شب برأت: عبادات و مناجات کی رات
Islam is the youngest religion of Abrahamic Faith. It emanated with the 1st revelation of Quran upon the last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). It happened on the “Night of Qadar”, an esteemed night better than 1000 nights as per Quran. Similarly, in Islamic Faith, the “Night of Bar-aat” is also an important event. This writ up in Urdu is about the significance of the same night “شب برأت “.
2024-02-25 11:36:07 - Muhammad Asif Raza
﷽
شب برأت عبادات و مناجات کی رات
شعبان کی پندرہ کی رات شب برأت کہلاتی ہے؛ لفظ شب فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں رات اور برأت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی آزادی کے ہیں۔۔
اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو گناہوں سے بری اور پاک و صاف کرتا ہے، یعنی مغفرت چاہنے والوں کی بے انتہا مغفرت فرماتا ہے جیسا کہ بہت سی احادیث میں آیا ہے نیز اس رات میں سالانہ فیصلے کی تجدید فرماتا ہے جیسا کہ قرآن میں سورہٴ دخان میں موجود ہے:
فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍ(4)اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ(5)
ترجمہ: اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام ہمارے پاس کے حکم سے بےشک ہم بھیجنے والےہیں
اوپر کی آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں سال بھر میں ہونے والا ہر حکمت والا کام جیسے رزق،زندگی،موت اور دیگر احکام ان فرشتوں کے درمیان بانٹ دئیے جاتے ہیں جو انہیں سرا نجام دیتے ہیں اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ،محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بھیجنے والے ہیں ۔
سورة السجدۃ میں اللہ سبحان تعالی نے فرمایا ہے کہ تدبیر ِکائنات کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی منصوبہ بندی ایک ہزار سال کی ہوتی ہے : { یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٓٗ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔ ”وہ تدبیر کرتا ہے اپنے امر کی آسمان سے زمین کی طرف ‘ پھر وہ امر چڑھتا ہے اس کی طرف ‘ یہ سارا معاملہ طے پاتا ہے ایک دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس ہے“۔
البتہ انسانی معاملات کے حوالے سے یہ رات لیلہ مبارکہ گویا اللہ تعالیٰ کی کائناتی سلطنت "کوسمک ایمپائر" کے سالانہ بجٹ سیشن کا درجہ رکھتی ہے۔ لفظ فرق کے لغوی معنی علیحدہ کردینے کے ہیں۔ چناچہ یُفْرَقُ کا درست مفہوم یہ ہوگا کہ فیصلے جاری کردیے جاتے ہیں۔ یعنی یہ وہ رات ہے جس میں تمام سال کے فیصلے طے کر کے تعمیل و تنفیذ کے لیے ملائکہ کے حوالے کردیے جاتے ہیں جو اس عظیم سلطنت کی ”سول سروس“ کا درجہ رکھتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ” شعبان کی پندرہویں شب کومیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی آرام گاہ پرموجود نہ پایا توتلاش میں نکلی دیکھا کہ آپ جنت البقیع کے قبرستان میں ہیں، پھرمجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ، اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پرنزول فرماتاہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتاہے۔“ ایک دوسری حدیث میں ہے”اس رات میں اس سال پیدا ہونے والے ہربچے کا نام لکھ دیا جاتا ہے ،اس رات میں اس سال مرنے والے ہرآدمی کا نام لکھ لیاجاتا ہے، اس رات میں تمہارے اعمال اٹھائے جاتے ہیں،اورتمہارارزق اتاراجاتاہے"۔
( مشکوۃ المصابیح، کتاب الصلاۃ، باب قیام شہر رمضان ، الفصل الثالث، ۱ / ۲۵۴، الحدیث: ۱۳۰۵)
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں’’لوگوں کے اُمور کا فیصلہ نصف شعبان کی رات کر دیا جاتا ہے اور شبِ قدر میں یہ فیصلہ ان فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے جو ان اُمور کو سرانجام دیں گے ۔‘‘
رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور ہر مسلمان کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک یا جھگڑالو کے۔‘‘
(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في ليلة النصف من شعبان، 1/ 443، ط: دار احياء الكتب)
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نصف شعبان کی رات ہو تو اس رات میں بیدار ہو کر روزہ رکھو“۔ اس کے دن میں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس وقت غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اور فرماتا ہے: جو مجھ سے بخشش طلب کرے، میں اسے بخش دوں، کیا کوئی رزق طلب کرنے والا ہے؟ تو اسے عافیت عطا فرما، سوائے فلاں کے، یہاں تک کہ طلوع فجر ہو جائے۔"
(سنن ابن ماجه،ج:1، ص:444، ط:دار إحياء الكتب العربية)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نبی اکرم ﷺسے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نزول ِاجلال فرماتا ہے اور اس رات ہربندۂ مومن کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض و کینہ ہو۔(شعب الایمان،للبیہقی)
ش
ب
ِ
برأت کو اللہ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا:
ا
س شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔
’’ اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف سو ( 100) فرشتے بھیجتا ہے۔ ( جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں‘‘۔
ع
لامہ ابن الحاج مالکی ؒ فرماتے ہیں کہ اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور یہ بڑی خیر والی رات ہے،ہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے۔ (المدخل لابن الحاج)
علامہ کفیؒ فرماتے ہیں کہ شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بے شک یہ رات، شب برأ ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں۔(العرف الشذی)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس رات بیداررہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے