The nature has bestowed our habitat Earth, with four seasons; spring, summer, Autumn, Winter, and March is a month of Spring season. This write up in Urdu is a poem " نظم "یہ کیسی بہار ہے"؟" and is about the hunger and poverty hampering the common man from enjoying the bounties of mother nature and blessings of life.
نظم "یہ کیسی بہار ہے"؟
ہر طرف شور ہےترقی اور خوشحالی کا؛
کہ گلشن میں ہر طرف پھول کھل رہے ہیں؛ اور
شہر میں مہنگائی سسک رہی ہے مگر؛
سڑک پہ آوارہ پھرتے بے روزگار کی آنکھوں میں؛
گھر میں منتظر بھوکے چہرے؛
خزاں کے خشک پتوں کی مانند ناچ رہے ہیں؛
اس کی تلاش کب رنگ لائیگی؛ وہ کب دو روٹیاں گھر لیجائے گا؟
گلاب چاروں طرف کھل رہے ہیں؛ مگر
انکی خوشبوسے لطف اٹھا رہے سبھی؛
محل والے؛ اختیار والے؛ مسند حکم پہ بیٹھے تاج والے؛
مگر خدا کی بستی میں بسنے والے؛
بہار کی آس لگائے مرجھائے چہرے؛
خزاں کا موسم بھگت رہے ہیں؛
بھوک موت پھیلائے آنگنوں میں پھر رہی ہے۔
الجھی تقدیر واسی اچھے دنوں کی آس لگائے، پھولوں کو تکتے ہیں؛
جن کی خوشبو؛ ان کے آنگن سے کترا کے؛
ہوا کے دوش پہ کہیں اور جا تی ہے؛
وہ شفیق ہاتھوں کو ڈھونڈنے میں عمر گذارتے ہیں؛
گذرنے والے برس ہا برس کی دی گئی بےوقار لوریاں؛
ان کے کانوں میں جال بنتی ہیں؛ تو
دل میں نفرت کے بال اٹھتے ہیں؛
ضعیف ہونٹوں پہ بد دعا کی لڑی بنتی ہے۔
جن ہاتھوں نے نسلوں سے مٹی میں ہل چلایا ہے؛
ان ہاتھوں کی جھریوں سے گئے زمانے پکارتے ہیں؛
یہ کیسی بہار ہے؟
یہ وہ ترقی خوشحالی تو نہیں جس کا وعدہ تھا۔
بادِ سموم ادھ کھلے کواڑوں کو کھٹکھٹا رہی ہے؛
حکومتوں کے کھوکلے وعدے، ذہنوں میں کلبلا رہے ہیں؛
بے دلی کی لہر گلیوں میں پھر پھرا رہی ہے؛
خون اگلتے گلاب سڑکوں پہ بکھر رہے ہیں؛
یہ کیسی بہار ہے؛ جو میرے ملک میں اتر گئی ہے؟
اب نمکین پانیوں کا رواج ایسا کچھ بن گیا ہے؛
کہ آنکھوں میں بنتے تمام منظر، آسیب میں لپٹے ہوئے ہیں؛
بربادی کے افسانے، جو کہیں لکھے جارہے ہیں، پڑھے جا رہے ہیں؛
مگر شور ہے کہ ترقی اور خوشحالی کا مچا ہوا ہے؛
یہ کیسی بہار ہے، جو چھا گئی ہے؟
تمھیں کہو! کیا یہ بہار کی رت ہے؟
از قلم محمد آصف رضا
Kamagra Jelly is an easy-to-use solution for erectile dysfunction, providing rapid relief...