تعلیم کے مدارج کے دوران دی گئ تصویر پر کہانی لکھایا جاتا ہے؛ اور اس کا مقصد کچھ اسباق سکھانا ہوتا یے۔ یہاں ایک تصویر دکھائی جارہی ہے اور اس سے متعلق ایک کہانی بھی بیان کی جارہی ہے۔ یہ تحریر ہمارے سماجی روجھانات پر موضوع کیا گیا ایک دلچسپ کہانی ہے؛ اور اس میں جو پیغام ہے وہ بھی قارئین کو یقینا" پسند آئے گا۔
تصویر کہانی عنوان؛ رزقِ حلال عین عبادت ہے
ایک عمر رسیدہ انسان، ایک بابا جو اپنی حیاتِ ارضی کے مستعار چار دنوں میں شاید آخری دن کی مسافت پر ہے؛ ایک شام دن بھر کی مشقت اور محنت کے بعد اپنی کٹیا کی جانب رواں دواں ہے۔ زندگی کے سفر میں اس کا قیمتی اثاثہ شاید صرف ایک یہی سائیکل ہے؛ جو اپنے مالک ہی کے مانند مفید استعمال کے آخری دور میں ہے؛ کو تھامے دھیرے دھیرے سنسان مگر غیر انجان راستے پر چلتا ہوا جا رہا ہے۔ اس بابا کی آنکھیں بتا رہی ہیں کہ یہ حیاتِ ارضی محض ایک دھوکا ہے اور دنیا کا سامان کم ہی رکھنا چاہیے؛ اور جس حال میں مولا جل شانہ رکھے مطمئن رہنا چاہیے۔
بابا کوئی عام انسان نہیں ہے، ایک محنت کش ہے؛ ایک مزدور جو شاید کسی فن کا بھی حامل ہے؛ تبھی لوہے کے بکسے میں اپنے اوزار سجا رکھے ہوں اور لوگوں کے مسائل نکی دہلیز پر حل کرنے پہنچ جاتا ہو۔ اور بابا شاید کباڑ بھی اکھٹا کرتا ہو۔ مگر کچھ بھی ہو بابا کے کپڑے اس بات کی نشاندھی کرتے ہیں کہ موسم ٹھنڈا ہے مگر اس نے اپنی سائیکل کا ہینڈل مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔ اُس کے ہاتھوں نے جو شاید اس عمر میں لرزتے ہوں؛ مگر وہ اپنی عمر رواں کی پتوار کو مضبوطی سے تھا مے ہے جیسے سائیکل کو تھامے ہیں۔ محنت کش کے حوصلے ہمیشہ جوان رہتے ہیں۔ وہ کبھی اللہ کی عطا سے مایوس نہیں ہوتا اور اپنے کام میں مگن خوش رہتا ہے۔
بابا کا سر سفید ہے اور اس نے سفید داڑھی سے اپنے چہرے کو سجا رکھا ہے جسے وہ سنبھالتا بھی ہے کہ تراش خراش زیادہ پرانی نہیں ہے۔ اس کا چہرہ بتا رہا ہے کہ اس نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے مگر سورج کی تمازت نے اس کی جلد کو تمتمایا بہت ہے۔ اس نے یقینا" محنت کا کام کیا ہے اور ہنر کا ایسا کام بھی کہ چشمہ بھی استعمال کرتا ہے۔ بابا نے عمر کا طویل سفر کیا ہے ؛ اب وہ بوڑھا ہوگیا ہے اور اس کی آنکھوں نے مہ و سال کی نجانے کتنی بہاریں دیکھی ہوں اور نجانے کتنے خزاں دیکھی ہوں؟ اس نے اس زندگی کے سفر میں نجانے کیسے کیسے دھوپ اور چھاؤں کا سامنا کیا ہو؟ مگر آج بھی وہ مستحکم اور پرعزم مضبوط قدموں سے چل رہا ہے۔
بابا نے زندگی میں نجانے کتنی خوشیاں اور کتنے غم دیکھے ہوں؟ ہوسکتا ہے کہ بہتے ہوئے وقت نے اپنوں اور غیروں کے ہاتھوں بابا کو متعدد بے رحمیاں دکھائی ہوں مگر یہ تصویر بتاتی ہے کہ زندگی کی ناہمواریاں بابا کو شکست نہیں دے سکیں۔ بابا اپنے رب کی عطا سے خود کو سمیٹ کر کامیابی سے ایک خوبصورت ملاقات کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ ملاقات جس کا وعدہ رب نے اپنے متقی بندوں سے کیا ہے۔ یہ منظر سادہ ہے، کہ زندگی کی سچائی ہمیشہ سادگی ہی کے مصداق ہے۔ یہ تصویر دراصل انسان کی محنت اور عزم کی ایک عظیم کہانی کا عکس ہے جو اصل کامیابی کی دلیل ہے؛ کیونکہ محنت میں عظمت ہے اور رزقِ حلال عین عبادت ہے۔
تصویر کہانی عنوان: زندگی لمحہ لمحہ جینا ہوتا ہے
ایک عربی تحریر کا ترجمہ پیش ہے کہ کسی دانا سے استفسار کیا گیا کہ " "آپ اس عظیم فہم و شعور کے مقام تک کیسے پہنچے؟
کون سی کتابوں نے آپ کو یہ فکری بلندی عطا کی؟"
دانا نے جواب دیا: "میں نے کتابوں سے نہیں، بلکہ زندگی کے نشیب و فراز سے سیکھا ہے۔
پچاس زخموں کی گہرائی میں اتر کر، ستر جھگڑوں کی سختیوں میں گِھر کر اور بے شمار مصیبتوں کے بوجھ تلے دب کر شعور کی منازل طے کیں۔
اپنوں کی آنکھوں میں جب غداری کی جھلک دیکھی، تو احتیاط کا ہنر سیکھا۔
جن سے محبت کی، ان کی نظروں میں جب بے دردی دیکھی، تو خاموشی اختیار کرنا سیکھا۔
دوست کہلانے والوں کے ہاتھوں بے وفائی کا زخم کھایا، تو رخصت ہونے کا ہنر اپنایا۔
اور جب بار بار اپنے پیاروں کو سپردِ خاک کیا، تو یہ حقیقت مجھ پر آشکار ہوئی کہ محبت وہ اثاثہ ہے جسے جینا لازم ہے۔
اگر سیکھنا ہے تو دنیا کو پڑھو؛ یہ وہ کتاب ہے جس کی وسعتیں لامحدود ہیں۔
یاد رکھو، زندگی میں کوئی سبق مفت نہیں ملتا، ہر سبق کی قیمت چکانی پڑتی ہے"۔
یہ تصویر ایک بوڑھے کی داستانِ حیات کا ایک ورق ہے؛ جو بتا رہی ہےکہ زندگی کی جنگ سب نے لڑنی ہوتی ہے اور لمحہ لمحہ جینا پڑتا ہے؛ اس بوڑھے نے اب تک یہ جنگ بہت مضبوطی سے لڑ ی ہے۔ اپنی غربت اور تنگدستی سے نہیں ہارا اور جہد مسلسل کو اپناتے ہوئےعمر کی اس منزل تک پوری تمکنت اور وقار سے کھڑا ہے۔ اُس کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ اور یہ بوڑھا اوپر بیان کردہ عرب دانا شخص کی روایت کی جیتی جاگتی مثال ہے۔
ہر انسان جب پیدا ہوتا ہے تو پہلے ایک بچہ ہوتا ہے؛ جو فطرتا"معصوم ہوتا ہے ۔ جو مسکراتا ہے، قہقہے لگاتا ہے ، روتا ہے؛ ضد کرتا ہے؛ خوابوں اور خیالوں کے پل باندھتا ہے، لڑائی کرتا ہے اور مابعد جلد صلح بھی کر لیتا ہے۔ تھوڑی سی محبت سے ہی دل بڑا کر لیتا ہے؛ نفرت اور حسد سے ناآشنا ہوتا ہے۔
عمر کی ایک حد تک یہ بچہ اپنی فطرت قائم رہتا ہے،حوصلے جان دار رہتے ہیں ، آزمائشیں حقیر لگتی ہے ،ہمیشہ سچائی کی تلاش رہتی ہے اور اس سے محبت ہوتی ہے ،کچھ کرنے کی لگن لگی رہتی ہے،دل ٹوٹ بھی جائے پھر سے جڑ جاتا ہے؛ کچھ گنوا بیٹھے تو تھوڑا اداس ہوکر پھر بھول جاتا ہے، غم کو اپنے اوپر کبھی حاوی ہونے نہیں دیتا۔
جیسے ہی فطرت کی معصومیت کا اثر ختم ہوتا ہے اور دنیا میں پھیلے فسوں کا تسلط بڑھ جاتا ہے؛ زندگی بوجھل ہوجاتی ہے اور مشکلیں وارد ہوجاتی ہیں۔ تو انسانوں کے مزاج میں فن کاری اور عیاری در آتی ہے۔ انسانیت اور محبت کا دروازہ بند ہونے لگتا ہے، انسان خود غرض ہوجاتا ہے اور اپنی ذات ہی میں سب کچھ نظر آنے لگتا ہے۔
جن افراد کو زندگی مشکل سفر پر روانہ کردیتی ہے وہ اس اندر کے بچےکو حالات کی ستم ظریفی کے ہاتھوں مار کر زندگی اجیرن بنا لیتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر حال میں اپنے اندر بچہ پال رکھتے ہیں؛ اسے مردہ نہی ہونے دیتے بلکہ زندہ جاوید رکھتے ہیں تو پحر ایسے ہی انسان حقیقی زندگی کے مزے لیتے ہیں۔
یہ تصویر ایک چیخ ہے، ان لوگوں کے لیے جو اپنا خود کھو دیتے ہیں اور اشیاء کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ وقت انکا چہرہ مسنخ کردیتا ہے۔ یہ تصویر انکے لیے پیغام ہے کہ زندگی کی سب سے بڑی جنگ اس بوڑھے نے لڑ لی ہے؛ وہ اپنی غربت اور تنگ دستی سے ہارا نہیں ہے۔ انتہائی بزرگ عمر کے باوجود وہ پورے وقار سے آگے بڑھ رہا ہے؛ اُس کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا؛ مگر اس کی منزل بہت قریب ہے اور وہ شاداں ہے۔ کامیابی اس کے سامنے ہے جسے اس کی آنکھیں دیکھ سکتی ہیں۔
اور ایک ہم ہیں، شکارِ ہزار اندیشہ
تمام کرب و تجسس، تمام وہم و گمان
زباں پہ قفلِ طلسماتِ روز و شب ڈالے
ٰخیال و خواب کی آہٹ سے چونکنے والے
کوئی رفیقِ جنوں، کوئی ساعتِ مرہم
روایتاً بھی نہ دیکھے ہماری سمت کہ ہم
ہزار مصلحتوں کو شمار کرتے ہیں
تب ایک زخمِ جگر اختیار کرتے ہیں
مصطفیٰ زیدی
"ہر روز سورج طلوع ہوتا ہے، یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہر دن ایک نئی شروعات ہیں؛ لمحہ موجود مِن حاصل جو کچھ ہے اسے دوبارہ ترتیب دینے اور اسے گلے لگانے کا ایک موقع۔ جس طرح علی الصبح آہستہ آہستہ آسمان روشن ہوتا ہے، اسی طرح اپنے آپ کو آہستہ سے بیدار ہونے دیں۔ ایک بہتریں دن کے آغاز کا بھروسہ کرتے ہوئے؛ آپ ایک گہرا سانس لیں اور کل کی پریشانیوں کو بھول جائیں۔ اور آج کے دن پرسکون اور مستحکم قدموں کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھ جائیں۔ یاد رکھیے کہ خواہ آپ کتنے ہی مخدوش حالات سے کیوں نہ گزرے ہوں؛ فطرت نے آپ کے اندر آپ کی ضرورت کی ہر چیز مہیا کر رکھی ہے؛ بس آپ اسے منطقی طور پر سامنے لائیں اور آگے بڑھتے جائیں۔ "
یہ تحریر مرتب کرنے کے لیے آزاد سوشل میڈیا ذرائع استعمال ہوئے ہیں