Naat is a Poetic expression of love and respect in the honour of Hazrat Muhammad (PBUH). The art of saying Naat was established during the life of Holy Prophet (PBUH). This article takes a cursory look into the Poetic Expressions from Sufis of Islam in Pakistan over a period of time and selected verses
صوفیائے اسلام کی نعت گوئی
نبی ٔ کریم ﷺ کی مدحت اور توصیف میں شاعرانہ تنظیم نعت کہلاتی ہے۔ اس میں شاعر نبی ٔ آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں سرشار اپنی محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کرتا ہے۔ نعت گو جس قدر نبی ٔ کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے آگاہی اور عمل کی سعادت رکھتا ہو، اُس کے کلام میں اُتنی ہی عقیدت اور محبت جھلکتی ہے۔
سرزمینِ ہندوستان مں اسلام کی ترویج اور اشاعت میں صوفیاء عظام اور شیخانِ اسلام کا بہت واضع کردار رہا ہے۔ کہنے کو تو حکمران مسلمان تھے مگر ایک تو مسلمان اقلیت میں تھے؛ دوسرے، حکمران شریعتِ اسلام کے پابند بھی نہی تھے۔ مگر صوفیاء اور شیخانِ اسلام نے اپنی محنتِ شاقہ اور خانقاہی نظام سے علم اور تربیت کا دیا روشن کئے رکھا اور ان کے طفیل اسلام پھیلا اور مقامی آبادی نے اسلام کو دل سے قبول کیا۔ صوفیاء عاملین فن تھے؛ عشاقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
صوفیاء اپنے سلف کی طرح نعت گوئی کو عشق و عقیدت اور خلوص و وفا کا لازم و ملزوم جانتے تھے۔ ان کی پوری زندگی عشقِ شہِ بطحا ﷺ سے عبارت ہے ۔ عشقِ خدا و عشقِ رسول ﷺ ان کا سرمایۂ حیات اور سرنامۂ زیست رہا۔ ذکرِ مدینہ اور عشقِ شہنشاہِ مدینہ ﷺ ان کا وظیفۂ حیات تھا ۔ صوفیاء کی نعتیہ شاعری کا مبتدا و منتہا جذبۂ عشقِ رسول ﷺ تھا؛ جس کی بھینی بھینی اور سوندھی خوشبوؤں سے ان کا نعتیہ کلام
معطر رہا۔ جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے لبریز انکے اشعار بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں :
دل عشقِ محمد سے ہے روشن مرا اکبر
پہنچا ہے مجھے فیض اویسِ قرنی کا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت و سیرت کا بیان نعت گوئی کا سب سے نمایاں اور مرغوب مضمون ہے ، جس پر سبھی شعرا نے عشق و عقیدت میں ڈوب کر قلم آزمائی کی ہے اور اس وجہ سے حسین شعری پیکر تراشے گئے ہیں۔ پوری مسلم تاریخ میں صوفیاء شعراء نے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات ، آپ کی حسین صورت و سیرت اور مبارک سراپا کا نقشہ مختلف انداز سے کھینچا ہے ، جس میں روایتِ سخن کے ساتھ درایتِ فن کی آمیزش نے اس زبان کو قابلِ فخر بنایا ہے۔ سچے عاشقِ رسول، نعت گو اور تصوف آشنا مردانِ قلندر نے اپنے مرکزِ عقیدت حضورﷺ کی کیا خوب عکاسی کی ہے کہ انکے اشعار ہمیشہ زندہ رہیں گے
فرض ہے ہم پر عشق نبی کا ، شغل ہے یہ ہر ایک ولی کا
آپ کی الفت عین عبادت صلی اللہ علیہ والہ وسلم
حضرت خواجہ عثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ المعروف لعل شہباز قلندر
ساتویں صدی ہجری کو درویشوں کا ایک قافلہ سہون شریف ضلع دادو باب الاسلام سندھ کے ایک علاقے میں پہنچا۔ اس کے سالار حضرت خواجہ عثمان مروندی رحمہ اللہ علیہ المعروف لعل شہباز قلندر تھے۔ ان دنوں یہ علاقہ برائىوں اور بدکارىوں کى آماجگاہ تھا۔ ان دنوں اس علاقے میں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی؛ سو کفر و شرک اور فحاشی وبدکاری عام تھی۔ اور خود مسلمانوں میں دینی معلومات کی کمی کے باعث لوگوں کی زندگى مىں بے راہ روى اور معاشرتى برائىوں کا شکار تھے۔
اُس ظُلمت کدے مىں حضرت خواجہ عثمان مروندی رحمۃ اللہ علیہ (قلندر لعل شہباز) نے اسلام کى شمع روشن کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آمد سے بابُ الاسلام سندھ میں اسلام کى روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لوگ آپ کی پُرتاثیر دعوت پر جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکامات اور سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی میٹھی میٹھی سنتوں کی روشنی میں زندگی بسرکرنے لگے ۔
ذیل میں آپ سے موسوم ایک نعت پیش ہے جو فارسی زبان میں ہے۔ [ابھی اردو زبان کی ابتداء نہی ہوئی تھی]۔
نمی دانم کہ آخر چوں دم ِ دیدارمی رقصم
مگر نازم بہ ایں ذوق کہ پیش یارمی رقصم
تو آں قاتل کہ ازبہرِ تماشا خون من ریزی
من آں بسمل کہ زیر خنجر خونخوار می رقصم
بیا جاناں تماشا کن کہ در انبوہِ جانبازاں
بصد سامان رسوائی سر بازار می رقصم
خوشا رندی کے پاماش کنم صد پارسائی را
زہے تقویٰ کہ من بہ جبہ و دستار می رقصم
منم عثمان مروندی کہ یارِ شیخ منصورم
ملامت می کند خلق و من برادرم رقصم
پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ
حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑویؒ کا شمار ان نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جو احیائے اسلام اور تجدید دین کے باعث محی الدین تھے۔ آپ علم و عرفان اور شریعت و طریقت، دونوں میں جامع تھے۔ قدرت نے انھیں تحفظ ختم نبوت اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے لیے بطور خاص چنا تھا۔ تحفظ ختم نبوت کے لیے پیر صاحب کی رجز خوانی تیرہ سو سال کے اولیا و مشائخ کی روحانی قوتوں کا فیضان تھا اور نہ جانے کون کون سی ہستیاں آپ کی پشت پناہ تھیں۔ بزرگانِ دین نے مکاشفات کیا کمال کے تھے کہ بندہ سنے تو دانتوں تلے انگلیاں داب لے۔ ذیل میں حضرت پیر مہر علی کا کلام پیش خدمت ہے
اج سِک متراں دی ودھیری اے
کیوں دلڑی اُداس گھنیری اے
لُوں لُوں وِچّ شوق چنگیری اے
اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں
الطَّیفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہ
وَاشَّدْ وُبَدیٰ مِنْ وَّقرتِہ
فَسکَرْتُ ھُنَامِنْ نَظْرَتِہ
نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں
مُکھ چند بدر شعشانی اے
مَتھّے چمکے لاٹ نُورانی اے
کالی زُلف تے اَکھّ مستانی اے
محّموُر اکھّیں ہن مَدھ بھریاں
دو اَبرُو قوس مثال دِسّن
جیں تُوں نوکِ مثرہ دے تیر چھُٹن
لباس سُرخ آکھاں کہ لعلِ یمن
چِٹّے دند موتی دیاں ہِن لڑیاں
اس صورت نوں میں جان آکھاں
جاناں کی جانِ جہان آکھاں
سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں
ج
س شان تھیں شاناں سب بنیاں
ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں
بے صورت ظاہر صورت تھیں
بے رنگ دِسّے اس مورت تھیں
وِچ وحدت پُھٹیاں جد گھڑیاں
دَسّے صورت راہ بے صورت دا
توبہ راہ کی عین حقیقت دا
پر کمّ نہیں بے سُو جھت دا
کوئی ورلیاں موتی لے تریاں
ایہا صورت شالا پیش نظر
رہے وقت نزع تے روزِ حشر
وِچّ قبر تھے پُل تھیں جد ہوسی گُزر
سب کھوٹیاں تھیسن تد کھریاں
یُعْطِیْکَ رَبُّکَ داس تُساں
فَتَرْضیٰ تھیں پوری آس اساں
لج پال کریسی پاس اساں
وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ صحیح پڑھیاں
لاہو مُکھ توں مخّطط بردِ یمن
من بھانوری جھلک دکھائو سجن
اوہا مِٹھیاں گالیں الائو سجن
جو حمرا وادی سَن کریاں
حُجرے توں مسجد آئو ڈھولن
نُوری جھات دے کارن سارے سِکن
دو جگ اکھیاں راہ دا فرش کرن
سب اِنس و ملک حُوراں پَریاں
اِنہاں سِکدیاں تے کُر لاندیاں تے
لکھ واری صدقے جاندیاں تے
اِنہاں بَردیاں مُفت و کاندیاں تے
شالا آون وت بھی اوہ گھڑیاں
سُبْحَانَ اللہ مَا اَجْمَلَکَ
مَا اَحْسَنَّکَ مَا اکْمَلَکَ
کِتّھے مہر علی کِتّھے تیری ثنا
گُستاخ اکھّیں کِتّھے جا اڑیاں
آج دل بہت زیادہ اداس ، جسم کے ہرہر لوں (بال بال )میں شوق کی بہار اور آنکھوں سے آنسو کیوں رواں ہیں؟اس لئے کہ محبوب کی یاد نے آستایا ہے۔
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اس قدر صاحبِ حُسن وجمال اور صاحبِ کمال ہیں کہ مجھ جیسے حقیر سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی ثناء ممکن ہی نہیں بلکہ اس سے میری کوئی مناسبت نہیں، کہاں میں اورکہاں آپ کی ذات اقدس؟ زیارت و دیدار کا شرف فقط آپ کی کرم نوازی ہے ورنہ میری آنکھیں اس لائق کہاں، ان سے بھی لگنے اور تکنے کی جسارت ہوگئی ہے۔
ایک اور کلام بھی درج کیا جاتا ہے
رحمت دا خزینہ اے
لوکاں دِیاں لکھ ٹھاراں ،ساڈی ٹھار مدینہ اے
محبوب دا میلہ اے
محفل نوں سجائی رکھنا ں، او دے آون دا ویلہ اے
دَسّاں گَل کی خزینے دی
ساری دنیا کھاندی اے خیرات مدینے دی
اج ساڈی وی عید ہووے
اگے اگے کملی والا پِچّھے بابا فرید ہو وے
زُلفاں چھلّے او چھلّے
سارا جگ سوہنڑاں اے، ساڈے مدنی توں تھلّے او تھلّے
کوئی مِثل نیئوں ڈھولٹ دی
چُپ کر مِؔہر علی ایتھے جانیئوں بولٹ دی
پیر سید نصیر الدین نصیر رحمۃ اللہ علیہ
پیر نصیر الدین نصیر چشتی قادری گولڑوی ایک شاعر، ادیب، محقق، خطیب، عالم اور صوفی باصفا و پیر سلسلہ چشتيہ تھے۔ آپ اردو، فارسی اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔ اس کے علاوہ عربی، ہندی، انگریزی اور سرائیکی زبانوں میں بھی شعر کہے۔ اسی وجہ سے انہیں"شاعر ہفت زبان" کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے اور آپ کو سلطان الشعراء بھی کہا جاتا ہے۔ آپ پیر غلام معین الدین (المعروف بڑے لالہ جی) کے فرزند اور پير مہر علی شاہ کے پڑپوتے تھے۔ آپ گولڑہ شریف درگاہ کے سجادہ نشین تھے۔ ذیل میں انکا کلام پیش کیا جاتا ہے
چاند تارے ہی کیا دیکھتے رہ گئے
ان کو ارض و سماء دیکھتے رہ گئے
ہم درِ مصطفیٰ دیکھتے رہ گئے
نور ہی نور تھا دیکھتے رہ گئے
جب سواری چلی جبرئیل امیں
صورتِ نقشِ پا دیکھتے رہ گئے
وہ گئے عرش پر اور روح الامیں
سدرۃ المنتہی دیکھتے رہ گئے
نیک و بد پہ ہوا ان کا یکساں کرم
لوگ اچھا برا دیکھتے رہ گئے
وہ امامت کی شب وہ صفِ انبیا
مقتدی مقتدا دیکھتے رہ گئے
پڑھ کے روح الامیں سورہ ء والضحی
چہرہ ء مصطفیٰ دیکھتے رہ گئے
ہم گنہگار تھے مغفرت ہو گئی
خود نِگر پارسا دیکھتے رہ گئے
میں نصیر آج لایا وہ نعتِ نبی
نعت گو منہ میرا دیکھتے رہ گئے
آئیے اپنی زندگی کو نعتِ رسول ﷺ سے مزین کریں کہ اس سے بہتر کوئی ورد نہی؛ کوئی ذکر نہی۔ اوپر کی حدیث کے مطابق کیا خبر آقا کریم محمدﷺ ہماری ضمن میں ایسے ہی جذبات کا اعادہ کردیں۔ ہم تو غلام ابنِ غلام ہیں اور ہر عاشقِ رسول ﷺ کا اعجاز یہی ہے کہ آقا کریم ﷺ ہمیں اپنا کہہ دیں
اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹
اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹
آخر میں دو اصحاب کا کلام پیش ہے جسے خوبصورتی سے گنگنایا گیا ہے