ساون کے موسم کے ساتھ سرزمینِ برِ صغیر ہند و پاک کا پورا خطہ ایک انجانے رومان میں مبتلا ہے۔ برسات کا موسم ملہار کا بھی موسم ہے۔ پاکستانی اور انڈین فلموں میں تو ساون کو رومانس، ہجر اور ملن کی خواہش کی علامت بنا دیا گیا۔ ساون کے گیت اور فلمی نغمے ہماری یاد کا حصہ ہیں اور وہ گیت، وہ نغمے آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ گیتوں اور نغموں سے اسے آزاد ویب نیٹ پر موجود مختلف ذرائع سے دستیاب مواد کی مدد سے بینگ باکس کے قارئین کے لیے مرتب کیا گیا ہے۔
ساون من بھاون گیت اور نغمے
ساون کے موسم کے ساتھ سرزمینِ برِ صغیر ہند و پاک کا پورا خطہ ایک انجانے رومان میں مبتلا ہے۔ ساون کا ذکر آتے ہی امیر خسرو کے گیتوں، گھنگھور گھٹاؤں، آم کی سوغاتوں، رنگین چنریوں، موتیے کے گجروں اور پکوانوں کے خوانوں کی دھنک ذہن کے پردوں پر ابھر آتی تھی۔ اگر آپ نے پچھلی صدی میں جنم لیا ہے تو بارش میں بھیگے ہوئے رنگین و سنگین فلمی نغمے یقیانا" آپ کی یاداشت کا حصہ ہونگے۔
'ساون ملن کا موسم ہے خواہ وہ انسان ہوں، حشرات الارض ہوں، چرند، پرند یا پھر درندے ہی کیوں نہ ہوں یہ سب ملتے ہیں۔ اسی لیے شاعر ادیب اور عام انسان بھی اس موسم کو رومان کا موسم سمجھتے ہیں۔ اس موسم میں شجر، پودے، وادیاں اور ساری زمین کا سبزہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ساون کی جھڑیوں سے جذبات تازہ ہوتے ہیں، نئی تمنائیں جنم لیتی ہیں اور زندگی بخش ملن کی خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔
برسات کا موسم ملہار کا بھی موسم ہے۔ پاکستانی اور انڈین فلموں میں تو ساون کو رومانس، ہجر اور ملن کی خواہش کی علامت بنا دیا گیا۔ خسرو کے زمانے سے ساون کے گیت گائے جا رہے ہیں کہ 'اماں میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔' ساون میں رومانس کی وجہ آسمان سے برستا پانی ہے اور بارش کی وجہ سے زمین سے اٹھتی خوشبو ہے۔ شاعرہ سبین یونس کا کہنا ہے کہ 'ساون اور برسات کے موسم میں ملن کی چاہت بڑھ جاتی ہے اسی وجہ سے زمانہ قدیم سے ساون گیتوں اور شاعری کا حصہ ہے۔
’جن کو وصل نصیب نہیں ان کے اندر حزن در آتی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ساون ہجر اور انتظار کا موسم ہے اسی وجہ سے " تیری دو ٹکیا کی نوکری میں میرا لاکھوں کا ساون جائے" جیسے گیت لکھے گئے ہیں۔ اس طرح کے بے شمار گیتوں اور فلمی نغموں میں امڈتی گھٹائیں تھیں، اودا کانچ آسمان ہوتا تھا؛ بہت زیادہ بارش تھی؛ پھر امڈتے ہوئے جزبات، جسمانی کناروں سے، شربور آنچل اور دامن سے چھلکتی بوندیں، گلیوں کوچوں، کچے مکانوں ، باغوں شاہراوں اور دریا کے کناروں پہ ناچتے گاتے انسان مرد و عورت اس کا منظر پیش کرتے تھے۔
ہم جانتے ہیں کہ آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے؛ اور پانی میں آگ نہی لگتی؛ مگر کبھی الھڑ، شوخ، جواں ترنگ ناری کو برستے ساون میں دیکھیں تو معلوم پڑے گا کہ پانی میں آگ ہوتی ہے جو بدن کو دہکا دیتی ہے؛ مگر یہ آگ نفس کی آنکھ ہی سے دکھا ئی دیتی ہے۔ برِ صغیر ہند و پاک کی فلمی صنعت کے جغادر اس آگ کی چاہ اور تلاش میں سینکڑوں گیت اور نغمے فلم بند کر چکے ہیں۔
ہم بڑے ہو گئے ہیں، مگر موسم نہیں بدلے ۔ ہاں وقت کی تیزی آڑے آگئی ہے اور بڑھتی آبادی فطرت سے الجھ بھی گئ ہے؛ مگر جانے انجانے ہم سے ہمارا ساون، ساون کے جھولے اور نیہر چھوٹ گیا۔ پھر بھی ساون کے گیت اور فلمی نغمے ہماری یاد کا حصہ ہیں اور برستی بارش ہمیں انکی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ ساون کے وہ گیت، وہ نغمے آج بھی کانوں میں رس گھولتے شائقین کو مسحور کر دیتے ہیں۔ آئیے آپ بھی اس کا حصہ بن جایئے۔۔
یہ تحریر آزاد ویب نیٹ پر موجود مختلف ذرائع سے دستیاب مواد کی مدد سے مرتب کی گئی تاکہ بینگ باکس کے قارئین لطف اندوز ہوسکیں۔
If any of yours choice is missing, please mention in the comments, next list will follow as per given details. Thanks