Naat is a Poetic expression of love and respect in the honour of Hazrat Muhammad (PBUH). The art of saying Naat was established well before the creation of Pakistan. This article takes a cursory look into the Poetic Naat Expressions and famous poets who articulated those verses and rendered them too.
پاکستان کے نعت گو اور نعت خواں
پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت، تعریف و توصیف، شمائل و خصائص کو اشعار کے قالب میں نظم، غزل وغیرہ میں ڈھال کر بیان کرنے کو نعت یا نعت گوئی کہا جاتا ہے۔ عربی زبان میں "مدحِ رسول" استعمال ہوتا ہے۔ سرزمینِ پاکستان میں نعت گوئی اور نعت خوانی ایک مستند روایت کے طور پر آزادی سے قبل سے موجود ہے۔
نعتِ رسولِ مقبول محمد ﷺ کے بارے میں اقلیم سخن کے تاجدار حضرت مولانا جامیؔ نے اتم بات کہہ دی
لا یُمکن الثناء کما کان حقّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
آپ ﷺ کی تعریف و توصیف ایسے کرنا جیسا کرنے کا حق ہے ممکن ہی نہی؛ قصہ مختصر تو یہ ہے کہ اللہ سبحان تعالی کے بعد آپﷺ ہی کی ذات ہے۔
ہزار بار بشویم دہن بہ مشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
اپنے منہ کو مشک اور عرق گلاب سے ہزار بار دھوئیں [ قبل اس کے کہ آپ ﷺ کا نام لیا جائے] اس سے ما سوا آپﷺ کا نام لینا انتہا کی بے ادبی ہے۔
ہر نعت خوان کو اس احساس سے واقف رہنا چاہیے کہ اس کی ثنا خوانی، آقائے دوجہاں کی شان میں اضافہ نہیں کرتی بلکہ یہ احسانِ آقاﷺ ہے کہ ثنا و نعت سے خود اپنی ہی شان بلند ہوتی ہے۔
خدا کے گھر کا رستہ مصطفیٰ کے گھر سے جاتا ہے
وہاں سے جاؤ گے تو کوئی پیچ و خم نہیں ہوں گے
علامہ صائم چشتی رحمۃ اللہ علیہ اردو اور پجابی نعتیہ کلام کے ہمہ گیر شہرت یافتہ شخص ہیں۔ علامہ صائم چشتی کا وجد آفریں کلام آج ہر نعتیہ محفل کی زینت بنتا ہے اور دِلوں میں عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شمع فروزاں کرنے میں خاص شہرت رکھتا ہے۔ آپ بیک وقت ایک باکمال ادیب اور بے مثال خطیب ہیں۔ خطابات میں کئی جلدوں پر مشتمل ’’خطبات ِ چشتیہ ‘‘ آپ کی عظیم یادگار ہے ۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت ایک نعت گو اور نعت خواں شاعر کی حیثیت سے ملی ۔ آپ نے اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں یکساں مہارت سے شعر کہے ہیں ۔ بیسویں صدی کے آخری ربع میں محترم صائم چشتی کو شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی اس کا محور و مرکزی موضوع اسلام ، دینی عقائد، نعت و منقبت رہا ہے ۔
ذیل میں انکی نعت گوئی اور نعت خوانی کے نمونے حاضر ہیں:
کملی والے میں صدقے تری یاد توں
کملی والے میں صدقے تری یاد توں آکے جو بے قرارا ں دے کم آگئی
ایسی باغِ مدینہ چوں اٹھی مہک کنیاں دکھیاں لاچاراں دے کم آگئی
اپنے اپنے مقدر دی ہوندی اے گل، آئیاں دایاں ہزاراں سی مکّے دے ول
جیڑی ڈاچی قدم وی نہ سَکدی سی چَل ،عرش دے شہسواراں دے کم آگئی
شان صدیق و فاروق دی کی دساں، کیتا اللہ نے جنہاں دا اُچا نشاں
سبز گنبد دے اندر جو بچدی سی تھاں، کملی والے دے یاراں دے کم آگئی
لین خوشبوئے زلف حبیب خدا آئی جنت دے وچوں سی باد صبا
چھو کے لنگدی جدوں گیسوئے مصطفٰے جاندی جاندی بہاراں دے کم آگئی
آؤندی عملاں دے ولّوں سی صؔائم شرم، کملی والے نے رکھیا اے ساڈا بھرم
دن قیامت دے سوہنے دی نظر کرم ،میرے جئے عیب کاراں دے کم آگئی
طیبہ کی ہے یاد آئی ،اب اشک بہانے دو
طیبہ کی ہے یاد آئی ،اب اشک بہانے دو
محبوب نے آنا ہے ، راہوں کو سجانے دو
مشکل ہے اگر میرا ،طیبہ میں ابھی جانا
اۓ بادِ صبا میری آہوں کو تو جانے دو
میں تیری زیارت کے قابل تو نہیں مانا
یادوں کو شہا! اپنی خوابوں میں تو آنے دو
اَشکوں کی لڑی کوئی اب ٹوٹنے نہ پائے
آقا کے لیے مجھ کو کچھ ہار بنانے دو
جو چاہو سزا دینا ،محبوب کے دربانو !
اِک بار تو جالی کو سینے سے لگانے دو
محبوب کے قابل تو الفاظ کہاں صؔائم !
اشکوں کی زباں سےاب، اک نعت سنانےدو
جناب مظفر وارثی رحمۃ اللہ علیہ پچھلی صدی اور عہد حاضر میں پاکستان کے نمایاں ترین شاعر اور نعت خواں ہیں۔ اردو کے عہد ساز شاعروں کی اگرغیر جانبداری سے فہرست تیار کی جائے توان کا نام ضرور شامل ہوگا؛ کیونکہ مظفر وارثی اردو نعت کا انتہائی معتبر نام ہیں۔ تاہم آپ نے ہر صنف شعرغزل، نظم، حمد، نعت وسلام، گیت، قطعات اور ہائیکووغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی مشہور ترین حمد " اے خدا اے خدا" اور نعت "میرا بیمبر عظیم تر ہے" زبان زد عام ہے۔ مظفر وارثی کو یہ اعزاز ہے کہ آپ نے بذاتِ خود اپنا کلام گنگنایا ہے جو ریڈیو اوت ٹی وی پر خوب نشر ہوئے۔
ذیل میں انکی نعت گوئی اور نعت خوانی کے نمونے حاضر ہیں:
یا رحمتہ اللعالمین
الہام جامہ ہے تیرا
قرآن عمامہ ہے تیرا
منبر تیرا عرشِ بریں
یا رحمتہ اللعالمین
قبضہ تیری پرچھائیں کا
بینائی پر ادراک پر
پیروں کی جنبش خاک پر
اور آہٹیں افلاک پر
گردِ سفر تاروں کی ضَو
مرکب بُراقِ تیز رَو
سائیس جبرئیلِ امیں
یا رحمتہ اللعالمین
پھر گڈریوں کو لعل دے
جاں پتھروں میں ڈال دے
حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
ماضی سا ہم کو حال دے
دعویٰ ہے تیری چاہ کا
اس اُمتِ گُم راہ کا
تیرے سوا کوئی نہیں
یا رحمتہ اللعالمین
مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب، آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی، خط بھی، دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے، خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سی جَو،ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائيں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
جو اپنا دامن لہو سے بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے، صادق ہے، معتبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے
آئیے اپنی زندگی کو نعتِ رسول ﷺ سے مزین کریں کہ اس سے بہتر کوئی ورد نہی؛ کوئی ذکر نہی۔ اوپر کی حدیث کے مطابق کیا خبر آقا کریم محمدﷺ ہماری ضمن میں ایسے ہی جذبات کا اعادہ کردیں۔ ہم تو غلام ابنِ غلام ہیں اور ہر عاشقِ رسول ﷺ کا اعجاز یہی ہے کہ آقا کریم ﷺ ہمیں اپنا کہہ دیں
اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد
اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد