دسمبر سے دسمبر تک
موسموں اور شمسی مہینوں کے بارے میں گفتگو کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ یہ تو فطرت کے قوانین کے تحت اپنے اپنے وقت پر خود بخود وارد ہوجاتے ہیں۔ دسمبر کے مہینے میں سخت سردی ہوتی ہے۔ دسمبر پت جھڑ کا موسم بھی ہے۔ برسات اور دسمبر پر بہت گفتگو کی گئی ہے اور خوب شاعری بھی ہوئی ہے۔ یہ تحریر ان ہی سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے۔
2024-12-21 14:10:39 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
دسمبر سے دسمبر تک
موسموں اور شمسی مہینوں کے بارے میں گفتگو کے کیا معنی ہوسکتے ہیں؟ یہ تو فطرت کے قوانین کے تحت اپنے اپنے وقت پر خود بخود وارد ہوجاتے ہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان مہینوں میں کچھ خاص موسم اپنا الگ ہی رنگ جماتے ہیں۔ ان موسموں اور مہینوں میں فطرت کے رنگ اور تیور ان کو دوسروں سے مخلتلف کرتے ہیں۔ اب چاہے کوئی منظر ہو؛ دشت ہو یا سمندر ہو؛ کھلیان ہوں یا نخلستان؛ جنگل ہو یا شہر؛ جون ہو یا دسمبر؛ بہار ہو یا خزاں؛ برسات ہو یا برفیلی سردیاں؛ انسانی دل کی دھڑکنوں کا ہر نغمہ آس پاس کے سب منظروں پہ بھاری پڑتے ہیں۔
عناصر فطرت کا اپنا رنگ اور تیور ہوتے ہیں؛ لیکن جواں جذبوں والی روح میں ایک تڑپ ہوتی ہے جو اس کے ارماںوں کو گرمائے رکھتی ہے۔ اور امیدِ بہار یعنی کامیابیوں کی امید ان کو ہمیشہ آگے ہی بڑھتے رہنے پر اکساتی رہتی ہے۔ ایسا کیجیے کہ کبھی کسی درخت کے پاس بیٹھ کر چمکتی روشنی کو چھن کر بکھرتے ہوئے دیکھیں۔ اور انکے اثر سے نکھرتی ہوئی اشیاء جو فطرت کے تحائف ہیں، کی تعریف کیجیے؛ مگر اس کے لیے آپ کو اپنے کمرے سے باہر فطرت کے درمیان ہونا چاہیے۔ ہم فطرت سے جتنا نزدیک ہونگے ہمیں اس کی رعنائیاں اور سرمستی کا جشن اتنا بہتر دکھے گا اورمحسوس ہوگا۔
جشن فطرت میں کیا ہے؟ کھلے آسمان کے نیچے ستاروں سے سجی رات؛ ایک مسحور کرتا پورا چاند؛ ہلکی ہلکی ہوا؛ کسی ہمنوا کا ساتھ؛ کوئی گرم مشروب جیسے چائے یا کافی اور ایک دلچسپ گفتگو؛ کسی پارک میں بہت سے بچوں کا مختلف کھیل کھیلتےہوئے دیکھنا؛ کسی بھی بارش میں کچھ کا بھیگنا اور کچھ کا اس سے بچنا؛ کسی بازار میں پھیری والوں کا اپنا سودا بیچنا؛ الغرض انسان بذاتِ خود فطرت کا سب سے خوبصورت مظاہرہ ہے۔ اور انسانوں میں سے سب سے بڑی خوبی محبت ہے۔
فطرت کی تمام اشیاء ایک حسین مرکب بناتے ہیں؛ صرف اس لیے کہ انسان ایک دوجے کی حرمت کومقدس جانے اور باہم ایک ایسی زندگی کو رائج کرے جس میں افضلیت محبت اور خلوص ہو؛ تو یقین کیجیے کہ زندگی بابرکت محسوس ہوگی۔ اب زندگی پھولوں کی سیج بھی نہیں ہوتی کہ سب کچھ اچھا ہی اچھا لگے۔ جیسے مہینے بدلتے ہیں؛ موسم بھی بدلتے ہیں؛ سو انسانوں کے مزاج اور طبعیت میں بھی بدلاو آتا رہتا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں نا کہ " کبھی خوشی کبھی غم" تو انسانوں کو اچھے برے حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔
انسان بڑا حیران کردینا والی مخلوق ہے؛ جہاں خوشگواریاں مطلوب ہوتی ہیں تو کچھ افراد دکھ سہنے میں بھی مزا لیتے ہیں۔ آپ نے سنا تو ہوگا کہ " رل تے گئے آن؛ پر چس بڑی آئی ہے"۔ شاید ایسی ہی کسی روح نے لکھا کہ " من چاہے روگ بھی سردیوں کی دھوپ کی طرح ہوتے ہیں ان کی تپش سے نکلنے کو دل ہی نہیں چاہتا "۔
دسمبر کے مہینے میں سخت سردی ہوتی ہے؛ اور اس میں یقینا" اس میں دھوپ میں بیٹھنا اور گپ شپ لگانا بھی ایک نعمت ہے۔ دسمبر پت جھڑ کا موسم بھی ہے۔ اور ہم انسانوں نے ساون کی برھن کا راگ گایا ہے تو دسمبر کی جدائی، ہجر و فراق، رنج و الم اور دکھ وغم پر کیا کیا نہیں کہا ہے؟ آئیے ذیل میں کچھ اشعار پڑھتے ہیں۔
دسمبر کی جدائی، ہجر و فراق، رنج و الم اور دکھ وغم پر کیا کیا نہیں کہا ہے؟ آئیے ذیل میں کچھ اشعار پڑھتے ہیں۔
آؤ پت جَھڑ میں ، کبھی حال ھمارا دیکھو
خُشک پتوں کے سُلگنے کا ، تماشا دیکھو
پاس آ کر میرے بیٹھو ، مجھے اپنا سمجھو
میری گزری ھُوئی یادوجو مجھے تنہا دیکھو
نامعلوم
ڈھلتا سورج، شام کا منظر، نہر کنارے
ہائے وہ دکھ، ہائے وہ یادیں، ہائے خسارے
نامعلوم
سوچا یہ تھا وقت ملا تو ٹوٹی چیزیں جوڑیں گـــے
اب کونے میں ڈھیر لگا ھے باقی کمرہ خالی ھے
بیٹھے بیٹھے پھینک دیا ھے آتش دان میں کیا کیا کچھ
موسم اتنا سرد نہیں ھـــے جتنی آگ جلا لی ھـــــے
اِک کمرہ سازوں سے بھرا ھے ، اِک کمرہ آوازوں ســـے
آنگن میں کچھ خواب پڑے ہیں ، ویسے یہ گھر خالی ھے
ذولفقار عــادل
ہم نے اوپر کہا ہے کہ ہم انسان ایک انوکھی مخلوق ہیں؛ قدرت نے فطرت میں جتنی بھی نیرنگی سجا رکھی ہے؛ اولادِ آدم ان سب پر بھاری ہے۔ آئیے ذیل میں کچھ دوسرا رویہ پڑھتے ہیں؛ یہ ان افراد کا رویہ ہے جو زندگی کو ایک متحرک جزبے سے تعبیر کرتے ہیں۔
طوفان کر رہا تھا مِرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھَنوَر میں ہے
ضامنؔ جعفری
اپنے ہونٹوں پہ دسمبر کی شکایت لے کر
خشک پتے میرے پیروں سے لپٹ جاتے ہیں
نامعلوم
زد میں ہے تیز ہواؤں کی کتاب ہستی
کوئی اڑتے ہوئے اوراق پہ پتھر رکھ دے
کاظم جرولی
بہت فرسودہ لگتے ہیں مجھے اب پیار کے قِصّے
گل و گلزار کی باتیں، لب و رخسار کے قِصّے
یہاں سب کے مقدر میں فقط زخمِ جدائی ہے
سبھی جھوٹے فسانے ہیں وصالِ یار کے قِصّے
بھلا عشق و محبت سے کسی کا پیٹ بھرتا ہے
سنو تم کو سناتا ہوں میں کاروبار کے قِصّے
مرے احباب کہتے ہیں یہی اک عیب ہے مجھ میں
سرِ دیوار لکھتا ہوں پسِ دیوار کے قِصّے
کہانی قیس و لیلیٰ کی بہت ہی خوب ہے لیکن
مرے دل کو لبھاتے ہیں رسن و دار کے قصے
ن۔م
ذیل میں دو ایسی نظمیں پیش کی جاتی ہیں جو قاری کو زندہ رہنے کا جواز دیتی ہیں اور جینا بہتر محسوس ہوگا۔ یقینا" پسند آئیں گی۔
ایک نامعلوم شاعر کا کلام
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں
تمہیں دیکھنے کا جو شوق ہو
تو دیارِ ہجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کھِل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رہگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
مرا درد پھر سے غزل بنے
کبھی گنگناؤ تو اس طرح
مرے زخم پھر سے گلاب ہوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
مری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں
کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو
نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو
یونہی خوش پھرو،
یونہی خوش رہو
نہ اُجڑ سکیں ،
نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں
کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!!
کبھی یاد آؤ تو اس طرح!!!!!
قراۃالعین صدیقی صاحبہ کا کلام *دسمبر سے دسمبر تک* یشِ خدمت ہے
دسمبر سے دسمبر تک
فقط تم تھے فقط تم ہو
مِری نیندوں میں خوابوں میں
مِرے لفظوں کتابوں میں
دھڑکتے دل کے سازوں میں
لرزتے سب سرابوں میں
چٹختی پھول کلیوں میں
بھٹکتی راہوں گلیوں میں
کبھی موجِ صبا بن کر
کبھی خوشبو گھٹا بن کر
جو میرے پاس رہتا ہے
فقط تیرا تصور ہے
دسمبر سے دسمبر تک
فقط تم تھے فقط تم ہو
رتیں بدلیں زمانہ بھی
کہانی بھی فسانہ بھی
زمانے بھر نے سنوایا
خوشی غم کا ترانہ بھی
کئی لہجوں نے رنگ بدلے
کئی اپنوں نے ڈھنگ بدلے
مگر جاناں یہ دیکھو ناں
نہیں بدلا ہے دل میرا
تمہارے نام پہ اب بھی
دھڑکنا بھول جاتا ہے
تمہاری اک جھلک کو یہ
یونہی پل پل تڑپتا ہے
تِرے بھیگے لبوں کی مے
کہ یہ لب اب بھی پیاسے ہیں
بھرے یادوں کے پانی سے
مِری آنکھوں کے کاسے ہیں
مِری نظروں میں جھلمل سا
بسا بس اک نظارا ہے
نہیں کچھ اور جانِ جاں
فقط چہرہ تمہارا ہے
دسمبر سے دسمبر تک
فقط تم تھے فقط تم ہو
اور آخر میں علی سرمد کے تین اشعار ہیں۔
میں ترا نام پکاروں تو ہوا رقص کرے
بوئے گل جھومے پھرے، بادِ صبا رقص کرے
راہئ عشقِ حقیقی کے لیے لازم ہے
دل ہر طور فقط ذکرِ خدا رقص کرے
اے علی! مہرؔ علی کا جو کبھی ذکر چلے
خامشی جھومے پھرے اور صدا رقص کرے
یقین کیجے کہ زندگی اس سمے نہایت ہی حسین لگے گی جب آپ کسی کی مسکراہٹ میں پیار پائیں اور اس کی آنکھوں میں اپنا آنگن، اپنا چمن دیکھیں۔ اس وقت ایک خوشگوار مستقبل آپکو صدا دے رہی ہوتی ہے۔ اس سمے آپ زندگی کو امن کے ساتھ گذارنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس وقت ہمت کے ساتھ ساتھ چلنے کا عزم ایک شاندار مستقبل کی طرف پر امید آغاز ہوتا ہے۔ ایک نئی شروعات ایک حسین منزل کی طرف۔ اس وقت کیا موسم ہے اور کیا مہینہ ہے؛ کیا فرق پڑٹا ہے؟ دسمبر سے دسمبر تک ایک سال ہوتا ہے؛ جب بھی ایسا وقت آئے تو ہمیشہ؛ گرمیاں ہوں یا سردیاں؛ زندگی کو ایک نئی روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ پرانے چلن چھوڑنے کر ایک مہربان رت کا آغاز کیجیے؛ جو سنہرا اور شاندار ہوگا۔