کرہ ارض پر زیادہ تر خطوں پر سال میں چار مرتبہ موسم تبدیل ہوتا ہے۔ موسم گرما ، موسم سرما ،موسم بہار اور خزاں۔ اور بارہ مہینے ہوتے ہیں۔ ماہِ نومبر خزاں کے موسم کا مہینہ ہے۔ رومان پرور لوگ خزان کو حسن فطرت کا موسم جانتے ہیں؛ جب کہ دوسرے غم اور دکھ کا۔ خزاں رت کے جوبن میں بت جھڑ سے درخت اور پتے خوبصورت رنگوں کے ساتھ جھڑتے ہیں۔ یہ تحریر خزاں رت کے حسن پروری اور غم زدگی سے متعلق لکھی گئی ہے۔
خزاں کا موسم؛ جشن ہے یا غم؟
زمانہ قدیم سے لوگوں کی زندگی کا دارومدار زراعت اور مویشی پر تھا اور موسم کے اتار و چڑھاو کے اثرات ان کی زندگی کے لیے بہت اہم ہوتے تھے۔ مشاہدے اور تجربے سے لوگ موسموں کی مسلسل تبدیلیوں کو سمجھ چکے تھے اور اپنی زندگی پر روشنی، اندھیرے اور گرمی و سردی کے اثرات و ثمرات کو سمجھتے تھے۔ اور ان حاصل کردہ معلومات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ روشنی، دن اور سورج نیکی کی علامتیں اور اندھیرا، رات اور سردی برائی کی نشانیاں ہیں۔
ان مشاہدات سے وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ رات، دن اور روشنی و تاریکی ایک مستقل کشمکش میں ہیں۔ لمبے دن کو روشنی کی فتح کی علامت اور چھوٹے دن کو اندھیرے کی فتح کی علامت تصورکرتے تھے۔ یوں اس دور کے انسان نے خزاں کے آخری دن کو جشن کے طور پر منانا شروع کردیا جو سال کی طویل ترین رات ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کے بعد دن آہستہ لمبے ہوتے جاتے ہیں اور تاریکی پرروشنی غالب آجاتی ہے۔
ہماری روز مرہ زندگی کے معمولات ہمارے اندر کی گھڑی کے ساتھ سیٹ ہوتے ہیں، جسے سائنسی اصطلاح میں ''سرکیڈین کلاک‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ کلاک سورج کے طلوع و غروب اور چوبیس گھنٹوں کے قدرتی سائیکل سے جڑی رہتی ہے۔ یہ ہماری جسمانی و ذہنی صحت، رویوں اور موڈ میں تبدیلی سے وابستہ ہے۔ انسانی زندگی قدرت کی عظیم تخلیق ہے جو طاقتور خود کار نظام سے منسلک ہے۔ رات کا دن میں بدلنا، موسموں کی تبدیلی اور درجہ حرارت کا گھٹنا‘ بڑھنا ہمارے مزاج پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ دنیا کی رنگینی خوبصورت اور انواع و اقسام کے مظاہرِ فطرت، تخلیقات اور رنگوں سے عبارت ہے۔ ان رنگوں میں فطرت کی گہرائیاں چھپی ہوئی ہیں۔ تخلیقِ کائنات پر غور و فکر اور تحقیق سے انسان ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
زرد پتوں کا موسم؛ موسم خزاں
خزاں صرف درختوں یا پتوں پر نہیں آتی بلکہ انسانوں پر بھی ایسا وقت آتا ہے۔
خوبصورتی میں خزاں کے موسم کا دور دور تک موازنہ نہیں جتنی خوبصورتی خزاں کے زرد، سنہری، سرخی نما پتوں میں ہے شاید ہی دنیا میں اتنا خوبصورت شاہکار دیکحنے کو ملتا ہو۔.
سوکھی ٹہنیوں زرد اور نارنجی پتے زمین پر گرے اور کچھ درختوں کے ساتھ ہی جڑے رہے؛ لیکن ایک ذرا سی اندھی، ہوا، یا طوفان کا ایک جھونکا ہی کافی ہوتا ہے؛ ان پتوں کو ٹہنیوں سے جدا کرنے کے لیے۔
سوکھے پتوں پر چلنا اور زیرِ پاؤں ان پتوں کے چٹخنے کی آواز سننا ایک اور ہی نوع کا حسن ہے؛ اس سے حسین سر اور کیا ہوسکتا ہے؟ قدرت کی ان بے وقعت ہونے والی ساعتوں میں بھی کمال کا حسن ہے؛ اگر ہمیں حسنِ سماعت ہے۔
فطرت کے متلاشی خزاں کے حسین رازوں کو جان پاتے ہیں کہ کیسے بے جان پتوں، سوکھی ٹہنیوں، اور ان کے درمیان اڑتے پھرتے پرندے جلوہ آفرینی بکھیرتے ہیں؟ قدرت ان متلاشیوں کو وہ حسن دکھاتا ہے جو ہر کوئی عام غافل شخص کے گمان میں بھی نہی آسکتا۔
ہر عروج کو زوال ہے اسی طرح ہر بہار کے بعد خزاں اور سنہری زرد پتوں کی خوبصورتی کو وہی لوگ محسوس کر سکتے ہیں جو حسن پرور دل والے ہوں۔
حسن پرور انسان اندر سے خوبصورت ہوتا ہے؛ اور جس کا دل خوبصورت ہے؛ اصل میں وہی انسان فطرت کی فیاضیوں سے لظف اندوز ہوتا ہے۔
اداسی میں ڈوبی خزاں کی شام بھی حسن فطرت کا شاہکار ہے؛
اور وہ شام بھی ہو پہاڑوں کی؛ اور آپ دیکھ پائیں؛
پہاڑوں کی یخ بستہ خزاں؛ اور ساتھ اس کی سانسوں کو بے ترتیب کرتی ہوا؛
تو اداسی میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے؛
اور خزاں کی زرد پتوں کی رت جسم اور وجود کے ساتھ ساتھ روح کو بھی زرد کر دیتی ہے۔۔۔
مگر زندگی کو تو آخری سانس تک جینا ہوتا ہے؛
تو پھر بھلا ہم؛ جینا چھوڑ دیں۔
خزاں کتنی بھی اداس اور اجڑا پن دی گئی ہو؛ اور سردیاں کتنی ہی لمبی ہوگئیں ہوں؛
بہار پھر بھی آتیں ہیں؛ کہ یہی قدرت کا فطرت سے لگاو ہے۔
موسم خزاں کا ذکر ادیبوں کے ناولوں اور شاعروں کی شاعری میں بہت زیادہ ملتا ہے کیونکہ اس موسم کو اداسی اور غم سے تشبیہ دی جاتی ہے؛ کیونکہ اس موسم میں ہربھرے سایہ دار درخت اور ہرے بھرے باغات اپنی رعنائی کو کھو دیتے ہیں۔ اس موسم میں درختوں کے پتے سوکھ کر جھڑ جاتے ہیں اور باغات میں کھلے پھول مرجھا جاتے ہیں، اس لئے اس موسم کو پت جھڑ بھی کہا جاتا ہے۔
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
مرزا غالب
مری زندگی پہ نہ مسکرا مجھے زندگی کا الم نہیں
جسے تیرے غم سے ہو واسطہ وہ خزاں بہار سے کم نہیں
شکیل بدایونی
رعنائی بہار پہ تھے سب فریفتہ
افسوس کوئی محرم راز خزاں نہ تھا
حبیب احمد صدیقی
خزاں کا زہر سارے شہر کی رگ رگ میں اترا ہے
گلی کوچوں میں اب تو زرد چہرے دیکھنے ہوں گے
امداد ہمدانی
ہوائے زرد کا چلنا کہاں ہے راس ہمیں
کرے گا دیکھنا پت جھڑ بہت اداس ہمیں
کومل جوئیہ
جادو کے پٹارے سا یہ وقت
جبکہ صبح اور شام کے بیچ
کتنا کچھ گھٹ جاتا ہے دنیا میں
جس سے ہمیں نہیں ہوتا کوئی خاص واسطہ
پھر بھی ہم سوچتے ہیں اس پر
باتیں بھی کرتے ہیں کبھی کبھار
جبکہ ہمارے بیچ
سوکھے دنوں اور سیلی راتوں کی اننت ویرانیاں ہیں
جو سونے پربتوں اور سست ندیوں
بنجر کھیتوں اور مرجھائے جنگلوں
اور ان پر ٹکٹکی باندھے
اداس آنکھوں کے بہشکرت ایکانت سے
چپ چاپ اتر آئی ہیں
جبکہ دور
رتیلی سرحدوں کو چھوکر
آنے والیؔ گرم ہوا کے بیچ
تم سے دور ہونے کا درد
پلٹ پلٹ کر ہو جاتا ہے گاڑھا
میں ان پربتوں ندیوں کھیتوں جنگلوں
اور اداس آنکھوں کے
کتنا قریب ہوتا ہوں
جادو کے پٹارے سا یہ وقت
جیسے چھوڑتا ہے
آشچریہ کی آتش بازیاں
جب تم باتیں کرتی ہو
میں جیسے بھیگتا ہوں سوروں کی بارش میں
اور تماری چپی سے پھوٹتے ہیں
کتنے نئے شبد
جن کے بنا برسوں سے ادھوری پڑی تھیں
میری کتنی ہی باتیں
اور تمہاری تصویریں
جیسے رہ رہ اور پلٹتی ہیں
سمرتیوں کی پرانی کتاب
جس میں گھلے تھے کبھی
تمہاری اداؤں کے معصوم رنگ
اور تمہاری کفایتی ہنسی
جیسے خوشبو کے کسی گمراہ جھونکے سی
سمیٹتی مجھے اپنے نرم گھیرے میں
یوں دھرتی کے اس حصے میں
یہ شاخ سے ٹوٹتے پیلے پتوں کا موسم ہے
پیڑوں پر آباد ہیں چمگادڑ اور کالے کوے
پھر بھی یہ وقت
میرے کمرے کی دیواروں پر اکثر کھلا جاتا ہے
گل موہر اور املتاس کے سندر پھول
اور تب میں سچ مچ جان لیتا ہوں
کہ میری یاد
تمہاری آنکھوں میں
روپنے لگی ہے موتی
تم سے دور میں اکثر کھولتا ہوں
وقت کے اس جادوئی پٹارے کو
چنتا ہوں شبد سور رنگ خوشبو اور موتی
اور پھر
جیسے کسی بچکانی ضد میں
ان پر جگ مگ امیدوں کا آسمانی ورق چڑھا
رکھ دیتا ہوں زندگی کی چوکھٹ پر
جادوئی پٹارے سا یہ وقت
شاید تمہیں بھی کبھی یہ بتاتا ہو
کہ تم سے دور بھی
میں کتنا تیار ہوتا ہوں
اس مشکل دنیا کا سامنا کرنے کے لئے
یہ زرد موسم کے خشک پتے
ہوا جنہیں لے گئی اڑا کر
اگر کبھی ان کو دیکھ پاؤ
تو سوچ لینا
کہ ان میں ہر برگ کی نمو میں
زیاں گیا عرق شاخ گل کا
کبھی یہ سرسبز کونپلیں تھے
کبھی یہ شاداب بھی رہے ہیں
کھلے ہوئے ہونٹ کی طرح نرم اور شگفتہ
بہت دنوں تک
یہ سبز پتے
ہوا کے ریلوں میں بے بسی سے تڑپ چکے ہیں
مگر یہ اب خشک ہو رہے ہیں
مگر یہ اب خشک ہو چکے ہیں
اگر کبھی اس طرف سے گزرو
تو دیکھ لینا
برہنہ شاخیں ہوا کے دل میں گڑھی ہوئی ہیں
یہ اب تمہارے لیے نہیں ہیں
نہیں ہیں
خزاں موسم نہیں ہے
ایک لمحہ ہے کہ جس کی آرزو میں
سبز پتے
ہوا کی آہٹوں پر کان دھرتے ہیں
گزرتے وقت میں ساعت بہ ساعت
نئے پیراہنوں میں
گلابی اور گہرے سرخ عنابی
دہکتے خوش نما رنگوں سے لے کر زرد ہونے تک
کبھی دھیمے کبھی اونچے سروں میں بات کرتی
خوشبوؤں میں بس بسا کر
ہوا کے ساتھ محو رقص ہونا چاہتے ہیں
زمیں کا رزق بن جانے سے پہلے
وہی اک اجنبی وارفتگی اور رقص کا لمحہ
کہیں پر دور آئندہ کے موسم کی سماعت میں
کسی سوئے ہوئے اک بیج میں
خواہش نمو کی سر اٹھاتی ہے
بہت ہی پیار سے ہر شاخ کے پتے سے کہتی ہے
کہ اب رزق زمیں بن کر
کسی اک نرم کونپل کی نمو کا آسرا بن جا
خزاں موسم نہیں ہے
اک مسرت خیز تخلیق عمل کا آسرا ہے
ثمینہ سید کی نظم " اسے کہنا" پیش کی جاتی ہے
خزاں کے زرد پتوں کا
کوئی سایہ نہیں ہوتا
بہت بے مول ہو کر جب
زمیں پر آن گرتے ہیں
تو یخ بستہ ہوائیں بھی
انہی کو زخم دیتی ہیں
اسے کہنا
کہ مجھ کو بھول کر بے مول نہ کرنا
_____________________________________
کنول ملک کی نظم " لوٹ آؤ سنو" پیش کی جاتی ہے
درختوں سے پتوں کے جھڑنے کا موسم بھی ہے اور تمہاری کنولؔ
باغ کے اک کنارے پہ بکھرے ہوئے
سوکھتے ٹوٹتے زرد پتوں پہ چلتے ہوئے
نظم اک مختصر لکھ رہی ہے تمہارے لیے
اس کی آنکھوں سے بے رنگ بہتے ہوئے
اشک جو لال ہونے کو تھے
ہجر کا زہر پیتے ہوئے کاسنی ہو گئے
اپنی زخمی سی پوروں سے چن کر انہیں
لکھ رہی ہے کوئی نظم اک مختصر
جس کا عنوان ہے
لوٹ آؤ سنو
کہ درختوں سے پتوں کے جھڑنے کا موسم بھی اب جا رہا ہے بہاروں کی راہ دیکھتے
اور تمہاری کنولؔ پتی پتی بکھرتے ہوئے
راستے سے یوں لگ کر بڑی دیر سے
راستہ دیکھتے اب بہت تھک گئی
لوٹ آؤ سنو
ایک نامعلوم شاعر کا خزاں پر کلام
شاید پت جھڑ کا موسم اپنے جوبن پر آن پہنچا ہے؛
پتوں کے گرنے کی آواز مسلسل آتی ہے؛
یہاں اب جاڑا لوٹ آیا ہے۔
اسکے آتے ہی ہواٸیں سرد اور خنک ہو جاٸیں گی؛
آسمان پر لالی اب کم ہی دکھائی دیا کرے گی؛
پرندے اپنے آشیانوں سے کم وبیش ہی نکل پاٸیں گے؛
انہیں اس لرزا دینے والے جاڑے کا مقابلہ کرنا ہوگا؛
اور کچھ تو اس کوشش میں ہی مارے جاٸیں گے۔
ہر طرف ویرانی کا ہی راج ہوگا؛
دن چڑھتے ہی ڈھلنے کی کوشش میں لگ جاٸیں گے؛
اس یخ بستہ ہواٶں میں زندگی بھی جیسے منجمند ہو جاۓ گی!!
میرے پاس آج کوئی سبز پتہ نہیں ہے
کہ زرد پتوں کی وسعت نے خاک سے نیل تک
سرسوں کا موسم کاشت کر رکھا ہے
میرے پاس کچھ بھی نہیں
بس اب تم بھی لوٹ آونا
خزاں کے آخری دنوں میں؛
اب پتیوں کے خوابوں کا تصور نہ کریں۔
چھونے میں کتنا آرام دہ ہوگا۔
کے بجائے زمین
ہوا کی کوئی چیز اور لامتناہی
ہوا کی تازگی؟ اور تم نہیں سوچتے
درخت، خاص طور پر ان کے ساتھ
کائی والے کھوکھلے، تلاش کرنے کے لئے شروع کر رہے ہیں۔
وہ پرندے جو آئیں گے – چھ، ایک درجن – سونے کے لیے
ان کے جسم کے اندر؟ اور تم نہیں سنتے؟
گولڈن روڈ کا سرگوشی کرتے ہوئے الوداع کہنا؛
جو جاتے ہوئے ناختم ہونے والا تاج پہنا جاتا ہے؛
برف کے گالوں کا۔
تالاب سخت ہو جاتا ہے اور جس کے اوپر سفید میدان میں
لومڑی اتنا تیز بھاگتی ہےکہ
اسکے لمبے نیلے سائے؛ آگے نکل جاتے ہیں۔
ہوا اسکی کئی دمیں ہلاتی ہے۔
اور شام کو لکڑیوں کا ڈھیر
تھوڑا سا بدلتا ہے،
اس کے راستے پر ہونے کی خواہش جاگ جاتی ہے۔
خزاں کا موسم جشن بھی ہے اور غم بھی🍂🍁
ہم جانتے ہیں کہ یخ بستہ سردی کے بعد موسم بہار مَنَصَّہ شُہُود پر آتا ہے تو فطرت انگڑائی لے کر نئے روپ میں ابھرتی ہے۔ مگر موسمِ خزاں برسات کے ہر طرف سبزے کے بعد ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ فطرت کے مناظر کی رعنائی حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ فطرت پسند؛ رومان پرور اور زندگی سے اکتائے انسان جذباتی اور جمالیاتی دونوں وجوہات کی بناء پر اس نوعیت کے مناظر کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ یہاں چند اہم عوامل ہیں۔
جذباتی اپیل:
امن اور سکون کا احساس: زمین کی تزئین کی پرسکون خوبصورتی، اس کے پرسکون پانی اور شاندار پہاڑوں کے ساتھ، امن اور سکون کے جذبات کو جنم دے سکتا ہے۔
فطرت سے تعلق: اس طرح کے قدیم قدرتی ماحول سے گھرا ہونا قدرتی دنیا سے تعلق کے احساس اور اس کی خوبصورتی کے لیے گہری تعریف کو فروغ دے سکتا ہے۔
حیرت اور حیرت: زمین کی تزئین کا سراسر پیمانہ اور عظمت حیرت اور حیرت کو متاثر کر سکتی ہے، جس سے ہمیں چیزوں کی عظیم منصوبہ بندی میں چھوٹا اور غیر معمولی محسوس ہوتا ہے۔
جمالیاتی اپیل:
بصری ہم آہنگی: رنگوں، ساختوں اور شکلوں کا باہمی تعامل ایک بصری طور پر خوش کن اور ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ متحرک موسم خزاں کے پودوں کا سرمئی پتھر کے چہروں اور پرسکون پانی سے خوبصورتی سے تضاد ہے۔
عکاسی اور ہم آہنگی: پانی میں زمین کی تزئین کی عکاسی ہم آہنگی اور توازن کا احساس پیدا کرتی ہے، جو انسانی آنکھ کو جمالیاتی طور پر خوش کرتی ہے۔
قدرتی خوبصورتی: زمین کی تزئین کی اچھوتی خوبصورتی، انسانی مداخلت سے پاک، ایک نادر اور قیمتی نظارہ ہے جسے بہت سے لوگ سراہتے ہیں۔
دیگر عوامل:
فوٹو گرافی کے مواقع: ڈرامائی مناظر فوٹوگرافروں کو شاندار تصاویر لینے کے کافی مواقع فراہم کرتے ہیں۔
تفریحی سرگرمیاں: یہ علاقہ پیدل سفر، کیمپنگ، ماہی گیری اور دیگر بیرونی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کر سکتا ہے، جو فطرت میں رہنے کے تجربے کو بڑھا سکتا ہے۔
مجموعی طور پر، اس قسم کا قدرتی منظر جمالیاتی اپیل، جذباتی گونج، اور تفریحی مواقع کا مجموعہ پیش کرتا ہے جو اسے بہت سے لوگوں کے لیے ایک مقبول منزل بناتا ہے۔
خزاں کا جشن عام ہے
برستے رنگ اور بھیگتے یہ سبز پیرہن
عجیب اہتمام ہے
تمام سبز بخت ہجر کے سحاب راستہ بدل گئے
زمیں پہ سرخ، سبز کاسنی بھنور کے رقص میں
دمکتی پتیوں کے جسم گھل گئے
ہوا نے شاخ شاخ سے
گلاب توڑ توڑ کے
وہ راستے سجا دیئے
جو انتظار کی ملول دھول سے خراب تھے
شفق پگھل کے
چمپئی شہاب رنگ دھڑکنوں میں ڈھل گئی
یہ موسم نیاز ہے
لہو میں اک سنہری آگ جل گئی