پاکستان میں سیاست اور حکمرانی کا نظام کیسے ٹھیک کریں؟

روسی سیاسی مفکرالیگزینڈر ڈوگین نے ایک مضمون لکھا ہے " دائیں بائیں بازو والے لبرلز کے خلاف متحد ہوجائیں"۔ اور اس مضمون میں انہوں نے مغربی ممالک میں عوام الناس کے لیے دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کو متحد ہوکر لبرلز کی دنیا پر حکومت کے خلاف متحد ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ یہ تحریر اُسی مضمون کی روشنی میں ملک پاکستان کے لیے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ہے۔

2024-09-05 16:24:04 - Muhammad Asif Raza

بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ

 

پاکستان میں سیاست اور حکمرانی کا نظام کیسے ٹھیک کریں؟

 

الیگزینڈر ڈوگین کے مضمون " دائیں بائیں بازو والے لبرلز کے خلاف متحد ہوجائیں" سے ایک اقتباس ہے کہ " مغرب میں دائیں بازو کی بہترین اور انتہائی قابل احترام بائیں بازو کی بھی شخصیات موجود ہیں۔ یہ نمونہ ہر جگہ موجود ہے... تاہم دائیں اور بائیں جھکاؤ رکھنے والوں کے درمیان گلوبلسٹ بھی ہیں، جو فیصلہ ساز لمحوں میں لبرل کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ لبرل نیٹو کا پٹہ پہنے محض خدمت کے کتے ہیں "۔ مزید کیا کہ " یہ صورتحال ہمارے اپنے ملک ( روس ) میں نظر آتی ہے۔ ہمارے پاس ایماندار دائیں بازو کے محب وطن، آرتھوڈوکس عیسائی، بادشاہت پرست، اور یہاں تک کہ (خدا انہیں معاف کرے، وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ خود کو کیا کہتے ہیں) "نسلی روسی قوم پرست بھی ہیں"۔

 

مگر پھر انہوں نے ایک ایسے گروہ کا ذکر کیا ہے جنکا تزکرہ آگے چل کر پاکستان میں متحرک گروہ سے ماثلت کے ضمن مین کیا جائے گا۔ وہ لکحتے ہین کہ " جب بات لبرل کی ہو تو یہ ایک الگ کہانی ہے۔ لبرل کبھی اچھے نہیں ہوتے۔ تمام لبرل عالمی حکومت اور مغربی تسلط کے ساتھ منسلک ہیں۔ لبرلز اور انکے طرفدار حقیقی دائیں بازو اور حقیقی بائیں بازو کے لوگوں کے قطعی دشمن ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مادر پدر آزاد سرمایہ داری کے حق میں ہیں جو خالص برائی ہے اور وہ بیک وقت دائیں اور بائیں دونوں کو تباہ کردیتا ہے"۔ " لبرل کی کیا پہچان ہے؟ — یہ جارج سوروس جیسے لوگ لبرل ہیں— جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے بے خبر "دائیں بازو والوں" اور بدعنوان، زوال پذیر "بائیں بازو والوں" کے ساتھ جوڑ توڑ کرتے ہیں"۔

 

اس سے آگے وہ تجویز دیتے ہیں کہ " ہمیں لبرلز کے خلاف دائیں اور بائیں بازو کے اتحاد کی ضرورت ہے۔ روس کے اندر اور اس سے باہر بھی ہمیں یہی ضرورت ہے۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کی شخصیات عوام کی حقیقی نمائندگی کرتی ہیں۔ دوسری طرف لبرلز، کمپراڈور اشرافیہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ لبرل اچھے ہو ہی نہیں سکتے۔ اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کہ تمام لبرل ایک جیسے نہیں ہوتے۔ وہ چاہے دائیں یا بائیں بازو کے ہوں؛ مختلف نہیں ہو سکتے ہیں۔ اور اپنے کاموں میں تمام لبرل متحد ہیں"۔


پاکستان کا سیاسی نظام کیا ہے؟ ایک تاریخی جائزہ۔

 

پاکستان کا سیاسی نظام کیا ہے؟ ایک تاریخی جائزہ۔

 

تاجِ برطانیہ نے سنہ 1947 میں برصغیرِ ہند و پاک کو آزاد کیا تو یہ محض ایک رسمی آزادی تھی؛ کیونکہ اس زمین پر بسنے والوں کی زندگی میں کوئی نمایاں فرق نہی آیا اور اس کی وجہ معاملات حکومت چلانے کے لیے تاجِ برطانیہ کے وہ قوانین تھے جس کے تحت وہ ہندوستان کو غلام رکھتے تھے نافذ رہے۔ اور مہا ستم یہ ہوا کہ وہی سرکار کے ملازم بھی برسر اقتدار رہے، جنہیں انگریز نے اپنے مقاصد کے لیے ملازم کیا تھا؛ ہاں صرف اوپر سے گورا صاحب ختم ہو گیا اور کالا صدر وزیر اعظم وغیرہ بدل گئے۔ قوانین کا سارا انتظام بھی وہی رہا بلکہ آج تک نافذ ہے۔

 

لیکن سب سے تباہ کن درس و تدریس اور تعلیم کا وہ نظام تھا جس کے تحت انگریز نے برصغیر کے لوگوں کو ذہنی اور فکری غلامی کے جال میں جکڑ رکھا تھا۔ عقل و دانش کا تقاضہ تو یہ تھا کہ اپنی تہذیب و تمدن اور زمین کے مطابق تعلیمی نظام ترتیب دیا جاتا اور پاکستان؛ جس کے قیام کی بنیاد اسلام بطور دین تھا؛ کے نظامِ ریاست، حکومت، سیاست، معیشت اورقانون و انصاف کو اللہ سبحان تعالی کی خوشنودی کے لیے قائم کیا جاتا۔ مگر ایسا نہی ہوا۔

 

اس زمین پر انگریز سے پہلے بادشاہ تھا؛ اس کے وزیر اور مصاحب تھے؛ گورنر اور نواب تھے اور باقی انسان تھے جو اپنی زندگی گذارتے تھے؛ اس مذہب کے مطابق جس کے وہ ماننے والے تھے؛ یاد رہے کہ ان کی اکثریت ہندووں کی تھی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ سینکڑوں خداوں اور بتوں کے درمیان ایک اللہ کے ماننے والے مسلمان بھی بستے تھے۔ سیاسی اور فکری سطح پر قدامت پرست؛ ترقی پسند یا آزاد خیال جیسی مخلوق نہی پائی جاتی تھی۔

 

انگریز نے ہندوستان پر قبضے کے بعد ایک ایسا انوکھا تعلیمی نظام نافذ کیا جو خود اسکے اپنے ملک میں رائج نہیں تھا۔؛ وہ تعلیمی نظام غلام ہندوستان کے لیے تھا۔ اس تعلیم کی بنیاد اور اساس غیر مذہب اور خدا کے بغیر دنیا کا نظام تھا۔ اس کا مستحکم تعلق سائنس سے رکھا گیا اور حق اور سچ کی پرکھ سائنس پر رکھی گئی۔ سائینس کی کمزوری اور معزوری ہی ہے کہ اس کا کوئی نظریہ، کوئی اسلوب، اخلاق پر مبنی نہی ہوتا۔ سائنس کی تعلیم سے ہر طرح کے مذہب کو دیس نکالا دے دیا گیا۔ انگریز کے تعلیمی نظام سے فیض یاب ہونے والے افراد بے پیندا برتن تھے۔ وہ تعلیم یافتہ افراد بے دین تھے جن کا اخلاق اور تہذیب کا معیار ان کے تعلیمی درسگاہ کے اساتذہ کا ترتیب کردہ تھا۔ وہ معیار اخلاق اور تہذیب ان درسگاہوں سے باہر بسنے والی دنیا سے یکسر مختلف تھی۔ باہر کی دنیا میں بھگوان؛ رام، دیوتا اور اللہ تعالی تھے اور ان تعلیم زدہ افراد کی دنیا تاجِ برطانیہ کی خوشنودی تھا۔

 

انگریز سرکار نے ہندوستان کے لیے ایک سیاسی گورکھ دھندا بھی پیدا کیا تھا جس کا آغاز کانگریس پارٹی بنا کر کیا گیا تھا۔ پھر انگریز کے سند یافتہ تعلیم زدہ اور انگریز کے وفادار خاندان کے افراد نے سیاست میں متعدد اقسام کی پارٹیاں بنائیں اور ملک کے لوگوں کو تقسیم کردیا۔ وہ افراد بنیادی طور پر خدا بیزار لوگ تھے اور مذہب کی پابندیوں سے آزاد تھے مگر جن لوگوں سے ووٹ لینا تھے وہ مذہب بیزار نہیں تھے سو ان تعلیم یافتہ افراد نے عجب طرز کی نوٹنکی ازم گھڑیں جن کی دنیا میں کوئی اور مثال نہی ملتی۔ پھر مذھبی جماعتیں وجود پذیر ہوئیں جو نام تو مذہب کا لیتی رہیں مگر نظام انگریز کا چھوڑا ہی چلانے پر راضی رہیں۔ اس طرح ملک پاکستان میں چوں چوں کا مربہ قائم ہوگیا جس سے سیاست میں ملوث افراد کی چاندی ہوئی اور عوام کی بھوک اور ننگ میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ملوث یہ ایسے افراد کا گروہ تھا اور ہے جن کو اوپر الیگزینڈر ڈوگین کے مضمون میں گلوبلسٹ اور لبرلز بیان کیا گیا ہے۔ 

 

پاکستان کی سیاست میں آج کوئی دائیں یا بائیں بازو کی سیاست نہیں ہے۔ سب نام لیے بغیر ہی لبرل یعنی مذہب بےزار ہیں۔ سب کی منشاء اور مقصد دولت ہے اور طاقت کا حصول ہے۔ ایسے افراد بے ضمیر اور مفاد پرست ہوتے ہیں جن کا کوئی نظریہ، کوئی اصول اور کوئی اخلاقی قدر نہیں ہوتا۔ آج سب حکمران اشرافیہ دولت مند ہے اور زیادہ تر کی دولت ملک سے باہر رکھی ہوئی ہے۔ ملک اور عوام بےبس اور کمزور ہیں۔ سیاست اور اقتدار کے سارے ذرائع منافع بخش بن چکے ہیں اور منصبِ قوم پر فائز سب ہی عیش و عشرت کی راہداری پر خوش باش ہیں۔ ان سےملک، قوم اور سلطنت کی ترقی کی امید رکھنا، آسمان سے تارے توڑنے جیسا خواب ہوگا۔


حکمران اشرافیہ سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟

 

اس سلسلے میں یہ تجویز کیا جاسکتا ہے کہ باضابطہ قانون سازی کی جائے کہ تمام قومی اقتدار اور عہدے دار مناصب پر دولت کے حصول پر پابندی لگادی جائے۔ ایسے افراد اور ان کے خاندان کا کسی بھی نوع اور طرز کا ریاست سے کاروبار نہیں ہونا چاہیے۔ ذرا سی خلاف ورزی پر بھی پھانسی دی جائے۔ قوم، ملک اور سلطنت کے سارے کے سارے مناصب عوامی خدمت کے لیے وقف کردی جائیں تاکہ اس میں بے لوث اور مخلص شخصیات قدم رکھیں جو واقعی خدمت کے جزبے کے حامل ہوں۔ اور صرف اس کو عزت اور وقار کا ذریعہ سمجھتے ہوں۔۔

 

اس مقصد کے حصول کے لیے تجویز یہ ہے کہ پاکستانی قوم کو نظریہ پاکستان سے جڑنا پڑے گا کیونکہ وہ واحد شے ہے جو قوم کو جوڑ سکتی ہے۔ ہمیں لبرلز / مفاد پرست / بے ضمیر حکمران اشرافیہ کے خلاف اتحاد کی ضرورت ہے۔ ریاست اسلام کی سیاست کرنے والی بے لوث اور مخلص شخصیات کو عوام کی حقیقی نمائندگی کا حق دینا ہوگا۔ خواہ وہ سیاست کا کارزار ہو یا پھر عدلیہ اور سول اور فوجی انتظامیہ؛ سب کو اسی طرز زندگی پر لانا ہوگا۔

پاکستان کا خواب کیا ہے؛ جسے درست کرنے کی ضرورت ہے؟

 

ایک آزاد خود مختار ملک کی حیثیت سے پاکستان قوم کی بنیادی اقدار کیا ہوسکتی ہیں سوائے اس کے کہ ہم اسلامی فلاحی جمہوری نظام کے تحت ہوں؛ جہاں قانون کی حکمرانی ہو اور ہر فرد کو اپنی زندگی گذارنے کی پوری شخصی آزادی ہو؛ جس میں مذہبی عقائد؛ کاروبار اور رہائش کا حق شامل ہے۔ اس کے لیے سب انسانوں میں مساوات، رواداری، باہمی احترام اور عزت و وقار پر مبنی معاشروں کا قیام لازم ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں سب انسان برابری اور مساوات کی سطح پر زندگی گذار رہے ہوں وہاں ایسے بےلوث اور مخلص شخصیات جو کاروبارِ ریاست اور سیاست میں حصہ لیں باقی افراد کے لیے باعثِ فخر اور قابل تقلید ہوتے ہیں۔ زندہ قومیں ایسے افراد کو سر پر بٹھاتی ہیں اور انکی عزت اور تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اور ان کی داستانیں بنائی اور سنائی جاتی ہیں۔ کیا ہم مسلمان خلفائے راشدین اور مہاجرینِ مکہ اور انصارِ مدینہ رضوان اللہ علیھم کے واقٰعات زوق و شوق سے پڑھتے اور سناتے نہیں ہیں؟


The statement below reflects upon moral misery of Ruling Class of the World

More Posts