محبت کا موسم
ہم جانتے ہیں کہ محبت کرنا؛ چاہا جانا، پسند کرنا اور پھر اس کا اظہار کرنا، انسانوں کی جبلت ہے اور شاید ایک پیچیدہ نفسیاتی اور رومانوی عمل بھی ہے۔ محبت کرنا‘ محبت کا اظہار کرنا اور پھر اسے نبھانا ایک ایسا فن جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں۔ کیا محبت کی کامیابی کی کہانی بھی ہوسکتی ہے؟ اس تحریر کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے۔
2024-08-28 19:45:55 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
محبت کا موسم
محبت کا کوئی خاص موسم نہی ہوتا؛ یہ کبھی بھی، کہیں بھی اور کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ مگر اس موسم میں اکثر بادل گرجتے زیاد ہیں؛ برستے کم ہی ہیں۔ اور کبھی برس جائیں تو وہ سیلاب اور طوفان اٹھتے ہیں کہ جناب اے حمید نے لکھ دیا کہ " زندگی صرف محبت کی خوشبو ہی نہیں، زہریلے کانٹوں کا جنگل بھی ہے"۔ یعنی محبت اگر برس جائے تو کانٹے جنگل بن کر اگتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے زیادہ تر محبت کی داستان میں آنسو اور غم زیادہ ہیں۔
ذیل میں محبت کے موسم سے متعلق چند ایک شعری نمونے پیش کیا جاتے ہیں۔
شائستہ مفتی کی نظم "منجمد تمنائیں"۔
خواب دیکھتی آنکھیں
خواب تیری چاہت کے
ان کو کیسے سمجھاؤں؟
ہر نفس گلابوں کی پھیلتی سی خوشبوکو
کس طرح چھپا پاؤں؟
خواب دیکھتی آنکھیں
تم کو ڈھونڈتی آنکھیں
ایک تیری خوشبو میں ـ جاگتی سی،سوئی سی
منجمد تمنائیں ـ ـ
عکس بن کے پانی پر کھیل کھیلتی ہیں جب
قلب و جاں میں ٹھنڈک کے لہریئے سے بنتے ہیں
منجمد تمنائیں درد بن کے سینے میں ساز بن کے بجتی ہیں
کس قدر ہراساں ہیں
سرد سرد موسم میں
خواب دیکھتی آنکھیں
تم کو ڈھونڈتی آنکھیں
نوشی گیلانی کی نظم "محبت یاد رکھتی ہے"۔
محبت یاد رکھتی ہے
وصال و ہجر میں
یا خواب سے محروم آنکھوں میں
کِسی عہدِ رفاقت میں
کہ تنہائی کے جنگل میں
خیال خال و خد کی
روشنی کے گہر ے بادل میں
چمکتی دھُوپ میں
یا پھرکِسی بے اَبر سائے میں
کہیں بارش میں بھیگے
جسم و جاں کے نثر پاروں میں
کہیں ھونٹوں پہ شعروں کی
مہکتی آبشاروں میں
چراغوں کی سجی شاموں میں
یا بے نُور راتوں میں
سحر ہو رُو نما جیسے
کہیں باتوں ہی باتوں میں
کوئی لپٹا ہوا ہو جس طرح
صندل کی خوشبو میں
کہیں پر تتلیوں کے رنگ
تصویریں بناتے ہُوں
کہیں جگنوؤں کی مٹھیوں میں
روشنی خُود کو چھُپاتی ہو
کہیں کیسا ہی منظر ہو
کہیں کیسا ہی موسم ہو
ترے سارے حوالوں کو
تری ساری مثالوں کو
محّبت یاد رکھتی ہے
امجد اسلام امجد کی نظم " محبت ایسا نغمہ ہے"۔
محبت ایسا نغمہ ہے
ذرا بھی جھول ہو لَے میں
تو سُر قائم نہیں ہوتا
محبت ایسا شعلہ ہے
ہوا جیسی بھی چلتی ہو
کبھی مدھم نہیں ہوتا
محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا
محبت ایسا پودا ہے
جو تب بھی سبز رہتا ہے
کہ جب موسم نہیں ہوتا
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا !
"مجھے تم سے محبت ہے" کہنا تو شاید آسان ہے نبھانا بڑا مشکل ہے۔ راجہ مہدی علی خاں کا لکھا فلمی گت ہے " اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو
اگر مجھ سے محبت ہے مجھے سب اپنے غم دے دو
ان آنکھوں کا ہر اک آنسو مجھے میری قسم دے دو
تمہارے غم کو اپنا غم بنا لوں تو قرار آئے
تمہارا درد سینے میں چھپا لوں تو قرار آئے
وہ ہر شے جو تمہیں دکھ دے مجھے میرے صنم دے دو
اگر مجھ سے محبت ہے
شریک زندگی کو کیوں شریک غم نہیں کرتے
دکھوں کو بانٹ کر کیوں ان دکھوں کو کم نہیں کرتے
تڑپ اس دل کی تھوڑی سی مجھے میرے صنم دے دو
اگر مجھ سے محبت ہے
ان آنکھوں میں نہ اب مجھ کو کبھی آنسو نظر آئے
صدا ہنستی رہیں آنکھیں سدا یہ ہونٹ مسکائیں
مجھے اپنی سبھی آہیں سبھی درد و الم دے دو
اگر مجھ سے محبت ہے
کنول ایم۔اے نے ایک کلام " بھگوان کرشنؔ کی تصویر دیکھ کر" لکھا ہے؛ محبت کا ایک موسم اس میں بھی جھلکتا ہے۔
مجھے تیرے تصور سے خوشی محسوس ہوتی ہے
دل مردہ میں بھی کچھ زندگی محسوس ہوتی ہے
یہ تاروں کی چمک میں ہے نہ پھولوں ہی کی خوشبو میں
تری تصویر میں جو دل کشی محسوس ہوتی ہے
تجھے میں آج تک مصروف درس و وعظ پاتا ہوں
تری ہستی مکمل آگہی محسوس ہوتی ہے
یہ کیا ممکن نہیں تو آ کے خود اب اس کا درماں کر
فضائے دہر میں کچھ برہمی محسوس ہوتی ہے
اجالا سا اجالا ہے تری شمع ہدایت کا
شب تیرہ میں بھی اک روشنی محسوس ہوتی ہے
میں آؤں بھی تو کیا منہ لے کے آؤں سامنے تیرے
خود اپنے آپ سے شرمندگی محسوس ہوتی ہے
تخیل میں ترے نزدیک جب میں خود کو پاتا ہوں
مجھے اس وقت اک طرفہ خوشی محسوس ہوتی ہے
تو ہی جانے کہاں لے آئی مجھ کو آرزو تیری
یہ منزل اب سراپا بے خودی محسوس ہوتی ہے
کنولؔ جس وقت کھو جاتا ہوں میں اس کے تصور میں
مجھے تو زندگی ہی زندگی محسوس ہوتی ہے
محترمہ فیروزہ یاسمین صاحبہ کی نظم " مجھے محبت ہے" میں شاید سدا بہار موسمِ محبت کا نسخہ بیان کر دیا گیا ہے۔
مجھے محبت ہے
مجھے محبت ہے حسین چہروں سے
حسیں پھولوں سے
لہلہاتے سبزہ زاروں سے
گنگناتے آبشاروں سے
مجھے محبت ہے
اپنوں سے پیاروں سے
غم سے غمگساروں سے
انساں سے انساں کے پرستاروں سے
محبت کو الزام نہ دو
ہوس کا نام نہ دو
محبت اک جذبہ ہے محبت کا
مجھے محبت ہے
زمیں سے آسماں سے
چاند تاروں سے
دنیا سے دنیا کے خالق سے