Valentine Day is celebrated across the globe through out the world on 14th February. It has also become a significant cultural, religious and commercial celebration of romance and love in all the continents of the globe. It is more of a cultural and commercial activity now. Poets have rendered poems and verses signifying message of love. This write up in Urdu " ویلنٹائن ڈے کی شبھ کامنائیں " contains message for the real life i.e. love and affection.
ویلنٹائن ڈے کی اٹھکیلیاں
ویلنٹائن ڈے ہر سال 14 فروری کو محبت اور رومانس کے اظہار کے لیے منایا جاتا ہے۔ لیکن یہ جاننا بہے ضروری ہے کہ ویلنٹائن ڈے محض ایک ثقافتی محرک کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ دن سینٹ ویلنٹائن ڈے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ ویلنٹائن نامی ایک عیسائی شہید کے اعزاز میں ایک عیسائی تہوار کے دن کے طور پر شروع ہوا؛ کچھ حکایات کے مطابق، سینٹ ویلنٹائن ایک رومن پادری اور طبیب تھا جو 270 عیسوی کے قریب شہنشاہ کلاڈیئس دوم گوتھکس کے عیسائیوں کے ظلم و ستم کے دوران شہید ہو گیا تھا۔
کیا ہم جانتے ہیں کہ قدیم روم میں لوگوں کو شادی کے لیے بادشاہ کی اجازت درکار تھی؟ شہنشاہ کلاڈیس دوم نے فیصلہ کیا کہ اکیلا مرد بیویوں اور خاندان والوں سے بہتر سپاہی ہوتا ہے۔ اس نے نوجوانوں کے لیے شادی کو غیر قانونی قرار دیا۔ ان حالات میں سینٹ ویلنٹائن جو ایک رومن پادری تھے؛ نے خفیہ طور پر شادی کی اور محفوظ مقامات پر جوڑوں کی خدمت کی تاکہ رومی سپاہیوں کو پتہ نہ چل سکے۔ اس نے مرد اور عورت کو شادی کے سلسلے میں متحد کرنے اور انہیں گناہ کی طرز زندگی سے دور رکھنے کے لیے کوشش کی۔ سینٹ ویلنٹائن نے یہ سب کچھ شہنشاہ کلاڈیئس کی نظروں سے پوشیدہ برسوں تک کیا۔ شہنشاہ کلاڈیئس دوم نے شادی پر پابندی لگا دی تھی کہ مرد زیادہ خوشی سے جنگ میں شامل ہوں۔ (کیا شادی مردوں کے لیے اپنے دشمنوں سے لڑنے میں رکاوٹ تھی؟)
پادری کی کاروائیاں چھپی نہی رہ سکیں اور اسے ایک رومن جیل میں قید کر دیا گیا تھا، جہاں اسے ایک پراسرار لڑکی (جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پراسیکیوٹر کی بیٹی تھی) سے محبت ہو گئی تھی۔ اس کی پھانسی سے ٹھیک پہلے، ویلنٹائن نے اسے ایک محبت کا خط بھیجا جس پر 'آپ کے ویلنٹائن کی طرف سے' دستخط کیے گئے تھے، اس طرح رومانوی سائن آف کی ابتدا آج بھی بڑے پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ عیسائیت میں اسے مذہبی اہمیت حاصل ہوئی۔ لیکن پھر بعد میں تاجروں کی طرف سے اس طرح کی تمام سرگرمیوں کو اپنایا گیا تاکہ اسے رومانس اور محبت کے لیے تجارتی جشن میں تبدیل کیا جا سکے، اس طرح یہ دنیا کے بہت سے خطوں میں ایک عالمی رجحان بن گیا۔
ویلنٹائن ڈے ایک لوک داستان بن گیا اور روایات کے ذریعے ایک اہم ثقافتی تقریب میں بدل گیا۔ ویلنٹائن ڈے محبت کا دن ہے، لیکن ایسی کوئی پابندیاں نہیں ہیں جو کہتی ہیں کہ محبت صرف ایک خاص کے لیے ہونی چاہیے۔ محبت عالمگیر ہے، چاہے کسی ایک خاص اہم کی دوسرے خاص کی طرف ہو، خاندان کے افراد، دوستوں، یا اپنے آپ سے۔ محبت کسی بھی دن منائی جا سکتی ہے۔ محبت ہماری اصل منزل ہے۔ ہم زندگی کے معنی اکیلے نہیں ڈھونڈتے بلکہ دوسرے کے ساتھ مل کر ڈھونڈتے ہیں۔ "اگر آپ سو سال کے لیے جیتے ہیں تو میں اس میں سے ایک دن کم رہنے کے لیے جینا چاہتا ہوں اس لیے مجھے آپ کے بغیر کبھی نہیں رہنا پڑے گا"۔
ویلنٹائن ڈے بہت زیادہ اور جان جوکھم مشکلات کے باوجود قربانی اور عقیدت، محبت اور عزت کے بارے میں ہے۔ اپنے ویلنٹائن ڈے کے منصوبے بناتے وقت، سینٹ ویلنٹائن کو یاد کریں جو محبت اور شادی کے حصول میں اپنی جان دینے کے لیے تیار تھا، اور اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ ان لوگوں کے لیے بھی ایسا کرنے کو تیار ہیں جن سے آپ محبت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے منانے کی کچھ روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں؟
تحائف کا تبادلہ کرنا، جیسے کارڈ، پھول اور چاکلیٹ۔
· ملاقات پر جانا (اگر قانون اور روایات کے تحت جائز ہوں)۔
پیارے لوگوں کے لیے رومانوی نظمیں پڑھنا۔
دلوں کے محبوب کو محبت کے خطوط لکھنا۔
آج ویلنٹائن ڈے صرف ایک ثقافتی تجارتی سرگرمی ہے جس کی سرپرستی بڑے کاروباری ادارے کرتے ہیں۔ یہ کوئی مذہبی سرگرمی نہیں ہے اور اس سے ویلنٹائن ڈے منانے والے شخص کو کوئی مذہبی فائدہ نہیں پہنچتا ہے۔ تاہم، ہم انسانوں کو ایک خاص مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور یہ ایک خاندان کی تشکیل کے بغیر حاصل نہیں کیا جا سکتا اور اچھی خاندانی روایات ایک دوسرے کے لیے محبت اور عقیدت سے بنتی ہیں۔
ذیل میں ویلنٹائن ڈے کے مرکزی موضوع یعنی محبت اور پیار پر کچھ شاعرانہ کام پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ جب اس دنیا میں ویلنٹائن ڈے اس طرح زور و شور سے منایا نہیں جاتا تھا تب بھی شعراء اس موضوع پر قلم دراز رہے تھے۔ سب سے پہلے احمد فراز کا کلام پیش کیا جاتا ہے۔
میں نے کب کی ہے ترے کاکل و لب کی تعریف
میں نے کب لکھے قصیدے ترے رخساروں کے
میں نے کب ترے سراپا کی حکایات کہیں
میں نے کب شعر کہے جھومتے گلزاروں کے
جانے دو دن کی محبت میں یہ بہکے ہوئے لوگ
کیسے افسانے بنا لیتے ہیں دلداروں کے
میں کہ شاعر تھا، میرے فن کی روایت تھی یہی
مجھ کو اک پھول نظر آئے تو گلزار کہوں
مسکراتی ہوئی ہر آنکھ کو قاتل جانوں
ہر نگاہِ غلط انداز کو تلوار کہوں
میری فطرت تھی کہ میں حسنِ بیان کی خاطر
ہر حسین لفظ کو در مدحِ رخِ یار کہوں
میرے دل میں بھی کھِلے ہیں چاہت کے کنول
ایسی چاہت کہ جو وحشی ہو تو کیا کیا نہ کرے
مجھے گر ہو بھی تو کیا زعمِ طوافِ شعلہ
تو وہ شمع ہے کہ پتھر کی بھی پرواہ نہ کرے
میں نہیں کہتا کہ تجھ سا ہے نا مجھ سا کوئی
ورنہ شوریدگئ شوق تو دیوانہ کرے
کیا یہ کم ہے کہ ترے حسن کی رعنائی سے
میں نے وہ شمعیں جلائی ہیں کہ مہتاب نثار
تیرے پیمانِ وفا سے میرے فن نے سیکھی
وہ دل آویز صداقت کہ کئی خواب نثار
تیرے غم نے میرے وجدان کو بخشی وہ کسک
میرے دشمن، میرے قاتل، میرے احباب نثار
میں کسی غم میں بھی رویا ہوں تو میں نے دیکھا
تیرے غم سے کوئی مجروح نہیں تیرے سوا
میرے پیکر میں تیری ذات گھلی ہے اتنی
کہ میرا جسم، میری روح نہیں تیرے سوا
میرا موضوعِ سخن تُو ہو کہ ساری دنیا
درحقیقت کوئی "ممدوح" نہیں تیرے سوا
اب ذیل میں جناب قابل اجمیری کا کلام پیش کیا جاتا ہے جو اس بات کی کھل کر نشاندھی کرتا ہے کہ اردو ادب کے جہان میں حسن و عشق و محبت ایک مستقل موضوع رہا ہے اور اصحاب اس مضبوط محرک سے منضبط رہے ہیں۔
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے
کچھ تو دل مبتلائے وحشت ہے
کچھ تری یاد بھی قیامت ہے
میرے محبوب مجھ سے جھوٹ نہ بول
جھوٹ صورت گرِ صداقت ہے
جی رہا ہوں اس اعتماد کے ساتھ
زندگی کو مری ضرورت ہے
حسن ہی حسن جلوے ہی جلوے
صرف احساس کی ضرورت ہے
ان کے وعدے پہ ناز تھے کیا کیا
اب در و بام سے ندامت ہے
اس کی محفل میں بیٹھ کر دیکھو
زندگی کتنی خوبصورت ہے
راستہ کٹ ہی جائے گا قابلؔ
شوقِ منزل اگر سلامت ہے
"فطرت"
محبت ایسی کشتی ہے؛
جو ساحل پر نہیں آتی؛
اِسے منجدھار میں رہنا؛
ہمیشہ راس آتا ہے۔
جناب والی آسی کا کلام ایک نفس جنس کی جانب سے ان جزبات کا اظہار ہے جو ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے مشہور کئے گئے ہیں؛ سو ایک مناسب نصیحت بھی ہے۔
یوں تو ہنستے ہوئے لڑکوں کو بھی غم ہوتا ہے
کچی عمروں میں مگر تجربہ کم ہوتا ہے
سگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیں
اور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے
اس طرح روز ہم اک خط اسے لکھ دیتے ہیں
کہ نہ کاغذ نہ سیاہی نہ قلم ہوتا ہے
ایک ایک لفظ تمہارا تمہیں معلوم نہیں
وقت کے کھردرے کاغذ پہ رقم ہوتا ہے
وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے
فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے
اور اب آخر میں احمد فراز صاحب کا پیغام پیش کیا جاتا ہے؛ جو زندگی میں ہم انسانوں کو محبت اور چاہت کا اصل مفہوم سے روشناس کرتا ہے۔
دوست بھی ملتے ہیں محفل بھی جمی رہتی ہے
تو نہیں ہوتا تو ہر شے میں کمی رہتی ہے
عشق عمروں کی مسافت ہے کسے کیا معلوم؟
کب تلک ہم سفری ہم قدمی رہتی ہے
کچھ دلوں میں کبھی کھلتے نہیں چاہت کے گلاب
کچھ جزیروں پہ سدا دھند جمی رہتی ہے
کرسٹینا روزٹی کی نظم "مِس می بٹ لٹ می گو" یعنی "مجھے دل میں رکھنا؛ پر مجھے بھول جانا" ایک خوبصورت پیغام کو بیان کرتی ہے کیونکہ ایک دن ہم سب الگ ہو جاتے ہیں اور محبت کے جذبات فنا نہیں ہوتے؛ اور ویلنٹائن ڈے کے عنوان کے پیغام کی اہمیت کی نشاندہی کے لیے یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
جب میں زندگی کے آخری ایام تک پہنچ جاوں گی؛
اور میری زندگی کا چراغ گل ہو چکا ہوگا؛
میں اداسی سے بھرے کمرے میں کوئی سوگواری نہیں چاہتی؛
ایک روح جو آزاد ہوجائے؛ کے لیے کیوں رویا جائے؟
مجھے کچھ وقت تو یاد کرنا، لیکن بہت زیادہ دیر تک نہیں؛
اور ہاں؛ غم میں نڈھال سرجھکائے مت رہنا؛
اُس محبت کو یاد رکھنا، جو کبھی ہم دونوں میں تھی؛
"مجھے دل میں رکھنا؛ پر مجھے بھول جانا"
کیونکہ اس سفر پر ہم سب نے جانا ہے؛
اور ہر ایک کو تنہا ہی جانا ہے؛
یہ سب عظیم منصوبے کا حصہ ہے؛
گھر کی راہ پر ایک قدم ہے۔
جب آپ تنہا اور دل سے اداس ہوں؛
تو ہمارے مشترکہ دوستوں کے پاس جانا؛
ان تمام چیزوں پر ہنسنا، جو ہم نے مل کر کی تھیں؛
"مجھے دل میں رکھنا؛ پر مجھے بھول جانا"
آخر میں چارلس ڈکنز کی تحریر گریٹ ایکس پکسٹیشنز" بمعنی "عظیم توقعات" سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جو ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے خصوصی پیغام بھی ہے۔
"تم میرے وجود کا حصہ ہو، میری ذات کا حصہ ہو۔
میں نے جو بھی پڑھا ہے؛ ہر سطر میں تم ہی ہو؛
جب سے میں پہلی بار یہاں آیا ہوں؛
وہ عام سا لڑکا جس کے دل کو آپ نے اس وقت بھی زخمی کیا تھا۔
تم ہر اس امکان میں رہے ہو جسے میں نے دیکھا ہے۔
دریا پر، بحری جہازوں کے بادلوں پر؛
دلدل میں، بادلوں میں، روشنی میں، اندھیرے میں؛
ہوا میں، جنگل میں، سمندر میں، گلیوں میں۔
آپ ہر اس خوبصورت خواب کا مجسم ہو؛ جو کبھی میرے ذہین میں ابھرا ہے"۔
Affordableassignments.co.uk Publishers is a leading self book publishing service provider...