ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ ادب کے ڈاکٹرکے علاوہ فوجیانہ مزاح کے باوردی ڈاکٹر بھی ہیں؛ اور اسکا ثبوت ان کی کتاب " باوردی مزاح " ہے۔ ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ کی یہ کتاب تحقیقی و تنقیدی مضامین پہ مشتمل ہے۔ اور یہ تحریر لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) نے قلم زد کیا ہے؛ جو بذاتِ خود بھی ایک تبصرہ اور تنقید ہے۔ خیال ہے کہ بینگ باکس کے قارئین اس ادبی کاوش کو پسند فرمائیں گے۔
ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ کی کتاب "باوردی مزاح" پہ تبصرہ و تنقید
میں نے ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ کی تحقیقی و تنقیدی مضامین پہ مشتمل کتاب "باوردی مزاح" پڑھنا شروع کی تو مضامین کے منفرد نام دیکھ کر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے عسکری مزاح نگاروں کو کچھ منفرد ناموں سے نوازا ہے: عسکری مزاح کا 'سلطان راہی'، عسکری مزاح کا 'بریگیڈ میجر'، عسکری مزاح کا 'بریگیڈ کمانڈر'، عسکری مزاح کا 'ایف 16' وغیرہ وغیرہ۔ میں نے ڈاکٹر خالق تنویر کا کتاب کے بارے میں مضمون پڑھ کر 16 کو ہندسوں میں لکھنے میں ہی عافیت جانی۔۔۔ایسے میں مجھے خیال آیا کہ ڈاکٹر اسماعیل جوئیہ جب سب کو نام بانٹ رہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی ڈاکٹر صاحب کو کسی اچھے سے نام سے نوازیں۔۔۔
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب موصوف ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے محنت کر رہے تھے۔ ڈگری مکمل ہونے کی دیر تھی کہ "فوجیانہ مزاح" کی اشاعت کے ساتھ ہی وہ صاحبِ کتاب ہو گئے۔ ابھی فوجیانہ مزاح 'شِیر خوار' ہی تھی کہ "باوردی مزاح" کی خوشخبری بھی آ گئی۔
صاحبِ اولاد اور صاحبِ کتاب ہونے کی خوشی شاید ایک جیسی ہوتی ہوگی، البتہ ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب میں وقفہ اتنا ضروری نہیں۔۔۔ غالباً اسی کلیے کو بنیاد بنا کر ڈاکٹر صاحب نے انتہائی قلیل عرصے میں دوسری کتاب بھی لکھ ڈالی۔ یہی نہیں ان کی مزید دو کتب بھی زیرِ طباعت ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اس برق رفتاری کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگر ہم ان کو عسکری مزاح نگاری کا "شعیب اختر" کہیں تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ اس نام کی وجہ محض ان کی سبک رفتاری ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کی تنقید کے وہ باؤنسرز، اِن سوئنگز اور ریورس سوئنگز بھی ہیں جن کا استعمال ہمیں ان کے تنقیدی مضامین میں واضح نظر آتا ہے۔ اور یہی ایک اچھے نقاد کی نشانی بھی ہے۔ اگر نقاد نے سب اچھا ہی لکھنا ہے تو اسے کچھ اور کام کرنا چاہیے۔ گویا عسکری مزاح نگاروں کو اب کچھ بھی لکھنے سے پہلے ان کے خطرناک تنقیدی باؤنسر سے بچاؤ کے لیے ہیلمٹ بھی درکار ہو گا۔۔۔ بریگیڈیر صدیق سالک کے اس سے ملتے جلتے ہی ایک باؤنسر سے بچنے کے لیے بریگیڈیر (تب میجر) صولت رضا نے بھی ہیلمٹ کے استعمال کا ارادہ کیا تھا۔ اس واقعے کا تذکرہ بھی آپ کو اس کتاب میں مل جائے گا۔ ویسے سائنس نے مزید ترقی کر لی تو شاید کبھی تنقید سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہو جائیں۔
خیر ڈاکٹر صاحب کی کتاب کی اچھی بات یہ ہے کہ قارئین کو ایک ہی کتاب میں کئی ادباء اور مختلف کتب کے بارے میں معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے باوردی مزاح میں بڑی عرق ریزی کے بعد اسے دلچسپ اقتباسات سے سجایا ہے۔ ان کے منتخب کردہ اقتباسات کو پڑھ کر قارئین نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ وہ اپنی تشنگی دور کرنے یعنی پوری کتاب پڑھنے کی جستجو میں بھی لگ جاتے ہیں۔ اب اس مقصد کے لیے چاہے وہ اس کتاب کو بازار سے خرید کر لائیں، کسی لائبریری سے حاصل کریں یا پھر کسی دوست سے ادھار لے کر پڑھیں ہر صورت میں یہ ڈاکٹر صاحب کے لیے ادب کی خدمت ہی شمار ہو گی۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب ان عسکری مزاح نگاروں کے لیے مارکیٹنگ کا کام بھی کر رہے ہیں۔
ایک سو اٹھاسی صفحات پہ مشتمل اس کتاب کے دو انتسابات ہیں ایک فوج کے ہر اس مزاح نگار کے نام جس نے انتہائی مشکل اور کٹھن وقت کے باوجود قلم اور کتاب سے اپنا رشتہ بحال رکھا اور دوسرا انتساب ڈاکٹر احمد ہادی، منصنف کے بھتیجوں، بھانجوں اور بیٹوں کے نام۔ اس کتاب کا ناشر انٹرنیشنل رائٹر فورم پاکستان ہے جبکہ کتابت کے فرائض ڈاکٹر عبدالرزاق سحر نے سرانجام دیئے، سرِورق شہزاد افق کی کاوشوں کا نتیجہ ٹھہرا۔ کتاب کی پروف کی بھاری ذمہ داری تمثیل اسماعیل جوئیہ اور بابر اسماعیل جوئیہ کے کاندھوں پہ تھی۔ جبکہ کتاب کی اشاعت ادب سماج انسانیت پبلی کیشنز، راولپنڈی کے زیرِ اہتمام ہوئی۔
کتاب کے بارے میں بریگیڈیر (ریٹائرڈ) صولت رضا، کرنل ڈاکٹر اسد محمود خان، ڈاکٹر خالق تنویر، ڈاکٹر احمد حسین ہادی، ڈاکٹر عبدالرزاق سحر، اور آخر میں زینت خاں نے مختصراً اپنی اپنی آراء سے نوازا ہے۔
ان سب کی آراء کے بعد ڈاکٹر صاحب نے انتہائی اختصار سے کام لیتے ہوئے ایک ہی صفحے پہ "ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے" کے عنوان سے فوج اور ادب کے گہرے تعلق کو ایسے شاندار طریقے سے بیان کیا ہے کہ دریا بلکہ یوں کہیے کہ سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ انھوں نے اپنی اس کتاب کے ذریعے ایسے عسکری مزاح نگاروں کو ڈھونڈ نکالا ہے جو یا تو اس میدان میں نئے تھے یا پھر وہ نظروں سے اوجھل رہے۔ اسی مضمون کے آخر میں انھوں نے فرداً فرداً ان تمام لوگوں بشمول اپنی شریکِ حیات کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے اس مشکل سفر میں ڈاکٹر صاحب کا بھرپور ساتھ دیا یوں ان کی یہ کاوش پایہ تکمیل تک پہنچی۔ باوردی مزاح اور اس کے مصنف کے بارے میں ڈاکٹر انوار احمد کی رائے نے کتاب کے پسِ ورق پہ جگہ پائی۔
ڈاکٹر صاحب نے پہلے پہل کنجوسی سے کام لیتے ہوئے اپنی کتاب کی صرف سافٹ کاپی مجھے بذریعہ واٹس ایپ ارسال کر دی۔ عمر کے اس حصے میں، میں موبائل فون پہ کتاب کا صرف ایک ہی حصہ پڑھ سکتا تھا لہٰذا میں نے فوراً ہی ان کے پیغام کو ٹیگ کر کے ایک عینک اور ایک گھر کا اموجی بھیج دیا۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے فوائد ہی فوائد ہیں آدمی اموجی اور اشاروں کی زبان بھی فوراً سمجھ جاتا ہے، نتیجتاً تیسرے دن کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ یہاں یہ بات بتانے سے یہ بھی مقصود ہے کہ دوسرے عسکری مزاح نگار بھی چاہیں تو اپنی کتب بذریعہ ڈاک مجھے بآسانی ارسال کر سکتے ہیں۔۔۔ اب وہ اس کو ازراہِ مذاق لیں یا ایک سنجیدہ پیغام یہ میں ان کی صواب دید پہ چھوڑتا ہوں۔
دوبارہ باوردی مزاح کی طرف آتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی بڑی کمرشل کمپنی کے ہیومن ریسورس کے سربراہ کی طرح اپنی کتاب میں تنوع، مساوات اور شمولیت یعنی (diversity, equity and inclusion - DE&I)
کا خاص خیال رکھا ہے۔ ان کے منتخب کردہ مزاح نگاروں میں شاعر اور نثر نگار دونوں ہی شامل ہیں، ان مزاح نگاروں میں وہ بھی ہیں جو اب ہم میں نہیں، اور جو حیات ہیں وہ نہ صرف برّی، بحری اور فضائی یعنی تینوں افواج کے مزاح نگار ہیں بلکہ اس میں چھوٹے بڑے تمام رینک کے مزاح نگاروں کو شامل کیا گیا ہے۔ پیرا ملٹری فورس کی نمائندگی موصوف نے خود کر دی۔ خواتین کی شمولیت کو یقینی بناتے ہوئے مصنف نے زینت خان کی کتاب کے بارے میں رائے کو کتاب کا حصہ بنا دیا مزید یہ کہ دیگر خواتین لکھاریوں کے اقتباسات اور اہلیہ کا شکریہ کتاب میں شامل کر کے وہ ایک اہم ذمہ داری سے بڑی چالاکی اور مہارت سے بری الذمہ ہوگئے۔ ویسے ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی باوردی خواتین لکھاری بھی منظرعام پہ آجائیں تو تنوع، مساوات اور شمولیت میں مزید نکھار آ جائے گا۔
اس کتاب میں کل اکیس مزاح نگاروں کے بارے تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ جن کے ساتھ انصاف کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ لیکن آفرین ہے ڈاکٹر محمد اسماعیل جوئیہ پہ جنھوں نے اس مشکل کام کا نہ صرف بیڑا اٹھایا بلکہ احسن طریقے سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا بھی۔ اگر دیکھا جائے تو تنقید کے لیے گنے چنے الفاظ ہی میسر آتے ہیں جیسے کہ ابتذال، پھکڑ پن، تضحیک، طنز کے نشتر، طنز کی کٹیلی دھار، استہزاء، اشارتی نوک جھونک وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کمال مہارت سے اکیس کے اکیس مزاح نگاروں کے تحقیقی و تنقیدی مضامین سے انصاف کرتے نظر آئے ہیں۔ ماسوائے چند ایک مقامات کے جہاں ہمیں الفاظ کی تکرار نظر آئی اور چند مقامات پہ کتابت کے اغلاط ہیں۔ مجھے قوی امید ہے کہ کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں ان اغلاط کو درست کر لیا جائے گا۔
آخر میں میں ڈاکٹر صاحب کو ایسی شاندار اور جاندار کاوش پہ دادِ تحسین پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہ کتاب اردو ادب میں پزیرائی حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہو گی۔
-+-+-+-+-
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی
١٩ ستمبر ٢٠٢٤
📧: khanabrar30c@gmail.com