Muhammad Asif Raza 1 week ago
Muhammad Asif Raza #entertainment

"These I Can Promise" by Mark Twain سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جانِ من

The poem "These I Can Promise" has been written by Mark Twain اند is a lovely short and sweet wedding reading. This poem starts by listing all the things the speaker can’t offer and then goes on to list all the things they can promise. A Pakistan's film song has a similar message as the Mark Twain Poem with wording " No gold, no silver, no palace, My Love" in Urdu. This write up takes up the two piece of literature together.

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

In the name of ALLAH, the Most Gracious, the Most Merciful

 

"These I Can Promise" by Mark Twain سونا نہ چاندی نہ کوئی محل جانِ من

 

The poem in the following has been written by Mark Twain (November 30, 1835 - April 21, 1910); and the poem conveys that anyone of us cannot promise a life without difficulties, but one can always promise and endeavour to offer his devotion, love, and a hand to hold. The message is a powerful reminder to all young souls who yearn to take marriage as a next step in life. This poem is all about recognizing human imperfection. We all have our limits and make mistakes, therefore, we must not anticipate an error free life as commonly said "life is not a bed of roses".

 

"These I Can Promise" by Mark Twain is a lovely short and sweet wedding reading. This poem starts by listing all the things the speaker can’t offer, like sunshine, wealth, and not growing old. Then, the speaker goes on to list all the things they can promise. Like their heart’s devotion, true love, and a comforting hand to hold. This may be termed as a "wedding reading" for all to be married young souls and which is all about promising your best self and the best version of yourself to your partner, which is also a subject of this write up.

 

Here in the following is the Poem "These I Can Promise" by Mark Twain

 

I cannot promise you a life of sunshine;

I cannot promise riches, wealth, or gold;

I cannot promise you an easy pathway

That leads away from change or growing old.

But I can promise all my heart's devotion;

A smile to chase away your tears of sorrow;

A love that's ever true and ever growing;

A hand to hold in yours through each tomorrow.

 

A Pakistani romantic Urdu film namely "Bandish" (بندش) was released in 1980. It was directed by Nazar-ul-Islam and the top cast included Shabnam and Nadeem. Bandish was shot in Pakistan and Indonesia. The film was a commercial success and won 7 Nigar Awards in different categories. The movie songs, "Sona na chandi na koi mehal" became the most iconic melodies of the era and still reverberates through the minds and memories of people. There were many simple beautiful & romantic songs but this one song from `Bandish', which was written by Poet Saeed Gilani; composed by Robin Ghosh and rendered by the Eternally Melodious Singer Akhlaq Ahmed had similar vibes as Mark Twain Poem.

 

The song with a similar message as the Mark Twain Poem was " No gold, no silver, no palace, My Love" in Urdu off course (سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل جانِ من) has been written, sung and picturized after 70 years of death of the American writer, humorist and essayist Mark Twain; but it included the similar theme and message although from a middle class reference. Mark Twain poem is classless but the film story line required it to reflect middle class back ground. Th middle class was strong and flourishing in those decades in Pakistan and therefore the film and the song was a mega super hit. The song is still popular and played and enjoyed on marriage functions.


 

No gold, no silver, no palace

I can give you my love

 

Still, this is a promise to you

Love me whatever you do

I will give you a small house

I will be the companion of Good and bad times

 

No gold, no silver, no palace

I can give you my love

 

When I return home in the evening

I will find you laughing

All botherations will be washed away

When you will hold me in your arms

 

When will the holiday be?

We will go sight seeing

Day and night by our lips

Songs of love will be recited

Two restless hearts will meet

 

No gold, no silver, no palace

I can give you my love

 

Go to the mountains in summer

We will sing of Joys

Hiding in the cold in quilts

Stories will be told

 

When the spring will come

We will make garland of flowers

We both will go to the sea and

Will pick pearls from oysters

Will hear the waves singing

 

No gold, no silver, no palace

I can give you my love

 

When will I come home with the salary?

I will give it to you in your hands

When the money will be spent

I will argue with you

 

Then it will be, you from me

will remain angry for some time

Then You will ponder in your heart

You will smile and advance

to hug me and console

مارک ٹوین کی نظم کا ترجمہ " میں انکا وعدہ کر سکتا ہوں"۔


میں تم سے دھوپ کی مانند چمکدار زندگی کا وعدہ نہیں کر سکتا؛

میں تم سے عیش و عشرت، دولت یا سونے کا وعدہ نہیں کر سکتا؛

میں تم سے ہمیشہ آسان سفر کا وعدہ نہیں کر سکتا؛

یہاں تک کہ تغیر پذیر زندگی ہمیں بوڑھاپے کی سرحد پر لا کھڑا کردے۔

لیکن میں اپنے دل کی تمام تہوں سے وعدہ کرتا ہوں؛

اپنی مسکراہٹوں سے ہمیش تمھارے غم و آنسو پونچھ ڈالوں گا؛

ایک سچی محبت کا جو ہمیشہ بڑھتی رہے گی؛

ہر گزرتے دن کے ساتھ تمھارا ہاتھ تھامے رکھوں گا۔

[ آج بھی تمھارا ہوں کل بھی تمھارا ہی ہونگا ]

 

مندرجہ بالا نظم مارک ٹوین نے لکھی ہے۔ اور نظم یہ بتاتی ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی مشکل کے بغیر زندگی گزارنے کا وعدہ نہیں کر سکتا، لیکن کوئی ہمیشہ اپنی عقیدت، محبت اور ہاتھ پکڑنے کا وعدہ اور کوشش کر سکتا ہے۔ یہ پیغام ان تمام نوجوان روحوں کے لیے ایک طاقتور یاد دہانی ہے جو زندگی کے اگلے قدم کے پر شادی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نظم انسانی خامیوں کو پہچاننے کے لیے ہے۔ ہم سب کی اپنی حدود ہیں اور غلطیاں کرتے ہیں، لہذا، ہمیں غلطی سے پاک زندگی کی توقع نہیں کرنی چاہیے جیسا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ "زندگی گلابوں کا بستر نہیں ہے"۔

 

مارک ٹوین کی نظم "میں انکا وعدہ کر سکتا ہوں" ایک خوبصورت مختصر اور پیاری شادی کا گیت ہے۔ یہ نظم ان تمام چیزوں کی فہرست سے شروع ہوتی ہے جو مقرر پیش نہیں کر سکتا، جیسے دھوپ، دولت، اور بوڑھا نہ ہونا۔ پھر، اسپیکر ان تمام چیزوں کی فہرست بناتا ہے جن کا وہ وعدہ کر سکتے ہیں۔ جیسے ان کے دل کی عقیدت، سچی محبت، اور تسلی دینے والا ہاتھ۔ اسے سب کے لیے شادی شدہ نوجوان روحوں کے لیے "شادی کا گیت" کہا جا سکتا ہے اور یہ سب کچھ آپ کے بہترین نفس اور اپنے ساتھی کے لیے اپنے آپ کے بہترین ورژن کا وعدہ کرنے کے بارے میں ہے، جو اس تحریر کا ایک موضوع بھی ہے۔

 

ایک پاکستانی رومانوی ڈرامہ اردو فلم "بندش" (بندش) 1980 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اسے نذر الاسلام نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اس کی ٹاپ کاسٹ میں شبنم اور ندیم شامل تھے۔ بندش پاکستان اور انڈونیشیا میں فلمائی گئی تھی۔ یہ فلم تجارتی طور پر کامیاب رہی اور اس نے مختلف کیٹیگریز میں 7 نگار ایوارڈز جیتے۔ فلمی گانے، "سونا نا چاندی نہ کوئی محل" اس دور کی سب سے مشہور دھن بن گئیں اور آج بھی لوگوں کے ذہنوں اور یادوں میں گونجتی ہے۔ اس گانے میں مارک ٹوین کی نظم جیسا پیغام ہے۔

'بندیش' کا ایک سادہ اور خوبصورت گانا، جسے شاعر سعید گیلانی نے لکھا تھا۔ اور اسے رابن گھوش نے کمپوز کیا تھا اور اسے خوبصورت گائیکی کا رنگ سنگر اخلاق احمد نے پیش کیا تھا۔

 

امریکی مصنف، مزاح نگار اور مضمون نگار کی موت کے 70 سال بعد اردو میں گانا "سونا نہیں، چاندی نہیں، کوئی محل نہیں، جانِ من" لکھا، گایا اور فلمایا گیا۔ لیکن اس میں متوسط ​​طبقے کے حوالے سے موضوع اور پیغام شامل تھا۔ مارک ٹوین کی نظم کلاس لیس ہے لیکن فلم کی کہانی کی ضرورت نے اسے متوسط ​​طبقے کے بیک گراؤنڈ کی طرز پر تحریر کیا گیا۔ پاکستان میں ان دہائیوں میں متوسط ​​طبقہ مضبوط اور پروان چڑھ رہا تھا اور اسی لیے فلم اور گانا ایک میگا سپر ہٹ ثابت ہوا۔ یہ گانا اب بھی مقبول ہے اور شادی کی تقریبات میں چلایا اور لطف اٹھایا جاتا ہے۔ آئیے ذیل میں فلمی گانا بھی پڑھ لیتے ہیں۔

 

سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل

جانِ من، تجھ کو میں دے سکوں گا

 

پھر بھی یہ وعدہ ہے تجھ سے

تُو جو کرے پیار مجھ سے

چھوٹا سا گھر تجھ کو دوں گا

دکھ سکھ کا ساتھی بنوں گا

 

سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل

جانِ من، تجھ کو میں دے سکوں گا

 

جب شام گھر لوٹ آؤں گا

ہنستی ہوئی تُو ملے گی

مٹ جائیں گی ساری سوچیں

بانہوں میں جب تھام لے گی

 

چھٹی کا دن جب ہوگا

ہم خوب گھوما کریں گے

دن رات ہونٹوں پہ اپنے

چاہت کے نغمے کھلیں گے

بے چین دو دل ملیں گے

 

سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل

جانِ من، تجھ کو میں دے سکوں گا

 

گرمی میں جا کے پہاڑوں پہ

ہم گیت گایا کریں گے

سردی میں چھپ کر لحافوں میں

قصے سنایا کریں گے

 

رت آئے گی جب بہاروں کی

پھولوں کی مالا بنیں گے

جا کے سمندر پہ دونوں

سیپوں سے موتی چنیں گے

لہروں کی پائل سنیں گے

 

سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل

جانِ من، تجھ کو میں دے سکوں گا

 

تنخواہ میں جب لے کے آؤں گا

ہاتھوں میں تیرے ہی دوں گا

جب خرچ ہوں گے وہ پیسے

میں تجھ سے جھگڑا کروں گا

 

پھر ایسا ہوگا، تُو مجھ سے

کچھ دیر روٹھی رہے گی

سوچے گی جب اپنے دل میں

تُو مسکرا کے بڑھے گی

آ کر گلے سے لگے گی


سونا نہ چاندی، نہ کوئی محل جانِ من ایک ہر موسم میں سننے کے لائق فلمی گانا ہے؛ آپ بھی سنیے

0
143
Avenue Brew: Your Go-To Coffee Catering Service for Any Event

Avenue Brew: Your Go-To Coffee Catering Service for Any Event

defaultuser.png
abdulrehman6428
1 month ago
Can I Dry Weed in a Cardboard Box?

Can I Dry Weed in a Cardboard Box?

defaultuser.png
Silvester Hills
1 month ago
خلا میں دور دراز بہت بڑے اورٹ بادل کے پراسراریت کی پرت کھل گئی

خلا میں دور دراز بہت بڑے اورٹ بادل کے پراسراریت کی پرت کھل گئی

1714584133.jpg
Muhammad Asif Raza
1 year ago
Unveiling Chinese New Year Superstitions

Unveiling Chinese New Year Superstitions

defaultuser.png
Muntaha Riaz
1 day ago
Online Cricket ID

Online Cricket ID

defaultuser.png
vayu889
1 week ago