وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پرانا ہے
صبح سویرے رن پڑنا ہے اور گھمسان کا رن
راتوں رات چلا جائے جس جس کو جانا ہے
دریا پر قبضہ تھا جس کا اس کی پیاس عذاب
جس کی ڈھالیں چمک رہی تھیں وہی نشانہ ہے
کاسۂ شام میں سورج کا سر اور آواز اذاں
اور آواز اذاں کہتی ہے فرض نبھانا ہے
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
Follow us on:
Platform: https://www.bangboxonline.com/
Facebook: https://www.facebook.com/bangboxonline/
Get DU solved assignment at an affordable price with a 100% plagiarism-free guarantee. Boo...