Pioneer Book House "علی اکبر ناطق کی نظم " سفیر لیلیٰ

This is an Urdu Article about a Book House in Karachi which is almost a hundred years old. The article highlights the role of Citizen namely Muneeza Naqvi; who attempts to revive an ailing book house from oblivion. Mr Ali Akbar Natiq is the writer of this piece; his nazm is also being shared in the end.

2024-01-08 19:04:27 - Muhammad Asif Raza


PIONEER BOOK HOUSE


*یہ منیزہ نقوی ہیں،* 

امریکہ میں ہوتی ہیں ،کبھی کبھی پاکستان آتی ہیں ۔



 کراچی میں ایک کتاب گھر ہے ۔ نام اُس کا پائنیر بک ہاوس ہے۔ یہ سو سال پرانا ہے۔ مگر تباہ ہو چکا تھا ، کوئی یہاں سے کتاب نہیں خریدتا تھا ۔ کتاب گھر کا مالک مکمل طور پر بیزار ہو چکا تھا ، وہ اُسے بیچنے کے لیے تیار تھا اور کتابوں کو خدا حافظ کہنے والا تھا ۔ دوکان تین منزلہ تھی ۔ اور ایسی نایاب جگہ پر اورنایاب طرز میں تعمیر ہوئی تھی کہ اللہ اللہ اور سبحان اللہ ۔ مگر وہاں گاہکوں کی نایابی کے باعث دکان کچرے کباڑ کا ڈھیر ہو گئی تھی۔

 

ایسے میں کسی نے ڈان میں اُس کے متعلق ایک آرٹیکل لکھا کہ سو سال پرانی دکان بند ہونے جا رہی ہے ۔ وہ آرٹیکل امریکہ میں بیٹھی منیزہ نقوی نے پڑھا ، منیزہ امریکہ سے کراچی پہنچی ، دکان کی حالت دیکھی اور بے چین ہو گئی ۔ دکاندار نہایت مایوسی اور نامرادی کی حالت میں تنہا بیٹھا دل سے گریہ کر رہا تھا ۔

منیزہ نے اُس کو سلام بلایا ،جس کا اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ کچھ دیر وہاں بیٹھ کر وآپس چلی آئی ۔ اگلے دن پھر گئی ۔ دکان دار نے اُسے بیزاری سے دیکھا ۔ منیزہ نے کہا ، اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مَیں آپ کی دکان میں جھاڑو دے کر کچھ گرد صاف کر دوں ؟ وہ خاموش رہا ، منیزہ نے اُس کی خاموشی کو اجازت سمجھا اور دکان میں صفائی کرنے لگی ، دکان دار خموش اُسے دیکھتا رہا اور ایک بات زبان سے نہیں کی ۔ دکان بہت بڑی تھی ۔ منیزہ شام تک صفائی کرتی رہی ۔ دوسرے دن پھر چلی گئی ، تیسرے دن بھی گئی ۔


اِس طرح منیزہ نقوی نے دکان میں پندرہ دن تک جھاڑ پونجھ کر کے اُسے صاف کیا ۔

 اِس عرصے میں وہ دکان دار اُس سے کچھ کچھ بات کرنے لگا تھا ۔جب دکان صاف ہو گئی تو منیزہ نے ایک دن اُسے کہا ، اگر آپ کچھ دن صبر کریں اور اِس دکان کو بند نہ کریں تو ہم اِسے چلا کر دیکھتے ہیں ،اللہ کرے گا چل ہی جائے گی ۔ وہ اِس بات پر بھی خموش ہو گیا

،منیزہ نے اِس کو بھی اثبات جانا اور اُسے چلانے کے درپے ہوئیں ۔ کچھ نئی طرز کی چھوٹی کرسیاں خرید لائی ، دو چار نئی میزیں اور اسٹول خرید لائی ۔ ایک دو لیمپ لے آئی اور اِن سب چیزوں کو اُس نے اُوپر کی منزل میں رکھ دیا تاکہ لوگوں کو یہاں بیٹھ کر چائے پینے اور گپ شپ کرنے کو مناسب جگہ میسر ہو ۔ اُس کے بعد اپنے دوست احبا ب کو وہاں لے جا کر دکھانا شروع کر دیا ۔ اور اُنھیں تحریک دینے لگی کہ وہاں جائیں اور کتابیں خریدیں ۔


ایک دن مَیں کراچی میں تھا کہ منیزہ نے مجھے کہا ناطق ،تمھیں ایک دکان پر لے کر جانا ہے ،

 رستے میں اُس نے مجھے بہت کچھ باتیں بتائیں کہ کس طرح اُسے اِس دکان اور دکان والے کی کسمپرسی کا پتا چلا اور وہ کیسے یہاں پہنچی اور کس کس طرح اُس نے دکان بحال کرنے کی کوشش کی ۔ ہم دکان پر پہنچے ۔ مَیں نے دیکھا دکان نہایت کسمپرسی کا شکار تھی ، کوئی کتاب وہاں ڈھنگ کی نہیں تھی ۔ کوئی گاہک نہیں تھا ۔ منیزہ نے مجھے دکان کے تینوں پورشن دکھائے ، واللہ میں نے جانا اگر اِسے کارآمد کیا جائے تو کراچی والے شاعروں ادیبوں کے لیے اِس سے بہتر اجلاس کرنے کو کوئی جگہ نہیں تھی ۔ لیکن برباد ہو رہی تھی ۔


 دکان کو اچھی طرح سے دیکھ کر ہم نیچے آگئے اور دکان دار کے پاس کاونٹر پر بیٹھ گئے ۔ ہم بیٹھے ہی تھے کہ دو لوگ وہاں آئے ۔ یہ حیدر آباد سے کراچی آئے تھے ۔ اُنھوں نے کچھ ادبی کتابوں کا پوچھا ، اوروہاں پڑی ہوئی چند کتابوں میں سے تین چار کتابیں خرید لیں ۔ دو کتابیں میری بھی خریدیں جو منیزہ پہلے ہی آکسفورڈ فیسٹول کراچی کے کتابوں کے اسٹال سے خرید کر وہاں رکھ چکی تھی ۔ ایک کتاب مَیں نے خود خریدی ۔ اُس کے بعد وہ دونوں لوگ بھی وہاں بیٹھ گئے ۔

منیزہ نے مجھے کہا ناطق آپ اپنی ایک نظم سفیرِ لیلٰی سناو ۔ اتنے میں اُسی دکاندار کے چہرے پر رونق کے آثار نمودار ہوئے ۔ اُس نے ساتھ والی چائے کی دکان سے چائے کا آرڈر دیا ۔ 


مَیں نے نظم پڑھنا شروع کی ۔ تمام لوگوں پر ایک سحر طاری ہو گیا ۔ نظم سُننے اور چائے پینے کے بعد وہ دونوں لوگ وہاں سے چلے گئے ۔ دکان دار نے ہم سے خاطب کر کے کہا ، آج ایک مہینے بعد گاہک میری دکان پر آئے ہیں ۔ اللہ جانے اِس میں کیا حکمت ہے اور یہ جو کتابیں خرید کر لے گئے ہیں واللہ یہ پچھلے دس سال سے یہاں پڑی ہیں کسی نے اِنھیں ہاتھ تک نہیں لگایا ۔

 

خیر اُس کے بعد مَیں وہاں سے چلا آیا ۔مجھے اسلام آباد وآپس آنا تھا ۔ منیزہ نے اب یہ معمول بنا لیا کہ لوگوں کو پکڑکر وہاں لے جانے لگی اور دکان کی تشہیر شروع کر دی ۔ علاوہ اِس کے اپنے پلے سے دکان کی رینوویشن بھی شروع کی۔ مَیں نے لاہور آ کر ایک پبلشر سے کہا کہ وہاں میری کتابوں سمیت اپنی تمام کتابیں سیل ایںڈ ریٹرن پر بھیجے ، اُس نے میری بات پر عمل کیا ۔ اُدھر منیزہ نقوی نے بھی مخلتف پبلشروں سے کتابیں منگوانا شروع کیں ۔ 

یوں دکان کی ایک نئی صورت بنتی چلی گئی ۔ میری کئی کتابیں وہاں بکنا شروع ہو گئیں ۔ اور آج اُس دکان نے اللہ کے کرم سے اپنی معاشی حیثیت مستحکم کر لی ہے ۔ وہ دکان یہی ہے ، یہی وہ منیزہ نقوی ہے جسے کوئی لالچ نہیں سوائے اِس کے کہ ایک کتابوں کی دکان بند نہ ہو جائے۔اور یہی وہ دکاندار ہے جس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی تھی ۔ منیزہ نقوی اللہ ہی آپ کو اِس کا اجر دے گا ۔ نیچے دکان کی موجودہ حالت ہے 


میری کراچی والوں سے استدعا ہے وہ اِس دکان سے کتابیں خریدنا اپنا معمول بنائیں ۔اور اپنے ادبی اجلاس بھی یہیں کیا کریں-

علی اکبر ناطق

ایڈریس نیچے درج ہے:

PIONEER BOOK HOUSE , Ameejee Chambers Aram Bagh

OPP DOW MEDICAL COLLEGE 

M.A.JINNAH ROAD ,KARACHI.

75330 Karachi, Pakistan


ذیل میں قارئین کے لیے جناب علی اکبر ناطق صاحب کی نظم " سفیر لیلیٰ " پیش کی جاتی ہے


سفیر لیلی-۱

سفیر لیلیٰ یہی کھنڈر ہیں جہاں سے آغاز داستاں ہے 


ذرا سا بیٹھو تو میں سناؤں 


فصیل قریہ کے سرخ پتھر اور ان پہ اژدر نشان برجیں گواہ قریہ کی عظمتوں کی 


چہار جانب نخیل طوبیٰ اور اس میں بہتے فراواں چشمے 


بلند پیڑوں کے ٹھنڈے سائے تھے شاخ زیتوں اسی جگہ تھی 


یہی ستوں تھے جو دیکھتے ہو پڑے ہیں مردہ گدھوں کے مانند 


اٹھائے رکھتے تھے ان کے شانے عظیم قصروں کی سنگیں سقفیں 


یہی وہ در ہیں سفیر لیلیٰ کہ جن کے تختے اڑا لیے ہیں دنوں کی آوارہ صرصروں نے 


یہیں سے گزری تھیں سرخ اونٹوں کی وہ قطاریں 


کہ ان کی پشتیں صنوبروں کے سفید پالان لے کے چلتیں 


اٹھائے پھرتیں جوان پریوں کی محملوں کو 


یہ صحن قریہ ہے ان جگہوں پر گھنی کجھوروں کی سبز شاخیں 


فلک سے تازہ پھلوں کے خوشے چرا کے بھرتی تھیں پہلوؤں میں 


سفید پانی کے سو کنویں یوں بھرے ہوئے تھے 


کہ چوڑی مشکوں کو ہاتھ بھر کی ہی رسیاں تھیں 


مضاف قریہ میں سبزہ گاہیں اور ان میں چرتی تھیں فربہ بھیڑیں 


شمال قریہ میں نیل گائیں منار مسجد سے دیکھتے تھے 


پرے ہزاروں کبوتروں کے فصیل قریہ سے گنبدوں تک 


پروں کو زوروں سے پھڑپھڑاتے تھے اور صحنوں میں دوڑتے تھے 


یہیں تھا سب کچھ سفیر لیلیٰ 


اسی جگہ پر جہاں ببولوں کے خار پھرتے ہیں چوہیوں کی سواریوں پر 


جہاں پرندوں کو ہول آتے ہیں راکھ اڑتی ہے ہڈیوں کی 


یہی وہ وحشت سرا ہے جس میں دلوں کی آنکھیں لرز رہی ہیں 


سفیر لیلیٰ تم آج آئے ہو تو بتاؤں 


ترے مسافر یہاں سے نکلے افق کے پربت سے اس طرف کو 


وہ ایسے نکلے کہ پھر نہ آئے 


ہزار کہنہ دعائیں گرچہ بزرگ ہونٹوں سے اٹھ کے بام فلک پہ پہنچیں 


مگر نہ آئے 


اور اب یہاں پر نہ کوئی موسم نہ بادلوں کے شفیق سائے 


نہ سورجوں کی سفید دھوپیں 


فقط سزائیں ہیں اونگھ بھرتی کریہہ چہروں کی دیویاں ہیں 


سفیر لیلیٰ 


یہاں جو دن ہیں وہ دن نہیں ہیں 


یہاں کی راتیں ہیں بے ستارہ 


سحر میں کوئی نمی نہیں ہے




سفیرِ لیلیٰ-۲


نظر اٹھاؤ سفیر لیلیٰ برے تماشوں کا شہر دیکھو 


یہ میرا قریہ یہ وحشتوں کا امین قریہ 


تمہیں دکھاؤں 


یہ صحن مسجد تھا یاں پہ آیت فروش بیٹھے دعائیں خلقت کو بیچتے تھے 


یہاں عدالت تھی اور قاضی امان دیتے تھے رہزنوں کو 


اور اس جگہ پر وہ خانقاہیں تھیں آب و آتش کی منڈیاں تھیں 


جہاں پہ امرد پرست بیٹھے صفائے دل کی نمازیں پڑھ کر 


خیال دنیا سے جاں ہٹاتے 


سفیر لیلیٰ میں کیا بتاؤں کہ اب تو صدیاں گزر چکی ہیں 


مگر سنو اے غریب سایہ کہ تم شریفوں کے راز داں ہو 


یہی وہ دن تھے میں بھول جاؤں تو مجھ پہ لعنت 


یہی وہ دن تھے سفیر لیلیٰ ہماری بستی میں چھ طرف سے فریب اترے 


دروں سے آگے گھروں کے بیچوں پھر اس سے چولہوں کی ہانڈیوں میں 


جوان و پیر و زنان قریہ خوشی سے رقصاں 


تمام رقصاں 


ہجوم طفلاں تھا یا تماشے تھے بوزنوں کے 


کہ کوئی دیوار و در نہ چھوڑا 


وہ ان پہ چڑھ کر شریف چہروں کی گردنوں کو پھلانگتے تھے 


دراز قامت لحیم بونے 


رضائے باہم سے کولھووں میں جتے ہوئے تھے 


خراستے تھے وہ زرد غلہ تو اس کے پسنے سے خون بہتا تھا پتھروں سے 


مگر نہ آنکھیں کہ دیکھ پائیں نہ ان کی ناکیں کہ سونگھتے وہ 


فقط وہ بیلوں کی چکیاں تھیں سروں سے خالی 


فریب کھاتے تھے خون پیتے تھے اور نیندیں تھیں بجوؤں کی 


سفیر لیلیٰ یہ داستاں ہے اسی کھنڈر کی 


اسی کھنڈر کے تماش بینوں فریب خوردوں کی داستاں ہے 


مگر سنو اجنبی شناسا 


کبھی نہ کہنا کہ میں نے قرنوں کے فاصلوں کو نہیں سمیٹا 


فصیل قریہ کے سر پہ پھینکی گئی کمندیں نہیں اتاریں 


تمہیں دکھاؤں تباہ بستی کے ایک جانب بلند ٹیلہ 


بلند ٹیلے پہ بیٹھے بیٹھے ہونقوں سا 


کبھی تو روتا تھا اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر کبھی مسلسل میں اونگھتا تھا 


میں اونگھتا تھا کہ سانس لے لوں 


مگر وہ چولہوں پہ ہانڈیوں میں فریب پکتے 


سیاہ سانپوں کی ایسی کایا کلپ ہوئی تھی کہ میری آنکھوں پہ جم گئے تھے 


سو یاں پہ بیٹھا میں آنے والے دھوئیں کی تلخی بتا رہا تھا 


خبر کے آنسو بہا رہا تھا 


مگر میں تنہا سفیر لیلیٰ 


فقط خیالوں کی بادشاہی مری وراثت 


تمام قریے کا ایک شاعر تمام قریے کا اک لعیں تھا 


یہی سبب ہے سفیر لیلیٰ میں یاں سے نکلا تو کیسے گھٹنوں کے بل اٹھا تھا 


نصیب ہجرت کو دیکھتا تھا 


سفر کی سختی کو جانتا تھا 


یہ سبز قریوں سے صدیوں پیچھے کی منزلوں کا سفر تھا مجھ کو 


جو گرد صحرا میں لپٹے خاروں کی تیز نوکوں پہ جلد کرنا تھا اور 


وہ ایسا سفر نہیں تھا جہاں پہ سائے کا رزق ہوتا 


جہاں ہواؤں کا لمس ملتا 


فرشتے آواز الااماں میں مرے لیے ہی 


اجل کی رحمت کو مانگتے تھے 


یہی وہ لمحے تھے جب شفق کے طویل ٹیلوں پہ چلتے چلتے 


میں دل کے زخموں کو ساتھ لے کر 


سفر کے پربت سے پار اترا 



سفیرِ لیلیٰ-۳


سفیر لیلیٰ یہ کیا ہوا ہے 


شبوں کے چہرے بگڑ گئے ہیں 


دلوں کے دھاگے اکھڑ گئے ہیں 


شفیق آنسو نہیں بچے ہیں غموں کے لہجے بدل گئے ہیں 


تمہی بتاؤ کہ اس کھنڈر میں جہاں پہ مکڑی کی صنعتیں ہوں 


جہاں سمندر ہوں تیرگی کے 


سیاہ جالوں کے بادباں ہوں 


جہاں پیمبر خموش لیٹے ہوں باتیں کرتی ہوں مردہ روحیں 


سفیر لیلیٰ تمہی بتاؤ جہاں اکیلا ہو داستاں گو 


وہ داستاں گو جسے کہانی کے سب زمانوں پہ دسترس ہو 


شب رفاقت میں طول قصہ چراغ جلنے تلک سنائے 


جسے زبان ہنر کا سودا ہو زندگی کو سوال سمجھے 


وہی اکیلا ہو اور خموشی ہزار صدیوں کی سانس روکے 


وہ چپ لگی ہو کہ موت بام فلک پہ بیٹھی زمیں کے سائے سے کانپتی ہو 


سفیر لیلیٰ تمہی بتاؤ وہ ایسے دوزخ سے کیسے نپٹے 


دیار لیلیٰ سے آئے نامے کی نو عبارت کو کیسے پڑھ لے 


پرانے لفظوں کے استعاروں میں گم محبت کو کیونکے سمجھے 


سفیر لیلیٰ ابھی ملامت کا وقت آئے گا دیکھ لینا 


اگر مصر ہو تو آؤ دیکھو 


یہاں پہ بیٹھو یہ نامے رکھ دو 


یہیں پہ رکھ دو انہی سلوں پر 


کہ اس جگہ پر ہماری قربت کے دن ملے تھے 


وہ دن یہیں پر جدا ہوئے تھے انہی سلوں پر 


اور اب ذرا تم نظر اٹھاؤ مجھے بتاؤ تمہارا ناقہ کہاں گیا ہے 


بلند ٹخنوں سے زرد ریتی پہ چلنے والا صبیح ناقہ 


وہ سرخ ناقہ سوار ہو کر تم آئے جس پر بری سرا میں 


وہی، کہ جس کی مہار باندھی تھی تم نے بوسیدہ استخواں سے 


وہ اسپ تازی کے استخواں تھے 


مجھے بتاؤ سفیر لیلیٰ کدھر گیا وہ 


ادھر تو دیکھو وہ ہڈیوں کا ہجوم دیکھو 


وہی تمہارا عزیز ساتھی سفر کا مونس 


پہ اب نہیں ہے 


اور اب اٹھاؤ سلوں سے نامے 


پڑھو عبارت جو پڑھ سکو تو 


کیا ڈر گئے ہو کہ سطح کاغذ پہ جز سیاہی کے کچھ نہیں ہے 


خجل ہو اس پر کہ کیوں عبارت غبار ہو کر نظر سے بھاگی 


سفیر لیلیٰ یہ سب کرشمے اسی کھنڈر نے مری جبیں پر لکھے ہوئے ہیں 


یہی عجائب ہیں جن کے صدقے یہاں پرندے نہ دیکھ پاؤ گے 


اور صدیوں تلک نہ اترے گی یاں سواری 


نہ چوب خیمہ گڑے گی یاں پر 


سفیر لیلیٰ یہ میرے دن ہیں 


سفیر لیلیٰ یہ میری راتیں 


اور اب بتاؤ کہ اس اذیت میں کس محبت کے خواب دیکھوں 


میں کن خداؤں سے نور مانگوں 


مگر یہ سب کچھ پرانے قصے پرائی بستی کے مردہ قضیے 


تمہیں فسانوں سے کیا لگاؤ 


تمہیں تو مطلب ہے اپنے ناقہ سے اور نامے کی اس عبارت سے 


سطح کاغذ سے جو اڑی ہے 


سفیر لیلیٰ تمہارا ناقہ 


میں اس کے مرنے پر غم زدہ ہوں 


تمہارے رنج و الم سے واقف بڑے خساروں کو دیکھتا ہوں 


سو آؤ اس کی تلافی کر دوں یہ میرے شانے ہیں بیٹھ جاؤ 


تمہیں خرابے کی کار گہہ سے نکال آؤں 


دیار لیلیٰ کو جانے والی حبیب راہوں پہ چھوڑ آؤں 



سفیر لیلیٰ-۴


حریم محمل میں آ گیا ہوں سلام لے لو 


سلام لے لو کہ میں تمہارا امین قاصد خجل مسافر عزا کی وادی سے لوٹ آیا 


میں لوٹ آیا مگر سراسیمہ اس طرح سے 


کہ پچھلے قدموں پلٹ کے دیکھا نہ گزرے رستوں کے فاصلوں کو 


جہاں پہ میرے نشان پا اب تھکے تھکے سے گرے پڑے تھے 


حریم محمل میں وہ سفیر نوید پرور 


جسے زمانے کے پست و بالا نے اتنے قصے پڑھا دئیے تھے 


جو پہلے قرنوں کی تیرگی کو اجال دیتے 


تمہیں خبر ہے 


یہ میرا سینہ قدیم اہرام میں اکیلا وہ اک حرم تھا 


عظیم رازوں کے کہنہ تابوت جس کی کڑیوں میں بس رہے تھے 


انہیں ہواؤں کا ڈر نہیں تھا 


نہ صحرا زادوں کے نسلی کا ہی ان کی گرد خبر کو پہنچے 


حریم محمل میں وہ امانت کا پاسباں ہوں 


جو چرم آہو کے نرم کاغذ پہ لکھے نامے کو لے کے نکلا 


وہی کہ جس کے سوار ہونے کو تم نے بخشا جہاز صحرا 


طویل راہوں میں خالی مشکوں کا بار لے کر ہزار صدیاں سفر میں گرداں 


کہیں سرابوں کی بہتی چاندی کہیں چٹانوں کی سخت قاشیں 


میان راہ سفر کھڑے تھے جکڑنے والے نظر کے لوبھی 


مگر نہ بھٹکا بھٹکنے والا 


جو دم لیا تو عزا میں جا کر 


حریم محمل سنو فسانے جو سن سکو تو 


میں چلتے چلتے سفر کے آخر پہ ایسی وادی میں جا کے ٹھہرا 


اور اس پہ گزرے حریص لمحوں کے ان نشانوں کو دیکھ آیا 


جہاں کے نقشے بگڑ گئے ہیں 


جہاں کے طبقے الٹ گئے ہیں 


وہاں کی فصلیں زقوم کی ہیں 


ہوائیں کالی ہیں راکھ اڑ کر کھنڈر میں ایسے پھنکارتی ہے 


کہ جیسے اژدر چہار جانب سے جبڑے کھولے غدر مچاتے 


زمیں پہ کینہ نکالتے ہوں 


کثیف زہروں کی تھیلیوں کو غضب سے باہر اچھالتے ہوں 


مہیب سائے میں دیوتاؤں کا رقص جاری تھا 


ٹوٹے ہاتھوں کی ہڈیوں سے وہ دہل باطل کو پیٹتے تھے 


ضعیف کوؤں نے اہل قریہ کی قبریں کھودیں 


تو ان کے ناخن نحیف پنجوں سے جھڑ کے ایسے بکھر رہے تھے 


چکوندروں نے چبا کے پھینکے ہوں جیسے ہڈی کے خشک ریزے 


حریم محمل وہی وہ منزل تھی جس کے سینے پہ میں تمہاری نظر سے پہنچا اٹھائے مہر و وفا کے نامے 


وہیں پہ بیٹھا تھا سر بہ زانو تمہارا محرم 


کھنڈر کے بوسیدہ پتھروں پر حزین و غمگیں 


وہیں پہ بیٹھا تھا 


قتل ناموں کے محضروں کو وہ پڑھ رہا تھا 


جو پستیوں کے کوتاہ ہاتھوں نے اس کی قسمت میں لکھ دئیے تھے 


حریم محمل میں اپنے ناقہ سے نیچے اترا تو میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں خموش و ویراں 


غبار صحرا مژہ پہ لرزاں تھا ریت دیدوں میں اڑ رہی تھی 


مگر شرافت کی ایک لو تھی کہ اس کے چہرے پہ نرم ہالہ کیے ہوئے تھی 


وہ میرے لہجے کو جانتا تھا 


ہزار منزل کی دوریوں کے ستائے قاصد کے اکھڑے قدموں کی چاپ سنتے ہی اٹھ کھڑا تھا 


دیار وحشت میں بس رہا تھا 


پہ تیری سانسوں کے زیر و بم سے اٹھی حرارت سے آشنا تھا 


وہ کہہ رہا تھا یہاں سے جاؤ کہ یاں خرابوں کے کارخانے ہیں 


روز و شب کے جو سلسلے ہیں کھلے خساروں کی منڈیاں ہیں 


وہ ڈر رہا تھا تمہارا قاصد کہیں خساروں میں بٹ نہ جائے 


حریم محمل میں کیا بتاؤں وہیں پہ کھویا تھا میرا ناقہ 


فقط خرابے کے چند لمحے ہی اس کے گودے کو کھا گئے تھے 


اسی مقام طلسم گر میں وہ استخوانوں میں ڈھل گیا تھا 


جہاں پہ بکھرا پڑا تھا پہلے تمہارے محرم کا اسپ تازی 


اور اب وہ ناقہ کے استخواں بھی 


تمہارے محرم کے اسپ تازی کے استخوانوں میں مل گئے ہیں 


حریم محمل وہی وہ پتھر تھے جن پہ رکھے تھے میں نے مہر و وفا کے نامے 


جہاں پہ زندہ رتوں میں باندھے تھے تم نے پیمان و عہد اپنے 


مگر وہ پتھر کہ اب عجائب کی کار گہہ ہیں 


تمہارے نامے کی اس عبارت کو کھا گئے ہیں 


شفا کے ہاتھوں سے جس کو تم نے رقم کیا تھا 


سو اب نہ ناقہ نہ کوئی نامہ نہ لے کے آیا جواب نامہ 


میں نامراد و خجل مسافر 


مگر تمہارا امین قاصد عزا کی وادی سے لوٹ آیا 


اور اس نجیب و کریم محرم وفا کے پیکر کو دیکھ آیا 


جو آنے والے دنوں کی گھڑیاں ابد کی سانسوں سے گن رہا ہے 


More Posts