وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
The Muslim World has remained under European Colonial Imperialist Power during last century. The colonial powers conspired and hatched many plans to subjugate the local population in submission. This Story is about Mosul, a city now in Iraq; where the foreign powers acted upon a hatchery to seek support from local inhabitants.
2023-08-27 13:43:06 - Muhammad Asif Raza
ہماری تاریخ میں حکایتوں کی ایک مسلمہ روایت ہے مگر ہماری بدقسمتی کہ تاریخ ہمیں سبق سکھانے میں ناکام ہوئی. لیکن یہ ایک حقیقی کہانی آجکل ہی کی ہے.
پچھلی صدی کی تیس کی دہائی میں موصل شہر میں ایک بہت پرانی مسجد تھی اور اب بھی ہے؛ جس کا نام جامی ہے اور جو لائٹ ہاؤس کے نیچے ہے۔ اس کے دروازے سے نزلت البلادیہ میں کارواں کی پارکنگ کی جگہ نظر آتی تھی۔ جو کہ پرانے لوہے کے پل کا دروازہ بھی تھا۔
اس مسجد میں ایک جنونی امام تھا جو لوگوں کو برطانوی استعمار کے خلاف جہاد کرنے کی تلقین کرتا تھا اور ہر روز خاص طور پر نماز جمعہ کے دوران لعن طعن کرتا تھا۔ مسجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہوتی تھی۔ اس وقت مسجد کے داخلی دروازے پر باہر سے 2 انگریز سپاہی نمازیوں کی حفاظت پر مامور ہوتے تھے۔
ہم جنونی امام اور مسجد کو عارضی طور پر چھوڑ دیتے ہیں اور مسجد کے اردگرد کے علاقے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ایک ایسا علاقہ جہاں تمام تجارت کرنے والوں، بڑھئیوں، لوہاروں وغیرہ تھے۔ وہیں موچی بھی تھے جو بھینسوں کے چمڑے سے قومی جوتے بنانے والے تھے جو سرخ رنگ میں رنگے ہوتے تھے۔ اس کی طے شدہ زندگی کم از کم دس سال ہوتی تھی۔ میرے چچا جناب شاکر الخشاب رحمۃ اللہ علیہ 80 سال زندہ رہے اور اس دوران انہوں نے یہ صرف 10 جوتے استعمال کئے۔ واللہ، عمر بھر انہوں نے صرف یہی قومی قسم خریدی۔
ایک اور اہم مارکیٹ کسٹم مارکیٹ تھی۔ یہ بازار پرانے پل کے کھلنے سے شروع ہوتا تھا اور دریائے دجلہ کے ساتھ جوبا کے علاقے تک جاتا تھا۔ اس میں سبزیوں اور پھلوں کی وہ تمام مصنوعات شامل تھیں جو دریائے دجلہ سے پل یا کراسنگ کے ذریعے یا بائیں ساحل سے پل کے ذریعے پہنچتی تھیں۔
یہ تمام اہم بازار موصل شہر کی اقتصادی شریان تھیں، اور اس علاقے میں ایک شخص (ایک ٹھگ) کی حکومت تھی جو بدمعاش بنا ہوا تھا۔ ایک دینار کے عوض وہ کسی کو بھی قتل کر دیتا تھا اور اس علاقے کے تمام تاجروں سے بھتا لیتا تھا۔ اور ریاست کا اس پر کوئی اختیار نہیں تھا، یہاں تک کہ موصل شہر کے معززین کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں تھا، کیونکہ وہ سرپھرا آزاد تھا (وہ اپنی مرضی کا واحد مالک تھا) اور علاقہ اس کے لیے کسی قانون سے خالی تھا؛ یعنی ابو ہدلہ کے لیے پوری اہلیت کے ساتھ اس کی راجدھانی تھا۔
ایک دن انگریزوں نے اسے دیکھا تو انہوں نے اسے بلوایا اور وہ اندر داخل ہوا اور کہا کہ میں نے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ انہوں نے کہا، "یہ سچ ہے کہ آپ ایک ایسے آدمی ہیں جو آپ کی سرحدوں کا احترام کرتے ہیں." اس نے پوچھا کہ اسے تمہارے پاس کیوں لایا؟
انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو ماہانہ کتنا بھتہ ملتا ہے؟
اس نے کہا کہ بازار کے لحاظ سے تقریباً پانچ سے دس دینار کے درمیان ہے۔
کہنے لگے اگر ہم آپ کو اس کاروبار کو ترک کرنے کے بدلے جو اس علاقے کے تاجروں سے بھتہ لیتا ہے، اور لوگوں پر ہر قسم کے حملے کرتا ہے؛سو اگر انگریز اسے ماہانہ بیس دینار دیں تو آپ اچھے لڑکے بن جائیں اور صرف ذاتی مفاد کے بجائے لوگوں کی مدد کریں۔
اس نے کہا: مجھے تمہارے عہد کی ضمانت کون دیتا ہے؟
کہنے لگے آج سے یہ بیس دینار نقد ہے اور کل سے تم سب لوگوں اور تاجروں کے ساتھ اپنا انداز بدلو گے۔
اس نے رقم وصول کی اور سیدھے رہنے کا عہد کیا، اور ابو ہدلہ لوگوں سے تعاون کرنے اور پوری شائستگی اور احترام کے ساتھ پیش آنے لگا۔ یہ صورتحال 3 ماہ تک جاری رہی اور ہر ماہ اس کی تنخواہ بڑھتی گئی۔
لوگ اس پر اور انگریزوں سے حیران تھے جنہوں نے اسے ولن سے ایک ہیرو؛ پرسکون اور تعاون کرنے والا شخص بنا دیا۔
ہم جنونی امام کی طرف واپس جاتے ہیں جس نے اپنی جنونیت میں اضافہ کیا اور انگریزوں اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والوں کی توہین کی اور مومنین پر ان کے خلاف الزامات لگائے۔
تقریبا" تین ماہ گذرنے کے بعد؛ ایک دن انگریزوں نے ٹھگ ابو ہدلہ کو اپنے ساتھ چائے پینے اور علاقے کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے بلایا۔ بات مسجد کے شیخ کی شروع ہوئی کہ کس طرح اس نے انگریزوں کی توہین کی۔ اب ابوہدلہ مکمل طور پر ایک مغلوب ٹھگ بن چکا تھا؛ سو وہ امام کے خلاف سب سنتا رہا سو مسجد کے شیخ کے خلاف اس کا خون گرم ہو گیا۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا، خدا کی قسم میں اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گا۔ وہ آپ کی توہین کیسے کرتا ہے؟ جب کہ آپ ان لوگوں میں بہترین ہیں جنہوں نے مجھے مجرم سے نیک آدمی بنا دیا اور آپ نے لوگوں کو میری برائی سے روکا۔ یہ امام زندہ رہنے کے لائق نہیں، اسے قتل کرنے کے لیے کوئی عطیہ نہیں
انگریز نے اس سے کہا کہ تم اسے دیکھو اور تیار ہو جاؤ۔ اس نے فخر سے کہا، "یقیناً، میں تیار ہوں۔ جو یہاں سے نکل کر سب سے پہلے مسجد میں جائے گا، میں اسے آج کل سے پہلے مار ڈالوں گا"۔ انہوں نے کہا، "نہیں، نہیں، آج ہم آپ کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں، اور ہم اگلے جمعہ کو اس پر عمل درآمد کے لیے ایک منصوبہ تمھین بتاتے ہیں"۔
اور منصوبہ یہ ہے کہ نماز جمعہ کے بعد نمازی چلے جاتے ہیں اور مسجد کے شیخ کے پاس چند لوگ ہی ٹھہرتے ہیں۔ کتنے لوگ، یہی کچھ 5-6 لوگ، شیخ سے ذاتی سوالات پوچھتے ہیں؟ اس وقت ابو ہدلہ کے لیے بہترین موقع ہوگا۔ تم اس کے پاس جانا اور اس کے سر اور دل میں گولی مار دینا۔ اس وقت وہاں موجود باقی لوگ تمھیں پکڑنے لیے تمھارے پیچھے بھاگیں گے۔ ابو ہدلہ اس وقت تم دوڑ کر اندر سے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہمارے سپاہیوں کے پاس آؤ۔ اس دن ہم آپ کو نمازیوں سے بچانے کے لیے اپنی پناہ میں لے لیں گے۔
درحقیقت، اگلے جمعہ کے دن ابو ہدلہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور امام کو حسب منصوبہ اسنے قتل کردیا؛ امام گر گیا، جیسا کہ انہوں نے اس کے لیے منصوبہ بنایا تھا۔ مگر یہاں مشن کے منصوبے میں ایک سادہ اور اہم فرق تھا۔ مگر اس کا ابو ہدلہ اور اس کے غنڈے ساتھیوں کو علم نہی تھا کہ جب انہوں نے انگریز سپاہیوں کی طرف پیش قدمی کی تو انہوں نے اپنی مشین گنوں سے گولی چلا دی اور ان کو اپنی حفاظت میں لینے کے بجائے ان سب کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
یہ بہت پرانی کہانی نہی اور سچی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں نے دو ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جو ان کے دشمن تھے، ایک شیخ جو لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکاتا تھا، اور ایک ٹھگ ابو ہدلہ اور اس کے تمام غنڈے ساتھی۔ اور دوسرا کمال یہ ہوا کہ لوگوں نے ان انگریزوں کو اپنا نجات دہندہ بنا لیا اور انکے حق میں نعرے لگائے۔
اسلامی دنیا میں لارنس آف عریبیہ کے طرز کی بہت داستانوں نے جنم لیا اور مسلمان اپنی سادگی اور حماقت کے سبب ان دیکھی غلامی میں دبے ہوئے ہیں۔ اور باہم دست و گریباں ہیں۔ یہاں عراق کے لیے پاکستان پڑھیں تو ہمارے لیے بھی وہی سبق ہے اگر ہم سبق لینا چاہیں۔
پاکستان میں پہلے وزیر اعظم خان لیاقت عل خان کے قتل سے شروع ہونے والی کہانی کبھی ختم ہی نہی ہوئی اور اس کا سلسلہ آج تک جاری ہے؛ انکے نام بدل جاتے ہیں، انکی شکلیں بدل جاتی ہیں مگر ان کا کردار نہی بدلتا اور انکے کرتوت نہیں بدلتے۔ مگر ہم مسلمان اپنی حماقت کو ترک کرنے کو تیار نہیں۔ اور فرقوں اور گروہوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔