اس تحریر کا مقصد تیسری دنیا میں معاش کی جدوجہد سے جنم لینے والے معاشرے کا ایک قصہ بیان کرنا ہے۔ سماجی بگاڑ میں بنیادی کردار سرمایہ دارانہ اور جاگیردانہ نظام ہوتا ہے؛ جو عام انسانوں کو معاش کی تلاش کے دلدل میں پھینک دیتا ہے۔ غیر ہنر مند افراد نے اپنی زندگی کی معاشرتی اور معاشی ناہمواری کو دور کرنے کا آسان راستہ پردیس جاکر مزدوری کو مقدم جانا۔ ان حالات میں دلچسپ تفریحی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے سننے والے مسکرادیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک گاوں میں پیش آیا جسے اپنے قارئین کی مسکراہٹ کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
امّاں کا کماو پوت اورابّا کا گدھا
اس تحریر کا مقصد تیسری دنیا میں معاش کی جدوجہد سے جنم لینے والے معاشرے کا ایک قصہ بیان کرنا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک متعدد مسائل سے دوچار ہیں۔ ان اقوام کا مسئلہ مروجہ جاگیرداری اور زرپرست غیر حقیقی سرمایہ داری نظام ہے اور اس نظام کی بقاء ناہموار معاشی نظام کو ترویج دینے سے ہوتا ہے۔ معاشی عدم مساوات؛ منقسم طبقاتی تعلیمی نظام، آسیب زدہ غلط سیاسی نظام عام انسانوں کو کرب کی زندگی کے سوا کچھ اور نہیں دیتا۔ الغرض یہ کہ سماجی بگاڑ میں بنیادی کردار سرمایہ دارانہ اور جاگیردانہ نظام ہوتا ہے؛ جو عام انسانوں کو معاش کی تلاش کے دلدل میں پھینک دیتا ہے۔
کسی بھی معاشرے کا بنیادی جز خاندان ہوتا ہے؛ جس میں والدین مرکز ہوتے ہیں اور باقی سارے رشتے ان سے منسلک ہوکر رنگ بھرتے ہیں اور زندگی کی چاشنی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس زمین پر اس خطہ میں جہاں ہم رہتے ہیں؛ ماں اور باپ دونوں بہت اہم ہوتے ہیں۔ دونوں اپنی اپنی ذمہ داری کو بخوب ادا کرتے ہیں۔ ہان یہ اور بات ہے کہ عورتیں اکثر اپنی ذمہ داری ،اپنی مصروفیت ،اپنی تھکاوٹ کا رونا روتی ہیں۔ ہمارے معاشروں میں باپ بننا بھی بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اور شاید اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک درجہ عورتوں پر فضیلت عطا کی ہے۔
پچھلی صدی عیسوی انسانی تاریخ کا عجیب ستم کو دور تھا۔ نوآبادیاتی نظام نے اپنے جبروتی پنجے سے تیسری دنیا کو آزاد کرنا شروع کیا تو ایک ان دیکھے جال میں جکڑا۔ اور اس میں سب سے زیادہ معیشت اور سیاست کی نیرنگی تھی۔ اس سے قبل انسان اپنی زمیں سے اتنا غلّہ اگا لیتے تھے کہ پورا خاندان اس سے پل پھول جاتا تھا۔ مگر پھر افراطِ زر کے بندھن ایسے جوڑے گئے کہ لوگ اپنی زمین چھوڑ کر رزق کی تلاش میں شہر کی جانب دوڑے۔ اب تیسر دنیا کے ممالک اور ان کے شہر اس قابل نہیں تھے کہ ان افراد کو جذب کرلیتے؛ چنانچہ ان افراد نے بیرونِ ملک پناہ ڈھونڈنا شروع کیا۔
مغربی ممالک میں صرف پڑھے لکھے لوگ ہی جگہ بناسکے تھے اور غیرپڑھے افرادی قوت صرف عرب ممالک ہی میں جگہ بناسکے۔ غیر ہنر مند افراد نے اپنی زندگی کی معاشرتی اور معاشی ناہمواری کو دور کرنے کا آسان راستہ پردیس جاکر مزدوری کو مقدم جانا۔
یہ مزدور پردیس میں صرف کماتے نہیں ،اپنی پوری زندگی اکیلے گزار کر سب آرام و آسائش قربان کردیتے ہیں۔ وہ بدلتے موسم ، تازہ کھانا، بچوں کی ہنسی ، بیوی کی محبت جیسی انمول اور بے مثال عنایات سے دوری کا کرب مسکرا کر جھیلتے ہیں۔ انہیں بس ایک ہی دھن ہوتی ہے کہ پیچھے گھر والے خوش رہیں، انہیں کوئی کمی نہ ہو۔ جس وقت ایک فرد اپنا بیگ اٹھائے پردیس کے لیے نکلتا ہےتو اس کے جذبات کیا ہوتے ہیں؟ یہ کوئی کیسے بیان کرسکتا ہے؟ بیوی، بچے، گھر بار، سب پیچھے چھوڑ کر ایک ایسی زندگی کی طرف جاتا ہے، جہاں ان کا اپنا کوئی نہیں ہوتا۔ پردیس میں روٹی اور رزق کمانا آسان نہیں ہوتا۔ کئی کئی گھنٹے کی ڈیوٹی پردیسی کے ماحول میں بہت مشکل کام ہوتا ہے۔
ان حالات میں؛ ماں باپ پر کیا گذرتی ہے؛ یہ کرب تو پچھے رہ جانے والے ماں باپ جانتے ہیں؟ ان سخت حالات میں بھی ایسے دلچسپ تفریحی صورتحال پیدا ہوجاتے ہیں کہ دیکھنے والے، سننے والے مسکرادیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ایک گاوں میں پیش آیا جسے اپنے قارئین کی مسکراہٹ کے لیے پیش کیا جاتا ہے؛ مگر اس کی روایت پردیس سے آئی ہے۔ ایک عربی نے اپنے ایک پردیسی سے روایت کیا ہے کہ انکا ایک ایک پردیسی ملازم نے بتایا:-
جب میں نے باہر جانے کی پکی تیاری کر لی تو روانگی والے دن میرے والد نے بہت ساری دعاؤں اور نصیحتوں کے ساتھ مجھے الوداع کیا۔
پردیس میں کام کاج اور کمائی میری توقع اور ضرورت کے مطابق نہ تھی۔ مجھے مشکلات سے لڑتے لڑتے کافی وقت بیت گیا۔
اس دوران وطن میں ایک دن میری اماں اور والد کہیں گئے ہوئے تھے کہ گھر میں چور آ گیا۔ ہمارے گھر سے اسے کیا ملنا تھا، ابا کا شہر سامان لے جانے والا ایک گدھا بندھا کھڑا تھا؛ چور وہی کھول کر لے گیا۔
دو دن کے بعد چور ہمارے گدھے کو لیکر بازار باربرداری کیلئے گیا۔ پھل اور سبزیوں سے لادا۔ رش میں چور کی توجہ کہیں اور ہوئی تو گدھا چل پڑا۔
اب گدھے کو صرف ہمارے گھر کا راستہ آتا تھا؛ اس لئے وہ چل پڑا اور شام کو ہمارے گھر کے دروازے پر آ کر منہ مارنا شروع کر دیا۔
میرے والد نے شور سن کر دروازہ کھولا تو سامنے اپنے گمشدہ گدھے کو پھلوں اور سبزیوں سے لدا پھندا کھڑا دیکھ کر بہت خوش ہوا۔
میری اماں کو بلا کر دکھاتے ہوئے کہا: دیکھ، یہ میرا گدھا دو دن غائب رہا ہے اور بدلے میں پورا بازار لیکر آیا ہے۔ اور تیرے بیٹے کو گئے دو سال ہو گئے ہیں اور آج تک ایک پیاز کا دانہ بھی نہیں بھیج سکا۔
ہائے اماں کا کماو پوت۔