کتاب، مکتب اور انسان
کتاب اور مکتب ہم انسانوں اور قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ معروف امریکی مؤرخ نے کتابوں کو تہذیب کا پنگوڑا قرار دیا۔ ان کے نزدیک کتابوں کے بغیر تاریخ گونگی، ادب بے بہرہ، سائنس لنگڑی اور خیالات اور سوچیں ساکت ہیں۔ مگر انسان خود بھی تو جیتی جاگتی کتاب ہے۔ ہر انسان ہر روز تجربات سے گزرتا ہے اور یہ تجربات اسے سبق دیتے ہیں؛ اور وہ اسباق دوسروں کے لیے مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔ یہ تحریر ان اسباق اور تجربات سے متعلق ہی لکھی گئی ہے۔
2024-11-04 14:30:45 - Muhammad Asif Raza
کتاب، مکتب اور انسان
کتاب کیا ہے؟ الہامی آسمانی حکم ہے اور انسانی تخیل اور تجربات کی داستان ہے؛ دونوں صورتوں میں انسان کی کہانی ہے۔ انسان کے خوابوں کا ذکر ہے اور اس کی تعبیر کا قصہ ہے۔ انسان کی ناکامیوں کی وجوہات اور اس کی کامیابی کے جشن کا افسانہ ہے۔ یہ انسان کے ارضی مستقر پر اس کی حکمرانی اور اس کی غلامی کا واقعہ ہے جس میں فردِ واحد بھی ہے، خاندان بھی، قبیلہ بھی ہے اور قوم اور امت بھی۔ انسان کے رنگ و نسل، ذات اور برادری، ، مذہب اور قومیت سب کچھ کتاب میں درج ہے اور انسان کا اس کتاب سے فرار ممکن نہیں۔ کیونکہ اس دنیا میں، اس زمین پر ہوسکتا ہے ہے لاتعداد انسان ایک نام کے سوا کچھ نہ ہوں مگر ان تمام بےنام افراد، غیر اہم، بے ضرر انسانوں کے ہاتھوں میں کل روزِ حساب ایک کتاب ضرور ہوگی؛ جس پر ان کی کتھا لکھی ہوگی۔
اگر ہم دیکھیں تو ہم جان جائیں گے کہ ہر انسان ایک چلتی پھرتی کتاب ہوتا ہے؛ مگر کیا ہم اس کتاب کو پڑھ سکتے ہیں؟ ہم سب انسانوں کا چہرہ بھی ایک کتاب ہی ہے، بس ہم پڑھنے نہین سکتے؛ کیونکہ ہم اس کی سمجھ نہیں رکھتے۔ دیکھیے ہمارے شاعر اس ضمن میں کیا کہا ہے؟
بشر کے روپ میں اک راز کبریا ہوں میں
سمجھ سکے نا فرشتے کہ اور کیا ہوں میں
بیدم وارثی
اگر وجود میں آہنگ ہے تو وصل بھی ہے
میں چاہے نظم کا ٹکڑا وہ نثر پارہ ہو !!
پروین شاکر
انسان نے زندگی میں کسی بھی مکتب سے علم حاصل کیا ہوا اور کیسی ہی کتاب پڑھی ہو؛ اس کی جبلت کو نہیں بدل سکتے۔ کوئی بھی مکتب غلط سبق نہیں پڑھاتا؛ غیر انسانی خصلتوں اور عادتوں کو پروان نہیں چڑھاتا؛ اور نفرت، عداوت یا ظلم نہیں سکھاتا۔ سارے ہی مکتب انسان کوانسان بنانے کی کوش کرتے ہیں؛ انسان دوستی، محبت اور ہمدردی کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ کتاب اور مکتب ہمیشہ ہی انسانوں کو باہم جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ پھر انسان غیر انسانی رویے کیوں اختیار کرتے ہیں؟
آہ یہ مرگِ دوام، آہ یہ رزمِ حیات؛ ختم بھی ہوگی کبھی کشمکشِ کائنات!
علامہ محمد اقبال ہمارے قومی شاعر ہیں اور انہیں شاعر مشرق اور فلسفی جدید بھی مانا جاتا ہے۔ اوپر کے شعر میں انہوں نے انسانی زندگی کی کتاب کو شاندار عنوان دیا ہے۔ انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اشرف المخلوقات کا وہ مستقبل ہوتا ہے مگر اپنی اوائل پرورش اور دیکھ بھال کے لیے مجبور ہوتا ہے۔ اس کی نوجوانی کی عمر تک تو محض کھیل کود کی زندگی ہے۔ پھر زینت اور عنفوانِ شباب کے چھیڑ چھاڑ کی عمر ہے۔ تھوڑے ہی ہوتے ہیں جو 30 سال کی عمر تک سمجھداری ؛ وضعداری اور عقل مندی کی زندگی گزارتے ہیں۔ زیادہ تر 40 سال کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں اور ایک بھاگ دوڑ اور ہپھڑ دھپڑ میں گزار آتے ہیں۔ مگر 40 سال کی عمر تک زندگی ایک متعین راستہ ضرور اختیار کر چکی ہوتی ہے۔ انسان اس عمر تک ایک متعین زندگی کے سفر میں قید ہوچکا ہوتا ہے۔ کم ہی انسان اس متعین راستے سے ہٹ کر کوئی نیا راستہ کامیابی سے مکمل کرسکتے ہیں۔
انسانی کتاب کا ایک مختصر جائزہ یہ دکھاتا ہے کہ ہم اپنی عمروں کے ادوار میں جیتے ہیں۔ یہ ادوار کا چارٹ کچھ اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے:-۔
10 سال کی عمر میں ہم شیرخوارگی سے نکل کر بچپن میں ہوتے ہیں؛ اور خواہ کالے ہوں یا گورے؛ امیر ہوں یا غریب؛ والدین اور عزیز اقارب کے چہیتے ہوتے ہیں۔ معصوم بھی ہوتے ہیں؛ سادہ اور ہمدرد بھی ہوتے ہیں۔
20 سال کی عمر میں ہم نوجوان ہوتے ہیں؛ ہم زمانے سے چالاکیاں سیکھتے ہیں؛ خود کو ہوشیار جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نوجوانی کی طاقت کبھی ختم نہیں ہوگی اور ہم اکیلے ہی دنیا فتح کرسکتے ہیں۔ کالج، یونیورسٹی، کھیل کی میدان الغرض کارزارِ حیات کے ہر میدان میں 20 سے تیس سال کے نوجوان ورلڈ چیمپین، اولمپک چیمپین وغیرہ بن جاتے ہیں۔ یہ زندگی کا خوبصورت ترین دور ہوتا ہے۔ زیادہ تر اسی دوران بیاہ کرلیتے ہیں اور گھر گرہستی سیکھنے لگتے ہیں۔
30 سال کی عمر ایک دوراہا ہے۔ ہم لوگ باروزگار ہوجاتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے دستِ نگر۔ زندگی کے سفر میں اپنا راستہ چن چکے ہوتے ہیں؛ ٹھراو لاتا ہوا یا مستقل ڈگمگاتا ہوا۔ دونوں صورتوں میں ہم اپنی اگلی منزلوں کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ بہت سارے افراد کے لیے یہ زندگی مسابقت کی دوڑ ہوتی ہے اور وہ خود کو اس مقابلے میں بہت آگے پاتے ہیں۔ کم سنی میں شروع ہونے والا سفر بہت سے افرد کے لیے ایک کامیابی لاتا ہے اور وہ خود کو دوسروں سے زیادہ کامیاب تصور کرلیتے ہیں۔ حالانکہ ابھی زندگی کا سفر شروع ہوا ہوتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے اور یہ سفر اس وقت تک ختم نہیں ہوتا جب تک آخری سانس نہیں آتی۔ اور آخری فیصلہ اس وقت ہوتا ہے جب آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجاتی ہیں۔
40 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے معاملات نئی کروٹ لینے لگتے ہیں۔ زندگی کے سفر میں اس عمر تک زیادہ پڑھے لکھے اور کم پڑھے لکھے کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ تو کم تعلیم یافتہ افراد کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔
50 سال کی عمر میں بدصورتی اور خوبصورتی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے حسین ترین انسان کے چہرے پر بھی جھریاں نظر آنے لگتی ہے۔
60 سال کی عمر میں بڑے عہدے اور چھوٹے عہدے کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سر پھرے بیوروکریٹ کو ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر کا چپڑاسی چوکیدار بھی سلام نہیں کرتا۔
70 سال کی عمر میں چھوٹے گھر اور بڑے گھر کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ گھٹنوں کی درد اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیٹھنے کی جگہ ہی تو چاہئیے۔
80 سال کی عمر میں پیسے کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اکاونٹ میں کروڑوں اور جیب میں لاکھوں روپے بھی ہوں تو کونسا سکھ خریدلو گے؟
90 سال کی عمر میں سونا اور جاگنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ جاگ کر بھی کیا تیر مار لو گے؟؟
مکتب کا علم اور کارِ جہان کا تجربہ
کیا علم صرف کتابوں ہی میں ہے؟ زندگی تو سب ہی گزارتے ہیں تو کیا زندگی کا تجربے کے اسباق کے حامل انسان ہمیں کچھ نہیں سکھا سکتے؟ ہم انسانوں کے معاشرے میں زندہ رہتے ہیں اور ہمیں لمحہ لمحہ روز و شب باہم انسانی آبادیوں ہی میں بسر کرنی ہوتی ہے۔ سو ہمیں ہر دن آپس میں ایک دوسرے کےعادات اور رویوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ سو ہر دن ہم ایک دوسرے سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اب سارے انسان ہمدرد اور انسان دوست نہیں ہوتے؛ اس لیے کئی ایسے حادثات جنم لیتے ہیں کو انسانوں کو بعض اسباق ایسے ملتے ہیں کہ ساری ڈگریاں دھری کی دھری رہ جاتی۔
مکتب اور کتاب کے سبق پُراخلاق، انسان دوست، حقیقی، مناسب اور درست ہوتے ہیں۔ انسان اس سے ہٹ کے سبق جو ظلم اور نا انصافی کے ہوتے ہیں اس معاشرے سے لیتے ہیں جس میں اس نے آنکھ کھولی ہوتی ہے۔ جو ماں کی گود ہی سے شروع ہوتی ہے، پھر خاندان، گلی، محلہ اور شہر اور ملک کے عمومی حالات اس مین ممدود اور معاون ہوتے ہیں۔ انسان کی ساخت اور شخصیت کو اعلی کرنا ہے تو معاشرے کو بہتر کریں؛ اور قوم ملک، سلطنت کی تعمیر کریں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہم انسانوں نے نا صرف اپنے معاشرے برباد کردیے ہیں بلکہ زمین جو ہمارا مسکن بھی ہے کو زخمی کر رکھا ہے۔ جس کے باعث نباتات اور دوسری مخلوقات مشکلات کا شکار ہیں۔
"یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں؛ کیا ہمیشہ سے ایسی ہی تھی؟ آج یہ بہت زخمی ہے، ہماری اندھا دھند غیر ذمہ دار اندازِ زندگی گذارنے کے سبب۔ یہ زخمی زمین پھر بھی ہمیں کھانا کھلا رہی ہے۔ ہمیں پال پوس رہی ہے اور ہمارا یہی ٹھکانہ بھی بنی ہوئی ہے۔ یہ زمین ہمیں حیرت اور خوشی کے لمحات دیتی ہے۔ اس زمین کے بدلتے موسم مجھے زندگی کا پیغام دھراتے رہتے کا سبق دیتے ہیں۔ اس لیے ہمین ہمیشہ مایوسی پر خوشی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ یہ سر ریت میں ڈالنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس خوشی کو محسوس کرنا ہے جو فطرت ہمیں روزانہ دیتی ہے اور ہمیں اس بہترین تحفے کو واپس بھی کرنا چاہیے۔
"ایک نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ اگر کبھی کسی کو پتہ چل جاتا ہے کہ کائنات کس چیز کے لیے ہے اور یہ یہاں کیوں ہے، تو یہ فوری طور پر غائب ہو جائے گی اور اس کی جگہ اس سے بھی زیادہ عجیب اور ناقابل فہم چیز لے لی جائے گی۔ ایک اور نظریہ ہے جو کہتا ہے کہ یہ پہلے ہی ہو چکا ہے"۔ ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کہ ہم آج اکیلے نہِں ہیں اور نہ یہ زندگی ہمارے لیے انوکھی ہے۔ آ ج ہمارے ساتھ ساتھ آٹھ ارب انسان اس زمین پر بستے ہین اور اسی طرح ارب بہا ارب انسان اپنا راگ آلاپ کر زیرِ زمین جا سوئے ہیں۔
ذیل میں ایک ماں کی بپتا پڑھتے ہیں؛ یہ ہر جگہ دھرائی جاتی ہے تھوڑی مختلف بھی ہوسکتی ہے مگر زیادہ نہیں۔ ہم نے یہ تحریر فیسبک پر پڑھی ہے اور اپنے قارئین کو پیش کرتے ہیں۔
" کل یہ بچے جلدی بڑے ہو جائیں گے... اور پرندوں کی طرح اڑ جائیں گے، ہر کوئی اپنے اپنے آشیانے کی طرف۔ اور آپ کی ساری فکر بس ایک اچھا کھانا بنانے کی ہوگی... تاکہ آپ انہیں بس ایک گھنٹہ کے لیے اپنے اردگرد جمع کر سکیں۔ پھر جلدی سے سب اپنی دنیا میں واپس چلے جائیں گے اور آپ کو اکیلا چھوڑ دیں گے۔ آپ سوچیں گی، اگلے دن کے لیے کیا پکاؤں؟ اور کس کے لیے پکاؤں، جب گھر میں بس آپ اور ان کا والد ہی ہوں گے۔
... کوئی بیٹی اسکول سے واپس آکر سیڑھیوں پر آپ کے کھانے کی خوشبو کو سونگھتے ہوئے یہ نہیں کہے گی، "امی، بہت بھوک لگی ہے۔" اور بیٹا اسکول سے آکر دوڑتا ہوا کچن میں جائے گا، برتنوں کے ڈھکن کھولے گا، تھوڑا سا چکھے گا اور کہے گا، "امی، میں بھوک سے مر رہا ہوں۔"
... یا اللہ! یہ وقت کب گزر گیا؟ یہ دن اتنی تیزی سے کیسے اُڑ گئے؟ روزانہ آپ سوچتی تھیں کہ آج کیا پکاؤں تاکہ سب کی پسند کو خوش کر سکوں۔ ... آپ کبھی کبھار تنگ بھی آجاتی تھیں جب بیٹا آپ سے کوئی خاص ڈش بنانے کو کہتا تھا یا بیٹی آپ سے کوئی میٹھا مانگتی تھی اور آپ سے منتیں کرتی تھی۔ ... آج آپ دل میں یہ خواہش کرتی ہیں کہ کاش کوئی آپ سے کوئی کھانے کی فرمائش کرے تاکہ آپ دوبارہ ان سب کو اپنے اردگرد جمع کر سکیں۔
یا اللہ! کتنی شدت سے آپ ان دنوں کو یاد کریں گی۔ اس لیے میں آپ کو نصیحت کروں گی: اللہ کی خاطر، اپنے بچوں کی موجودگی کا خوب مزہ لیں۔ ان کے بکھرے ہوئے کھلونوں، ہر جگہ پھیلی ہوئی چیزوں، اور بکھرے ہوئے گھر کا بھی مزہ لیں۔ ... ان کے مذاق، کھیل کود، اور شور شرابے کا بھی مزہ لیں، جو آج آپ کو سر درد دیتا ہے۔ خوب مزہ لیں... یقین کریں، جب آپ کا گھر بے حد صاف اور بے حد پرسکون ہو جائے گا... تو یہ سب یاد آئے گا۔ جائیں، اپنے بچوں کو جتنا ہو سکے گلے لگائیں۔ ان کی بچپن کی شرارتوں اور ان کے اردگرد موجود ہونے کا بھرپور لطف اٹھائیں۔ کیونکہ وہ اتنی تیزی سے بڑے ہو جاتے ہیں، جتنا آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔ ان کی خوشبو اور ان کی موجودگی کا مزہ لیں۔ آج آپ کے پاس ان کا پورا دن ہے، لیکن کل... شاید آپ کو بس ایک گھنٹہ ملے گا۔ ان کے ساتھ اپنی زندگی دل سے جئیں"۔
دن تو ہمیشہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے ہاں مگر اس کو اچھا اور برا ہم نے خود ہی بنانا ہوتا ہے یہ سب کچھ انسان کی سوچ اور انسان کے ضمیر پر ہے کچھ لوگ سارا دن اچھے کام کرتے ہیں لیکن پھر بھی وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہم سے کسی کے ساتھ کچھ برا نہ ہو گیا ہو اور کچھ لوگ سارا دن برا کرتے ہیں اور برے کام کرتے ہیں سوچتے ہیں کہ ہمارا دن آج کا بہت اچھا گزرا ہے۔ ایک اچھے انسان کی زندگی کا بہترین حصہ اس کے محبت اور رحمدلی سے کیے گئے معمولی اور گمنام اعمال ہیں جو وہ ان لوگوں کیلئے کرتا ھے جن سے اس کا کوئی رشتہ نہیں ھوتا۔
مال، حسن، اسبابِ حیات اور سب انسانی خوبیاں قدرت کی عطا کردہ تحفہ ہوتی ہیں۔ وقت، حالات اور جگہ کی اہمیت نہیں ہوتی اگر ہم اپنی کہانی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں۔اہمیت ایک عمدہ مثال بننے کی ہے؛ اس طرح کہ زندگی کو خوبصورت اور پرسکون بنانے کے لیے کیسے جیا جائے؟ لہذا آج سے ہی اپنی زندگی کے ایک ایک پل کو خوشی اور انبساط کا مصدر بنائِں؛ اور ہر حال میں اللہ سبحان تعالی کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ ہم میں سے جو بھی عمر طبی کے آخری مرحلے تک پہنچ جائیں تو ان کے لیے محترمہ حمیدہ شاہین کا پیغام پیش کیا جاتا ہے۔
بڑھاپا خوبصورت ہے ۔۔۔
بصارت کی رسائی میں
پسندیدہ کتابیں ہوں !
مہکتے سبز موسم ہوں ۔۔
پرندے ہوں،شجر ہوں تو!
بڑھاپا خوب صورت ہے ۔۔۔
جواں رشتوں کی دولت سے
اگر دامن بھرا ہو تو !
رفیقِ دل، شریکِ جاں برابر
میں کھڑا ہو تو !
بُڑھاپا خوب صورت ہے ۔۔۔۔ !