اسرائیل فلسطین تنازعہ تقریباً 100 سال پرانا ہے اور حالیہ پیش رفت صرف اس کا پیش خیمہ ہے جس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی۔ شیخ عمران این حسین نے تقریباً دو عشرے قبل کتاب "قرآن میں یروشلم" لکھی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ کتاب اس دور تک نہیں لکھی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ صرف پچھلے چند سالوں میں یہودیوں کے پوشیدہ منصوبے ہیں جنہوں نے ان معاملات کو واضع کیا ہے۔ اور حالات اس قدر واضح طور پر سامنے آئیں کہ بہت کم لوگ اس بات پر شک کر سکتے ہیں کہ دنیا پر تسلط کے لیے یہودیوں نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔ صیہونی یہودیوں کے غلبہ میں ڈوبے میڈیا کی طرف سے پھیلائے جانے والے اس معاملے پر متبادل رائے کے لیے ہم یہاں کتابوں کے باب کے لحاظ سے مواد بینگ باکس آن لائن کے قارئین کے لیے شیئر کریں گے۔
یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین
پیش لفظ
" یروشلم فی القرآن " ایک عظیم کتاب ہے جس نے مجھے بہت زیادہ پرجوش اور خوش کیا۔ میں حیران ہوں کہ اتنی باریک بینی سے اس اہم موضوع پر ایک دستاویزی کتاب کو روشنی دیکھنے کے لیے ایک طویل انتظار کرنا پڑا۔ آخر کار صیہونیت زدہ اسرائیل کو قائم ہوئے اب نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔
صیہونیوں نے فلسطینیوں پر اپنے ہولناک ظلم اور نسلی تطہیر کا آغاز کیا۔
فلسطینی وہ لوگ جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ ایسے ملک میں رہتے ہیں جس کے بارے خیال کیا جاتا ہےکہ وہ یہودیوں کا ارض موعود مقدس سرزمین ہے۔
صیہونیوں نے توراۃ سے مسلسل تحریف شدہ صحیفوں کا حوالہ دیا ہے۔ اور اپنے ظالمانہ رویے کا جواز پیش کرنے اور دیگر یہودیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی خاطر بائبلی مواد سے گواہی دلوائی کہ اسرائیل کی ایک ریاست قائم کریں جو اس کا دارالحکومت یروشلم کے ساتھ نیل سے فرات تک پھیلی ہوئی ہو۔
مثال کے طور پر اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریون کا حوالہ دیا جاتا ہے؛ جس نے کہا تھا " بائبل اسرائیل کی سرزمین کے لیے ہمارا نیک عمل ہے"۔ دوسری طرف مسلم علماء اور مذہبی ذرائع مستند تاریخی کتابوں سے صیہونی دعوؤں کی تردید کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں۔ اور اپنی مذہبی ذمہ داری قرآن پاک اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے اس سوال کو واضح طور پر دستاویز کو پورا کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں۔
جہاں تک مجھے معلوم ہے اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا ہے؛ وہ یا تو سطحی اور جذباتی طور پر داغدار ہے یا محض ٹھنڈے انداز میں حقائق بیان کئے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عمران حسین بھائی کو یہ علمی دستاویز لکھنے پر جزائے خیر عطا فرمائے
درحقیقت یہ کتاب اس فکری اور مذہبی خلا کو پُر کرے گا اور دنیا کے تمام حصوں میں مسلمانوں کو علمی حوالے کا کام دے گا۔
جیسا کہ میں یہ تعارف لکھ رہا ہوں، یہ کتاب جو صرف اس سال شائع ہوئی ہے اور اب اس کا عربی اور بوسنیائی میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہو کہ کچھ ہی عرصے میں اسے دیگر یورپی زبانوں اور تمام عالم اسلام کی دیگر زبانوں میں بھی پیش کیا جائے گا۔
البتہ یہ بتانا ضروری ہے کہ القدس فی القرآن کے بارے میں کتاب لکھنے کی اہمیت دور اندیش اور تخلیقی مسلمان کی نظر سے نہیں بچ سکی۔ مفکرین جیسے ڈاکٹر کلیم صدیقی، مسلم انسٹی ٹیوٹ کے بانی صدر ریسرچ اینڈ پلاننگ اور پروفیسر شہید اسماعیل الفاروقی وغیرہ ۔ میں حیران ہوں کہ سابق اسکالر کا کیا خوب وژن ہوگا کہ انہوں نے عمران حسین کو جلد از جلد یہ کتاب لکھنے کو کہا۔
انہوں نے ان پر زور دیا کہ یروشلم مستقبل کی تاریخ اور مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کا عمل کو سمجھنے کی کلید ہے۔ شیخ عمران ستائیس سال کی محنت کے بعد یہ کام پورا کرنے مں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ بظاہر دیر سے لگ رہا ہے، لیکن یہ آ گیا ہے۔ مگر اب یہ صحیح وقت ہے؛ جس میں پوری دنیا جینین؛ صابرہ اور شتیلا میں وقع پذیر ہونے والے واقعات پر چونک رہی ہے کہ یہ کیا ہوا؟
اسماعیل الفارقی نے دراصل اس مسئلے کو اپنی کتاب "اسلام اور اسرائیل کا مسئلہ" میں تحریری طور پر پیش کیا ہے؛ جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے سختی سے کہا کہ اسرائیل دور جدید کے مسلمانوں کے لیے قرون وسطیٰ کی یورو عیسائی صلیبی جنگوں سے زیادہ خطرناک ہے اور یہ "اسرائیل" جدید دور کی یورو کالونیلزم کا سا معاملہ ہوگا۔ یہودی ریاست ایشیا اور افریقہ کی عالمی اقوام کا ایک لازمی حصہ ہے۔ اس لیے انہوں نے عربوں اور مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اسے قبول نہ کریں۔
انہوں نےمزید اکسایا کہ مسلم علماء اس مسئلہ کی گہرائی سے تحقیق کریں۔
آج ان میں سے کوئی بھی ہمارے درمیان نہیں ہیں؛ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر یہ دونوں عظیم مسلم مفکرین زندہ ہوتے، وہ اس کلاسک کتاب کو کیا کہتے وہ دونوں اس کتاب کی بابت نہایت مطمئن ہوتے؛ جیسا کہ خواہش کی ہے کی ہوتی۔
عمران کے انداز تحریر سے؛ میں حیران ہوں۔ حالانکہ " یروشلم فی القرآن " ایک کتاب ہے؛ جس میں مذہبی اور تاریخی دستاویزات کو حالیہ واقعات کے ساتھ ملا کر نہایت احتیاط سے لکھا گیا مقالہ ہے؛ جس میں سیاسی واقعات اور قرآن وحدیث کی تسخیر، تشریحات اس طرح چلتی ہیں جیسا ایک کہانی ہو. ایک بار جب آپ اسے پڑھنا شروع کر دیں تو اسے روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ ایک طرح سے عمومی معیارِ ناول ہے جسے ایک شخص ایک بار پڑھے گا اور پڑھ کر عام کتاب کی طرح پھینک دے گا - لیکن اس کتاب کو نہیں۔ یہ کتاب ایک سنجیدہ فکر انگیز مقالہ ہے جسے شیخ عمران بھائی نے شائع کیا ہے اور یہ ایک حوالہ ہے جسے جب بھی کوئی اس موضوع کی تلاش کرے گا تو اس کتاب کو رکھنے اور دوبارہ پڑھنے کی ضرورتمحسوس ہوگی۔
میرا خیال ہے کہ شیخ کی یہ فصاحت و بلاغت فطری نتیجہ ہے۔ یہ کتاب وہ تحفہ ہے جس نے ایک مبلغ اور داعی کے طور پر ان کے ناقابل تسخیر کام کے ساتھ تعامل کیا ہے۔ اس کے اخلاص کے لئے الہی نعمتیں عطا فرمائے. آخر میں مسلمانوں کی بظاہر مایوس کن صورت حال کے باوجود بالعموم اور خاص طور پر فلسطینیوں کو اس کتاب کے مطالعہ سے فائدہ ضرور ملے گا۔
یہ کتاب غموں کی سیاہی میں ایک جزبوں کو گرم کرنے کا باعث ہوگا؛ یہ ہمارے مستقبل کے بارے میں پرامیدی کو اضافہ کرتی ہے؛ ایک روشن روشنی جو کسی طویل تاریخ کی سرنگ کے اندھیرے کے آخر میں چمکتی ہے۔ ہم آخری وقت میں جی رہے ہیں۔ یہ وہ دور ہے جس میں قرآن پاک اور حدیث مبارکہ کی پیشین گوئیاں ہمارے سامنے آ رہی ہیں۔ ہمارے ایمان کی سچائی کو انسانیت ہر ثابت کرنے کے لئے ایک موثر گوہی۔
بالکل جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا، ہم نے بھیڑوں اور بکریوں کے ریوڑ کے ننگے پاؤں غریب چرواہوں کو دیکھا ہے؛ جو جزیرہ نما عرب میں اونچی فلک بوس عمارتوں کی تعمیر میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ اور ہم نے مسلمانوں کی آبادی کو دھماکا دار بڑھوتری کرتے دیکھا ہے۔ مگر کردار میں کمزور اور اس دنیا سے ان کی محبت اور دشمنوں کے زیر اثر موت کے خوف کو بھی اس طرح صحیح حدیث کی تصدیق کرتی ہے۔ اور بالکل جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا، اسلام کے مضبوط دشمن اب ہمارے ممالک کو اس طرح ہڑپ کر رہے ہیں جیسے وہ ایک تھے۔ اور ایسے بھوکے گروپ جن کو کھانے کی ایک بڑی دیگ میں مدعو کیا گیا ہو۔
اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہمیں بتایا ہے۔ اپنے نازل کردہ قرآن میں بنی اسرائیل جو ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ اپنے ڈاسپورا کے دوران زمین، مقدس سرزمین پر واپس آئے ہیں۔ اور جیسا کہ قرآن میں درج ہے؛ بے شک انہوں نے بہت زیادہ کرپشن کی ہے اور طاقتور ہو گئے ہیں۔ زبردست تکبر کے ساتھ پرجوش۔
باکل اسی طرح ہم ان واقعات کو ایسے دیکھا ہے جیسے کوئی ہارر فلم دیکھ رہے ہوں۔ یقیناً اس کے قریب آنے والے خوش کن انجام کو دیکھیں گے جس کی پیشن گوئی ہمارے لیے قرآن میں کی گئی تھی۔ اور ہمارے نبی کے ارشادات ک عین مطابق۔ مسلمان اپنی نیند سے بیدار ہوں گے اور یہودیوں کو ان کا وعدہ الٰہی کے مطابق عذاب ملے گا۔ صہیونی ریاست نہی ہو گی؛ تباہ ہو جائے گا اور جو کچھ انہوں نے بنایا ہے وہ زمین پر سے اٹھایا جائے گا۔
کتاب میں ان اقساط کی تفصیلی خوبصورتی سے تحریر کی گئی ہے۔ قرآن و سنت کی شاندار تشریحات۔ اگرچہ کچھ کو اختلاف بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ قرآنی آیات میں سے بعض کی ان کی تشریحات کے حوالے سے مبارک پیغمبرانہ اقوال۔ کوئی بھی ان کے دخول فکر اور اس کی روحانی گہرائی کی تعریف کرنے میں ناکام نہیں رہے گا۔
اس لیے میں اس کتاب کو علماء اور عام لوگوں سے بہت زیادہ تجویز کرتا ہوں۔
ملک بدری
ڈین،
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ اینڈ سیولائزیشن،
کوالالمپور. ملائیشیا
A degree in computer science (CS) can lead to some of the most exciting and important jobs...