یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ حصہ اول باب گیارہ

اسرائیل فلسطین تنازعہ تقریبا سو سال پرانا ہے اور حالیہ پیش رفت صرف اس کا پیش خیمہ ہے جس کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی۔ شیخ عمران این حسین نے تقریباً دو عشرے قبل کتاب " یروشلم فی القرآن" لکھی تھی اور انہوں نے کہا کہ یہ کتاب آج سے قبل نہیں لکھی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ صرف پچھلے چند سالوں میں یہودیوں کے پوشیدہ منصوبوں نے ان حالات کو واضع کیا ہے۔ آج تو حالات اس قدر واضح طور پر سامنے ہیں کہ بہت کم لوگ اس بات پر شک کر سکتے ہیں کہ دنیا پر تسلط کے لیے یہودیوں نے منصوبہ بنا رکھا ہے۔ صیہونی یہودیوں کے غلبہ میں ڈوبے میڈیا کی طرف سے پھیلائے جانے والے پروپیگنڈے پر متبادل رائے کے لیے ہم یہاں اس کتاب کے اردو ترجمہ کا باب گیارہ " یہود اور عرب"؛ پیش کر رہے ہیں۔

2023-12-13 20:28:58 - Muhammad Asif Raza

 

یروشلم فی القرآن؛ از شیخ عمران این حسین اردو ترجمہ

حصہ اول

 

باب گیارہ

 

یہود اور عرب

 

آپ یقیناً (بار بار) ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ عداوت سب لوگوں سے زیادہ سخت یہودیوں اور مشرکوں کو پائیں گے، اور آپ یقیناً ایمان والوں کے حق میں بلحاظِ محبت سب سے قریب تر ان لوگوں کو پائیں گے جو کہتے ہیں: بیشک ہم نصاریٰ ہیں۔ یہ اس لئے کہ ان میں علماءِ (شریعت بھی) ہیں اور (عبادت گزار) گوشہ نشین بھی ہیں اور (نیز) وہ تکبر نہیں کرتے

(قرآن، المائدہ، 5:82)

 

اس سے پہلے کہ ہم ان آسمانی خدائی پیشین گوئیوں کی تحقیق کی طرف آئیں جو پہلے ہی پوری ہو چکی ہیں؛ اور بہت زیادہ واضع ہیں؛ یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ یہودیوں کو مقدس سر زمین پر واپس لائے گا۔ جب ان کی سزا کے لیے آخری 'کاؤنٹ ڈاؤن' کا وقت شروع ہوگا۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اسمٰعیل (علیہ السلام)، عربوں اور مقدس زمین کے موضوع پر غور کریں۔

یہ موضوع اہم ہے کیونکہ جب سے صیہونی تحریک نے عربوں کو مقدس سرزمین میں ان کے گھروں سے نکال کر ریاست اسرائیل کی بحالی میں کامیابی حاصل کی۔. وہ کسی صحیفہ اسمانی کے جواز کے بغیر ایسا کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم وہ مذہبی جواز جس پر انہوں نے بھروسہ کیا وہ جھوٹ اور ایک جعلسازی تھا؛ جو ابراہیم (علیہ السلام) کے خدا کے نام پر کی گئی تھی۔ صیہونیوں کو معلوم تھا کہ یہ جھوٹ ہے اور انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ وہ موضوع ہے؛ جس کا اب ہم اس باب میں ذکر کرتے ہیں۔

یہودی قوم کا ایک عرب سے متعلق مذہبی نقطہ نظر

 

مبینہ طور پر سیفارڈک یہودیوں کی اسرائیل کی آرتھوڈوکس شاس پارٹی کے روحانی رہنما نے 5 اگست 2000 کو اپنے خطبہ میں اعلان کیا: "تمام اسماعیلی (عرب) ملعون ہیں۔ بدکار ہیں اور سب کے سب اسرائیل کے دشمن ہیں۔ پاک ذات جو بابرکت ہے، نادم ہے کہ اس نے ان اسماعیلیوں کو پیدا کیا۔ رپورٹ میں ربی اووادیہ یوسف نے اس وقت کی اسرائیلی باراک حکومت کی فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ساتھ کسی قسم کا معاہدہ کرنے کی کوششوں کا مذاق اڑاتے ہوئے بیان کیا؛ جب انہوں نے یروشلم شہر کے مقدسات کے حوالے سے اپنے آپس میں متضاد دعوے کیے ہیں۔ "پرانے شہر کو کیوں تقسیم کیا؟" اس نے پوچھا، "تاکہ وہ حاصل کر سکیں ہمیں مارنے کا ایک اور موقع؟ ہمیں اپنے ساتھ ان کی ضرورت کیوں ہے؟" اس ربی نے اسرائیلی وزیر اعظم باراک کو خطاب کرتے ہوئے پوچھا۔ ربی نے مزید کہا: "آپ ہمارے پاس کیسے سانپ لے کر آتے ہیں۔ کیا آپ سانپ سے صلح کرتے ہیں؟ . . باراک اسماعیلی بدکاروں کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ وہ یروشلم میں ہمارے ساتھ رہنے کے لیے سانپ لائے گا۔ اسے کوئی عقل نہیں ہے۔‘‘ یروشلم پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ربی کے تبصروں کا تالیوں سے استقبال کیا گیا۔

(دیکھیں www.JerusalemPost.com - 5 اگست 2000

 

اسماعیلی لوگوں (یعنی عربوں) سے ربی کی دشمنی اور یروشلم کے بارے میں ان کے دعویٰ کی ایک وجہ یہ ہے کہ تورات میں پیدائش کی کتاب نے اسماعیل کو قرار دیا ہے۔ 

"….ایک آدمی جو جنگلی گدھا ہے؛ اس کا ہاتھ ہر ایک کے خلاف، اور ہر ایک کے ہاتھ اس کے خلاف۔"

(پیدائش، 16:12)

ربی اور اس کے پیروکار اس طرح بحث کرنے کا امکان ہے کہ اسرائیل کی ریاست کی طرف سےعربوں پر مسلسل اضافے کے ساتھ ظلم و ستم کو خدائی سزا کے طور پر جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ان منحوس الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: "ہر ایک کا ہاتھ اس کے خلاف ہے"۔ اور باقی مہذب دنیا بھلا کیسے اسرائیل کے جینین پناہ گزین کیمپ پر بے رحم اور وحشیانہ حملے کی وضاحت کرسکتی ہے؟ اگر یہودی تورات میں ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کے خلاف جھوٹ کے اس اضافے کے ساتھ تحریف نہ کرتے، تو یہ شیطانی صہیونی اسکیم میں ملوث فریب کو پہچاننا آسان کر دیتا۔ جو مقدس سر زمین پر اسرائیل کی ریاست کو بحال کرنے کے لیے عرب مسلمانوں کو بے دخل کرکے بنایا گیا۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تفصیل جو قرآن میں دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔ اللہ تعالیٰ واضح طور پر تورات کے اس قول کو جھوٹا قرار دیتا ہے۔

 

" اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں، بیشک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔

اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے، اور وہ اپنے رب کے حضور مقام مرضیّہ پر (فائز) تھے (یعنی ان کا رب ان سے راضی تھا)"۔

(قرآن، مریم، 19:54-5)

 

" اور آپ اسماعیل اور الیسع اور ذوالکفل (علیھم السلام) کا (بھی) ذکر کیجئے، اور وہ سارے کے سارے چنے ہوئے لوگوں میں سے تھے۔

یہ (وہ) ذکر ہے (جس کا بیان اس سورت کی پہلی آیت میں ہے)، اور بے شک پرہیزگاروں کے لئے عمدہ ٹھکانا ہے"۔

(قرآن، صد، 38:48-49)

 

اور یہی ہماری (توحید کی) دلیل تھی جو ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کی (مخالف) قوم کے مقابلہ میں دی تھی۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجات بلند کر دیتے ہیں۔ بیشک آپ کا رب بڑی حکمت والا خوب جاننے والا ہے۔

 اور ہم نے ان (ابراہیم علیہ السلام) کو اسحاق اور یعقوب (بیٹا اور پوتا علیھما السلام) عطا کئے، ہم نے (ان) سب کو ہدایت سے نوازا، اور ہم نے (ان سے) پہلے نوح (علیہ السلام) کو (بھی) ہدایت سے نوازا تھا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون (علیھم السلام کو بھی ہدایت عطا فرمائی تھی)، اور ہم اسی طرح نیکو کاروں کو جزا دیا کرتے ہیں۔


 اور زکریا اور یحیٰی اور عیسٰی اور الیاس (علیھم السلام کو بھی ہدایت بخشی)۔ یہ سب نیکو کار (قربت اور حضوری والے) لوگ تھے۔

اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط (علیھم السلام کو بھی ہدایت سے شرف یاب فرمایا)، اور ہم نے ان سب کو (اپنے زمانے کے) تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی۔


اور ان کے آباؤ (و اجداد) اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے بھی (بعض کو ایسی فضیلت عطا فرمائی) اور ہم نے انہیں (اپنے لطفِ خاص اور بزرگی کے لئے) چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت فرما دی تھی۔

یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے، اور اگر (بالفرض) یہ لوگ شرک کرتے تو ان سے وہ سارے اعمالِ (خیر) ضبط (یعنی نیست و نابود) ہو جاتے جو وہ انجام دیتے تھے۔


(یہی) وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمِ (شریعت) اور نبوّت عطا فرمائی تھی۔ پھر اگر یہ لوگ (یعنی کفّار) ان باتوں سے انکار کر دیں تو بیشک ہم نے ان (باتوں) پر (ایمان لانے کے لیے) ایسی قوم کو مقرر کردیا ہے جو ان سے انکار کرنے والے نہیں (ہوں گے)۔

(یہی) وہ لوگ (یعنی پیغمبرانِ خدا) ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت فرمائی ہے پس (اے رسولِ آخر الزمان!) آپ ان کے (فضیلت والے سب) طریقوں (کو اپنی سیرت میں جمع کر کے ان) کی پیروی کریں (تاکہ آپ کی ذات میں ان تمام انبیاء و رسل کے فضائل و کمالات یکجا ہوجائیں)، آپ فرما دیجئے: (اے لوگو!) میں تم سے اس (ہدایت کی فراہمی) پر کوئی اجرت نہیں مانگتا۔ یہ تو صرف جہان والوں کے لئے نصیحت ہے۔


اور انہوں نے (یعنی یہود نے) اللہ کی وہ قدر نہ جانی جیسی قدر جاننا چاہیے تھی، جب انہوں نے یہ کہہ (کر رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر) دیا کہ اللہ نے کسی آدمی پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ آپ فرما دیجئے: وہ کتاب کس نے اتاری تھی جو موسٰی (علیہ السلام) لے کر آئے تھے جو لوگوں کے لئے روشنی اور ہدایت تھی؟ تم نے جس کے الگ الگ کاغذ بنا لئے ہیں تم اسے (لوگوں پر) ظاہر (بھی) کرتے ہو اور (اس میں سے) بہت کچھ چھپاتے (بھی) ہو، اور تمہیں وہ (کچھ) سکھایا گیا ہے جو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا، آپ فرما دیجئے: (یہ سب) اللہ (ہی کا کرم ہے) پھر آپ انہیں (ان کے حال پر) چھوڑ دیں کہ وہ اپنی خرافات میں کھیلتے رہیں۔


اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔ اور (یہ) اس لئے (نازل کی گئی ہے) کہ آپ (اولاً) سب (انسانی) بستیوں کے مرکز (مکّہ) والوں کو اور (ثانیاً ساری دنیا میں) اس کے ارد گرد والوں کو ڈر سنائیں، اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اس پر وہی ایمان لاتے ہیں اور وہی لوگ اپنی نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں"۔

(قرآن، الانعام، 6:83-92)



ربی کو قرآن میں دی گئی اس سنگین تنبیہ سے ہوشیار رہنا چاہیے جو اللہ تعالیٰ ان تمام لوگوں کو دیتا ہے جو اس کی طرف جھوٹ منسوب کریں؛ بشمول حضرت اسماعیل علیہ السلام اور انکے اسماعیلی نسل کے ساتھ۔

 

" اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے یا (نبوت کا جھوٹا دعوٰی کرتے ہوئے یہ) کہے کہ میری طرف وحی کی گئی ہے حالانکہ اس کی طرف کچھ بھی وحی نہ کی گئی ہو اور (اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا) جو (خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہوئے یہ) کہے کہ میں (بھی) عنقریب ایسی ہی (کتاب) نازل کرتا ہوں جیسی اللہ نے نازل کی ہے۔ اور اگر آپ (اس وقت کا منظر) دیکھیں جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں گے اور فرشتے (ان کی طرف) اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں گے اور (ان سے کہتے ہوں گے:) تم اپنی جانیں جسموں سے نکالو۔ آج تمہیں سزا میں ذلّت کا عذاب دیا جائے گا۔ اس وجہ سے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں کیا کرتے تھے اور تم اس کی آیتوں سے سرکشی کیا کرتے تھے"۔

(قرآن، الانعام، 6:93)

 

ربی، اور وہ تمام لوگ جن کے عقائد تورات میں ایسی جعلسازی پر مبنی ہیں، دراصل ایک غیر حقیقی دنیا میں زندہ رہتے ہیں۔ حقیقت کے بارے میں ان کا تصور غلط اور مسخ شدہ ہے۔ اس سے یہ نقصان ہوا ہے کہ اس نے اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں غلط عقیدہ پیدا کیا، اور جو اب بھی قائم ہے۔ تورات کسی بھی وقت اسماعیل (علیہ السلام) کی طرف سے برائی، بدکاری یا بغاوت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرتی ہے۔ جو مبینہ طور پر اللہ کی اس سخت سزا کی وضاحت کر سکے۔ بلکہ دراصل یہ وہی اسماعیلی ہیں جنہوں نے ان ربیوں کو جو انکو ’’سانپ‘‘ کہہ کر حقیر سمجھتے ہیں؛ اور یہودیوں کو اپنے درمیان 2000 سال تک رہائش پیش کی۔

 

 اور یہودیوں نے انکی سیکورٹی کا لطف اٹھایا۔ اور ان یہودیوں کی جان و مال، اور امن کے ساتھ رہنے اور عبادت کرنے کی آزادی دی گئی۔ جنہوں نے اسرائیل کی جعلی ریاست (ایک سیکولر، قوم پرست، بنیادی طور پر بے دین ادارہ) کے ناانصافی اور جبر کی بنیادوں پر قیام کی حمایت کی، اور اب بھی حمایت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوئی روحانی بصیرت نہیں ہے۔ وہ روحانی اندھا پن ہے جس سے وہ اس جعلی ریاست کو پہچاننے سے قاصر ہیں۔ اس روحانی اندھا پن نے انہیں یہ اعلان کرنے پر بھی مجبور کیا کہ مریم نے زنا کیا ہے، کہ یسوع (عیسیٰ مسیح) ایک حرامی بچہ تھا، اور اس کا مسیحا ہونے کا دعویٰ جھوٹا تھا۔

 

اس روحانی اندھے پن نے انہیں اس تاریخی غلطی کی طرف دکھیلا جب انہوں نے سب سے ذلت آمیز اور برے کام کا ارتکاب کیا؛ یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کو صلیب پر چڑھانا کی کوشش کرنا، اور پھر اس بات پر فخر کرنا کہ وہ انہیں قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

 

اس روحانی اندھے پن کی وجہ سے وہ آخری نبی کو جھٹلانے پر مجبور ہو گئے جو ابراہیم علیہ السلام کے خدا نے بنی نوع انسان کی طرف بنام محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیجے گئے تھے۔ اس غلطی کی وجہ سے انہوں نے قرآن کو ابراہیم علیہ السلام کے خدا کے کلام کے طور پر رد کردیا۔ ان کی روحانی اندھے پن نے انہیں بار بار ایسے کام کرنے کی طرف راغب کیا ہے جس سے اللہ تعالی کا غصہ بھڑکا ہے۔ ان کا موجودہ نسلی، مالی اور معاشی طرز عمل ہے واضح طور پر مکروہ عمل ہے۔

 

جب انہوں نے بہت عرصہ پہلے موسیٰ علیہ السلام کی توہین کی اور اعلان کیا کہ وہ اور اس کے رب کو (مقدس سرزمین کو آزاد کرنے کے لئے) لڑنا چاہئے اور وہ وہیں رہیں گے یعنی نہیں لڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مکروہ فعل کا جواب مقدس سر زمین کو ان کے لیے 40 سال تک حرام کر دیا یعنی ممنوع بنا دیا۔ اور انہیں زمین پر آوارہ گردی میں گھومنے پھرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کیا۔ اور ان سے کہا: "ان گنہگار لوگوں پر غم نہ کرو۔" ان الفاظ میں ان کے لیے کوئی ہمدردی کی جگہ نہیں ہے۔

 

 خواہ دنیا کے پاس قرآن کی طرف سے اشارہ نہ بھی ہوتا تو پھر بھی آسمانی تورات میں کے گئی جعلسازی کے لیے؛ تورات اور بائبل کے پیروکاروں کو سمجھنے کے لئے روحانی بصیرت کافی ہونی چاہیے تھا۔ اور یہ کہ سب کچھ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسے بیانات ٹھیک نہیں ہوسکتے۔

اور وہ اس وقت بھی ہمدردی کے مستحق نہیں تھے، اور بالکل اسی وجہ سے وہ اب بھی ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ ان کی قسمت پر مہر ثبت ہے۔ ان یہویوں کو تاریخ کے سب سے بڑے ڈھکوسلے سے دھوکے میں مبتلا کیا گیا ہے۔ انکواایک جھوٹ کے ذریعے ان سرزمینوں سے جہاں وہ عرب (یمن، مراکش، مصر، ایران، عراق، شام وغیرہ) اسماعیلیوں کے درمیان دوہزار سال سے نسبتاً امن، سلامتی اور مذہبی آزادی کے ساتھ رہتے تھے، بے دخل کروا کرجبر اور ناانصافی کی حمایت کے لیے مقدس سرزمین پر واپس لا کر بسا یا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ظلم روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔

 

مسلمانوں نے انہیں دھوکہ نہیں دیا۔ مسلمانوں نے انہیں واپس آنے کی دعوت نہیں دی۔ قرآن کہتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے خدا نے خود ان کو واپسی سے منع کر رکھا ہے۔ وہی سب سے اعلی اللہ، جس نے دو بار انہیں بے دخل کیا اور سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ ہیکل (مسجد) کی تباہی کی۔ اور وہی اللہ اب اسرائیل کی جعلی ریاست کی تباہی کو یقینی بنائے گا۔ جس دن ایسا ہوتا ہے، اور یہ ناگزیر ہے، تو یہ اب تک کا سب سے بڑا عذاب الہی ہوگا جو تاریخ میں کسی بھی قوم پر آیا ہوگا۔ اور جو انکی خوفزدہ انکھیں دیکھیں گی۔ ربی کے لیے یہ تنبیہ ہے۔

 

 حقیقت کا وہی مسخ شدہ ادراک جو ربی کے بیان میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ اور ان دو مذاکراتی شراکت داروں یعنی پی ایل او اور اسرائیل کی ریاست میں بھی نظر آتا ہے جو ایک فضولیت پر مبنی بات چیت کی مشق کر رہے ہیں، اور جو یروشلم اور مقدس سرزمین کا مستقبل کی بابت ہے۔ تاہم وہ دونوں مکمل طور پر ان معاملات میں قرآن اور تورات کی اس موضوع سے متعلق رہنمائی کے ذرائع کے طور پر مکمل لاعلمی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس سے زیادہ مشترک لگتے ہیں جتنا کہ اسلام یا یہودیت کے مذاہب کے ساتھ ہیں۔ دونوں سیکولر قوم پرست تحریکیں ہیں جو مذہب کا استحصال کرتی ہیں. سیکولر قوم پرستی کو مطلق سچائی کی تلاش کی کوئی بھوک نہیں ہے۔

 

شاید فلسطینیوں کو اپنی فلسطینی ریاست سے متعلق یعنی مشرقی یروشلم کو دارالحکومت بنانے کے مطالبہ پرکوئی ہوشیار سمجھوتہ ہو جائے۔ لیکن اگر اور جب بھی یہ فلسطینی ریاست کا قیام ہوگا وہ بھی سیکولر قوم پرست یہودیوں کی اسرائیل کی ریاست کا چربہ ہوگا۔ اس کے بعد مقدس سرزمین سے متعلق ایک شرک کی ریست کی مزید مکمل تصدیق ہو جائے گی جو شرک کے عالمی نظام کا حصہ ہے جو جدید مغربی تہذیب سے نکلا ہے۔

 

جب خودمختاری اللہ اعلیٰ ترین! کے بجائے ریاست میں واقع ہو تو واضح طور پر ارتکاب شرک ہوتا ہے۔ شرک کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب ریاست کو اعلیٰ اختیارات حاصل ہوں، اور جب ریاست کا قانون سپریم قانون ہے! 

 

شرک کا سب سے زیادہ ڈھٹائی کا مظاہرہ ایک تجویز تھا۔ جسے امریکی حکومت نے اسرائیلی حکومت اور پی ایل او کے متضاد موقف کو حل کرنے کے لیے پیش کیا۔ اس جگہ کے بارے میں جس میں بذریعہ سلیمان علیہ السلام مسجد تعمیر کی گئی تھی اور جو اب مسلمانوں کے نزدیک الحرم الشریف کے نام سے جانا جاتا ہے، اور یہودیوں کے لیے ٹیمپل ماؤنٹ۔

 

امریکی منصوبہ اسرائیل کی ریاست کو مغربی دیوار (یا 'ویلنگ وال') پر 'خودمختاری' دیتا ہے۔ یہودی اس کو اصل ہیکل (مسجد) جو سلیمان علیہ السلام نے بنوایا تھا کا بقیہ حصہ کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی ریاست کو مسجد اقصیٰ اور مسجد عمر (جس کو چٹان پر گنبد کے نام سے جانا جاتا ہے) پر 'خودمختاری' ہوگی۔ اور ابراہیم علیہ السلام کے خدا کو باقی الحرام الشریف پر 'خودمختاری' پر راضی ہونا پڑے گا۔

شرک اس وقت مرتکب ہوتا ہے جب ریاست اس کو حلال قرار دینے کے لیے آگے بڑھے جسے اللہ تعالیٰ اعلیٰ ہے حرام بنایا ہو یا اور اس کے برعکس بھی۔ یہ اتنا ہی یقینی ہے جتنا سورج مشرق میں طلوع ہوتا ہے کہ مستقبل میں فلسطینی ریاست جوئے اور لاٹری کو قانونی حیثیت دے گی اور ریاست کی لاٹری کی سرپرستی بھی قائم کرے گی۔ یہ سود کو جائز کر دے گا، یعنی سود پر قرض دینا اور قرض لینا۔ یہ شراب کے استعمال کو قانونی شکل دے گا۔ دوسرے لفظوں میں فلسطینی ریاست شرک کو بالکل اسی طرح قبول کرے گی جس طرح یہودی اسرائیل اور باقی ماندہ دنیا (بشمول زیادہ تر مسلم دنیا) پہلے ہی کر چکی ہے۔ ایک فلسطینی ریاست جو پی ایل او کی طرف سے قائم کی جائے گی تو یہ بھی اپنے لوگوں پر وہی زوال لائے گی جو آج کی سیکولر یہودی ریاست کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر حصوں میں بھی پھیلی ہوئی ہے۔

 

مسلمان کسی بھی معاہدے کی حمایت نہیں کر سکتے اور انہیں کرنا بھی نہیں چاہیے، ان جیسی حالیہ سعودی منصوبہ کی، جو سیکولر قوم پرست ریاست اسرائیل کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اور فلسطین کے مقامی لوگوں، مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں پر اس پچاس سالہ ظلم کو قبول کریں۔ اور نہ ہی مقدس سرزمین میں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو قبول کریں جو یہودی ریاست کی نقل ہو گی۔

 

یہ کتاب ان یہودیوں کو بھی حقیقت کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتی ہے جنہوں نے بغیر کسی تنقیدی کے حضرت داود علیہ اسلام اور سلیمان علیہ السلام کی تخلیق کردہ شاندار ریاست کے بجائے ایک سیکولر قوم پرست اسرائیل کو بدل کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اسرائیل کی یہ ریاست ایک دھوکے باز ہے۔ جس نے یہودیوں کو دھوکہ دیا ہے۔ ڈاکٹر اسماعیل راجی الفارقی، فلسطینی اسلامی اسکالر جو اسرائیل کے کھلم کھلا ناقد تھے، اور جسے اندھیرے میں قتل کیا گیا، نے اسرائیل کو بطور "ایک نوآبادیاتی ادارہ"، "گناہ میں تصور"، "فرسودہ تصورات پر قائم قومی کردار اور مشن"، اور "مقامی لوگوں پر ایک عسکری جابر" قرار دیا۔

 

مقامی عرب لوگ جنہیں اپنے گھروں سے نکال دیا گیا تھا، یا انہیں دہشت کی وجہ سے بھاگنا پڑا تھا۔ وہ لوگ تھے جو ابراہیم علیہ السلام کے خدا کی عبادت کرتے تھے۔ پھر، جب یہودیوں نے مقدس سرزمین پر اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا، تب بھی انہوں نے ان مہاجرین کو مدعو کرنے یا اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے، یا انھیں ایسا کرنے کی اجازت دینا انکار کر دیا۔

آج تک، پچاس سال سے زیادہ عرصے کے بعد میں، یہودی ریاست نے پناہ گزینوں کی اپنے گھروں کو واپسی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جبکہ یہی ریاست یہودیوں کو کھلی دعوت دیتی ہے کہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، مقدس سرزمین میں رہنے کے لئے آئیں۔ یہ نیک سلوک نہیں ہے! بلکہ، یہ ہے شیطانی عمل۔

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ صہیونی ریاست اسرائیل آخرکار بنو اسرائیل کو دھوکہ دے گی اور انہیں دنیا کے ان لوگوں کے سامنے پھینک دے گی جو اسرائیل کی طرف سے انتہائی بے شرمی کے ساتھ  بے نقاب ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ 

 

یاسر عرفات بھی ایک دھوکے باز ہیں جو ان فلسطینیوں کی نمائندگی نہیں کرتے جن کو پچاس سال سے زیادہ عرصے سے اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا اور اسرائیل کی طرف سے مزید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ بہت سے لوگ لبنان اور دوسری جگہوں پر پچاس سال سے پناہ گزین کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ عرفات ان سے اسی طرح غداری کر سکتے ہیں جس طرح اسرائیل یہودیوں کو دھوکہ دے رہا ہے۔

 عرفات کی طرف سے دھوکہ دہی سے متاثر افراد بالآخر مسلم فوج کے سب سے آگے ہوں گے جب اسرائیل کی ریاست سے مقدس سرزمین میں مقیم یہودیوں سے مقابلہ ہوگا اور انہیں سزا دی جائے گی جہیں یہودی ریاست تج دی گی.

وہ مسلم فوج پہلے ہی جنوبی لبنان میں اپنی جنگی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر چکی ہے۔ اور جنوبی لبنان سے اسرائیلی انخلاء اس کا پیش خیمہ ہے جب اسرائیل نے اس علاقے میں سروگیٹ عیسائی فوج کو ( اسرائیل کی جانب سے لڑائی میں حصہ لینے کے بعد) مؤثر طریقے سے ترک کر دیا ، آنے والے مزید ڈرامائی واقعات کا نذیر ہے۔

 

سیکولر یہودی ریاست اسرائیل کی طرف سے اسماعیلیوں پر ارض مقدس میں نسل کشی ڈرامائی طور پر پہلے سے خوفناک مذہبی، سیاسی اور اقتصادی طور پر تیز تر کر دی گئی ہے۔ وہ ظلم مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس سیاق و سباق میں ہم اب ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی متعلقہ پیشن گوئی کو سمجھ سکتے ہیں۔ جنہوں نے اعلان فرمایا:

 

’’تم یہودیوں سے ضرور لڑو گے اور انہیں ضرور قتل کرو گے۔ (اور یہ سلسلہ جاری رہے گا) (یہاں تک کہ) پتھر بولیں گے (کہیں گے) اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی چھپا ہوا ہے تو آؤ اسے ماردو"۔

(صحیح بخاری)

 

(یہ کتاب اسلامک بک ٹرسٹ سے منگوائی جا سکتی ہے ibtkl@pd.jaring.my)


More Posts