پھولوں کا موسم اور بنو نوع انسان
بہار فطرت کے چار موسموں میں ایک موسم ہے؛ مگر یہ اپنی فضا کی خوشگواریت؛ حسن آفرینی اورخوبصورتی کی بنا پراکثر کا پسندیدہ ہوتا ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ پھولوں کی وجہ سے ہوتا ہے اسی لیے موسمِ بہار کو پھولوں کا موسم بھی کہا جاتا ہے۔ اس موسم اور اس کے پھولوں کا ہم انسانوں کی طبعیت، مزاج اور شخصیت پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ اس تحریر کا مقصد تعلیمی ہی کہ پھولوں کے موسم کا بنو نوعِ انسان سے کیا تعلق ہے۔ اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔
2024-05-01 14:14:58 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
پھولوں کا موسم اور بنو نوع انسان
اللہ سبحان تعالی؛ جو اس ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے؛ نے قرآن الکریم میں اپنی صناعی کا ذکر کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے۔
" اور اس نے خلقت کے لیے زمین کو بچھا دیا اس میں میوے اور غلافوں والی کھجوریں ہیں اور بھوسے دار اناج ور پھول خوشبودار ہیں پھر تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے"۔[ سورۃ الرحمن؛ ۱۰ تا ۱۳]۔
اللہ تعالی نے اشرف مخلوقات کی خاطر زمین کو بچھونا بنا دیا اور اس میں کئی اقسام کے غلہ و اجناس اگائے اور پھر اشجار، پودوں اور فصلوں کے ذریعے میووں، پھلوں کے ڈھیر لگادیے۔ مگر اس نے ذوقِ نظر کو حسن اور بنایا تو سارے نباتاتی سلسلے کو حسین و جمیل اور خوشبودار پھولوں سے سجا دیا اور پھر سوال کیا کہ اے میرے بندے " تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے" ؟
جلوہ عیاں ہے قدرت پروردگار کا
کیا دل کشا یہ سین ہے فصل بہار کا
اکبر الہ آبادی
موسم بہار کا ہے چمن پر بہار ہے
بلبل فدائے گل ہے گلوں پر نکھار ہے
محمودہ اختر محمودہ
فرش گل پھر بچھا رہی ہے نسیم
آئیے موسم بہار آیا
فانی بدایونی
پھول یا دوسرا مستعمل " گل " [فارسی] کیا ہے ؟ فرہنگ آصفیہ کے مطابق " اسم مذکر گل پشپ، داد، خوشبودار پھول جیسے موتیا، چنبیلی وغیرہ۔
پھول نباتات کا وہ حسین، دلکش اور خوبصورت حصہ ہوتا ہے جو اکثر عمدہ خوشبو اور سحر انگیز مہک والا ہوتا ہے۔ پھول خاندانِ نباتات کا لازمی عنصر ہے اور ہر درخت اور پودے پر اُگتا ہے۔ مگر کائنات کے خالق نے اپنے بندے؛ جسے ذوقِ جمال اور حسِ فطرت عطا کیا؛ کی دل جوئی کو کئی ایک اقسام کو پودے تخلیق کئے جن کا شاید وجہ تخلیق حسن آفرینی ہے؛ سو وہ پودے اپنے وقت پر پھولوں سے لد کر سارے ماحول کو سجا دیتے ہیں۔
موسم گل ہے نقاب حسن اٹھ جانے کا نام
ہے نشاط جان و دل اس دور کے آنے کا نام
انجم عباسی
نہ جانے موسم گل کا شباب کیا ہوگا
اگر یہ آمد فصل بہار ہے ساقی
اطہر ضیائی
اس زمین پر پھولوں کی لاتعداد اقسام مختلف رنگوں، شکلوں، اور ہییت و اوزان میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اقسام موسم گرما میں جلوہ دکھاتے ہیں اور بعض قسمیں موسم سرما میں اپنے حسین وجمیل روپ سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ ہمارے علاقے [ پاکستان ] میں گلاب ، یاسمین، چنبیلی، موتیا، کنول، گیندا، جوہی، چمپا، دن کا راجہ، رات کی رانی، سورج مکھی، گل لالہ، گل داودی ، گل نرگس اپنی اپنی الگ پہچان کے ساتھ بہت مشہور و معروف ہیں۔
پھول کی پنکھڑیاں ہوں، شگوفہ ہو، جھونرا ہو یا پھول کی کلی ہو، غنچہ ہو، شگفتہ ہو، یا مالا ہو، گلدستہ ہو، یا کسی حسن والے کے جوڑے میں اٹکا محض ایک گل لالہ؛ گلاب یا گیندا ہو؛ ہر رنگ میں خوبصورت ہوتاہے، حسین ہوتا ہے اور دلپذر ہوتا ہے۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
فیض احمد فیض
چراغ لالہ و گل ہیں کہ ہیں بہت روشن
اللہ تعالیٰ کی شانِ ربویت کائنات کی ہر شئے میں عیاں ہے؛ مگر اس نے خود اپنے کلام میں بے آباد زمین کو بارش برسا کر پھر سے باغبان ہونے کا ذکر کیا ہے۔ خوش رنگ و خوشنما پھول قدرت کی صناعی کا بہترین مظہر ہیں اور موسم بہار میں زمین خوبصورت، دلکش، رنگین اور پر مہک پھولوں سے دلہن بن جاتی ہے۔ رنگوں کی بہاریں بکھیرتے اور خوشبو لُٹاتے پھول خالقِ آفرینش کا حسین و جمیل ہونے کا پیام ہیں۔ یہ پھول گل و لالہ دراصل زمین کا زیور ہیں تبھی تو ابن آدم اس کے ذریعے اپنے گھروں کی شان، محفلوں کا حسن بڑھاتا ہے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے کہتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
میر تقی میر
فیض احمد فیض اپنی نظم ’’بہار آئی‘‘ میں کہتے ہیں
بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے ، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پر مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے
بکھر گئے ہیں گلاب سارے
پھول کے رنگوں میں جادو ہے اور پھولوں کی رنگینی اور مہک و خوشبو انسانی عادات، مزاج اور شخصیت پر خاصی حد تک اثر انداز ہوتی ہے۔ پھولوں کے رنگوں اور خوشبووں کی پراسراریت پر بہت کچھ کہا اور پڑھا گیا ہے مگر یہ بات بھی ثابت ہے کہ پھولوں کی پسندیدگی انسانی فطرت کے راز کو آشکار کرتی ہے۔
زلف مشکیں لالہ رخ گل پیرہن مست بہار
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
وقار بجنوری
دیکھنا ہے سوز و ساز موسم گل کی بہار
امتزاج شعلہ و شبنم کی رعنائی رہے
شاغل قادری
کائنات کی ہر رنگین شے اور فطرت کی حسین نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایسی نگاہ اور دل کی ضرورت ہوتی ہے جو فطرت کی جولانیوں سے آگاہ ہو۔ پھر موسم بہار؛ باغوں، گلزاروں اور وادیوں میں انواع و اقسام کے انگنت پھول بن کر عالم شباب اور حسن وجمال کی جلوہ آفرینی کے جوبن دکھاتا ہے۔ پھول اپنی رعنائی، خوبصورتی اور نازکی کی بنا پر ہم انسانوں کے باہم حسین وجمیل لمحات کو دلکش و انمول بنا دیتے ہیں۔
بہار نام ہے تہذیب موسم دل کا
عوام موسم گل کو بہار کہتے ہیں
رشید کوثر فاروقی
رخسار گل کے تل سے ہیں حیران خوشبوئیں
ہے موسم بہار میں عنبر بکف ہوا
وقار حلم سید نگلوی
پھولوں کو انسان اپنے جزبات کے اظہار کے لیے استعمال کرتا ہے۔ مختلف ملکوں اور تہذیبوں میں انسان اپنے دلی جذبات و احساسات دوسروں تک پہنچانے کے لیے پھولوں کا سہارا لیتے ہیں۔
نیلے رنگ کے پھول ایک سچّے دوست کی دوستی کا اقرار ہوتے ہیں۔ فرانسیسی رواج ہے کہ وادیوں کے للی پھول کو خوش قسمتی کا باعث سمجھ کر خوشحالی لانے کے لیے تحفہ کیا جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کو سُرخ گلاب کا تحفہ پیش کیا جائے تو سمجھ لینا چاہیئے کہ تحفہ دینے والا اظہار محبت کر رہا ہے یا اپنی چاہت سے آگاہ کررہا ہے۔ اسی طرح سفید پھولوں مثلاً چنبیلی، گُلِ یاسمین اور موتیا کا تحفہ دینے والے کے پاکیزہ جذبات و احساسات کا اظہار ہوتا ہے۔
زرد رنگ کے پھولوں کو نفرت، رقابت اور حسد جیسے منفی جذبات کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے پاکستان میں پیلے رنگ کا پھول شادی کے دنوں میں ابٹن، مایوں اور مہندی کے اجتماعات میں بکثرت استعمال ہوتے ہیں جسے دلہن، اس کی سکھیاں اور دوسری خواتین مالا، گنگن یا گجرا بنا کر پہنتی ہیں۔
پھولوں میں گلاب شاید واحد قسم ہے جو انسانوں کی خوشی کے موقع کو سجاتا ہے؛ مثلا" دلہن کا جوڑا بنکر، دلہا کا سہرا بن کر، شادی کی گاڑی کا ہار بنکر؛ سہاگ کا سیج بن کر، اور یہی گلاب غم اور دکھ میں دلجوئی بھی کرتا ہے جیسے قبر کی مٹی پر چادر بنکر اور پتیوں کا پھیلاو بن کر بھی سجتا ہے۔
پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر نغموں پہ اکسانے لگا مرغ چمن
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
اقبال
موسم بہار میں جیسے ہی پودے اپنے جوبن پر آتے ہیں اور پھولوں سے لد جاتے ہیں تو پھولوں کی خوشبو ماحول کو معطّر کردیتی ہے۔ فضاء میں پھولوں کی بھینی بھینی مہک انسانی اعصاب کو پُر سکون کرتی ہے۔ انسان کی احساسات میں پھولوں کی خوشبو پاکیزہ جزبات کو ممہمیز کرتی ہیں؛ جیسا کہ دیکھنے میں آیا ہے کہ روحانی آسودگی کے لیے سجائی گئی دینی محفلوں اور مزاروں میں اگر بتی و لوبان کو جلایا جاتا ہے۔ پھول انسانوں کے دل پر خوشکن اثرات پیدا کرتے ہیں اور اسی وجہ سے بیماروں کو شفا یابی کا احساس ہونے لگتا ہے اور اسی وجہ سے بیماروں کو پھولوں کا تحفہ پیش کیا جاتا ہے ۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پھول اپنی خاموش زبان سے ان تمام جذبوں کا اظہار کر دیتے ہیں جنہیں بیان کرنے کے لئے الفاظ تلاش کرنا پڑتے ہیں۔
شراب و گل بدن ساقی مزے عیش و طرب ہر دم
بہار زندگی کہئے تو ہے موسم جوانی کا
نظیر اکبرآبادی
نہ گائیں عشق کے نغمے جو بلبلیں طالبؔ
چمن میں گل نہ کھلیں موسم بہار نہ ہو
طالب باغپتی
موسمِ بہار اصل میں موسمِ گل کا نام ہے۔ پورے سال میں آغازِ بہار میں زمین کا سبزہ جس گھاس سے ہوتا ہے؛ وہ " لو آگئیں بہاریں، آیا سما سہانا "؛ کی تصویر بن جاتا ہے اور ہر طرف پیلے رنگ کے پھول اگ آتے ہیں۔ اور ماحول قدرت کی صناعی کا رطب اللسان ہوجاتا ہے۔
سرد ہوا میں کھلی ہوئی ہے ہرے رنگ کی گھاس
کنج کنج میں جاگ رہی ہے پیلے پھول کی باس
منیر نیازی
پھول ہوں، کلیاں ہوں یا گل فشانی کاعالم؛ بنی نوعِ انساں کی زندگی میں اس کی شمولیت یقینی اور لازم ہے۔ پھول اس قدر اہم ہیں کہ انسانوں نے اپنی زندگی کو رنگدار کرنے اور خوشبو سے معطر کرنے کے لیے گلدان سجا لیا؛ کبھی گلشن بنالیا؛ کہیں لالہ زار آراستہ کیا اور جگہ جگہ گلستان قائم کئے۔ ہر فطرت پسند انسان اپنے ارد گرد سبزہ زار بخواہش گل و گلزار ضرور اُگاتا ہے۔ اور قدرت کی فیاضی کا شائق سبزیات اگاتا ہے، تو پھولوں کے ساتھ ساتھ انکے پھل یعنی سبزیوں سے اپنے دسترخوان کو ان نعمتوں سے بھر دیتا ہے۔
غزل رومانہ رومی
کیا مٹا دو گے نام پھولوں کا
نہ کرو قتل عام پھولوں کا
گلستاں کو فروغ ہوگا مگر
شرط ہے احترام پھولوں کا
اک نہ اک دن حساب لینا ہے
باغباں سے تمام پھولوں کا
موسم گل ہے یہ خزاں تو نہیں
کیوں ہے برہم نظام پھولوں کا
ایک دو کا معاملہ تو نہیں
مسئلہ ہے تمام پھولوں کا
خون ناحق ہے یہ ارے توبہ
صبح غنچوں کا شام پھولوں کا
یوں جو مرجھا گئے بغیر کھلے
غم ہے ایسے تمام پھولوں کا
ہے سبھی کی نگاہ میں رومیؔ
آج کرب تمام پھولوں کا
پھول زمین کا تحفہ ہیں اور اس دنیا میں ہر خطہ میں اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مغربی دنیا اس ضمن میں کیا رائے رکھتی ہے؟ تو میری اولیور کی نظم " موکاسین کے پھول" پیش خدمت ہے۔
نظم " موکاسین کے پھول"
اپنی تمام زندگی میں اب تک؛
میں نے ایک سے زیادہ چیزوں سے پیار کیا ہے۔
کائی میں لپٹے کھروں والے خوابوں سمیت؛
بشمول سپنجی کچرے کے ڈھیڑ؛ جو اونچے درختوں کے تلے ہیں؛
موسم بہار میں
موکاسین کے پھول؛
سورج کی روشنی کی لپٹ سے کرختا ہے اور چمڑ جاتا ہے۔
کبھی کبھی، سائوں میں
میں دھندلی آنکھوں سے دیکھتا ہوں؛
بھیڑ کے ہونٹ جنھیں فراموش کیا گیا ہو؛
جب وہ گہری نیند میں ہو۔
پھر بھلا میں کائنات میں کسی نئی شے کا تصور بھی کیسے کرسکتا ہوں؟
کملائے پتے پھٹ کر کُھلتے ہیں تو؛
سیاہ تختے کی سیڑھیوں نظر انے لگتی ہے۔
لیکن اپنی اب تک کی ساری زندگی میں؛
میں نے بہترین کو چاہا ہے۔
پھول کیسے بڑھتے اور چٹکتے ہیں؟
ان کے جسم کے گلابی پھیپھڑے کیسے؛
چمکتے ہوئے ظاہر ہوجاتے ہیں؛ اور
خود کو سب کے سامنے پوری آمادگی کے ساتھ عیاں کردیتے ہیں۔
ایک چیز جو وہ پہلے کر جاتے ہیں؛
وہ آگے بڑھ کر گمنامی کے فرش میں گم ہو جاتے ہیں؛ اور
وہ درخت بن جاتے ہیں
کچھ پھول ہر جگہ نہی آباد ہوتے؛ اس لیے وہ اپنے علاقوں کے حساب سے پہچانے جاتے ہیں۔ مغربی دنیا کی کہانہوں کی طرح انکے پھول بھی مختلف ہیں مگر اس سے متعلق باتیں مشرقی ممالک جیسی ہی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ڈینڈیلین کا پھول گرچہ اس خاندان کا درخت مشرقی ملکوں میں بھی پایا جاتا ہے ۔ ڈینڈیلین کا نام فرانسیسی لفظ "ڈینٹ ڈی شیر" سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے شیر کا دانت، جو اس کے موٹے دانت والے پتوں کے حوالے سے ہیں۔
ڈینڈیلین واحد پھول ہے جو سورج، چاند اور ستاروں یعنی تین آسمانی جسموں کی نمائندگی کرتا ہے: پیلا پھول سورج سے مشابہت رکھتا ہے، پف بال چاند سے مشابہت رکھتا ہے، اور منتشر ہونے والے بیج ستاروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔
ڈینڈیلین کا پھول صبح کو سلام کرنے کے لیے کھلتا ہے اور شام کو سونے کے لیے بند ہو جاتا ہے۔
ڈینڈیلین کا ہر حصہ مفید ہے: جڑ، پتے، پھول۔ اسے کھانے، ادویات اور رنگنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اٹھارویں صدی کی دہائی تک، لوگ ڈینڈیلینز اور دیگر کارآمد "جھاڑیوں" جیسے چکویڈ، مالوا اور کیمومائل کے لیے جگہ بنانے کے لیے اپنے لان سے گھاس نکال لیتے تھے۔
ڈینڈیلین کسی بھی پودے کے مقابل سب سے طویل عرصے تک موسم میں تابندہ رہتا ہے۔.
ڈینڈیلین کے بیج اکثر ہوا کے جھونکے سے دور منتقل ہوتے ہیں اور وہ چھوٹے پیراشوٹ کی طرح سفر کرتے ہیں۔ بیج اکثر ان کی اصل سے پانچ میل تک لے جایا جاتا ہے!
پرندے، کیڑے مکوڑے اور تتلیاں امرت یا ڈینڈیلین کے بیج کھاتے ہیں۔
اس کا رس چوسنے والی شہد مکھیوں کا شہد بہت لذیذ ہوتا ہے۔
ڈینڈیلین کی جڑ کو کافی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈینڈیلین کا استعمال لوک ادویات میں انفیکشن اور جگر کی خرابیوں کے علاج کے لیے کیا جاتا ہے۔ ڈینڈیلین سے بنی چائے موتروردک کے طور پر کام کرتی ہے۔