سر زمینِ القدس، مسئلہ فلسطین و اسرائیل
The Israel – Palestine Conflict is century old and it is impossible for a common man in the streets of the Muslim World to not get effected by the crisis. The Arab- Israel conflict has severely affected the sentiments of the Muslims across the globe. Here in this write up a clear position on the Arab-Israel Conflict and the recent Hamas- Israel War is expressed.
2023-10-26 18:22:09 - Muhammad Asif Raza
سر زمینِ القدس کیا ہے؟
قدس:ایشیا کا مغرب اور مشرق وسطیٰ کے جنوب کی جانب فلسطین کا مرکز قدیم تاریخی شہر “قدس” کا محل وقوع ہے جسے “بیت المقدس” یا “قدس شریف” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں اسکی قدامت ٤٥ صدیوں سے زیادہ بیان ہوئی ہے۔ یہ مقدس شہر اُن شہروں میں سے ایک ہے جو تمام انسانوں کے نزدیک مقدس ہیں۔
بیت المقدس یا القدس فلسطین کے وسط میں واقع ہے جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے نزدیک انتہائی مقدس ہے یہاں مسلمانوں کا قبلہ
اول مسجد اقصی اور قبة الصخرہ واقع ہیں۔
بیت المقدس کے نام: بیت المقدس کو مختلف قوموں نے اپنے اپنے عقیدے کے اعتبار سے مختلف ناموں سے نوازا ہے۔ یہودی اور عیسائی آج بھی اسے “یروشلم” کہتے ہیں۔ یہ دو عبرانی الفاظ “یرو” اور “شلم” کا مجموعہ ہے جس کے معنی "امن کا ورثہ" ہیں جو کنعانیوں کے صلح کے خدا “شلم” کی نسبت سے معروف ہے۔
اسے یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں، ‘یروشلم کا عام عربی نام القدس ہے جسے قدیم مصنفین عام طور پر بیت المقدس لکھتے ہیں، دراصل اس سے مراد ہیکل (سلیمانی) تھا جو عبرانی بیت ہمدقش کا ترجمہ ہے لیکن بعد میں اس لفظ کا اطلاق تمام شہر پر ہونے لگاـ مصنفین ایلیا کا لفظ بھی بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ انہیں اس کا قدیم نام بھی معلوم تھا جسے وہ اوریشلم اور یسلم اور یشلم بھی لکھتے ہیں ـ
حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحی الہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجداقصی) کی بنیاد ڈالی اور اسکی وجہ سے بیت المقدس آباد ہواـ پھر عرصہ دراز کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام (961 قم) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیراورتجدید کی گئی۔
اکثر انبیاء اسی شہر میں مبعوث ہوئے اور اس شہر کے اردگرد پھیلی ہوئی زمین کے کسان آج بھی خود کو کسی نہ کسی نبی کی اولاد بتاتے ہیں۔ یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے یکساں متبرک ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول، مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے بعد تیسرا حرم ہے۔ سرور کائنات (ص) ہجرت کے بعد بھی سترہ مہینوں تک اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ معراج کے سفر میں بھی یہی شہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی منزل تھا۔ اِسی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام کا مدفن اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جائے ولادت ہے۔
بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہےـ انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون جس پر مسجد اقصی اور قبة الصخرة واقع ہیں ـ کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئی۔
مسئلہ فلسطین
مسئلہ فلسطین کو عام طور پر حالات حاضرہ کے تناظر میں ایک قومی اور سیاسی مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم اس کا ایک دوسرا زاویہ بھی ہے جو تاریخ اور آسمانی صحائف کی روشنی میں سامنے آتا ہے
مسئلہ فلسطین اپنی موجودہ شکل میں پہلی جنگ عظیم میں پیدا ہوا جب یہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا۔ اس جنگ میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور شکست کے بعد موجودہ ترکی کے علاوہ تمام علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔ تاہم عرب علاقوں میں ترکوں کی شکست کی وجہ شریف مکہ حسین بن علی کی بغاوت تھی جو ایک انگریز کرنل لارنس کے زیر اثر اس نے کی۔
پہلی جنگ عظیم کے فاتحین برطانیہ اور فرانس نے اپنے منصوبوں کے مطابق اس پورے علاقے کی تقسیم کر دی۔ شام و لبنان فرانس جبکہ فلسطین، اردون اور موجودہ عراق، برطانیہ کے حصے میں آئے۔ یہ سب کچھ سائکس پیکوٹ (Sykes-Picot) معاہدے کے تحت ہوا جو 1916 میں برطانیہ اور فرانس کے درمیان طے پایا تھا۔ تاہم عربوں کی قوم پرستانہ تحریکوں کے نتیجے میں وہ مجبور ہوگئے کہ ان علاقوں کو ہندوستان کی طرح کالونی بنانے کے بجائے یہاں اپنی مرضی کی مقامی حکومتیں قائم کریں تاکہ ان کا اثر و رسوخ یہاں ضرور باقی رہ سکے۔
تاہم فلسطین کے بارے میں برطانیہ کا ایک خصوصی منصوبہ تھا جس کا اظہار 1917 میں اعلان بالفور میں ہوا۔ اس میں یہ چیز تسلیم کرلی گئی کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست قائم کی جائے گی۔ فلسطین میں یہودی ریاست پہلی جنگ عظیم کے بعد ہی قائم ہوجاتی، مگر مسئلہ یہ تھا کہ وہاں یہودیوں کی تعداد عربوں کے مقابلے میں انتہائی کم تھی۔ چنانچہ دنیا بھر سے یہودیوں کی فلسطین آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور مقامی عربوں کے سخت احتجاج اور مزاحمت کے باوجود جاری رہا۔ یوں ان کی آبادی جو 1917 میں محض 8 فی صد تھی دوسری جنگ عظیم کےبعد ایک تہائی تک جاپہنچی۔ یہی وہ وقت تھا جب 1947 میں اقوام متحدہ میں فلسطین کی تقسیم کی منظوری دی گئی اور 1948 میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا۔
اس کے بعد عربوں اور اسرائیل کے بیچ میں تین بڑی جنگیں لڑی گئیں۔ ان جنگوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اسرائیل کے حدود اور وہاں یہودی آبادی بڑھتی گئی۔ فلسطینیوں، عربوں اور مسلمانوں کی تمام تر کوشش کے باوجود آج تک اسرائیل کا وجود نہ صرف باقی ہے بلکہ بیت المقدس جو ابتدا میں ان کے پاس نہیں تھا، اب ان کے قبضہ میں ہے۔
فلسطین کی تاریخ چار ہزار سال پر مبنی معلوم تاریخ ہے۔ خوش قسمتی سے قرآن مجید نے اس تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بیان
کرنا شروع کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اور ان کی اولاد کو انسانیت کا پیشوا بنا دیا تھا۔ یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ دنیا میں توحید کا پرچم بلند کریں اور شرک سے بھری ہوئی دنیا کو سچی خدا پرستی کا ایک عملی نمونہ دکھا دیں۔
امت مسلمہ کے لیے سبق
حضرت موسیٰ کے زمانے تک بنی اسرائیل ایک قوم بن چکے تھے، اس لیے ان کے ذریعے سے بنی اسرائیل کو اہل مصر کی غلامی سے نجات دلائی گئی اور بعد ازاں تورات میں شریعت کا قانون عطا کرکے فلسطین میں آباد کیا گیا۔ اگلے تقریباً ڈیڑھ ہزار برس تک یہ علاقہ انھی کے تصرف میں رہا۔ تاہم تورات میں اس چیز کو ایک قانون کے طور پر بیان کر دیا گیا ہے اور قرآن مجید نے اس کی تائید کر دی ہے کہ یہ غلبہ غیر مشروط نہ تھا بلکہ خدا کے ساتھ وفاداری اور اس کے پیغمبروں کی اطاعت سے مشروط تھا۔
چنانچہ اسی اصول پر بنی اسرائیل کو حضرت داؤد و سلیمان علیہ السلام کے دور میں سپر پاور کا مقام ملا اور حضرت عیسیٰ کے کفر کے بعد بنی اسرائیل کو منصب امامت سے معزول کر دیا گیا اور ان کے لیے دو سزائیں طے کر دی گئیں۔ ایک یہ کہ ان پر وقفے وقفے سے ایسے لوگ مسلط ہوں گے جو ان کو بدترین عذاب دیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ مستقل طور پر حضرت عیسیٰ کے نام لیواؤں کے تابع ہوکر رہیں گے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد دنیا کی امامت حضرت ابراہیم کی اولاد کی دوسری شاخ یعنی بنی اسماعیل کو منتقل کر دی گئی۔ ان کے لیے فلسطین کی جگہ سرزمین عرب کو خاص کر دیا گیا جسے ہر طرح کے شرک سے محفوظ رکھ کر خدا پرستانہ معاشرہ قائم کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ تاریخ میں جو کچھ بنی اسرائیل کے ساتھ ہوا بعینہٖ وہی بنی اسماعیل کے ساتھ بھی ہوا۔ وہ دراصل ان وعدوں اور وعیدوں کا نتیجہ تھا جو بنی اسرائیل سے تورات میں کیے گئے تھے اور ان کے بعد بنی اسماعیل کے لیے بھی یہی قانون روبہ عمل ہوگیا۔ چنانچہ پہلے حضرت داؤد و سلیمان کی طرح خلافت راشدہ کے دوران میں بنی اسماعیل کو عظیم غلبہ حاصل ہوا اور پھر چنگیز و ہلاکو کے ہاتھوں وہی بربادی دیکھنی پڑی جو بخت نصر کے ہاتھوں بنی اسرائیل کو دیکھنی پڑی تھی۔
عجمی مسلمان اسی طرح بنی اسماعیل کو ملنے والی سزا و جزا میں شریک تھے جس طرح یہود کے ساتھ بسنے والے پردیسی انھیں ملنے والی سزا و جزا میں شریک رہے۔ چنانچہ مکابیوں کی طرح جب مسلمانوں کے دوسرے غلبے کا وقت آیا تو اس دفعہ یہ عالمی غلبہ عجمی مسلمانوں یعنی ترکوں اور مغلوں کے ذریعے سے قائم کیا گیا۔ اور جب دوسری سزا کا وقت آیا تو جس طرح رومیوں نے بنی اسرائیل اور پردیسیوں کا لحاظ کیے بغیر سب کو تباہ کیا تھا اسی طرح جدید رومیوں یعنی مغربی طاقتوں نے عرب و عجم کے مسلمانوں کو یکساں طور پر مغلوب کرلیا۔
چند چیزیں البتہ ایسی ہیں جن کو مزید سمجھنا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ بنی اسرائیل کے برعکس بنی اسماعیل اور مسلمان ابھی منصب امامت سے معزول نہیں ہوئے۔ وہ جس روز اصل دین یعنی ایمان و اخلاق کی دعوت کی طرف لوٹ آئے خدا آسمان سے فرشتے اتار کر زمین پر ان کا غلبہ قائم کرے گا۔
اللہ تعالیٰ کے قانون میں قوموں کا محشر یہی دنیا ہے۔ اس میں قوموں کے بارے میں ان کا قانون یہ ہے کہ جو قوم علم و اخلاق میں دوسری اقوام سے بہتر ہو اسے عالمی غلبہ دیتے ہیں۔ جو ان چیزو ں میں پیچھے ہو، اسے وہ نیچے رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ ان معیارات کو ملحوظ نہیں رکھتے جو آل ابراہیم کے بارے میں ہیں یعنی توحید سے وابستگی اور خدا کے رسولوں کی اطاعت کوئی شرط نہیں ہوتی۔ موجودہ مغربی طاقتوں کا غلبہ اسی اصول پر ہے۔ مسلمان اگر راہ راست پر نہ آئے تو اہل مغرب کے بعد اللہ تعالیٰ یہ غلبہ کسی اور کو انھی اصولوں پر دے دیں گے۔
ہم نے مسلمہ تاریخ اور نبیوں کے پیغام کی روشنی جو واضح کرنا تھا کر دیا ہے۔ اب مسلمانوں نے مسئلہ فلسطین پر جتنی گفتگو کرنی ہے وہ کرتے رہیں۔ ہوگا وہی جو خدا کے قانون میں طے ہوچکا ہے۔ إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِکُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَہَا، اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے لیے
اچھا کرو گےاور اگر برے کام کرو گے تو وہ اپنے لیے کرو گے۔(بنی سرائیل7)۔
یہود، عرب، دیگر اسلامی ممالک اور مغرب
مسئلہ فلسطین کا آغاز 1917 میں معاہدہ بالفور سے ہوا تھا جب انگریز حکومت نے فلسطین پر قبضہ کرلیا اور وہاں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ 1948 میں اسرائیل بنا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ایک ہی معاملہ بار بار دہرایا جاتا ہے: فلسطینیوں کی سخت مزاحمت، عربوں کی بھرپور حمایت اور باقی مسلمانوں کی زبردست تائید اور ان سب کے باوجود فلسطین میں یہودی علاقوں اور آبادکاروں میں مسلسل اضافہ اور فلسطینیوں پر زندگی کا مستقل تنگ ہونا۔
مسئلہ فلسطین کو دیکھنے کے بہت سے زاویے ہوسکتے ہیں، مگر اس طالب علم کے لیے ایک ہی زاویہ اہم ہے۔ وہ زاویہ قرآن مجید کا زاویہ ہے۔ اس مسئلے کے دو فریق ہیں۔ ایک یہود اور دوسرے عرب۔ دونوں کے متعلق قرآن مجید پہلے ہی بتا چکا ہے کہ وہ کیا کریں گے تو جواب میں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا کریں گے۔ یہود کے متعلق قرآن مجید کا فیصلہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ کے کفر کے بعد وہ قیامت تک مسیحیوں سے مغلوب رہیں گے اور وقفے وقفے سے ان پر سخت عذاب مسلط کیا جائے گا۔ تاہم ان وقفوں اور غلامی کے درمیان ان کو مہلت ضرور ملے گی۔ یہود اس وقت اسی مہلت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بعض نادان لوگ اس مہلت کو یہود کا عالمی غلبہ سمجھتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہود پچھلے دو ہزار برس سے مسلسل مغلوبیت اور عذاب کا شکار ہیں۔ اس وقت بھی وہ مغربی طاقتوں کے بل بوتے پر ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔ پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کی مسیحی طاقت نے اپنے مفادات کے لیے ان کو استعمال کیا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ نے یہودیوں کے ذریعے سے امریکہ کو جنگ میں شریک کروا کے پہلی جنگ عظیم میں اپنی شکست فتح میں بدلی اور اس خدمت کے بدلے میں اعلان بالفور ہوا۔ ہٹلر نے اسی جرم کی بنا پر یہود کا قتل عام کیا تھا۔
اس کے بعد بھی مغربی طاقتوں نے یہود کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا۔1938 میں سعودی عرب میں تیل کے سب سے بڑے عالمی ذخیرے کی دریافت کے بعد مغربی طاقتوں کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا معیار زندگی اور ترقی عرب کے اس تیل پر منحصر ہے۔ چنانچہ اس تیل پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی غرض سے اسرائیل کو بنایا گیا تاکہ عرب ریاستیں مسلسل خوف میں رہ کر مغربی طاقتوں کے کنٹرول میں رہ سکیں۔ عرب ریاستوں کی دولت کا ایک بڑا حصہ اس اسلحے کی خریداری پر خرچ ہوتا ہے جو وہ اسرائیل کے خوف سے خریدتی ہیں اور یوں تیل پر خرچ ہونے والی رقم اسلحے کی تجارت سے واپس مغربی اقوام کو مل جاتی ہے۔
یہ مفادات کا دو طرفہ معاملہ ہے۔ جب مغربی اقوام یہ محسوس کریں گی کہ یہود ان کے مفاد کے خلاف جاکر کھڑے ہوگئے ہیں تو وہ دوبارہ وہی کریں گی جو تاریخ میں یہود کے ساتھ ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی بات یہود کے بارے میں بالکل درست ہے کہ وہ مسیحی اقوام سے مغلوب ہیں اور وقفے وقفے سے ان پر خدائی عذاب کا کوڑا بھی برسے گا کیونکہ انھوں نے پہلے انبیا کی ایمان و اخلاق کی تعلیم کو رد کرکے ظاہر پرستی اور قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے اللہ کے غضب کو بھڑکایا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کفر کیا۔
عربوں کے متعلق بھی اللہ کا وہی قانون ہے جو یہود کے متعلق ہے کیونکہ یہ دونوں حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں اور یہ قانون حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے کہ انھیں دنیا پر حق کی شہادت دینی ہے۔ وہ یہ کام نہیں کریں گے تو اسی دنیا میں ان پر ذلت، رسوائی اور عذاب مسلط کیا جائے گا۔ یوں یہ شہادت جو وہ اپنے قول و فعل سے نہیں دیں گے وہ ان کے حالات سے دلوائی جائے گی کہ اللہ مجرموں کو سزا دیتا ہے اور وفاداروں کو انعام دیتا ہے۔
قرآن مجید نے قوموں کے بارے میں ایک مستقل قانون بیان کیا ہے کہ "اللہ تعالیٰ کسی قوم کے معاملے کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے معاملات خود نہیں بدلتے"، (الرعد11:13)۔ چنانچہ عربوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنا رویہ بدلیں اور ایمان و اخلاق کی دعوت کو پوری طرح اختیار کریں۔ اگر وہ یہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات و اسباب پیدا کر دیں گے کہ اسرائیل تباہ و برباد ہوجائے گا۔ مگر عرب یہ نہیں کرتے اور الٹا اخلاقی پستی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں تو یہ طے ہے کہ ذلت و رسوائی کی یہ تاریک رات ختم نہیں ہونے کی۔
آج امت مسلمہ کے لیے درست راستہ یہ ہے کہ بین المسلمین ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت کی تلقین کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی عجمی مسلمانوں کا گروہ جب اسلام کا علمبردار بن کر دنیا میں کھڑا ہوجاتا ہے تو اس پر بھی اسی قانون کا اطلاق ہوجاتا جو حضرت ابراہیم کی اولاد کے لیے ہے اور ہم قومِ پاکستان پر یہی قانون لاگو ہوتا ہے۔ یعنی ہم قومی اور دستوری سطح پر اسلام کے علمبردار ہیں۔ ہمیں خود کو بدلنا ہوگا ورنہ عربوں کے ساتھ ہماری رسوائی کے دن بھی ایسے ہی جاری رہیں گے۔
This write up has been
compiled with the help of material available freely on web net from various sources.
بینگ باکس نے اپنے قارئین کے لیے ترتیب دیا ہے تاکہ اسرائیل فلسطین جنگ میں پھیلائے ہوئے مذموم پرپیگینڈا اور دیگر ہونے والی کاروائی سے آگاہ کرسکیں اور وہ ان معاملات سے باخبر رہیں اورانکی دلچسپی قائم رہے۔