زندگی ماہ و سال کی کہانی ہے؛ ہر گذرتا دن تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے اور سو یہ زمین پر بسنے والے انسانی تاریخ کی کہانی بن جاتی ہے۔ انسانی تاریخ قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے؛ اس داستان کا اہم سبق عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ہے۔ معاشرہ اور قوم مساوات اور قانون پر مبنی اصولوں پر ترقی پاتے ہں۔ یہ تحریر ہمارے معاشرے کے اپنے بچوں کی تعلیم اور مستقبل سے متعلق ہے۔ یہ لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ) کی تحریر ہے۔
بچوں کے بورڈ کے امتحانات نزدیک ہیں ایسے میں اساتذہ کرام، والدین اور عزیز واقارب کی جانب سے بچوں پر اچھے نتائج لانے کے لیے جو دباؤ ڈالا جاتا ہے اس سے اکثر و بیشتر مثبت اثرات کے بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ جو بچوں میں ذہنی دباؤ، بے چینی، ہیجانی کیفیت اور اضطراب کا سبب بنتے ہیں باالآخر بچے اپنی خود اعتمادی کھو کر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جو ان کی آئندہ زندگی کو اجیرن بنا دیتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ایسے بچے پھر کبھی اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو بھی اجاگر نہیں کر پاتے اور اکثر نفسیاتی مریض بن کر اپنی بقیہ زندگی گزار دیتے ہیں۔
ایک ہی گھر میں رہنے والے بہن بھائی بھی مختلف صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ کوئی فنِ مصوری میں مہارت رکھتا ہے، تو کوئی ریاضی میں، کسی کو اردو پہ عبور حاصل ہوتا ہے تو کوئی انگریزی میں سب سے آگے ہوتا ہے۔ تو آپ کیسے اپنے بچے کا موازنہ اپنے دوستوں، محلے داروں یا رشتے داروں کے بچوں سے کر سکتے ہیں؟ خدارا اپنے بچوں پہ رحم کریں اور ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
کیا ہوا اگر کوئی بچہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن پاتا یا بننا ہی نہیں چاہتا۔ کبھی بھی زبردستی بچوں پہ ڈاکٹر، انجینئر یا کوئی اور پیشہ مسلط نہ کریں انھیں یہ اختیار دیں کہ وہ خود اپنی مرضی اور شوق سے اپنے پسندیدہ پیشے کو منتخب کر سکیں۔ موجودہ دور میں کمپیوٹر و انفارمیشن ٹیکنالوجی، فنانس، بزنس مینجمنٹ، اکاؤنٹنگ آرٹیفیشل انٹیلیجنس، صحافت، ارکیٹیکچر، کمیونیکیشن ڈیزائن، اربن ڈیزائننگ، ڈزاسٹر مینجمنٹ اور ایسے بے شمار مضامین ہیں جن میں بچے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتے ہیں اور ایک معقول اور عزت دار روزگار بھی حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ اساتذہ کرام اور والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں میں چھپی صلاحیتوں کی نشاندھی ان کی چھوٹی عمر سے ہی کریں اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر بچے کا رجحان کمپوٹر کی طرف ہے تو اس کو کمپوٹر کوڈنگ اور ڈی کوڈنگ کی طرف راغب کریں اور اس کو اپنا ذاتی کمپیوٹر لے کر دیں۔ کوئی فنِ مصوری کا شوقین ہے تو اس کو اچھی ڈرائنگ پینسلیں، اچھی کلر پینسلیں، ڈرائنگ بورڈ اور سکیچ بک لے کر دیں۔ میوزک کے شوق کے حامل بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کریں اور ان کو ان کی پسند کا میوزیکل انسٹرومنٹ لے کر دیں۔ انگریزی اور اردو ادب کے شوقین بچوں کو اردو اور انگریزی ادب کی کتب لے کر دیں۔ غرض جس کا رجحان جس طرف بھی ہو اس کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ وہ اپنے شوق میں مہارت اور عبور حاصل کر سکے۔
اس کے علاوہ بچوں کو کوئی ایک آؤٹ ڈور کھیل میں مہارت ضرور دلوائیں۔ یہاں بھی بچے کے شوق کو مدِ نظر رکھیں۔ کھیل کود اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
آجکل کی مصروف ترین زندگی میں سے وقت نکال کر والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ دوست بن کر ان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں سے نکل کر حقیقت میں اپنوں کے ساتھ وقت گزاریں۔ بچوں کو بتائیں کہ بڑا انسان بننے کے لیے گریڈ اور ڈگریوں سے زیادہ حسنِ اخلاق ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کو اخلاقیات کا درس دیں۔ انھیں پہلے اچھا مسلمان اور اچھا شہری بننا سکھائیں۔
حکومتی سطح پہ بھی تعلیمی معیار پہ دھیان دینا انتہائی ضروری امر ہے۔ ہمارے ملک اور بگڑتے معاشرے میں یکساں قومی نصاب میں چھوٹی جماعت سے اخلاقیات کا مضمون شامل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ غیر ضروری اور متروک الاستعمال مضامین خاص طور پہ کمپیوٹر کے مضامین کو دورِ جدید کے مضامین سے تبدیل کیا جانا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اچھے اساتذہ کرام کی بھرتی یقینی بنائی جائے اور ان کی تنخواہیں بھی ان کی قابلیت کے حساب سے بڑھائی جانی چاہئیں۔ تعلیمی شعبے کا اختیار صوبوں کے بجائے وفاق کے حوالے کیا جانا چاہیے تاکہ یکساں قومی نصاب کو رائج کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اس مقصد کے لیے آئینی ترمیم بھی کرنی پڑے تو کرنی چاہیے۔
آخر میں ایک دفعہ پھر سے یاد دھیانی کے لیے بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر بچہ افلاطون یا آئن سٹائن نہیں ہوتا کچھ بچے میری طرح کے بھی ہوتے ہیں جو کچھ نہیں کرتے اور۔۔۔۔
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں۔
لیفٹیننٹ کرنل ابرار خان (ریٹائرڈ)
کراچی
📧: khanabrar30c@gmail.com