ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
یہ مصرعہ اردو کے استاد شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا ہے؛ غالب نے اپنی شاعری میں مختلف افکار اور فلسفے کو پیش کیا ہے۔ انہوں نے زندگی کے مختلف پہلؤوں کو دوسرے شعراء سے مختلف رنگوں میں دکھایا ہے۔ انھوں نے انسانی جذبے کے دونوں ُرخ یعنی نشاط اور غم کی شدّت کو اپنی تخلیقی قوت سے شاندار طریقے سے پیش کیا۔ لیکن یہ تحریر غالب سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہاں صرف مصرع بطور عنوان ہی لیا گیا ہے؛ اب آپ پڑھیے اور رائے دیجیے۔ شکریہ
2024-12-08 13:10:38 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ہوس کو ہے نشاط کار کیا کیا
اس تحریر میں انسان کی اپنی زندگی میں نشاطیہ مسرتوں اور خوشیوں کے حصول کی خواہشوں کو عمر خیام کی ایک رباعی سے مستعار لے کر بیان کرنے کی کوش کی جارہی ہے۔ لیکن اس سے قبل یہ جانتے ہیں کہ نشاط کا مفہوم کیا ہے؟ نشاط ہے کیا بلا؟
نشاط سے مراد ہے خوشی، شادمانی، مسّرت وغیرہ۔ انسان اپنی زندگی میں ہنستا بھی ہے اور روتا بھی ہے۔ دونوں جذبات کے پیچھے مختلف محرکات ہوتے ہیں۔ انسان ہر روز اپنی حیات میں ان جذبات کو پیش کرتا ہے۔ یہ تقریبا" ناممکن ہی ہے کہ کسی فرد کے شب و روز میں نشاط اور غم دونوں کی کارفرمائی نی ہو۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ کسی کی زندگی میں نشاطیہ رنگ غالب ہو؛ اور کسی کے یہاں المیہ یا غم سےبھرا ہوا عنصر زیادہ غالب ہو۔ انسان بڑا نا شکرا ہے؛ اس لیے المیہ، رنج و غم کا زیادہ اظہار کرتا ہے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ خوشی، مسرت، فرحت و شادمانی کے مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ محبوب کے حسن کا ذکر ہو یا عشق کی کائناتی واردات کا، نیرنگی بیاں ہو یا پھر رقص و سرود کی محفلوں کا، مصوری اور مجسمہ سازی کو پیش کیا جائے یا پھر زندگی کے کسی جذبے کا، نشاطیہ رنگ کسی بھی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔
نشاطیہ جزبات کی ایک نشاندہی مشہور امریکی مصنف اینڈی رونی نے اپنی ایک تحریر " میں نے سیکھا ہے" میں اس طرح کی ہے کہ
کہ بچے کا بانہوں میں سوجانا، دنیا کا سب سے سکون آور احساس کو جنم دیتا ہے۔ اور یہ کہ کبھی کسی بچے کے تحفے کا انکار کرکے اس کا دل نہیں توڑنا چاہئے۔اور یہ کہ اپنے بچوں کے ساتھ سونے اور گالوں پر ان کی سانسیں محسوس کرنے سے زیادہ میٹھی کوئی چیز نہیں ہے۔ اور پھر یہ کہ جب آپ کا نوزائیدہ پسر زاد، آپ کی چھوٹی انگلی کو اپنی ننھی مٹھی میں پکڑتا ہے، تو آپ زندگی کی جکڑ میں آجاتے ہیں"۔ اس میں پنہاں مسرت، خوشی اور فرحت کو سمجھنا ہوگا۔
آب آئیے اس تحریر کے مقصد کی طرف جس میں عمر خیام کی رباعی مرکزی نقطہ ہے۔ پہلے رباعی پڑھیے جو فارسی میں ہے؛ ظاہر ہے عمر خیام فارسی ہی کے شاعر جو ہیں۔
گر دست دبد ز مغزِ گندم نانے
وز مے کدوے ز گوسپندے رانے
با ماہ رخے نشستہ در ویرانے
دیشے بود آں نہ حدّ بر سلطانے
اب اس کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے " اگر گیہوں کے آٹے کی روٹی کے ساتھ بکری کی بھنی ران اور شراب کی صراحی ہو، اور کسی ماہ رخ کے ساتھ کسی ویرانے میں بیٹھنا نصیب ہو تو سمجھو کہ اتنا عیش تو بادشاہوں کو بھی نہیں ملتا"۔
ذیل میں عمر خیام کے خیال کا شاعرانہ ترجمہ پیش کیا جاتا ہے؛ انکی رباعی پر ایک سے زیادہ شعراء نے طبع آزمائی کی ہے۔
میرا جی کا منظوم اردو ترجمہ والا قطعہ
سر پر جھومے پیڑ کی چھایا، ہاتھ میں چھلکے مد کا پیالا
کھلی سامنے گیت کی مالا، اور پھر اس پر ساتھ تمھارا
میں لکھوں، تم گیت سناؤ، گونج اٹھے بن کی یہ دنیا
بن کی دنیا پھر کیوں کہیے، سوَرگ سروپ بنے بن سارا
جناب واقف صاحب کی کاوش والا اردو قطعہ
شغلِ مے نوشی کا ساماں ہو، بیاباں کی بہار
لائے جذبات کو ہیجان میں میداں کا غبار
دلربا زینتِ پہلو ہو کوئی جام بدمست
تاجِ سلطانی بھی اس عیش پہ کر دوں میں نثار
جناب عبد الحمید عدم کا قطعہ
ہے رانِ گوسپند بھی، گندم کا نان بھی
مے بھی ترے سبو میں بقدرِ خمار ہے
جنگل ہے اور چاند سے زائد حسیں کنیز
اے یار، کون تجھ سے بڑا شہریار ہے
مندرجہ بالا تراجم مستعار ہیں؛ "عمر خیام کی رباعیات اور ان کے ترجمے"؛ تالیف: بیدار بخت
اب جو خواہش عمر خیام نے پالی ہے اس کی تعریف غالب ہی کے مصرع سے کی جاسکتی ہے کہ " ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے"۔ انسان اپنی کاروانِ حیات میں ہزاروں سپنے دیکھتا ہے؛ مگر اس کے سارے نہ سہی مگر زیادہ ترخواب اس کی خوہشاتِ نفس کی پیداوار ہوتے ہیں۔ چنانچہ کتنی ہی ایسی خواہشات ہوتی ہیں کہ کبھی پُوری نہیں ہوتیں۔ انسان کا کیا کہنا کہ رات کو جو ستارے دیکھتا ہے اس کے حوالوں سےزیادہ نہیں تو کم از کم ایک خواب تو ضرور پال لیتا ہے۔ ان خوابوں میں ایک صنم ہوتا ہے۔ گرچہ زمین پر متعدد حسین چہرے آسمان کے تاروں کی طرح اس کے دل میں جاگزیں ہوتے ہیں مگر ان تمام کی حیثیت ستاروں جیسے ہی ہوتے ہیں اور ایک نام پوری تابناکی سے چمکتا ہے جو اس کے دل کا چاند ہوتا ہے۔ وہ ایک چاند اس کے حواسوں پر اس طرح چھاتا ہے کہ بس ہر سو نظر آتا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو
وہ تیرا ذکر ہی تو ہوتا ہے
ہوں جہاں بھی گلاب کی باتیں
نامعلوم
کبھی جادۂ طلب سے جو پھرا ہوں دل شکستہ
تری آرزو نے ہنس کر وہیں ڈال دی ہیں بانہیں
مجروح سلطانپوری
یہ کیا طلسم ہے یہ کس کی یاسمیں بانہیں
چھڑک گئی ہیں جہاں در جہاں گلاب کے پھول
مجید امجد
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
فیض احمد فیض
جاتے کہاں کہ رات کی بانہیں تھیں مشتعل
چھپتے کہاں کہ سارا جہاں اپنے گھر میں تھا
وزیر آغا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومن خاں مومن
تعزیر جرم عشق ہے بے صرفہ محتسب
بڑھتا ہے اور ذوقِ گنہ یاں سزا کے بعد
الطاف حسین حالی