈ باربر (حجام) اپنا بریف کیس لیکر بن بلائے الہ دین کے چراغ والے جن کی مانند حاضر ہو جاتے۔ ہماری رجمنٹ کے ہیڈ باربر چاچا بوٹا مرحوم رجمنٹ کے 1963 میں وجود میں آنے کے وقت سے لیکر سنہ 2006 میں اپنی وفات تک رجمنٹ کے ساتھ منسلک رہے۔ ان کی وفات رجمنٹ کیلئے ایک بڑا صدمہ تھی۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ چاچا بوٹا کے بعد ان کے بھتیجے یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھا رہے ہیں۔ طویل عرصے سے رجمنٹ کے ساتھ منسلک رہنے کے باعث چاچا بوٹا نئے وارد ہونے والے سیکنڈ لیفٹیننٹ کو رجمنٹل ہسٹری یاد کرانے میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ وہ بال تراشنے کے ساتھ ساتھ لیفٹینوں کو پوری رجمنٹل ہسٹری بھی حفظ کرا دیا کرتے تھے۔
یوں تو رجمنٹ/ یونٹ کی کینٹین پہ چائے پینے والے جوانوں کا رش لگا رہتا ہے۔ مگر جوان کبھی بھی چائے کے معیار سے مطمئن نہیں ہوتے۔ دوسری طرف کینٹین کنٹریکٹر ہر تین مہینے بعد کواٹر ماسٹر یا سیکنڈ اِن کمانڈ سے چائے کی قیمت بڑھانے کی درخواست کرنے حاضر ہو جاتے ہیں جبکہ جوان چائے میں زیادہ پتی اور معیاری دودھ کی عرضی لیکر موجود ہوتے ہیں۔ پھر ہمیشہ کی طرح جوانوں کی فلاح و بہبود کے نام پر کینٹین کنٹریکٹر اپنی درخواست واپس لے لیتے۔ البتہ وہ کینٹین میں نت نئی چیزیں لا کر جوانوں کو شاپنگ کرنے پہ مجبور کر کے چائے کی اضافی قیمت کسی اور مد میں وصول کر ہی لیتے ہیں۔ ہماری رجمنٹ کے کینٹین کنٹریکٹر، مرزا صاحب بھی ایک طویل عرصے سے رجمنٹ کے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ ضیعف العمری اور خرابی صحت کے باوجود رجمنٹ سے اپنی محبت نبھا رہے ہیں۔
دھوبی کنٹریکٹر افسر خان صاحب بھی چاچا بوٹا اور مرزا صاحب کی طرح میرے رجمنٹ میں کمیشن حاصل کرنے سے بھی بہت پہلے سے رجمنٹ کے ساتھ منسلک ہیں اور آج بھی اسی جان فشانی، محنت اور لگن سے افسران، سردار صاحبان اور جوانوں کی وردیاں اور کپڑے دھلائی اور استری کر رہے ہیں۔
ہیڈ سینٹری ورکر کی قیادت میں تمام سینٹری ورکرز علیٰ الصّباح رجمنٹ کے دفتروں، جوانوں کی بیرکوں/ کوارٹروں اور افسران کے گھروں کی صفائی پوری جان فشانی سے کرتے ہیں۔
آخر میں رجمنٹ کے ان بہادر جوانوں اور سپوتوں کا ذکر انتہائی ضروری ہے جو مشکل ترین حالات کی پرواہ کئے بغیر رجمنٹ کے نام کو روشن رکھنے میں دن اور رات ایک کر دیتے ہیں۔ وہ ایڈم/ ٹیکنیکل انسپیکشن ہو یا کھیلوں اور فائرنگ کے مقابلے، ان جوانوں کی رجمنٹ سے والہانہ محبت اور جوش و جذبہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز اور رجمنٹ سے محبت کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ دشمن سے مقابلے کے وقت وہ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند رجمنٹ میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔۔۔
راقم کا رجمنٹ کے سردار صاحبان، بہادر جوانوں اور سول ملازمین سے جو لازاول رشتہ آج سے تین دہائیوں قبل استوار ہوا تھا وہ اب بھی قائم دائم ہے۔ فوج میں تقریباً ہر کمانڈنگ افسر اپنی کمانڈ کے دوران ایک دفعہ افسران، سردار صاحبان، جوانوں اور سول ملازمین کو اکھٹا کرنے کی جستجو میں رجمنٹل ری یونین کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان دو روزہ تقریبات میں کھیلوں کے مقابلوں کے علاوہ، تمام رینکس کے ساتھ دربار اور بڑے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان دو دن میں پرانے قصوں کو پھر سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی دوران ہنسی مذاق اور قہقہوں میں زندگی کی پریشانیاں ایسے غائب ہو جاتی ہیں جیسے ہم ایسے لیفٹین صبح صبح پی ٹی پریڈ سے غائب ہو جایا کرتے تھے۔
تقریب کے اختتام پہ تمام رینکس نئی یادوں کے ساتھ اگلی تقریب میں شرکت کی خواہش دل میں لیے اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہوتے ہیں۔ اور جو کشش ہمیں پھر سے "اپنے گھر" یعنی رجمنٹ جانے پہ اکساتی ہے اسی کا نام رجمنٹیشن ہے۔
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان، ریٹائرڈ
کراچی
📧: khanabrar30c@gmail.com
🪀: 0340 4303030