زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور آنے والے انسانوں کو کئی نئی کہانیاں دے جاتا ہے۔ انسان کے چہرے سے اس کا اندر جان جانا آسان کام نہیں ہوتا۔ لوگوں نے اپنے غم چھپا رکھے ہوتے ہیں۔ یہ تحریر ایک سبق آموز کہانی ہے جسے کراچی کے ایک تفریحی مقام پہ لوگوں کو خوشیاں بانٹنے والے مگر اندر سے اداس جوکروں سے ملاقات کے بعد لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کی ہے
جوکر کا ماسک
جوکر کمال مہارت سے پانچ گیندوں کو بیک وقت دونوں ہاتھوں سے ہوا میں مسلسل اچھال رہا تھا۔ شاکر اللہ کی دس سالہ اکلوتی بیٹی حیرت سے جوکر کی مہارت کو دیکھ رہی تھی۔ اس کرتب سے پہلے یہ جوکر اور اس کے ساتھی فنکار کافی دیر تک اپنے فن سے حاضرین کو محظوظ کرتے رہے۔
پروگرام کے اختتام پہ شاکر اللہ نے اپنی بیٹی کی فرمائش پر پروگرام کے مینجر سے مع فیملی پسِ پردہ فنکاروں کی ٹیم کی حوصلہ افزائی کی اجازت طلب کئی۔ مینجر کے کہنے پر وہ لوگ پندرہ سے بیس منٹ بعد اسٹیج کے پیچھے پہنچ گئے۔
ان پندرہ بیس منٹ میں فنکار اپنا میک اپ اتار چکے تھے۔ فنکار تو وہی تھے لیکن کسی اسٹیج ڈرامے کی طرح سیٹ اور منظر یکسر تبدیل ہو چلا تھا۔ یوں لگا گویا مزاحیہ ڈرامے میں کوئی ٹریجڈی سین آ گیا ہو۔ تھوڑی دیر پہلے لوگوں کے چہروں پہ ہسنی بکھرنے والے یہ جوکر اب بالکل ہی مختلف نظر آئے۔
ان فنکاروں کے چہرے دھلنے کے بعد میک اپ سے پاک ہو چکے تھے۔ گویا وہ اپنے اصلی روپ میں دکھائی دیئے۔ رنگین بالوں کی وگ اتری تو اصلی بالوں میں سفیدی کی جھلک نمایاں تھی۔ مکی ماؤس اور ونی دا پو کے کردار ادا کرنے والے حقیقت میں کوئی بچے نہ تھے بلکہ کئی بچوں کے باپ تھے۔ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ وہ چھوٹے قد کے 'بڑے' انسان تھے۔
شاکر اللہ کو اللہ تعالیٰ نے چہرے پڑھنے کا ہنر بخشا تھا۔ وہ ان فنکاروں کی آنکھوں میں اداسی دیکھ چکا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے ہشاش بشاش نظر آنے والے ان فنکاروں کے چہروں پر ایک اکتاہٹ بھی واضح تھی۔ شاکر اللہ کی دس سالہ بیٹی تو مکی ماؤس، ونی دا پو اور رنگین بالوں والے جوکروں کے ساتھ تصاویر بنوانے آئی تھی۔ مگر اب وہ پریشان نظروں سے اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی گویا آنکھوں ہی آنکھوں میں واپس جانے کا کہہ رہی ہو۔ مگر شاکر اللہ اب ان سب فنکاروں کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتا تھا۔ ان سے بات کرنا چاہتا تھا۔ مگر ان سب فنکاروں کو اب گھر جانے کی جلدی تھی۔ رات بھی تو کافی ہو چکی تھی۔ مینجر نے سب فنکاروں کو آج ہونے والی آمدنی سے ان کا حصہ دیا اور اس کے بعد وہ ایک منٹ بھی وہاں نہ رکے۔
شاکر اللہ نے مینجر سے تھوڑی دیر بات کی اور ان فنکاروں سے ملاقات کیلئے اگلے ہفتے کا وقت لے لیا۔ اس رات شاکر اللہ سو نہ سکا نیند اس سے کوسوں دور تھی۔ ان تمام فنکاروں کی میک اپ شدہ اور اصل شکلیں اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں۔ اس کے دل اور دماغ پر ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ وہ ان فنکاروں کے حالات جاننا چاہتا تھا کہ کیونکر وہ اپنا بھیس بدل کر لوگوں کو ہنسا رہے ہیں جبکہ وہ بذاتِ خود اندر سے اداس دکھائی دیتے ہیں۔
اس ایک ہفتے کے اندر اندر وہ جوکروں پہ بننے والی تمام فلمیں دیکھ چکا تھا۔ اگلے ہفتے وہ مقررہ وقت سے کافی پہلے ہی اسٹیج کے پیچھے پہنچ گیا۔ فنکار بھی اپنے مقررہ وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گئے۔ پچھلے ہفتے کے مقابلے میں فنکاروں کا موڈ آج قدرے بہتر تھا۔
پروگرام کیلئے میک اپ شروع ہوا۔ شدید گرمیوں کے موسم میں جوکر کا لباس پہننا اور سر پر وگ پہنے رکھنا بھی کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر انسان یہ سب کرنے پر کیوں مجبور ہے؟ اس سوال کا جواب اس نے مکی ماؤس کا کردار ادا کرنے والے شیقے سے جاننا چاہا، شیقے کا اصل نام شفیق تھا۔ اس نے شاکر اللہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کچھ دیر دیکھا جیسے وہ اس کی آنکھوں میں سے ہی جواب ڈھونڈ رہا ہو۔ پھر کچھ توقف کے بعد وہ بولا شاکر صاحب پچھلے ہفتے آپ یہاں کیوں آئے تھے؟ میری اکلوتی بیٹی کی فرمائش تھی آپ سب کے ساتھ تصاویر بنوانے کی اور میں اپنی لاڈلی کی فرمائش کبھی رد نہیں کرتا۔ جی شاکر صاحب ہماری گڑیا رانی بھی ہم سے فرمائش کرتی رہتی ہے۔ پگلی آنکھوں کی بینائی کی فرمائش کرتی ہے ہمیں دیکھنے کیلئے۔ نابینا ہے نا میری گڑیا رانی تو دیکھنے کی معصوم سی فرمائش کرتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس کو روٹی دوں یا بینائی۔ پس صبح مزدوری کرتا ہوں اور شام کو اپنا غم غلط کرتا ہوں لوگوں کو ہنسا کر۔ یہ کہنا تھا کہ گڑیا رانی کی معصوم فرمائش اور شیقے کی بےبسی یکجا ہو کے اس کی آنکھوں سے جھلک پڑی۔ اس نے جلدی سے مکی ماؤس کا ماسک منہ پر پہن لیا۔ شاکر کے پاس تو آنسو چھپانے کیلئے کوئی ماسک بھی نہ تھا۔۔۔۔اتنے میں منیجر کی آواز آئی اوئے شیقے چل تیری انٹری ہے۔
شاکر کی آنکھوں سے آنسو اب بھی جاری تھے جبکہ شیقے کی جاندار انٹری پہ شائقین دیر تک تالیاں بجاتے رہے۔ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس ہنستے ماسک سے ہنسانے والا مکی ماؤس کا ماسک اندر سے بھیگ چکا ہے، آنسووں کے باعث دکھائی بھی کم دے رہا ہے لیکن سامنے بیٹھی ہر بچی اسے اپنی گڑیا دکھائی دے رہی تھی۔ مجمع کیا جانے کہ ان کو ہنسانے والے کے دل کی کیا کیفیت ہے؟ ماسک بنانے والے بھی کتنے ظالم ہیں ایسا ماسک بنا دیا جس کے پیچھے آنسو اور جذبات سب چھپ جاتے ہیں۔ معاشرے کو چاہیے بھی تو یہی۔۔۔جھوٹ، سب جھوٹ کے خریدار ہی تو ہیں۔
شاکر اللہ نم آنکھوں کے ساتھ اب راجا بابو کے پاس جا پہنچا۔ جو پسِ پردہ پانچ گیندوں کو بیک وقت ہوا میں مسلسل اچھالنے کی مشق کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ شاکر اللہ اس سے بات کرتا راجا بابو مشق جاری رکھتے ہوئے بولا باؤ جی آپ اخباری رپورٹر ہو؟ شاکر اللہ نے نفی میں جواب دیا تو اس نے بڑی مہارت سے ساری گیندوں کو یک دم اچھالنا بند کر دیا اور شاکر اللہ کی طرف متوجہ ہو کر بولا تو پھر آپ ہم سے سوالات کیوں کر رہے ہو؟ میں آپ لوگوں کو درپیش مسائل جاننا چاہتا ہوں، آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ شاکر صاحب ہم سب فنکار ایک ہی برادری کے ہیں۔ الحمدللہ روکھی سوکھی کھا کر گزرا کر ہی لیتے ہیں۔ جب روزی مل جائے تو تین وقت کا کھا لیتے ہیں نہیں تو بچوں کا پیٹ تو بھر ہی لیتے ہیں۔ خالی پیٹ مزدوری تھوڑی مشکل ہوتی ہے لیکن شاکر صاحب ہر حال میں مالک کا شکر ادا کرتے ہیں۔ بس اپنے شیقے کی بیٹی کا علاج ہو جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کی اکلوتی اولاد دیکھ نہیں پاتی آنکھوں سے اور ہم شیقے اور اس کی عورت کا دکھ نہیں دیکھ پاتے۔ گردن توڑ بخار ہوا تھا چھوٹی سی گڑیا کو۔ جان تو بچ گئی تھی پر بینائی چلی گئی۔۔۔اتنے میں راجا بابو کی انٹری کا وقت ہو چلا تھا۔۔۔
شاکر اللہ نے مینجر کو بتایا کہ وہ آنکھوں کے ڈاکٹر سے شیقے کی بیٹی کے علاج کی بات کرے گا۔ اس نے بٹوے سے بیس ہزار روپے نکال کر مینجر کو دیئے کہ فنکاروں میں بانٹ دے اور تیز قدموں کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اگلے ہی دن شاکر اللہ نے شہر کے سب سے قابل آنکھوں کے سرجن سے وقت لیا اور شیقے کے ساتھ ہسپتال پہنچ گیا۔ یہ سلسلہ کئی دن چلتا رہا اور کئی ٹیسٹ کرانے کے بعد بالآخر ڈاکٹر نے یہ خوشخبری سنائی کے شیقے کی بیٹی کی بینائی واپس آ سکتی ہے۔
اگلے کئی دن شاکر اللہ سیٹ پر نہیں آیا۔ مینجر نے شیقے کے اصرار پر فون کیا تو پتہ چلا کہ شاکر کی اکلوتی بیٹی ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ شاکر تو جوکروں سے بھی زیادہ بہروپیا تھا بغیر ماسک کے جذبات چھپائے رکھتا تھا۔ کسی کو پتہ ہی نہ چلنے دیا کہ دوسرے کی بیٹی کو بینائی واپس دلانے والے کی اپنی اکلوتی بیٹی دل میں سوراخ لیے پیدا ہوئی تھی۔ شیقہ پروگرام ادھورا چھوڑ کر مکی ماؤس کے لباس میں ہی ہسپتال پہنچ گیا۔۔۔
آج مکی ماؤس شاکر کی بیٹی کی اپنی ساتھ تصویر کھینچوانے کی فرمائش پوری کرنا چاہتا تھا، مگر کچھ فرمائشیں ادھوری ہی رہ جاتی ہیں کہ شیقے نے آنے میں دیر کر دی تھی۔ البتہ گڑیا رانی اب شاکر اللہ کی ننھی کلی کی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ پائے گی۔۔۔
شاکر اللہ اور شیقہ ہسپتال کے کمرے کے باہر کھڑے تھے، ماسک ایک ہی تھا دونوں کے جذبات کیسے چھپا سکتا تھا پس دونوں ایک دوسرے کا ماسک بن کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی
🪀: 0340 4303030
📧: khanabrar30c@gmail.com