Muhammad Asif Raza 1 week ago
Muhammad Asif Raza #education

اے زندگی، ذرا آہستہ چل

Life is a constant travel and it is said that "the life is a constant change", meaning that things will always be changing and evolving; however, people prepare for the good times and get to their destination. This write up in Urdu “اے زندگی ذرا آہستہ چل’ has been written to spread the message that constant struggle leads to eternal happiness.

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

 اے زندگی، ذرا آہستہ چل

 

صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے کے مصداق سیارے زمین پر زندگی صبح و شام کی کہانی ہے۔ اس زندگی میں انسان تین مراحل سے گذرتا ہے؛ جو بچپن، جوانی اور بڑھاپا پر مشتمل ہوتا ہے۔ بچپن کی عمر کھیل کود میں گزرتی ہے اور جس میں آدم بولنا، چلنا، ملنا، گرنا، اٹھنا الغرض جینے کا چلن سیکھتا ہے۔ زندگی کا سب سے اہم و انمول مرحلہ جوانی ہے اس میں جسم و دماغ بھرپور طاقت ور وتوانا ہوتا ہے۔ امنگیں جوان ہوتی ہیں اور جذبے انتہائی پرجوش ہوتے ہیں۔ لیکن عمر کا یہ حصہ عام طور پر لوگ مدہوشی ہی میں گذار دیتے ہیں اور زندگی کا اصل حاصل کرنے سے عاری ہوجاتے ہیں۔ اور جب احساس ہوتا ہے کہ مانگے ہوئےعمر دراز کے چار دنوں میں کیا بچ گیا ہے؛ تو کہہ اٹھتا ہے کہ اے زندگی ذرا آہستہ چل۔ اور ایسا اس لیے کہتے ہیں کہ سب جانتے ہیں زندگی کا آخری مرحلہ بڑھاپا ہوتا ہے اور انسان اس دورِ زندگی میں محض لڑکھڑاتا ہے، ہانپتا ہے، کانپتا ہے، بیماریوں میں مبتلا بے بسی اور لاچاری کا شکار رہتا ہے۔

 

علامہ محمد اقبال نے ایک فارسی کلام " پیغام سلطان شہید بہ رود کاویری" میں کیا خوبصورت بات کی ہے۔

 

دریائے کاویری کے نام سلطان شہید کا پیغام "حقیقتِ حیات و مرگ و شہادت " میں فرمایا ہے کہ " اے دریائے کاویری ذرا آہستہ چل ، شاید تو مسلسل چلتے رہنے سے تھک گیا ہے۔ تو مدتوں سے پہاڑوں میں رو رہا ہے اور تو نے اپنے راستے کو اپنی پلکوں سے کھودا ہے ۔ اے کاویری تو مجھے جیحون اور فرات جیسے دریاؤں سے بھی زیادہ عزیز ہے ۔ اے کہ دکن کے لیے تیرا پانی آب حیات ہے ۔ آہ و شہر جو کبھی تیری آغوش میں تھا ، اس شہر کا شیریں جلووَں والا حسن تیرے پانی ہی کے باعث تھا ۔ مراد سرنگا پٹنم شہر ہے جو سلطان کا دارالحکومت تھا ۔ اگرچہ تو بوڑھا ہو گیا ہے لیکن تیرا شباب ابھی تک برقرار ہے ۔ تیرا پیچ و تاب اور تیرا رنگ و آب اسی طرح ہے ۔ تیری موج نے موتی کے ایک دانے کے سوا کچھ پیدا نہیں کیا ۔ خدا کرے تیرا طرہ ابد تک شوریدہ رہے ۔ ۔۔۔۔ زندگی ہر لمحے کا انقلاب ہے ۔ اس لیے کہ وہ ہر پل ایک نئے عالم کے سراغ میں لگی رہتی ہے ۔ خس و خاشاک ہی سے وجود کی تعمیر ہے ۔۔۔۔ زندگی کے لیے رسم و دین اور مسلک کیا چیز ہے شیر کا ایک پل بھیڑ کے سو سال (زندہ رہنے ) سے بہتر ہے(یہ فقرہ ٹیپو نے اپنی شہادت کے وقت کہا تھا ۔ ) یعنی شیر بن کر رہو اور شیر ہی کی طرح مرو ۔۔۔۔ زندگی میں استحکام تسلیم و رضا سے پیدا ہوتا ہے اور موت تو نیرنگ و طلسم اور کیمیا ہے ۔ (تسلیم و رضا سے مراد ہے انسان کا اللہ کی رضا میں اپنی مرضی کو فنا کر دینا اور اس کی رضا کے مطابق زندگی بسر کرنا) ۔


آئیے اب اگے چلتے ہیں کہ دنیا بھر کے شاعروں نے اس ضمن میں اپنی رائے دے رکھی ہے جو ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔

سلام سندیلوی کا کلام " اے عمر ذرا آہستہ چل" پیش کی جاتی ہے

اے عمر ذرا آہستہ چل آہستہ چل اے عمر رواں

پر کیف چمن پھر مست ہوا موسم بھی حسیں اور دل بھی جواں

وہ لطف کہاں ہے منزل میں جو لطف سفر میں ہے ناداں

جب منزل پر آ جائے گی پھر پچھتائے گی اے پاگل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

آخر اتنی جلدی کیا ہے کچھ دیکھ تو دل کش نظارے

میٹھے چشمے ٹھنڈے دریا اونچے ٹیلے بہتے دھارے

شبنم میں کوثر کی موجیں ذروں میں جنت کے تارے

کومل کرنوں کی گردن میں یہ بانہیں ڈالے جمنا جل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

جی بھر کے ذرا میں دیکھ تو لوں اس البم کی سب تصویریں

پربت پر جا کے پڑھ تو لوں نقاش ازل کی تحریریں

جھیلوں سے جا کے سن تو لوں رنگیں فطرت کی تفسیریں

میں گھوم تو لوں بستی بستی وادی وادی جنگل جنگل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

صحرا میں طرارے بھرتا ہے اک بھولا بھالا مست ہرن

دریا کی طرف بل کھاتی ہے اک سارس کی لمبی گردن

جوتے ہوئے کھیت میں سوتی ہے اک بیربہوٹی کی دلہن

پر کیف ہوا میں اڑتا ہے اک دہشت کا مارا ہریل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

نغموں سے گونجی جاتی ہے یہ دنیا کی محفل ساری

پیڑوں پر مستی کا عالم شاما کی لے سے ہے طاری

سرگم کے ساتوں میٹھے سر طوطی کے لب پر ہیں جاری

مدہوش پپیہا گاتا ہے صحرا میں دردانگیز غزل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

شاید کوثر کی موجیں بھی ایسے نغمے بکھرا نہ سکیں

ممکن ہے غلماں کے گانے اتنا تجھ کو بہلا نہ سکیں

جنت کی حوریں بھی شاید اس رنگیں لے میں گا نہ سکیں

جس پنچم سر میں گاتی ہے یہ برکھا کی میٹھی کوئل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

دو پھول کنول کے پانی میں ان پر بھونرا ہے یوں رقصاں

جس طرح کبوتر ہاتھوں سے چھوڑے کوئی الھڑ ناداں

شاید ان دونوں پھولوں میں ہے ایک سلیم اک نور جہاں

مینا بازار بناتے ہیں پانی میں دو مدہوش کنول

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

وہ چاند کی سیتا بھاگتی ہے ڈر کے مارے سوئے گلشن

وہ اس کا پیچھا کرتا ہے تیزی سے بادل کا راون

وہ اس کی جانب بڑھتا ہے یہ اپنا بچاتی ہے دامن

آکاش پہ لنکا کا منظر دکھلاتے ہیں چاند اور بادل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

سرحد پر سلامؔ اس منزل کی ندی نالے کا نام نہیں

چٹئیل میداں پھر دھوپ کڑی اور پانی کا اک جام نہیں

پل بھر کے لئے پاگل رک جا گو رکنا تیرا کام نہیں

میں بھر لوں میٹھے چشموں سے یہ اپنی مٹی کی چھاگل

اے عمر ذرا آہستہ چل

 

 ممتاز ہندوستانی شاعر جناب گلزار نے بھی ایک کلام " آہستہ چل زندگی " کے عنوان سے پیش کر رکھا ہے۔ اور ذیل میں پیش کی جاتی ہے۔


" آہستہ چل زندگی "

 

آہستہ چل زندگی، ابھی کچھ قرض چکانا باقی ہے

کچھ درد مٹانا باقی ہے،کچھ فرض نبھانا باقی ہے

 

رفتار میں تیرے چلنے سے کچھ روٹھ گئے، کچھ چھوٹ گئے

روٹھوں کو منانا باقی ہے روتوں کو ہنسانا باقی ہے

 

کچھ حسرت ابھی ادھوری ہے کچھ کام بھی اور ضروری ہے

خواہش جو گھٹ گئی اس دل میں اس کو دفنانا باقی ہے

 

کچھ رشتے بن کر ٹوٹ گئے کچھ جڑتے جڑتے چھوٹ گئے

ان ٹوٹے چھوٹے رشتوں کے زخموں کو مٹانا باقی ہے

 

تو آگے چل میں آتا ہوں کیا چھوڑ تجھے جی پاؤنگا

ان سانسوں پر حق ہے جن کا ان کو سمجھانا باقی ہے

آہستہ چل زندگی، ابھی کچھ قرض چکانا باقی ہے

 

مریم اولیور کی نظم " شاعر کا پہاڑ کے خواب " کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔

کبھی کبھی میں ان دنوں سے اکتا جاتا ہوں، ان کے تمام کلفتوں اور آغاز کی وجہ سے؛

میں ان کہن سالہ سرمئی پہاڑوں پر چڑھنا چاہتا ہوں، مگر آہستہ آہستہ،

اپنی باقی ساری زندگی اس عمل میں گذارنےکے لیے، اکثر آرام کرتے ہوئے بلکہ سوتے ہوئے؛

چیڑ کی درخت کے نیچے یا اوپر، بے لباس پتھریلےچٹانوں پر۔

 

میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آسمان پر آج بھی کتنے ستارے ہیں؛

جسے ہم برسوں سے، کم از کم ایک صدی سے بھول گئے ہیں۔

میں سب کچھ معاف کر کے ماضی کی جانب دیکھنا چاہتا ہوں؛

اورامن کے ساتھ، اس آخری چیز کی بھی تلاش ہے جسے جاننا ہے۔

 

اتنی جلدی کیا ہے! زمین کو تو اس کی اتنی جلدی نہیں ہے!

درخت کتنے خاموش ہیں، ان کی شاعری صرف اپنے لیے ہے۔

میں سست قدم اٹھانا چاہتا ہوں، اور موزوں خیالات پر دھیان دینا چاہتا ہوں؛

دس ہزار سال میں شاید پہاڑ کا ایک ٹکڑا گر جائےگا۔

 

اب پیش کیا جاتا ہے جان او ڈونوہو کی نظم " یہ آہستہ خرامی کا وقت ہے"۔

یہ وقت آہستہ خرامی کا ہے؛

دیوار سے ٹیک لگا کر کچھ سستا لو؛

یہاں تک تلخ موسم گزر نہیں جاتا۔

 

کوشش کریں، جتنا ہو سکے کہ نہ ہونے دیں؛

کہ شک کا تلخ کنگھا؛

آپکے دل سے کھرچ ڈالے؛

 آپ کا ذات کا سارا احساس زیاں؛

اور آپ کے اندر کی مدھم روشنی۔

 

اگر تم سخاوت پر ڈٹے رہو؛

وقت اچھا بھی آئے گا؛

اور آپ اپنی راہ پا لؤ گے؛

امید سے بھرے وعدوں کی وادیاں ہونگی؛

جہاں ہوا مہربان ہو گی؛

اور نئی شروعات کے لیے مخمور ہوگی۔


0
136
True Religion Zip-Up Hoodie: Elevate Your Style

True Religion Zip-Up Hoodie: Elevate Your Style

defaultuser.png
True religion
6 months ago

Best Practices for Managing Third-Party Risks in IT Services

Managing third-party risks is essential for organizations that rely on external vendors, s...

defaultuser.png
Atop Computer Solution LLC
1 month ago

Lips Fillers Near Me: Exploring The Allure Of Russian Lips

<a href="https://www.revengemd.com/expert-tips-from-revenge-md-for-lip-fillers/">Lip Fille...

defaultuser.png
Tanveer
5 months ago
Stock Market Plunges Amidst Recession Fears

Stock Market Plunges Amidst Recession Fears

defaultuser.png
Laiba Rafiq
6 months ago
Ensuring a Smooth Ride: The Ultimate Guide to Reliable London Taxis

Ensuring a Smooth Ride: The Ultimate Guide to Reliable London Taxis

defaultuser.png
mike hussy
6 months ago