میرا دسمبر مجھے لوٹا دو
ماہ و سال کے ہیر پھیر سے موسم آتے اور جاتے ہیں۔ دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے اور اپنے جلو میں جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں، بھاپ اگلتے کافی کے سپ اور بہت سی بھولی بسری یادوں کا ہجوم لیے آتا ہے۔ اردو ادب اور شاعری میں موسموں اور مہینوں پر خوب طبع آزمائی کی گئی ہے۔ دسمبر کا مہینہ بھی ایسا ہی ایک موضوع ہے جس پر خوب گفتگو کی جاتی ہے۔ یہ تحریر بھی دسمبر کی شاعری سے ماخوذ ہے۔
2024-12-09 14:24:32 - Muhammad Asif Raza
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
میرا دسمبر مجھے لوٹا دو
فطرت کے مظاہر قدرت کا کمال ہیں؛ جیسے سورج، چاند، ستاروں اور زمین کی باہمی رفاقت، مسافت اور آنکھ مچولی نے ماہ و سال کا چکر چلا رکھا ہے؛ اور زمین پر بسنے والا انسان ان ماہ وسال کا اسیر ہوگیا ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ یہ گزرتے لمحات کسی کی گرفت میں بھی نہیں ہیں۔ لوگ کتنا ہی چاہیں، دنیا کی کوئی طاقت اس سرپٹ دوڑتے وقت کا لگام نہین ڈال سکتا؛ اسے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔
اس ماہ و سال کے ہیر پھیر سے موسم آتے اور جاتے ہیں۔ خالق و مالک کُل نے یہ ساری کائنات اس طرح ترتیب دی ہے کہ ہر شے؛ چھوٹی سے بڑی تک؛ سب کے سب خدائے بزرگ و برتر کے حکم سے مقررہ وقتوں میں ایک لمحئہ معین تک رواں دواں ہیں۔ اس زمیں پر بسنے والے سب انسان بدلتے وقت سے متاثر ہوتے ہیں؛ تو پھر بھلا کیسے شاعر، جو عام انسانوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں؛ ان گزرتے لمحات کو اپنے اندر جزب نہ کرتے ہوں؟ قدرت کی فیاضی اور نیرنگی شعراء کے جزبات کو مہمیز کرتے ہیں تو وہ جذبات سے مغلوب شاعری کرتے ہیں جسے قارئین سے پذیرائی بھی ملتی ہے۔
اردو ادب اور شاعری میں موسموں اور مہینوں پر خوب طبع آزمائی کی گئی ہے۔ مگر کچھ پر بہت زیادہ مشق کی گئی ہے۔ دسمبر کا مہینہ بھی ایسا ہی ایک موضوع ہے جس پر خوب گفتگو کی جاتی ہے۔ ممتاز شاعر جناب عرش صدیقی نے ایک نظم " اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے" کے عنوان سے لکھی تھی اور بس پھر تو لائن ہی لگ گئی؛ تو سب سے پہلے وہی نظم پیشِ خدمت ہے۔
جناب عرش صدیقی کی نظم " اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے"؛
دسمبر سال کا آخری مہینہ ہے اور اپنے جلو میں جاڑے کی خنک شامیں، یخ بستہ ہوائیں، بھاپ اگلتے کافی کے سپ اور بہت سی بھولی بسری یادوں کا ہجوم لیے چلا آیا ہے۔ دسمبر جدائی، ہجر اور اداسی کا استعارہ ہے تو آئندہ برس کی اُمیدِ نو بھی ہے۔ گرمیوں کی چھاؤں کی طرح دسمبر کی دھوپ بھی خاص توجہ مانگتی ہے۔ ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی دیواروں میں لرزاں، ایسے میں دسمبر کی سہمی سہمی دھوپ کسی نعمت سے کم نہیں۔ شگوفے ٹہنیوں پہ خوابیدہ، سبزہ شبنم کے ناز نخرے اٹھانے پر مجبور، خزاں کے شوخ رنگ اداس موسم میں دل تپکتا ہے۔ بے لباس درختوں اور در و دیوار پر دھوپ چھاؤں کا کھیل، کیسے کیسے مناظر تخلیق کرتا ہے۔ سحاب چہرے گلنار کرتی کومل کرنیں اور گلابی جاڑے میں ہر سُو بکھرے مٹیالے زرد پتے دسمبر کی رُوپہلی دھوپ کو بھی ہم رنگ کرلیتے ہیں۔
کہی ان کہی وابستگیوں کی بدولت دسمبر، شعراء و ادباء کی توجہ کا محور رہا ہے۔
کیا کیا گلاب کھلتے ہیں اندر کی دھوپ میں
آ مل کے مجھ کو دیکھ دسمبر کی دھوپ میں
ظفر اقبال
بارہ گھنٹوں کی ہے اک رات جو ٹلتی ہی نہیں
ہجر بھی عین دسمبر میں ملا ہے مجھ کو
محمود احمد
جناب محسن نقوی بھی ایک ممتاز قد آور شاعر ہیں؛ انہوں نے تو بات ہی عجب کردی ہے جب لکھا کہ "دسمبرمجھے راس آتا نہیں"؛
دسمبرمجھے راس آتا نہیں
کئی سال گزرے!
کئی سال بیتے!
شب وروز کی گردِشوں کا تسلسل
دل وجاں میں سانسوں کی پرتیں الٹتے ہوئے
زلزلوں کی طرح ہانپتا ہے
چٹختے ہوئے خواب!
آنکھوں کی نازک رگیں چھیلتےہیں
مگر میں ہر اک سال کی گود میں جاگتی صبح کو
بیکراں چاہتوں سے اَٹی زندگی کی دعا دے کر
ابھی تک وہی جستجو کا سفر کر رہا ہوں
گزرتا ہوا سال جیسے بھی گزرا
مگر سال کے آخری دن
نہایت کٹھن ہیں
مرے ملنے والو!
نئے سال کی مسکراتی ہوئی صبح
اگر ہاتھ آئے تو ملنا
کہ جاتے ہوئے سال کی ساعتوں میں
یہ بجھتا ہوا دل دھڑکتا تو ہے
مسکراتا نہیں
دسمبر مجھے راس آتا نہیں!
ضروری ہے کہ صنف نازک کے جزبات بھی شامل کیا جائے تو محترمہ سیما غزل کی نظم " یہ دسمبر ہے" پیشِ خدمت ہے۔
یہ دسمبر ہے
سنو ! میں جانتی ہوں یہ دسمبر ہے
وہاں سردی بہت ہوگی
اکیلے شام کو جب تم تھکے قدموں سے لوٹو گے
تو گھر میں کوئی بھی لڑکی
سلگتی مسکراہٹ سے
تمھاری اس تھکاوٹ کو
تمھارے کوٹ پر ٹھہری ہوئی بارش کی بوندوں کو
سمیٹے گی ،نہ جھاڑے گی
نہ تم سے کوٹ لے کر وہ کسی کرسی کے ہتھے پر
اسے لٹکا کے اپنے نرم ہاتھوں سے
چھوئے گی اس طرح جیسے تمھارا لمس پاتی ہو
تم آتشدان کے آگے سمٹ کر بیٹھ جاؤ گے
تو ایسا بھی نہیں ہوگا
تمھارے پاس وہ آکر
بہت ہی گرم کافی کا ذرا سا گھونٹ خود لے کر
وہ کافی تم کو دے کر، تم سے یہ پوچھے
"کہو کیا تھک گئے ہو تم ؟"
تم اپنی خالی آنکھوں سے
یوں اپنے سرد کمرے کو جو دیکھو گے تو سوچو گے
ٹھٹھر کر رہ گیا سب کچھ
تمھاری انگلیوں کی سرد پوروں پر
کسی رخسار کی نرمی
کسی کے ہونٹ کی گرمی
تمھیں بے ساختہ محسوس تو ہوگی
مگر پھر سرد موسم کی ہوا کا ایک ہی جھونکا
تمھیں بے حال کردے گا
تھکے ہارے ٹھٹھرتے سرد بستر پر
اکیلے لیٹ جاؤ گے
معروف شاعر انوار فطرت نے اپنی نظم ’اداسی ایک لڑکی ہے‘ میں دسمبر کی گھنی راتوں اور ماہِ جولائی سے موازن کرکے یوں عکس بند کی ہے کہ نظم بڑھتے بڑھتے منظر بھی تخلیق ہوجاتا ہے:
دسمبر کی گھنی راتوں میں
جب بادل برستا ہے
لرزتی خامشی
جب بال کھولے
کاریڈوروں میں سسکتی ہے
تو آتش دان کے آگے
کہیں سے وہ دبے پاؤں
مرے پہلو میں آتی ہے
اور اپنے مرمریں ہاتھوں سے
میرے بال سلجھاتے ہوئے
سرگوشیوں میں درد کے قصے سناتی ہے
جولائی کی دوپہریں
ممٹیوں سے جب اتر کر
آنگنوں میں پھیل جاتی ہیں
اور اک آوارہ سناٹا
چھتوں پر بھاری قدموں سے
بڑی آہستگی کے ساتھ چلتا ہے
تو وہ چپکے سے میرے پاس آتی ہے
اور اپنے دھیمے لہجے میں
وہ ساری داستانیں کہہ سناتی ہے
جنہیں سن کر میں دھیمی آنچ پر
پہروں سلگتا ہوں
کسی گرجے کے ویراں لان میں
جب جنوری
اپنے سنہری گیسوؤں کو کھول کر
کوئی پرانا گیت گاتی ہے
تو وہ اک ان چھوئی نن کی طرح
پتھر کے بنچوں پر
مرے کاندھے پہ سر رکھے
مرے چہرے پہ اپنی انگلیوں سے
سوگ لکھتی ہے
کسی وادی کے تنہا ڈاک بنگلے میں
کبھی جب شام روتی ہے
سیہ کافی کے پیالوں سے
لپکتی بھاپ میں
باتوں کے بسکٹ پھول جاتے ہیں
تو وہ بھی جنگلی بیلوں سے
اٹھتی خوشبوؤں سے جسم پاتی ہے
مرے نزدیک آتی ہے
مری سانسوں کی پگڈنڈی پہ
دھیرے دھیرے چلتی ہے
مرے اندر اترتی ہے