اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

The Muslim World is under a siege since last century, although almost all of them got territorial independence from their colonial masters. The Muslims are under subjugation due to non-adherence with the Holy Book Quran. Al Quran is the final Holy Book revealed upon the Last of Prophets Hazrat Muhammad (PBUH). The Quran & Sunnah is the only source of holy guidance as it entails detailed instructions for each and every walk of human life

2023-10-10 15:30:48 - Muhammad Asif Raza

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے


جس وقت رسول اکرمﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی اس وقت جاہلانہ رسومات ، خودساختہ مذہبی و سماجی بندشیں اور تہذیبی و اخلاقی تنزلی اپنے عروج پر تھی۔ ہر طرف فتنہ و فساد کا تنور دہک رہا تھا۔ سماج میں تخریب کاری ، خرافات اور اوھام پرستی کا رواج تھا۔ دنیا شرک و تثلیث کے اندھیروں میں بھٹک رہی تھی ۔آبادی کے تناسب سے خدا وجود میں آرہے تھے۔ انسانیت فکری اور اخلاقی تخریب کاری کا شکار تھی۔  یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے؛ اس کے علاوہ ان لوگوں میں سے اکثر آگ، پانی، ہوا، سورج، چاند اور ستاروں غیرہ کی عبادت بھی کرتے تھے۔ یہ لوگ عورتوں کو حقیر تصور کرتے تھے۔ 


اس معاشرے میں عدل وانصاف کا فقدان تھا۔ امیروں اور غریبوں کیلئے الگ الگ قانون تھے۔  نبی پاک حضرت محمدﷺ نے اسلام کا پرچار شروع کیا تو اس وقت قومِ قریش اور دیگر قبائل جاہلیت میں لت پت تھیں۔ عرب قوم مختلف قبائل میں تقسیم تھی اور ہر قبیلے کا اپنا سردار اور پوجنے کے لئے اپنا الگ بت تھا۔ ان دنوں سر زمین عرب پر کوئی منظم حکومت نہیں تھی بلکہ عرب کے اکثر علاقے یا تو سلطنت روما کا حصہ تھے یا پھر ایران کے کسری کے زیرِ نگیں۔ عرب قبائل کی فطرت میں باغیانہ پن تھا سو وہ اکثر بغاوت پر کمر بستہ رہتے تھے۔ اہلِ عرب مختلف النوع برائیوں میں مبتلا تھے۔ مثلا ًشراب خوری، قمار بازی، دخترکشی اور معمولی جھگڑے پر ایک دوسرے کی گردن قلم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔


حضرت علی ابن ابی طالب رض نے نہج البلاغہ میں عربوں کے اس انحطاط پذیر سماج کی کچھ اس طرح تصویر کشی کی ہے ’’اے گروہ عرب تم اس وقت بد ترین امت تھے اور انتہائی مطعون زمین میں زندگی گذارتے تھے ۔ایسی سنگلاخ زمین جسمیں زہریلے سانپ تھے ایسے سانپ جن پر آوازبھی اثر انداز نہیں ہوتی تھی ۔تم گندا اور شور پانی پیتے تھے ،بد مزہ غذائیں کھاتے تھے اور ایک دوسرے کا خون بہانے کو فخر محسوس کرتے تھے ۔رشتہ داروں سے دور رہتے تھے ۔بتوں کی پوجا ہوتی تھی اور علی الاعلان گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے تھے‘‘ ۔ (نہج البلاغہ خطبات)


رسول خداﷺ کی ولادت کے ساتھ ہی ایسے معجزات رونما ہوئے کہ نظام جاہلیت کے کلیساؤں میں خطرات کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔ نوشیرواں کا عالیشان اور فلک نظر محل متزلزل ہوکر زمیں بوس ہوگیا اور اسکے چودہ کنگورے ٹوٹ کر گر پڑے ۔ فارس کے آتش کدہ میں جو آگ ہزار ہا سال سے روشن تھی وہ بجھ گئی۔ دریائے ساوہ کا موجیں مارتا ہوا پانی اچانک خشک ہوگیا ۔


انسانی تاریخ میں اسلام سراپا انقلاب ثابت ہوا۔ دینِ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تاریخ ساز تبدیلی پیدا کی۔ دینِ اسلام، دنیا کے مذہبی و سیاسی، علمی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی حلقوں میں نہایت پاکیزہ اور دور رس انقلاب کا نقیب بن کر ابھرا۔ چنانچہ، زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں رہا جسے آفتابِ اسلامی کی کرنوں نے روشن نہ کیا ہو۔ اسلام کی تعلیمات نے انسانیت کو ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل کی طرف رواں دواں کردیا۔ کرۂ ارض پر مخلوقِ خدا مذہبی بے راہ روی، اخلاقی انارکی، سیاسی پستی، طبقاتی کشمکش، علمی و فکری تنزلی اور معاشرتی لاقانونیت کے دور سے نکل کر سرخ روئی اور سرفرازی کی جانب رواں دواں ہوئی۔


تاریخ نے دیکھا کہ ریاستِ مدینہ سے اٹھنے والے دینِ محمد ﷺ نے کیسے انسانیت کو عروج عطا کیا۔ وقت نے دیکھا کہ چھ سو سال تک مسلمانوں میں عرب کی حاکمیت رہی اور تہذیب و تمدن نے ایک الگ رنگ جمایا۔ پھر چنگیز اور ہلاکو خان نے اس حکمرانی کو ختم کیا اور دو سو سال تک ایک نوع کی ابتری رہی۔ پھر اللہ تعالی نے ترکوں کو اسلام کا جھنڈا تھمایا اور انہوں نے کافی حد تک اسلام کا روشن چہرہ دنیا کو پیش کیا۔ اور تقریبا" سو سال قبل وہ حکومت بھی اختتام پذیر ہوئی۔ آج مسلم دنیا ایک ان دیکھی غلامی کی قید میں ہیں۔ آج تمام تر اسلامی دنیا فکری، معاشی، تجارتی، دفاعی اور علمی کمتری کا شکار ہے اور مسلسل طاقتور مغربی قوموں کی ہمراہی میں اللہ کی حاکمیت اور رسول اللہ ﷺ کی غلامی سے منکر ہیں۔ آئیے ذرا مسدسِ حالی کو پڑھتے ہیں

 خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا آقائے دو جہاں رسول اللہ محمدﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے جو انقلاب برپا کیا تھا؛ آج امت نے انکو بھلا دیا ہے۔ اب قرآن صرف ایک مقدس کتاب ہے جسے خوبصورت ملفوف مخمل طاقچہ پر سجا کر رکھ دیا گیا ہے اور سنتِ رسول محمد ﷺ صرف داڑھی رکھنا، پائینچے اوپر کرنا اور مسواک تک محدود سمجھ لیا گیا ہے۔


آقا کریمﷺ نے جو ریاستِ مدینہ قائم کی اور جو اقامتِ دین کی ہدایت کی اور تاکید کی اسے امت نے بھلا دیا ہے۔ آج امتِ محمد ﷺ قومِ یہود کی غلامی سے بھی ابتر ماحول میں جا بسی ہے۔ قومِ یہود کی غلامی میں بھی اللہ نے نبیوں سے رہنمائی جاری رکھی۔ آج مسلمانوں کو کسی نبی کی مدد یا رہنمائی نہی ہے سو لازم ہے کہ صرف اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کی پیروی پکڑ لیں۔  


ہم دیکھتے ہیں کہ آقا کریم ﷺ امتی کی ذاتی مدد کیسے فرماتے ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ علامہ شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے جسم کا نصف حصہ مفلوج ہو گیا تو اپنی زندگی کے سارے منظوم کلاموں کی جان ’’قصیدہ الکوکب الدریہ فی مدح خیرالبریہ‘‘ لکھا۔ رات کو امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سوئے تو خواب میں حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دست مبارک مفلوج شدہ حصہ پر پھیرا اور ایک چادر عطا فرمائی۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ بیدار ہوئے تو چادر سرہانے موجود تھی جسم بھی شفا یاب تھا۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے اس قصیدہ کو اسی وجہ سے قصیدہ بردہ کہا گیا۔



 

اسی طرح پاکستان کے مشہور نعت خواں حفیظ تائب کو کینسر ہوگیا اور ڈاکٹر نے علاج کی کامیابی سے انکار کیا تو دربارِ رسالتﷺ پرجاکر گریہ کیا اور تکلیف کا ذکر کیا تو جسم سے خوب پسینہ بہا اور پھر بیماری رفعہ ہوگئی۔ الغرض بہت سے شواہد ہیں کہ آقا کریم ﷺ اپنے امتی کی حاجت روائی کرتے ہیں؛ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم مسلمان ایک ان دیکھی غلامی میں بندھے ہوئے ہیں؟


 اللہ سبحان تعالی عطا کرنے والا ہے اور تقسیم کرنے والے آقا کرم محمد ﷺ ہیں۔ مگر یہ جان رکھیے کہ اللہ ذوالجلال و لاکرام اپنی شریعت نہی بدلتا۔ اس نے قرآن میں واضع طور پر لکھ دیا اور اپنے رسول ﷺ سے کہلوا بھی دیا کہ آیت 39{ وَاَنْ لَّــیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی۔ } سورۃ النجم ”اور یہ کہ انسان کے لیے نہیں ہے مگر وہی کچھ جس کی اس نے سعی کی ہوگی"۔


خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار کافی لمبی نماز پڑھی، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ایسی نماز پڑھی ہے کہ اس سے پہلے ایسی نماز نہیں پڑھی تھی، آپ نے فرمایا: ”ہاں، یہ امید و خوف کی نماز تھی، میں نے اس میں اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے دو کو قبول کر لیا اور ایک کو نہیں قبول کیا، میں نے پہلی دعا یہ مانگی کہ میری امت کو عام قحط میں ہلاک نہ کرے، اللہ نے میری یہ دعا قبول کر لی، میں نے دوسری دعا یہ کی کہ ان پر غیروں میں سے کسی دشمن کو نہ مسلط کرے، اللہ نے میری یہ دعا بھی قبول کر لی، میں نے تیسری دعا یہ مانگی کہ ان میں آپس میں ایک کو دوسرے کی لڑائی کا مزہ نہ چکھا تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں فرمائی“۔ سنن ترمذي حدیث نمبر: 2175


مسلمان امت کو اپنی سیاسی زندگی میں تغیر لانے کی ضرورت ہے؛ تزکیہ صرف نفس کا نہی کرنا ہوتا اپنی نیت، فکر اور ارادوں کو بھی پاک کرنا ہوتا ہے اور اللہ کی حاکمیت کو قائم کرنا بھی ایک ذمہ داری ہے جو لازم ہے۔ صرف " اللہ ھو" کرتے رہنا کوئی کارہائے نمایاں نہی ۔ ہر فرد کا ایک ذاتی عمل ہوتا ہے اور ایک اجتماٰعی کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ ہر مسلمان جان لے کہ "غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں"۔مسدسِ حالی میں جو دعا حضور اکرم محمدﷺ سے کی گئی ہے اس سے مزید رہنمائی حاصل کرتے ہیں


ابھی کل ہی غزہ میں فلسطینی گروہ حماس نے کروٹ لی اور مسلمان کی بنیادی سَرِشْت آزادی کو اپنایا اور غاصب اسرائیلی پر ٹوٹ پڑے۔ مسلمان کبھی ناکام نہی ہوتا؛ وہ کامیاب ہوتا ہے یا پھر شہید۔آج جہاں کہیں بھی مسلمان گھیرے میں ہیں؛ انہیں چاہیے کہ اپنی فکر کو اللہ کی کتاب کے تابع کریں اور روشنی صرف آقا کریمﷺ کی سنت سے حاصل کریں تو اللہ رحمن و رحیم بھی اپنے فضل و کرم عنایت فرمائیں گے۔ ان شاء اللہ

اللهم صل على محمد و على آل محمد كما صليت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹 

اللهم بارك على محمد و على آل محمد كما باركت على ابراهيم و على آل ابراهيم انك حميد مجيد 🌹


More Posts