زندگی کا سفر ماں کی کوکھ سے شروع ہوتا ہے اور پھر ماں کی گود سے ہوتا ہوا گور یعنی قبر تک پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ سفر نہایت طویل اور کٹھن ہے، اور انسانوں کی اکثریت شاید تھک جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی ایک خدائی نعمت ہے اور اس کا ایک ایک پل نہایت قیمتی ہے. یہ تحریر ایک مختصر تبصرہ ہے تاکہ فکر کو تحریک دی جائے اور ہم اس بابت غور کریں
جانے کیسا ہے زندگی کا سفر؟
زندگی کا سفر ماں کی کوکھ سے شروع ہوتا ہے اور پھر ماں کی گود سے ہوتا ہوا گور یعنی قبر تک پہنچ کر ختم ہوتا ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ سفر نہایت طویل اور کٹھن ہے، اور انسانوں کی اکثریت شاید تھک جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی ایک خدائی نعمت ہے اور اس کا ایک ایک پل نہایت قیمتی ہے؛ کیونکہ اللہ کی عطا کردہ نعمت بلا وجہ نہیں ہے۔ مگر ہم میں سے اکثر عمر کا قیمتی حصہ گنوا بیٹھتے ہیں۔
اس سرپٹ دوڑتی زندگی مین ذرا دیر کو رکیے اور دیکھیے کہ زندگی کہ کتنے برس گزر گئے ہیں اور کیا ہم ہر لمحے میں وہ کچھ حاصل کرپائے ہیں جس کے لیے
دنیا میں بھیجے گئے ہیں؟
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم آج اپنی زندگی کے آج کے دن میں خواہ کسی بھی مرحلے میں کیوں نا ہوں؛ ایسا کیا ہے جسے نہایت شدت سے یاد کرتے ہیں
جو پیچھے چھوڑ آئےہوں؛ اور واپس لوٹنا چاہتے ہوں ؟
ہم اپنی زندگی میں مختلف رنگوں کے پھولوں میں سے اپنی پسند کا پھول چنتے ہیں۔ مگر ہم کس طرح کے لوگوں کی درمیان زندگی گذاریں گے یہ ہماری پسند کا نہی ہوتا۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہے کہ ان انسانوں میں کبھی کبھی ہماری پسند کا پھول مل جاتا ہے اور اس طرح کچھ عرصہ دلچسپی سے گزر جاتا ہے۔ پھول کاغذی نا ہو تواس کا رنگ بدل ہی جاتا ہے۔ اور معمول کے مطابق کملا جاتا ہے؛ مرجھاجاتا ہے؛ اسی طرح انسان بھی رنگ بدل کر دوسرا رخ اختیار کر لیتا ہے تو بندہ پریشان ہو کر متلاشی بن جانا ہے۔ .
اگر تلاش خالی رہ جائے اور راہ نا پائے تو رفتہ رفتہ وہ انسان ہر گذرتے دن پہلے سے بھی زیادہ اکیلا تصور محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان نا بدلا ہو کہیں کھو گیا ہو؛ یہ زندگی اگر میلہ ہے تو یہاں کوئی بھی مستقل نہی رہتا؛ کسی نا کسی موڑ پر اپنے ساتھیوں سے کھو ہی جاتا ہے؛ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے؛ پھر اس کی تلاش تو کبھی ختم نہی ہوتی۔
اگر کبھی خود کو اکیلا پاو تو ایک لمحے کو رک کر خود کو اس وقت میں واپس لے چلو جب زندگی سادہ تھی، جب دنیا حیرت اور امکان سے بھری ہوئی تھی۔ یعنی اپنے بچپن کے دن۔ جب گل داؤدی بولتی تھی اور بادل آسمان پر تصویریں بناتے تھے، جب لیڈی بگ کو خوش قسمت سمجھا جاتا تھا اور وقت ساکت نظر آتا تھا۔
آج کی زندگی میں کسی کو پوچھو تو یہی کہے گا کہ " میں اپنے بچپن کے ان لاپرواہ دنوں میں واپس جانا چاہتا ہوں، اس خوشی اور مسرت کا تجربہ کرنا چاہتا ہوں جو اس سمے آج سے کہیں بہتر تھے۔ وہ بچپن کے دن تھے جب دنیا ایک جادوئی جگہ کی طرح لگتی تھی، اور سب کچھ ممکن نظر آتا تھا۔
اب بھی جب زندگی بہت زیادہ کٹھن ہو جاتی ہے تو میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں اور ان آسان اوقات کو یاد کرتا ہوں اور میرا دل سکون اور اطمینان سے بھر جاتا ہے۔ میں ان دنوں میں واپس جانا چاہتا ہوں، اس خوشی اور مسرت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں جو معصومیت میں مگن خلوص اور محبت کے ساتھ تھی۔
مگر کوئی بھی انسان ہمیشہ بچپن میں نہی رہ سکتاہے؛ زندگی تو آگے بڑھ کر رہتی ہے۔ تو پھر کچھ ایسا ہونا چاہیے کہ زندگی کا یہ سفر کامیاب ہو۔
موت برحق ہے اور اپنے وقت پر ہی آئے گی۔ موت اللہ رب العزت سے ملنے کا لمحہ ہوتا ہے جو سب خوشیوں پر بھاری ہوسکتا ہے جیسے سمندر پانی کے ایک قطرے پر۔ اگر ہم نے اپنی زندگی میں ایسے اعمال کئے ہونگے کہ جن کا حکم دیا گیا ہے تو موت ہمارے لیے معبود سےعشق کی تکمیل ہوگا۔
یہ کیسے ہو گا؟ سادا ہے؛ اس دنیا میں رب کے تمام بندوں سے اللہ جل شانہ کیلئے محبت کرنی ہے اور زندگی کے تمام امور اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے سر انجام دینا ہوگا۔ بقول نظیر اکبر آبادی:
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا
جب لاد چلے گا بنجارا
دعاگو ہوں کہ ہماری زندگی کا سفر سہل سپھل ہو اور ہم کل اُخروی دنیا میں اپنی گم شدہ جنت کو پالیں؛ اپنے رب سائیں کو پالیں۔