The tragedy of Karbala is about Hazrat Imam Hussain (AS) and the unforgettable sacrifices rendered by the clan of Prophet Muhammad (PBUH) in the month of Muharram Ul Haram in 61 AH. This essay reflects upon the tragedy of Karbala unfolded on that day known as “ youm e ashura ” and the poetic expressions in Urdu about this horrific incident that has no parallel in the history of mankind.
بِسۡمِ ٱللهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ما بعد شبِ عاشورہ
تاریخ کا جبر دیکھیے کہ دینِ اسلام کی ابتداء مکہ میں آنحضرت محمدﷺ کی اعلان نبوت سے ہوا اور قبیلے کی جن افراد نے سب سے زیادہ مخالفت کی، انکی اگلی نسل کے افراد نے کربلا کا خونچگان سانحہ ترتیب دیا۔ آج یہ مسلم ہے کہ سانحہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا انوکھا اور اندوہ ناک ترین واقعہ ہے، دنیا میں صرف یہی ایک واقعہ ایسا ہے جس سے تمام عالم بشریت متاثر ہوئی۔ یہ وہ غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا ہے۔
مسلمان جو ایک اللہ؛ ایک رسولﷺ؛ اور ایک قرآن کے حامل ہیں اور اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں مگر فرقوں میں بٹ گئے اور یہ تقسیم ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی گئی۔
دس محرم سنہ 61 ہجری کو کربلا کی ریت پر آسمان نے اور خلائقِ عالم نے پسر علیؓ ابن طالب کی عجب شان دیکھی۔ ایسی آن بان اور شان اس زمین نے اور آسمان نے پھر نہیں دیکھی۔ روزِ عاشور شامِ غریباں سے ذرا قبل کربلا میں وارد ماحول کی ترجمانی مرزا دبیر نے ایک مشہور مرثیہ میں اس طرح کی ہے:-
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہاہے
رستم کا جگرزیر کفن کانپ رہا ہے
خود عرش خداوند زمن کانپ رہاہے
شمشیر بہ کف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
ہیبت سے ہیں نہ قلعہ افلاک کے دربند
جلاد فلک بھی نظر آتا ہے نظربند
داہے کمر چرخ سے جوزا کا کمربند
سیارے ہیں غلطاں صفت طائر پربند
انگشت عطارد سے قلم چھوٹ پڑا ہے
خورشید کے پنجے سے علم چھوٹ پڑا ہے
حضرت امام حسین علیہ السلام اس روزِ عاشور شمشیر بکف جنگ لڑنے نہیں آئے تھے؛ امام وہاں مہر ثبت کرنے آئے تھے؛ یہ واضع کرنے آئے تھے کہ ایک اسلامی ریاست کی سپاہ ایسی نہی ہوتی جو اس دن یزید بن معاویہ کے ماننے والے ابن زیاد و شمر کے ساتھ کربلا میں معرکہ زن ہونے آئے تھے۔ امام عالی مقام نے یزید کی فوج کے سامنے اتمام حجت کیا تھا؛ تو اس وقت اپنے اسلحہ اور لباس کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ورثہ میں پائے تھے، دکھا کر پوچھا ہے کہ یہ کس کے تبرکات ہیں؟ اس واقعہ کو میر ضمیر نے یوں قلم بند کیا ہے،
پہچانتے ہو؟ کس کی مرے سر پہ ہے دستار
دیکھو تو؟ عبا کس کی ہے کاندھے پہ نمودار
یہ کس کی زرہ؟ کس کی سپر؟ کس کی ہے تلوار
میں جس پہ سوار آیا ہوں کس کا ہے؟ یہ رہوار
باندھا ہے کمر جس سے بھلا کس کی ردا ہے؟
کیا فاطمہ زہرا نے نہیں اس کو سیا ہے؟
اسی واقعہ کو میر انیس نے بھی اپنے مرثیہ میں بیان کیا ہے؛ وہ اسے ایسے ادا کرتے ہیں
یہ قبا کس کی ہے؟ بتلاؤ یہ کس کی دستار
یہ زرہ کس کی ہے؟ پہنے ہوں جو میں سینہ فگار
بر میں کس کا ہے؟ یہ چار آئینۂ جوہر دار
ک
س
کار ہوا رہے؟ یہ آج میں جس پر ہوں سوار
ک
س کا یہ خود ہے یہ تیغ دو سرکس کی ہے؟
کس جری کی یہ کمان ہے یہ سپر کس کی ہے؟
امام عالی مقام علیہ السلام نے کیا خوب اتمام ہجت کردیا؛ کسی کے پاس کوئی دلیل، کوئی بہانہ نہیں چھوڑا کہ کل روزِ محشر بحضور سرور کونینﷺ یہ کہہ سکے کہ آقاﷺ ہمیں معلوم نہیں تھا۔ میدان کربلا میں حق وباطل کی واضع تفریق اپنی آخری منزل تک پہنچ گئی تھی۔
امام حسین کی بوقتِ سجدہ شہادت اور کربلا کے اندوہ گیں واقعات کو قلم بند کرنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے؛ اسے بیان کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔ ایک سچا اور باشعور مسلمان بھلا کیسے امام عالی مقام کی قربانی سے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے؟ یہ غم دل کی تہوں سے ابھرتا ہے اور آنسو بن کر بہہ اٹھتا ہے۔ یہ صرف ماتم نہیں ہوتا بلکہ اظہار بے بسی ہوتا ہے کہ امت محمدﷺ کو کوئی فرد بھلا کیسے رحمت العالمینﷺ نانا کے نواسے امام حُسینؓ پر تلوار زن ہوسکتا تھا؟ چشم تصور سے دیکھیے کہ کتنا عجیب منظر ہے؛ اللہ اکبر کا نعرہ لگانے والے حقیقت میں ابوجہل کی میراث پر نازاں ہیں اور اس کے چلن کی فخریہ پیروی کررہے ہیں؛ کیوں اور کیسے؟ ہائے افسوس صد افسوس
پھر کربلا کی خاک بدن سے لپٹ گئ
پھر آنسوؤں نے آج پکارا مِرے حُسینؓ
نوشی گیلانی
پھر زخم نہ کُھل جائیں کہیں آلِ علیؓ کے
جلتے ہوئے خیموں کی وہی شام نہ لکھنا
جو ذکر نہ کرتے ہوں حسین ابنِ علیؓ کا
اُس شہر کے لوگوں میں میرا نام نہ لکھنا
مبشر سعید کا نوحہ کربلا پیش کیا جاتا ہے
صفِ احساس بِچھاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
مجلسِ شاہؑ میں جاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
میرے ادراک میں رہتا ہے وہ کربل کا امامؑ
جب کبھی پیاس بُجھاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
جس طرح بازو کٹے نہر پہ غازیؑ تیرے
وہ اگر دھیان میں لاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
جیسے پامال ہُوا لاشہءِ قاسمؑ رن میں
ظلم وہ شعر بناتا ہوں تو رو دیتا ہوں
اور میں رنج کو لفظوں میں پِرو کر اکثر
سہرہ اکبرؑ کا سُناتا ہوں تو رو دیتا ہوں
یاد کے سبز دریچوں میں بٹھا کر خود کو
جُھولا اصغرؑ کا جُھلاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
کبھی اکبرؑ ، کبھی اصغرؑ ، کبھی عباسؑ کا غم
سلسہ وار مناتا ہوں تو رو دیتا ہوں
کس طرح زِین سے آئے تھے زمیں پر مولاؑ
صرف یہ ذہن میں لاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
کھول کر آنکھ عقیدت کی ہمیشہ ہی سعید
کربلا دیکھنے جاتا ہوں تو رو دیتا ہوں
نوشی گیلانی کا گِریہ بحضور اماں حضرت زینبؓ بن علیؓ پیش خدمت ہے۔
اے چادرِ زینب !
مجھے آغوش میں لے لے
وە ظلم کی آندھی ہے کہ رستہ نہیں مِلتا
اِس دُھول میں سچائ کا چہرە نہیں مِلتا
وە صبر کی منزل ہے کہ
آنکھیں بھی لہو ہیں
وە درد کی شدت ہے کہ
دِل ڈوب رہا ہے
اے چادرِ زینب !
مجھے آغوش میں لے لے
اے چادرِ زینب !
سلام رہبرِ آزادئ حیات سلام
سلام شاہِ شہیدانِ شش جہات سلام
سلام تجھ پہ کہ تیری جسارتوں سے ملی
جہانِ کرب و بلا کو لہو کی سچائ
تِرےہی نام سے روشن ہوا چراغِ وفا
تِرے وجود سے قائم سحر کی رعنائ
سلام تجھ پہ کہ تیری محبتوں سے ملا
سُراغ عشقِ محمد کی انتہاؤں کا
تعصبات کو رَد کرکے رکھ دیا تُونے
سبق عمل سے دیا تُونے بس وفاؤں کا
سلام رہبرِ آزادئ حیات سلام
سلام شاہِ شہیدانِ شش جہات سلام
سلام تجھ پہ کہ تیرے لہو کی خوشبو سے
خیال و فکر میں خیمہ تِرا مہکتا ہے
یہ میرے لفظ جو اَب جگمگانے لگتے ہیں
تِرے گھرانے کے علم و ہنر کا صدقہ ہے
سلام رہبرِ آزادئ حیات سلام
سلام شاہِ شہیدانِ شش جہات سلام
سلام تجھ پہ کہ تیری صداقتوں کے طفیل
کبھی رُکا نہیں صحرا میں بھی سفر میرا
مِلا ہے صبر مجھے تیرے عزم سے ایسا
کہ بےکسی میں بھی قائم ہے کرّوفر میرا
سلام رہبرِ آزادئ حیات سلام
سلام شاہِ شہیدانِ شش جہات سلام