چنار کی وادیاں اور زیتون کی سرزمین بھڑک رہی ہیں؛ کیوں؟

The Israel – Palestine Conflict is century old and the Kashmir Crisis was implanted on creation of country Pakistan. It is impossible for a common man in the streets of the Muslim World to not get effected by these crises. These conflicts have severely affected the sentiments of the Muslims across the globe. Here this write up is about both the crises.

2024-01-25 16:39:45 - Muhammad Asif Raza

 

چنار کی وادیاں اور زیتون کی سرزمین بھڑک رہی ہیں؛ کیوں؟

 

 

 کشمیر کی وادیوں میں صدیوں سے موجود بلند و بالا چنار اس کی شناخت ہیں اور ٹھیک اسی طرح زیتون کے درخت سرزمینِ فلسطین کی پہچان ہیں۔ مگر یہ دونوں آبادیاں تقریبا" ایک ہی وقت سے ظلم اور جبر کا شکار ہیں۔ اور پچھلے کچھ سالوں سے ان علاقوں پر ستم کی آگ بہت تیز بھڑکائی گئی ہے۔

تاریخ کا سب سے بڑا جرم جو ان پر غاصب ہندو اور یہودی کر رہے ہیں وہ ان کی پہچان درختوں کی کٹائی ہے جو باضابطہ ایک مہم کے تحت کی جارہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ان دونوں ہی قوموں کے دل و دماغ میں حریت کی چنگاریاں آج بہت تیز سلگ رہی ہیں۔ آج ان دونوں قوموں کے لبوں پر ایک ہی نوع اور طرز کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔

”ہم کیا چاہتے، آزادی”……. ہم چھین کے لیں گے آزادی”…… ”تمہیں دینی پڑے گی، آزادی”…..” ہے آن شان اور جان ہماری، ازادی ”۔

 

 غلامی کی بیڑیاں کو توڑ نے کے لیے آگے بڑھ کر ” انقلاب؛ انقلاب” کی راہ پر چلنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟ ” آزادی انسان کا فطری حق ہے" اور مسلمان کی تو شرست ہی میں آزادی ہوتی ہے کیونکہ کلمہ توحید جس کے دل میں جا گزیں ہو وہ بھلا کسی کی غلامی میں کیسے سانس لے سکتا ہے؟

 آزادی کی جدوجہد، جابر تسلط کے خلاف تب تک جاری رہنے چاہیے جب تک انقلاب کے دھارے سرعام نہ پھوٹ پڑیں. قوموں کی روح شہداء کے لہو سے سانس لیتی ہے۔

 

کشمیر کی سرزمین کی پہچان ہے؛ سر سبز حسین وادیاں، فلک بوس برف پوش پربت، چوٹیاں، دلفریب باغات، رواں دواں بہتے نالے، گنگناتی مچلتی ندیاں؛ پرسوز، پرساز جھرنوں کی رعنائیاں جو ہر کس و ناکس کو اپنے حسن گھیر لیتا ہے۔ تاریخ نے جو بات بار بار ثابت کی ہے کہ " وہی تاریخ زندہ رہتی ہے جس کے وارث زندہ ہوں وہی تہذیب پروان چڑھتی ہے جس کے فرزند باشعور ہوں"۔ [ سعید اسعد کی کتاب ”برگ چنار”]

ذیل میں کچھ اشعار پیش کئے جاتے ہیں؛ سب سے پہلے جناب ڈاکٹر افتخار مغل کی نظم " لہو مانگتی ہے چناروں کی دھرتی "۔:-


لہو مانگتی ہے چناروں کی دھرتی

بہاروں کا دیس ، آبشاروں کی دھرتی

لہو مانگتی ہے ، لہو مانگتی ہے

چناروں کی دھرتی لہو مانگتی ہے

اٹھو ظلمتِ شب میں شمعیں جلائیں

اُٹھو اس کو خونِ جگر سے سجائیں

صدا میں صدا خون میں خوں ملائیں

اُٹھو جبر سے اُٹھ کے پنجہ لڑائیں

یہ اپنی زمیں ، اپنے پیاروں کی دھرتی

لہو مانگتی ہے چناروں کی دھرتی

لہو مانگتی ہے ، لہو مانگتی ہے

چناروں کی دھرتی لہو مانگتی ہے

چلو ہم پہ جو قرض ہے وہ چکائیں

چلو مقتلوں کو سروں سے سجائیں

جلو میں رہیں گی ہمارے، دعائیں

 اُٹھو دستِ قاتل سے اس کو چھڑائیں

یہ خُلدِ بریں ، یہ بہاروں کی دھرتی

لہو مانگتی ہے چناروں کی دھرتی

لہو مانگتی ہے ، لہو مانگتی ہے

چناروں کی دھرتی لہو مانگتی ہے

ڈاکٹر افتخار مغل

 

ابو محمد سحر نے ایک غزل میں کیا خوب پیغام دیا ہے؛ دیکھیے کہ کیسے کشمیر اور فلسطین کے باسی ان جذبات کو حقیقت کا روپ دے رہے ہیں؟

 

ہر خوف ہر خطر سے گزرنا بھی سیکھئے

جینا ہے گر عزیز تو مرنا بھی سیکھئے

 

ایسا نہ ہو کہ خواب ہی رہ جائے زندگی

جو دل میں ٹھانئے اسے کرنا بھی سیکھئے

 

ہوتا ہے پستیوں کے مقدر میں بھی عروج

اک موج تہ نشیں کا ابھرنا بھی سیکھئے


 

مگر آج پوری مسلمان دنیا ایک نوع کی غلامی کا شکار ہیں؛ ہر جگہ ایک حکمران اشرافیہ مغربی آقاوں کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اور خود پنی قوم پر ظلم و ستم کا باعث بن رہے ہیں۔ آج کی شاعرہ کومل جوئیہ نے کیا خوب عکاسی کی ہے؟

 

یہ جنگ ہار نہ جائے سپاہ قید میں ہے

غلام تخت پہ قابض ہیں شاہ قید میں ہے

پرندے اِس لیے زنداں کے گِرد گھومتے ہیں

کہ اُن کی ڈار کا اِک بے گناہ قید میں ہے

سُخن کی ہم کو اِجازت نہ حُکم دیکھنے کا

قلم اسیرِ سلاسل نگاہ قید میں ہے

تیرے حقُوق کی کوئی نہیں ضمانت اَب

غریب شہر تیرا خیرخواہ قید میں ہے

کومل جوئیہ

 

زیتون کے درخت فلسطینیوں کی اپنی زمین سے محبت اور لگاؤ کی سب سے بڑی علامت ہیں۔


بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ " صلاح ابو علی کا کہنا تھا کہ ’صرف خدا جانتا ہے کہ یہ درخت کتنا پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ چار ہزار سال یا اس بھی زیادہ قدیم ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میں اس درخت کا نوکر ہوں۔ اس درخت کے ساتھ میرا تعلق میرے دادا پڑدادا تک جاتا ہے۔ میرا اس درخت کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہے کہ مجھے لگتا ہے یہ میرے جسم اور میری روح کا حصہ ہے"۔

" صلاح ابو علی کے بقول یہ درخت ’ زندگی ہے، جیسے پانی زندگی ہے۔ یقین کریں مجھے اس درخت سے پیار ہے۔ میرا اس درخت کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے۔ مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ اب اس کی ضرورت کیا ہے۔ جب اسے تکلیف ہوتی ہے تو مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ درخت درد میں ہے۔ میں جب اس کے قریب ہوتا ہوں تو یہ درخت خود کو محفوظ سمجھا ہے۔ میں نے اسے اپنے پسینے سے سنچا ہے۔ یہ درخت فلسطینی لوگوں کی تاریخ اور ان کی تہذیب کی علامت ہے۔‘

 

’کتنی نسلیں آئیں اور چلی گئیں لیکن یہ درخت اب بھی یہاں کھڑا ہے اور پھل سے لوگوں کو نواز رہا ہے"۔‘

محمود درویش فلسطین کے حوالے سے ایک مشہور شاعر ہیں اور یہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے اپنی شناخت زیتون کے درخت کا حوالہ نہ بنایا ہو

 

اگر زیتون کے درختوں کو خبر ہوتی

کہ

جن ہاتھوں نے انہیں زمین میں لگایا

ان کا انجام کیا ہوا

تو

ان کے پھلوں سے نکلتا ہوا تیل

آنسوؤں کی صورت برآمد ہوتا



زیتون فلسطینییوں کی زندگی کو گھیرے ہوئے ہے اور یہ ہر استعارے میں جھلکتا ہے۔ " کوفیۃ " بھی فلسطینیوں کا استعارا ہے۔


كُوفية " ایک میٹر کا سکارف ہے، اس کے بیرونی حصے پہ جو ڈیزائن نظر آتا ہے، وہ زیتون کے پتے ہیں۔"


’ہم اپنے وطن سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں جیسے کئی سو برس قدیم زیتون کے درختوں کی جڑیں زمین کے اندر کہیں بہت دور تک پیوست ہوتی ہیں"۔" ‘

یہ جملہ ہر فلسطینی کی کہانی ہے جو كُوفية اور زیتون کا تعلق باندھتا ہے۔ فلسطینی اور زیتون کی خوراک لازم و ملزوم ہیں۔

 

زمین کشمیر کی ہو یا فلسطین کی؛ ہے مسلمانوں کی سرزمین۔ کشمیر پر ہندو مہاسبھائی قابض ہیں اور فلسطین پر صیہونی یہودی۔ یہ دونوں قومیں ایک ہی درخت کے شاخیں ہیں؛ یہ درخت مغربی استعمار ہے اور اس قبضے کا مقصد مسلمانوں کے دل میں چھرا گھونپنا ہے۔

فلسطین میں آج غزہ کے مجاہدین نےطوفان الاقصی کے ذریعے انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے اور کشمیر کے مسلمانوں کے لیے اس میں سبق ہے۔



ساری دنیا کے مسلمان یہ جان لیں کہ کل روزِ محشر اللہ سبحان تعالی چنار کی وادیاں کشمیر اور زیتون کی سرزمین فلسطین کے مسلمانوں پر توڑے جانے والے مظالم پر باز پرس کرینگے تو ہم کیا جواب دینگے؟


More Posts