شاہ است حسین و بادشاہ است حسین; دین است حسین و دین پناہ است حسین

The tragedy of Karbala is about Hazrat Imam Hussain (RA) and the unforgettable sacrifices rendered by the clan of Prophet Muhammad (PBUH) in the month of Muharram Ul Haram in 62 AH. This essay reflects that how Karbala and Hazrat Imam Hussain (RA) rejuvenated religion Islam?

2023-07-29 07:00:00 - Muhammad Asif Raza

شاہ است حسین و بادشاہ است حسین

دین است حسین و دین پناہ است حسین

اللہ سبحان تعالی اس کئنات کا خالق اور مالک ہے۔ اس نے جب چاہا، جیسا چاہا، اس کو بناییا۔ اس کو سجایا، مزین کیا، آباد کیا اور جب چاہے گا اس سب کو لپیٹ دے گا اور قیامت قائم کرے گا اور ایک نئی دنیا بسا لے گا۔ اس نے اپنی مخلوق پیدا کی اور انکو اپنی مرضی سے معاملات بخش دیے۔ انکو عبادت اور تسبیح کرنا سکھایا اور اپنے تخلیق سے آگاہ کیا۔ اس نےاپنی مخلوق کو انکے افعال و کردار اور انکے وسائل اور محدودات بھی بتائے۔ الغرض اس کی دنیا کیا ہے ہم کچھ نہی جانتے سوائے ان اشکال کو جو خود اس نے ہمیں دکھا دیں سمجھا دیں۔ اس نے بتایا ہے کہ یہ زمین محض کھیل تماشہ ہے، اصل زندگی آخرت کی ہے اور انسان اس زمین پر صرف اعمال کے امتحان کے واسطے ہے۔

آئیے قرآن کی رہنمائی لیتے ہیں


وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ- وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ- قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (البقرہ 30)

 اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں

 وہ کہنے لگے۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے

حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں 

اللہ نے کہا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے”.


اللہ سبحان تعالی نے اپنی ساری مخلوقات کے بعد آخر میں [شاید] آدم کو بنایا اور اس کو سب مخلوقات پر افضلیت عطا کی اور اسے زمین پر خلیفہ بنایا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس زمین پر کچھ کرنے اور اس کی شکل میں تغیرات لانے کا اختیار صرف اولادِ آدم کے پاس ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ساری کائنات میں صرف اللہ کا حکم چل رہا ہےاور سب کچھ کسی ان دیکھی قوت کے تابع ہیں اور وہ قوت اللہ تعالی کی سوا اور کون ہوسکتا ہے

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرہ 34)

“اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی سجدہ کرو، چنانچہ سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافرو ں میں شامل ہو گیا”

اللہ سبحان تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو اور انکو اولاد کو افضلیت عطا کی اور انکو زمین پرخلافت عطا کی تو کرنے کے کچھ کام بھی بتائے اور ہر نفس کو خود اس کی ذات پر گواہ بنا کر وعدے وعید بھی کروائے۔

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚ ۛ شَہِدۡنَا ۚ ۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ۔ (الأعراف 172)

“اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے ۔”


اب جیسا کہ علم ہے کہ اللہ تعالی نےحضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ ہی ایک عدو، ایک دشمن، ایک رقیب پیدا کردیا؛ "ابلیس، شیطانِ رجیم" کہا [ابلیس نے] اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی (الحجر 39)؛ جس نے اختیار مانگ لیا کہ آگے سے ، پیچھے سے، اوپر سے، نیچے سے؛ آدم کی اولاد کو گمراہ کرے گا اور اللہ کی راہ پر بیٹھے گا تاکہ بنی آدم اپنے اصل مقام جنت کا حقدار نا بن سکے۔) 

 

ابلیس نے واقعی اس دینا کو مزین کردیا اور بنی آدم بہک گئی؛ اپنے مقصد اور مطمع نظر کو فراموش کر بیٹھی؛ تو اللہ سبحان تعالی نے تواتر سے نبی، پیغمبر اور رسول بھیجے۔ اور ان کے ذریعے اپنا پیغام بھیجا جس کا صرف ایک مقصد تھا۔ اولاد آدم کو ہدات کا راستہ دکھانا اور غلط اور صحیح کی پہچان کرانا۔


اللہ تعالی نے تواتر سے بتایا کہ دینِ اسلام اصل مقصودِ حیات ہے؛ دنیا کی زندگی محض کھل تماشہ اور دھوکے کا سامان ہے۔ انسان کی دینا کی زندگی محض اللہ کی عبادت اور تسبیح کے لیے ہے اور ہر بنی آدم کو ہر دم، ہر گھڑی صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی میں گذارنی چاہیے۔ کائینات کی ہر شے پر اللہ کی حاکمیت ہے اور اس زمین پر اللہ تعالی نے انسان کو تصرف دے رکھا ہے کہ اللہ کی حاکمیت کو قائم کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ زمین پر کسی بھی وقت اولادِ آدم اللہ کی بندگی میں ہے یا پھر ابلیس کے راستے پر۔ انسان اللہ تعالی کی ودیعت کردہ اختیار کا غلط استعمال کرکے عذاب الہی کا مستحق بن جاتا ہے جو اس دنیا میں بھی نازل ہوتی اور کل روزِ قیامت رسوائی و ذلت کا باعث ہوگا۔


اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَیْكُمْ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَۚ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ( یٰس 60)

وَّ اَنِ اعْبُدُوْنِیْﳳ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ ( یٰس 61)

"اے اولادِ آدم کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ شیطان کو نہ پوجنا بےشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اور میری بندگی کرنا یہ سیدھی راہ ہے۔"

اللہ رب لعالمین نے قرآن میں بنی آدم کو انکے باپ کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے کچھ خاص کہا ہے۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کے پتلے کو خود ٹھیک بنایا اور پھر اپنی روح پھونکی اور سجدہ کروایا۔

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَآئِكَـةِ اِنِّـىْ خَالِقٌ بَشَـرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَـمَاٍ مَّسْنُـوْنٍ ( الحجر 28)

اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں ایک بشر کو پیدا کرنے والا ہوں بجتی ہوئی مٹی سے جو کہ سڑے ہوئے گارے کی ہوگی۔

فَاِذَا سَوَّيْتُهٝ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِىْ فَقَعُوْا لَـهٝ سَاجِدِيْنَ ( الحجر 29)

پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدہ میں گر پڑنا۔

ابلیس کا آدم کو سجدہ سے انکار اس کی خلافت سے انکار تھا سو راندہ درگاہ کردیا گیا.


ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ کیسے کیسے اللہ نے کتنے کتنے برگزیدہ نبی، پیغمبر اور رسول بھیجے۔ اور انکی قوم نے انکا انکار کیا تو اللہ ذو الجلال و الاکرام نے انکو نَسیاً مَّنسِیّاً کردیا۔ آج صرف انکے کھنڈرات ہیں اور عبرت پانے والوں کے لیے نشانیاں۔ مگر آج ۲۰۲۳ عیسوی؛۱۴۴۵ ہجری کا محرم ہے؛ اس دنیائے فانی میں لگ بھگ آٹھ ارب انسان بستے ہیں اور ان میں تقریبا" دو ارب مسلمان ہیں۔ کیا بنی آدم کا یہ گروہ اللہ آلرحمن آلرحیم کو اور اس کے حاکمیت کو مانتے ہیں؟ کیا انسانی تہذیب میں اللہ کی شان و صفات کی بات ہوتی ہے؛ کیا اس کا مظہرِ تخلیق دکھتا ہے۔ ہر طرف کیسی کیسی بہودہ ، فحش گوئی ہورہی ہے مگر وہ عشق جو خالق کو اپنی مخلوق، خاص طور پر بنی آدم سے ہے؛

یعنی مجھ سے آپ سے اور ہم سب سے ہے؛ اس کا کوئی مظہر، کوئی جھلک، ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں ہے۔


آج زمین پر جو تہذیب روا ہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی چھاپ بہت واضع ہے۔ آج دنیا کی متمدن اور وسیع اکثریت قومیں یا تو یہودی ہیں یا عیسائی یا پھر مسلمان۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ کے لقب سے جانےجاتے ہیں۔ انہوں نے اللہ سبحان تعالی سے عشق کی لافانی مثال قائم کی تو اللہ نے انکو انسانوں کا امام بنادیا۔ آج مسلمان کا ایمان ان پر درود و سلام کے بغیر مکمل نہی ہوتا۔ اللہ کریم نے انہیں دو بیٹوں حضرت اسماعیل و حضرت اسحق علیہ السلام سے نوازا۔ اور ان دونوں بیٹوں اور انکی آل کے ذریعے تہذیب، معاشرت، ریاست، فلاح و بہبود، کارہائے زندگی برائے اخروی لافانی حیات کے اسباق عطا کیے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی ایک اللہ کے عاشق کی کہانی ہے جو ہر نوع کی انفرادی قربانی دیتا ہے اپنے محبوب کے لیے جو وحدہ لاشریک لہ ہے اور ہم بنی آدم اس کی عیال ہیں۔ اللہ تعالی نے انسانی تاریخ میں عشق کا سب سے بڑا امتحان بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لیا جب انکو اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کرنے کا خواب دکھایا؛ اور وہ کر گزرے۔ آداب فرزندگی اور بشریت کے سجدے کا وہ لازوال واقعہ تھا۔

اللہ تعالی نے قرآن میں بنی آدم کو سمجھانے، تعلیم دینے کے واسطے بنی اسرائیل کی کہانی بہت تفصیل سے بتائی ہے۔ بنی اسرئیل حضرت یعقوب علیہ السلام جو حضرت ابراہیم کے پوتے ہیں کی اولاد ہیں۔ اور حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ ایک خاندان کا قصہ ہے۔ اللہ تعالی سکھا رہا ہے کہ اے بنی آدم تم کیسے معمولی معمولی چیزوں کے لیے کیا کیا جتن کرتے ہو مگر اللہ اپنی چاہت کو پورا کرکے چھوڑتا ہے۔ اس میں سبق یہ ہے کہ خاندان کتنا اہم ہے، بہت اہم ہے؛ اور ہمیں اپنے غم دکھ اور تکلیف جو باہم ابلیس کی کارستانی کے باعث ایک دوسرے کو پہنچاتے ہیں درگذر کرنے ہوے ہیں۔ تب ہی خاندان بنتے ہیں اور اللہ سبحان تعالی کو زمین پر انسانی زندگی کا اکٹھ پر امن و سلامتی والا پسند ہے؛ جو خاندان ہی بنا سکتے ہیں؛ آخر کار ہم سب بنی آدم ہیں۔ ایک باپ کی اولاد۔


آگے بڑھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کا خاندان ترقی پا کر بارہ قبائل میں بدل چکا ہے۔ اور فرعون مصر کی غلامی میں ہے۔ اللہ تعالی انکو کیسے کیسے معجزوں کے مظاہر دکھا کر فرعون کی غلامی سے آزاد کراتے ہیں۔ اور کیسے وہ قوم اللہ کی حاکمیت کےقائل نہی ہوتی؟ انسانی تاریخ میں کسی قوم کے لیے سیاست، ریاست اور عبادت کا شاید یہ پہلا سبق تھا؛ جس کو بنی اسرائیل سمجھ نا سکی؛ جب انہوں نے حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ کی خوشخبری کے باوجود ارضِ موعود کی خاطر لڑنے سے انکار کردیا۔

قَالُوْا يٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِيْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قَاعِدُوْنَ (المائدہ 24)

 اُنہوں نے پھر یہی کہا کہ "اے موسیٰؑ! ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں موجود ہیں بس تم اور تمہارا رب، دونوں جاؤ اور لڑو، ہم یہاں بیٹھے ہیں"۔

قَالَ رَبِّ اِنِّىْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِىْ وَاَخِىْ فَافْرُقْ بَيْنَـنَا وَبَيْنَ الْـقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ (المائدہ 24)

اس پر موسیٰؑ نے کہا "اے میرے رب، میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرا بھائی، پس تو ہمیں اِن نافرمان لوگوں سے الگ کر دے"

بنی اسرائیل ایک قوم تھی؛ ایک خاندان؛ سب ایک باپ کے بیٹے تھے۔ اللہ نے انکی آنکھوں کے سامنے اپنی عظمت و بڑائی؛ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کا مظاہر دکھائے مگر جب اللہ کے عشق کے بدل کا وقت آیا تو قوم یہود ڈر گئی اور حزب اللہ بننے سے بھاگ گئی۔ پھر اللہ نے انہیں چالیس سال تک ایک ہی خطہ زمین پر بھٹکنے کو چھوڑ دیا۔ اور اُس خواری میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی اور جوان ہوئی تو انہوں نے فرمائش کی کہ اللہ ان میں سے ایک کو بادشاہ مقرر کردے تاکہ وہ جاکر لڑیں اور حاصل کریں ارضِ موعود جو آج کا فلیسطین تھا۔ جس پر زایونسٹ نے اسرائیل بنا رکھا ہے۔ بالآخر قوم یہود کو اپنا وطن ملا اور اللہ تعالی نے انہیں حضرت داود و حضرت سلیمان علیہ السلام جیسا ذی شان پیغمبر اور حکمران عطا کیا۔ انکی وفات کے بعد قوم یہود نے بد اعتدالیاں کیں، باہم لڑے اور نااتفاقیوں کو نفرتوں اور دشمنیوں میں بدلا تو اللہ نے ان پر طاقتوروں کو مسلط کردیا۔


آگے بڑھتے ہیں؛ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد پھل پھول کر وادی بطحا میں قوم قریش بن کر ابھرتی ہے۔ اللہ نے انہیں بڑی شان عطا کی تھی۔ اپنا کعبہ وہاں بنوایا تھا اور اسے مرکزِ تجلیات بنایا تھا۔ مگر امتدادِ زمانہ کے تحت وہاں بھی بت پرستی نے قدم جما لیے تھے۔ جہالت اور گمراہی سے صرف ابلیس شیطان رجیم ہی خوش ہوسکتا تھا۔

اس مکدر ماحول میں اللہ سبحان تعالی نے اپنا محبوب مبعوث فرمایا۔ حضرت محمد بن عبدللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نےحضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ان پر قرآن کا نزول شروع کیا جو اگلے تئیس سال جاری رہا۔ ان میں تیرا سال مکہ میں اور دس سال مدینۃ الرسول میں؛ جو پہلے یثرب کہلاتا تھا۔ آقا کریم ﷺ کو اللہ نے مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا اور بنی نوع انسان کے تذکیہ اور تطہیر کا مشن دیا۔ آقا کریم ﷺ نے اپنا فرض ایسے ادا کیا کے تاریخ ورطہ حیرت میں ہے۔ آقا کریمﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے سارے عالم پر محض چند سالوں میں اپنا سِکّا بٹھا دیا۔


اس مکدر ماحول میں اللہ سبحان تعالی نے اپنا محبوب مبعوث فرمایا۔ حضرت محمد بن عبدللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نےحضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے ان پر قرآن کا نزول شروع کیا جو اگلے تئیس سال جاری رہا۔ ان میں تیرا سال مکہ میں اور دس سال مدینۃ الرسول میں؛ جو پہلے یثرب کہلاتا تھا۔ آقا کریم ﷺ کو اللہ نے مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا اور بنی نوع انسان کے تذکیہ اور تطہیر کا مشن دیا۔ آقا کریم ﷺ نے اپنا فرض ایسے ادا کیا کے تاریخ ورطہ حیرت میں ہے۔ آقا کریمﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم نے سارے عالم پر محض چند سالوں میں اپنا سِکّا  بٹھا دیا۔ وقت نے دیکھا کہ بنی آدم کی ایک ایسی بستی تھی جو اپنے رب سے راضی تھے اور اللہ سبحان تعالی بھی ان سے راضی تھے۔ اللہ نے پھر اعلان کر دیا کہ اس نے اپنے بندوں کے لیے دینِ اسلام کو مکمل کردیا۔ اللہ سبحان تعالی نے ۲۳ سال تک اپنے محبوب حضرت محمدﷺ کے ذریعے براہِ راست بنی آدم کو امر و نواہی سے آگاہ کردیا۔ زمین پر اللہ کی حاکمیت کے رموز و مقاصد؛ اس کے لازم و ملزوم اور اس کےحدود و قیود طے کروادیے۔۔



مگر شاید اللہ سبحان تعالی کوکچھ اور مقصود تھا۔ وہ ریاست، وہ تہذیب وہ معاشرت زیادہ دیر نہی رہی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو کہ اس نے ہر انسان کو، ہر نسل کو آزمائش سے گذارنا ہے۔ ابلیس نے اپنے کارندوں کو مہمیز کیا اور بل آخر خارجی قوتوں نے سر اٹھانا شروع کیا؛ اور آخری تینوں خلفائے راشد رضوان اللہ علیہم شہید کئے گئے۔ حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجہَہُ الْکریم کی شہادت سے اسلام غریب الوطن ہوگیا۔ اسلامی ریاست کو دفن کردیا گیا۔ اسلامی تہذیب میں ملاوٹیں ہونا شروع ہوگئیں۔ اصحابِ رسول کی اکثریت کے دنیا سے جاتے ہی تابعین میں سے نئے نئے فتنے اٹھنے شروع ہوگئے۔ عام مسلمانوں کے لیے حق اور باطل کی پہچان مشکل ہوگئی۔ ظلم تو یہ ہوا کہ اللہ اور رسول پاکﷺ نے جو راستہ دکھایا تھا اسے ہی دشمن سمجھ لیا۔ اور کربلا کردیا۔


شاید اللہ نے عشق و مستی؛ فقر و غنا، ایثارو قربانی کی لازوال تاریخ رقم کروانی تھی اور اس کے لیے اس نے خانوادہ رسولﷺ کو چنا تھا۔ اللہ تعالی ایک امتحانِ صبر اور استقامت خاندان رسولﷺ سے شعب ابی طالب میں لے چکا تھا۔ اور چونکہ رسول شہید نہی کئے جاسکتے تو اللہ نے یہ اعزاز نواسئہ رسول کے لیے مختص کردیا تھا۔

شاید اسے اسماعیل علیہ السلام کی ریت کو پکّا کرنا تھا ۔






غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل


کربلا میں کیا ہوا؟ کربلا، کلمہ طیبہ کی تفسیر ہے جسے خانوادہ رسول نے الم نشرح کیا۔ اللہ کا نام بلند ہوا اور نیزے پر سے پڑھا گیا۔ وہ عشق جو اللہ سے اس کے عبادالصالحین کو ہونا چاہیے۔ ایک حسین علیہ السلام تھے؛ سربراہِ خاندان جن کی تابعداری میں سب افراد، جو بیٹے تھے، سوتیلے بھائی تھی۔ بھتیجے تھے، بھانجے تھے، قرابت دار تھے؛ سب نے شہید ہونا پسند کیا مگر یزید بن معاویہ کے حکم پر، اس کے دیے ہوئے درہم و دینار کو مرغوب جاننے والوں کے آگے سر خم نا کیا۔ حضرت حسین علیہ السلام نے اللہ سے عشق کے مقام کو ایسا سر بلند کیا ہے کہ آج بھی ۱۴سو سال بھی ہر جانب یا حسین یا حسین کا ورد ہورہا ہے۔ اُس وقت کربلا میں اسلام اپنی تہذیب، اپنی روایات، اپنی حکایات اور اپنی تابندگی کو لیے حضرت حسین علیہ السلام کے جھنڈے کے تلے چمک رہا تھا۔ بھلا تلوروں سے کوئی ان اشیاء کو ختم کرسکتا ہے؟

صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشق

معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق


کربلا نے ثابت کردیا کہ اللہ کا عبد کون ہے اور نفس کا بندہ کون ہے؟ کون ہے جو اس دنیائے فانی کو تیج سکتا ہے اور کون ہے جو لذتِ دنیا کا حظ مقدم رکھتا ہے؟ لا الہ الا اللہ کہنا کتنا آسان ہے اور ثابت کرنا کیسا ہے یہ سکھایا ہے کربلا نے؟ مقامِ شبیر سمجھنے کے لیے آنکھوں پر سے دنیا کی محبت کی پٹی اتارنے پڑتی ہے اور پیٹ کی آگ کو معدوم کرنا پڑتا ہے۔ کربلا ہر دور کی مسلمان کو بس ایک پیغام دیتا ہے کہ جو شخص قوانین خداوندی کی اتباع کو مقصود زندگی قرار دے لے اور اسی طرح اپنا عہد و پیمان اللہ سے باندھ لے، اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اور محکومی کی زنجیر نہیں رہتی۔ اور اگر ایسا نہی ہے تو وہ جان لے وہ اللہ کا عبد نہی ہے۔

 حقیقت ابدی ہے مقام شبیری

بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی


کربلا نے حقیقی اسلام کو روشن از شمس کردیا اور اسلام کے نام و لبادے میں خوارج و یزیدی عناصر کو عیاں کردیا۔ حضرت حسین علیہ السلام نے کربلا میں واضع کردیا کہ اللہ کے سپاہ مالِ غنیمت اور حشمت و جاہ کی آس میں نہی ہوتے۔ کربلا میں امام عالی مقام کسی محل سے نکل کر نہی آئے تھے نا کسی قلعے میں حصار بند تھے۔ نہ زر و سیم کو بوریاں تھیں جن کا تحفظ ملحوظ تھا؛ کچھ تھا تو صرف نانا محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کا ورثہ تھا اور اللہ سبحان تعالی کی عبدیت تھی۔ انکے ساتھ اپنے بابا علی المرتضی کی شجاعت؛ حلم، بردباری، صبر تھا اور ماں حضرت فاطمۃ الزہرہ کے تربیت تھی۔ شب عاشور حضرت حسین علیہ السلام اور انکے ساتھی بھوکے تھے، پیاسے تھے؛ چاہتے تو علی اصغر کی ایڑیوں سے چشمہ نکل آتا۔ تلوار سونت لیتے تو فاتح خیبر کی قسم کشتے کے پشتے لگ جاتے؛ یزید کے لشکر کو دشت کے ذروں میں بدل ڈالتے مگر انہیں تو اللہ تعالی سے عشق اور اس کی راہ میں قربانی کی انتہا کرنی تھی۔ سو کردی۔ کربلا عشقِ حقیقی میں عبدیت کی انتہا ہے۔

ظلم یہ ہے کہ اسلام کی دنیا میں آج بھی یزیدیت نئے لبادے میں نکل پڑتی ہے حالانکہ امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام نے پہچان آسان کرادی ہے۔ اس وقت بھی یزیدیوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگا یا تھا جب امام کا سر کاٹا تھا اور آج بھی فاسق اورمنافق یہی طور اپنائے ہوئے ہیں

کربلا شناس و حکیم الامت علامہ اقبال نے سن اکسٹھ ہجری اور ہر دور کی یزیدیت کو بےنقاب کرتے ہوئے حضرت حسین علیہ السلام اور کربلا کی بابت انتہائی خوبصورت اور فصیح اظہار کیا اور دینِ اسلام میں اس کی اہمیت کو واضع کیا ہے:

عجب مذاق ہے اسلام کی تقدیر کے ساتھ

کٹا حسین (ع) کا سر نعرہ تکبیر کے ساتھ


آج کے مسائل کا حل یہ ہے کہ ہم کربلا کو صرف ایک سانحہ نا سمجھیں اور صرف آہ و زاری میں ہی مصروف نہ رہیں؛ بلکہ یہ جان لیں کہ کربلا اسلام کی روح میں تابندگی ہے، روشنی ہے، امید ہے اور آس ہے کہ اللہ اپنے عباد الخالصین کو آزماتا ہے اور مومن کبھی گھبرایا نہی کرتا؛ وہ یا تو کامیاب ہوتا ہے یہ پھر شہید؛ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی بغیر موت کے۔ ہمیں صرف عشق کی منزل کا سفر کرنا ہے۔ امام حسین (ع) اور کربلا کو سمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہیئے امام عالی مقام (ع) کا یہ کارنامہ عقل کی بنا پر ظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرما تھی؛ اگر عقلی دلائل پر واقعہ کربلا کی توضیح کریں تو ہمیشہ شک و تردید کا اظہار کریں گے۔ جو عشق کی نظر سے دیکھتے ہیں تو پھر وہ اس نتیجہ پر جاپہنچتے ہیں کہ "عشق کو کامل سکون اور اطمینان آزادی سے ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے"۔‘‘

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد


امت محمد ﷺ میں حضرت حسین علیہ السلام کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے، سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے، اسی طرح امام حضرت حسین علیہ السلام کو بھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ سبحان تعالی نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ اس میں حق و باطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے۔ اور روزِ قیامت تک جاری و ساری رہے گی۔ جب خلافت کا تعلق قرآن سے منقطع ہوگیا اور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکر و نظر باقی نہ رہی تو اس وقت حضرت حسین علیہ السلام اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پر برسا اور اسے لالہ زار بنادیا۔


آپ (ع) نے اپنے نانا کے دین پر چلنے والوں کے لیے قیامت تک اپنے خون سے ظلم و استبداد کے راستے بندکردیئے۔ کسی ظالم کے پاس کوئی بہانہ نہی رہا؛ کوئی دلیل نہی رہی؛ کوئی قانون نہی رہا۔ مومن کی تلوار ہمیشہ دین کے غلبہ و اقتدار کے لئے اٹھے گی، ذاتی مفاد کے لئے نہیں اس کا مقصد آئین اور قانون کی حفاظت ہوگا۔ مسلمان اللہ کے سوا کسی کا محکوم نہیں ہوتا اور نہ کسی کو محکوم کرتا ہے؛ اس طرح اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھکتا اور نہ ہی وہ کسی کا سر اپنے آگے جھکاتا ہے۔

آج شبِ عاشورۃ ہے؛ میرے امام، تمام ایمان والوں کے امام؛ انکو بھوکا پیاسا کیا گیا تھا؛ ان کو تنہا کیا گیا تھا؛ آج کے دن شہید کئے گئے تھے؛ مگر کیا امام کامیاب نہی ہوئے تھے؟ اے برادران اسلام؛ حوصلا کرو، صبر کرو اور قائم ہوجاو؛ کھڑے ہوجاو؛ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو؛ ہم ہی کامیاب ہوں گے اگر ہم مومن ہوئے۔



شاہ است حسین و بادشاہ است حسین

دین است حسین و دین پناہ است حسین

سر دادن و نداد دست در دست یزید

واللہ کہ بنا لا الہ است حسین

خواجہ غریب نواز

 تحریر : محمد آصف رضا


More Posts